ARTICLES

مکہ مکرمہ والے مکہ ہی سے احرام عمرہ باندھ سکتے ہیں کا رد بلیغ

الاستفتاء : کیافرماتے ہیں علماءدین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مفتی عبدالرحمٰن عابد(فاضل مدینہ یونیورسٹی)کاایک ویڈیوحج و عمرہ گروپ میں بہت وائرل ہورہاہے ،جس میں وہ یہ کہتاہے کہ مکہ والے حج عمرہ کرناچاہیں تواپنے گھرسے ہی احرام باندھیں گے ،انہیں مکہ سے باہرجانے کی بھی ضرورت نہیں ہے ،اوراس کی دلیل نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم ﷺ کافرمان ہے جس کامفہوم کچھ یوں ہے ’’ مکہ مکرمہ والے مکہ سے احرام باندھیں ‘‘یونہی اس نے کہاکہ جوشخص مکہ مکرمہ چلاجائے اوردوبارہ عمرہ کرناچاہے ،تووہ اپنے ہوٹل سے احرام باندھ کردوبارہ عمرہ کرسکتاہے ،اوراگروہ حل(یعنی،حرم سے باہراور میقات کے اندر)میں جانا چاہتاہے تواس کی بھی اجازت ہے ،اوراس بات پر حدیث عائشہ  کوبطوردلیل پیش کرتاہے ،برائے مہربانی اپ اس بات کی رہنمائی فرمائیں کہ ایااس شخص کی مذکورہ باتیں درست ہیں یانہیں ؟

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : ۔صورت مسؤلہ میں یہ حدیث شریف ضرورہے کہ مکہ مکرمہ والے مکہ سے احرام باندھیں ۔ چنانچہ امام ابوعبداللہ محمدبن اسماعیل بخاری متوفی256ھ روایت نقل کرتے ہیں : عن ابن عباسٍ قال : ان النبي صلى الله عليه وسلم وقت لاهل المدينة ذا الحليفة، ولاهل الشام الجحفة، ولاهل نجدٍ قرن المنازل، ولاهل اليمن يلملم، هن لهن، ولمن اتى عليهن من غيرهن ممن اراد الحج والعمرة، ومن كان دون ذلك، فمن حيث انشا حتى اهل مكة من مكة۔( ) یعنی،حضرت ابن عباس سے روایت ہے فرمایا : بے شک نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریمﷺنے اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ،اہل شام کے لئے جحفہ،اہل نجدکے لئے قرن المنازل،اہل یمن کے لئے یلملم کومیقات مقررفرمایا ہے ،یہ مواقیت ان لوگوں کے لئے بھی ہیں ،اوردوسروں کے لئے بھی جوان پرسے حج اورعمرہ کے ارادے سے گزریں اورجوان مواقیت کے اندرہوتووہ جہاں سے چلے وہیں سے احرام باندھے ،یہاں تک کہ مکہ مکرمہ والے مکہ سے ۔ اس روایت کوامام ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری متوفی261ھ نے “صحیح مسلم”( ) میں ،امام ابوعبدالرحمن احمدبن شعیب نسائی متوفی 303ھ نے “سنن النسائی”( ) میں ،امام ابوبکرمحمدبن اسحق بن خزیمہ نیساپوری متوفی311ھ نے “صحیح ابن خزیمۃ”( ) میں ،امام ابوبکر احمد بن حسین بن علی بیہقی متوفی458ھ نے “السنن الکبری”( ) میں ، اور علامہ ولی الدین ابوعبداللہ محمدبن عبداللہ تبریزی متوفی741ھ نے “مشکوۃ المصابیح”( )میں نقل کیاہے ۔ لیکن یہ حکم احرام عمرہ کے لئے نہیں ،بلکہ احرام حج کے ساتھ خاص ہے ۔ چنانچہ اس حدیث شریف کے تحت علامہ ابوسلیمان حمدبن محمد خطابی شافعی متوفی388ھ لکھتے ہیں : وھٰذا فی الحج۔( ) یعنی،یہ حکم حج میں ہے (نہ کہ عمرہ میں )۔ علامہ ابن بطال مالکی متوفی449ھ لکھتے ہیں : ان معنى قوله عليه السلام فى حديث ابن عباس : (حتى اهل مكة يهلون من مكة) انه اراد الاحرام بالحج فقط، دون الاحرام بالعمرة۔( ) یعنی،بے شک حضرت ابن عباسکی حدیث’’ مکہ مکرمہ والے مکہ سے احرام باندھیں ‘‘میں نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریمﷺ کے فرمان سے مرادصرف حج کااحرام ہے نہ یہ کہ عمرہ کااحرام بھی مکہ سے باندھیں ۔ امام شرف الدین حسین بن محمدبن عبداللہ طیبی شافعی متوفی743ھ لکھتے ہیں : (حتى اهل مكةيهلونمنها)….الحدیث مخصوص بالحج۔( ) یعنی، مکہ مکرمہ والے مکہ سے احرام باندھیں ،یہ حدیث حج کے ساتھ مخصوص ہے ۔ علامہ محمدبن یوسف کرمانی شافعی متوفی786ھ لکھتے ہیں : ان اھل مکۃ یھلون من جوف مکۃوھذافی الحج۔( ) یعنی،مکہ مکرمہ والے مکہ سے احرام باندھیں گے اوریہ حکم حج میں ہے (نہ کہ عمرہ میں )۔ امام شہاب الدین ابوالعباس احمدبن حسین بن علی بن رسلان شافعی متوفی844ھ لکھتے ہیں : (حتى اهل)….(مكةيهلون)…. (منها) ای : من مکۃ،ولا يحتاجون الى الخروج الى الميقات للاحرام منه،وهٰذا خاص بالحاج۔( ) یعنی،مکہ مکرمہ والے مکہ سے احرام باندھیں ،اورمکہ والے کواحرام کے لئے میقات کی طرف نکلنے کی حاجت نہیں ،اوریہ حکم حج کرنے والے کے ساتھ خاص ہے ۔ حافظ شہاب الدین احمدبن علی بن حجرعسقلانی شافعی متوفی852ھ لکھتے ہیں ) : من مكة (اي لا يحتاجون الى الخروج الى الميقات للاحرام منه بل يحرمون من مكة كالافاقي الذي بين الميقات ومكة فانه يحرم من مكانه ولا يحتاج الى الرجوع الى الميقات ليحرم منه، وهذا خاص بالحاج۔( ) یعنی،مکہ مکرمہ والے مکہ سے احرام باندھیں ،یعنی مکہ والے کواحرام کے لئے میقات کی طرف نکلنے کی حاجت نہیں بلکہ مکہ سے احرام باندھ لیں ،جیسے وہ افاقی جومیقات اورمکہ کے درمیان ہو(یعنی حل میں )تووہ اپنی جگہ سے احرام باندھے گا،اوراسے احرام کے لئے میقات کی طرف لوٹنے کی ضرورت نہیں ،اوریہ حکم حج کرنے والے کے ساتھ خاص ہے ۔ علامہ بدرالدین عینی حنفی متوفی855ھ لکھتے ہیں : (حتى اهل مكة من مكة) يعني : اذا قصد المكي الحج فمهله من مكة۔( ) یعنی،مکہ مکرمہ والے مکہ سے احرام باندھیں یعنی : مکہ مکرمہ والاجب حج کاارادہ کرے ،تواس کااحرام مکہ سے باندھے ۔ شیخ الاسلام ابویحی زکریابن محمدانصاری شافعی متوفی926ھ لکھتے ہیں : (حتى اهل مكة)ای من ھم بھا يهلون بالحج(من مكة) کما ان من بین مکۃ والمیقات یحرم من مکانہ۔( ) یعنی،مکہ مکرمہ والے یعنی جومکہ میں ہوں توحج کااحرام مکہ سے باندھیں جیساکہ حلی شخص اپنی جگہ سے احرام باندھے گا۔ امام عبداللہ بن سالم بصری شافعی متوفی1134ھ لکھتے ہیں : (من مكة)؛ اي : اھل مکۃ والمقیمون بھا لايحتاجونالى الخروج الى الميقات للاحرام منه ،بل يحرمون من مكة كالافاقي الذي بين الميقات ومكة ،فانه يحرم من مكانه ولا يحتاج الى الرجوع الى الميقات ليحرم منه، وهذا خاص بالحاج۔( ) یعنی،مکہ مکرمہ والے اوراس میں مقیم شخص کواحرام کے لئے میقات کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ وہ مکہ سے احرام باندھ لیں ،جیسے وہ افاقی جومیقات اورمکہ کے درمیان ہو،تووہ اپنی جگہ سے احرام باندھے گا،اوراسے احرام کے لئے میقات کی طرف لوٹنے کی حاجت نہیں ، اوریہ حکم حج کرنے والے کے ساتھ خاص ہے ۔ ملاعلی قاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں : (حتى اهل مكة)… (يهلون)اي يحرمون بالحج (منها) اي من مكة وتوابعها من ارض الحرم۔( ) یعنی،مکہ مکرمہ والے حج کااحرام مکہ یااس کے تابع یعنی سرزمین حرم سے احرام باندھیں گے ۔ شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی حنفی متوفی1052ھ لکھتے ہیں : تاانکہ ساکنان مکہ احرام می بندند از مکہ وایں مخصوص است بحج۔( ) یعنی،مکہ میں رہنے والے مکہ سے احرام باندھیں اوریہ حکم حج کے ساتھ مخصوص ہے ۔ علامہ محمدتاودی بن محمدطالب مالکی متوفی1209ھ لکھتے ہیں : (حتى اهل مكة من مكة)يعني فی الاحرام بالحج، فلا یحتاجون فیہ للخروج بخلاف العمرۃ۔( ) یعنی،مکہ مکرمہ والے مکہ سے احرام باندھیں یعنی حج کااحرام،پس مکہ والوں کوحج میں ’’حل‘‘کی طرف نکلنے کی حاجت نہیں بخلاف عمرہ کے ۔ امام محمدفضیل مالکی متوفی1318ھ لکھتے ہیں : (حتى اهل مكة من مكة)يعني : انھم يهلون منھا،ولا یخرجون الی میقات من المواقیت ولا الی الحل . وھذا الحکم خاص بالحج۔( ) یعنی،مکہ مکرمہ والے مکہ سے احرام باندھیں ،مواقیت میں سے کسی میقات کی طرف نہ نکلیں اورنہ ہی’’حل‘‘کی طرف،اوریہ حکم حج کے ساتھ خاص ہے ۔ اورمکی کے لئے عمرہ کی میقات مکہ کے بجائے ’’حل‘‘ہے ،کیونکہ نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریمﷺنے حضرت عبدالرحمٰن کوحکم دیاکہ وہ ام المؤمنین حضرت عائشہ  کو’’تنعیم‘‘سے عمرہ کروائیں ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے : عن عبد الرحمن بن ابي بكرٍ : «ان النبي صلى الله عليه وسلم امر عبد الرحمن بن ابي بكرٍ ان يعمر عائشة من التنعيم» : قال ابو عیسی : هذا حديث حسن صحيح۔( ) یعنی،حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر سے روایت ہے : ’’بے شک نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریمﷺنے حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر کو حکم فرمایاکہ وہ حضرت عائشہ کو’’تنعیم‘‘سے عمرہ کروائیں ۔امام ابوعیسی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ اورفقہاء کرام نے اسی حدیث سے استدلال فرمایاہے کہ مکی کے لئے عمرہ کی میقات’’حل‘‘ہے ۔ چنانچہ امام یحی بن شرف نووی شافعی متوفی677ھ لکھتے ہیں : واما ميقات المكي للعمرة فادنى الحل لحديث عائشة الاتي ان النبي ﷺامرها في العمرة ان تخرج الى التنعيم وتحرم بالعمرة منه والتنعيم في طرف الحل۔( ) یعنی،مکی کے لئے عمرہ کی میقات حدیث عائشہ کی وجہ سے قریبی حل ہے ،بے شک نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم ﷺ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ کو عمرہ میں مقام تنعیم کی طرف احرام عمرہ باندھنے کاحکم ارشادفرمایاتھا،اورتنعیم حل کی طرف ہے ۔ امام شرف الدین حسین بن محمدطیبی شافعی لکھتے ہیں : والمذھب ان المعتمر یخرج الی ادنی الحل، فیعتمر منہ ؛ لان النبی علیہ الصلوۃ و السلام ﷺ امر عائشۃ لما ارادت ان تعتمر بعد التحلل من الحج بان تخرج الی الحل فتحرم۔( ) یعنی، مذہب یہ ہے کہ بے شک عمرہ کرنے والاقریبی’’حل‘‘کی طرف نکلے گا،پھرحل سے احرام باندھ کرعمرہ کی ادائیگی کرے گا،کیونکہ ام المؤمنین حضرت عائشہ نے جب احرام حج سے باہرانے کے بعد عمرہ کاارادہ کیاتونبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم ﷺ نے انہیں حکم دیاکہ تم حل کی طرف نکل کر احرام باندھو۔ علامہ بدرالدین عینی حنفی لکھتے ہیں : اذا قصد
المكي….العمرة فمهله من الحل لقضية عائشة، رضي الله تعالى عنها، حين ارسلها النبي صلى الله عليه وسلم مع اخيها عبد الرحمن الى التنعيم لتحرم منه۔( ) یعنی،مکہ مکرمہ والاجب عمرہ کاارادہ کرے تواس کااحرام حل سے باندھے حضرت عائشہ(کے حق میں اس)فیصلے کی وجہ سے ، جب نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم ﷺ نے انہیں ان کے بھائی حضرت عبدالرحمن کے ساتھ تنعیم کی طرف بھیجاتھاتاکہ ام المؤمنین حضرت عائشہ وہاں سے احرام باندھیں ۔ شیخ الاسلام ابویحی زکریابن محمدانصاری شافعی لکھتے ہیں : اما العمرۃ فیحرمون بھا من ادنی الحل….لانہﷺ امرعائشۃ بالخروج الی الحل للاحرام بالعمرۃ۔( ) یعنی،مکہ مکرمہ والے عمرہ کااحرام قریبی حل سے باندھیں ،کیونکہ نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریمﷺ نے ام المؤمنین حضرت عائشہکواحرام عمرہ کے لئے حل کی طرف جانے کاحکم ارشادفرمایاتھا۔ ملاعلی قاری حنفی لکھتے ہیں : والمذهب ان المعتمر يخرج الى الحل لانه- عليه الصلاة والسلام-امر عائشة – رضي اللٰہ عنها – بالخروج۔( ) یعنی،مذہب یہ ہے کہ عمرہ کرنے والا’’حل‘‘کی طرف نکلے گا،کیونکہ حضورنبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم ﷺ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ کو حل کی طرف جانے کاحکم ارشادفرمایاتھا۔ اورعلماءکرام نے تصریح کی ہے کہ مکہ عمرہ کی میقات نہیں ہے ۔ چنانچہ علامہ ابوحفص عمربن علی انصاری شافعی متوفی804ھ لکھتے ہیں : مکۃ لیست میقات عمرۃ ؛ لانہ علیہ السلام امر عبد الرحمٰن ان یعمر عائشۃ من التنعیم ، وھو خارج الحرم، وھو ظاھر انھا لیست میقات عمرۃ بل میقات حج ، وھو اتفاق من ائمۃ الفتویٰ ان المکی اذا اراد العمرۃ لا بد لہ من الخروج الی الحل یھل منہ۔( ) یعنی،مکہ مکرمہ عمرہ کی میقات نہیں ہے ،کیونکہ نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریمﷺ نے حضرت عبدالرحمٰنکوحکم دیاکہ وہ ام المؤمنین حضرت عائشہ کوتنعیم سے عمرہ کروائیں ،اور’’تنعیم‘‘حرم سے باہرہے ،اور ظاہر یہی ہے کہ مکہ عمرہ کی میقات نہیں ،بلکہ حج کی میقات ہے ،اوراسی پر’’اہل فتویٰ‘‘متفق ہیں کہ مکی جب عمرہ کاارادہ کرے تواسے احرام کے لئے حل کی طرف نکلناضروری ہے ۔ اورحدیث ابن عباسسے بظاہرمعلوم ہواہے کہ مکہ والے عمرہ کااحرام مکہ سے ہی باندھیں ،مگر حدیث عائشہ نے واضح کردیاہے کہ مکہ مکرمہ والے عمرہ کااحرام مکہ سے نہیں ،بلکہ حل سے باندھیں گے ۔ چنانچہ مفتی محمدشریف الحق امجدی متوفی1420ھ لکھتے ہیں : اس(یعنی حدیث)سے بظاہریہ معلوم ہوتاہے کہ عمرے کے لیے بھی احرام مکے والے مکے ہی سے باندھیں گے ،مگریہ ام المومنین حضرت عائشہ والی حدیث سے ثابت ہے کہ مکے والے مکے کے بجائے تنعیم سے عمرے کااحرام باندھیں یاکسی اورجگہ سے جوحدودحرم سے باہرہو۔( ) اوراب مذاہب اربعہ وغیرہ سے متعلق فقہاءکے فتاویٰ بالترتیب ملاحظہ کریں ۔ فقہاءاحناف کے فتاویٰ : ۔ علامہ ابوالحسن احمدبن محمدقدوری حنفی متوفی428ھ لکھتے ہیں : ومن كان بمكة فميقاته في الحج الحرم وفي العمرة الحل۔ ( ) یعنی،جومکہ میں ہوتوحج میں اس کی میقات حرم ہے اورعمرہ میں ’’حل‘‘ہے ۔ علامہ ابوالحسن علی بن ابی بکرمرغینانی حنفی متوفی593ھ لکھتے ہیں : (ومن كان بمكة فوقته في الحج الحرم وفي العمرة الحل) لان النبي – عليه الصلاة والسلام -امر اصحابه – رضي الله عنهم – ان يحرموا بالحج من جوف مكة، وامر اخا عائشة – رضي الله عنهما – ان يعمرها من التنعيم وهو في الحل۔( ) یعنی، جومکہ میں ہوتوحج میں اس کی میقات ’’حرم‘‘ہے اورعمرہ میں ’’حل‘‘ کیونکہ نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم ﷺنے اپنے اصحاب کو حج کے لئے مکہ سے احرام کاحکم ارشادفرمایا،اورام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہکے بھائی کوحکم فرمایاکہ وہ انہیں ’’تنعیم‘‘سے عمرہ کروائیں ،اور’’تنعیم‘‘حل میں ہے ۔ امام ابوالبرکات عبداللہ بن احمدنسفی حنفی متوفی710ھ لکھتے ہیں : وللمكي : الحرم للحج،والحل للعمرة۔( ) یعنی، مکی کے لئے حج میں میقات’’حرم‘‘ ہے اورعمرہ میں ’’حل‘‘ ہے ۔ علامہ مجدالدین عبداللہ بن محمودحنفی متوفی683ھ لکھتے ہیں : ومن كان بمكة فوقته في الحج الحرم، وفي العمرة الحل۔( ) یعنی، جومکہ میں ہوتوحج میں اس کی میقات ’’حرم‘‘ہے اورعمرہ میں ’’حل‘‘ہے ۔ امام مظفر الدین احمدبن علی حنفی متوفی694ھ لکھتے ہیں : ومن بمكة للعمرۃ من الحل ، وللحج من الحرم۔( ) یعنی، جومکہ میں ہوتو عمرہ کے لئے اس کی میقات ’’حل‘‘ہے ،اورحج کے لئے ’’حرم‘‘ہے ۔ علامہ علاء الدین علی بن بلبان فارسی حنفی متوفی739ھ لکھتے ہیں : ومن كان بمكة من اھلھا او غیر اھلھا ، فاراد النسک ، فمیقاتہ للحج الحرم ، وللعمرۃ الحل۔( ) یعنی،جومکہ مکرمہ میں ہویعنی اس کے اہل سے ہویااس کے علاوہ ،پھروہ نسک کاارادہ کرے ،تواس کی میقات حج کے لئے ‘‘حرم ’’ہے اورعمرہ کے لئے ‘‘حل ’’ہے ۔ علامہ ابراہیم بن محمدحلبی حنفی متوفی 956ھ لکھتے ہیں : وللمكي : فی الحج الحرم، وفی العمرۃ الحل۔( ) یعنی، مکی کے لئے حج میں میقات’’حرم‘‘ہے اورعمرہ میں ’’ حل‘‘ ہے ۔ علامہ نظام الدین حنفی متوفی1161ھ اورعلماءہندکی جماعت نے لکھا ہے : وقت المكي للاحرام بالحج الحرم، وللعمرة الحل كذا في الكافي۔( ) یعنی،احرام حج کے لئے مکی کامیقات ’’حرم‘‘ہے اوراحرام عمرہ کے لئے ’’حل‘‘ہے ،اسی طرح ’’ کافی‘‘میں ہے ۔ فقہاءشوافع کے فتاویٰ : ۔ علامہ ابواسحاق شیرازی شافعی متوفی455ھ لکھتے ہیں : ومن كان مناهل مكة واراد الحج فميقاته من مكة ،وان اراد العمرة فميقاته منادني الحل۔( ) یعنی،جواہل مکہ سے ہو،اوروہ حج کاارادہ کرے تواس کی میقات مکہ ہے ،اوراگروہ عمرہ کاارادہ کرے تواس کی میقات قریبی حل ہے ۔ امام نجم الدین عبدالغفاربن عبدالکریم قزوینی شافعی متوفی665ھ لکھتے ہیں : ومکانہ مکۃ للمقیمبھا….و بالعمرۃ الحل۔( ) یعنی،(مکہ میں )مقیم کے لئے احرام حج کی جگہ مکہ مکرمہ ہے ،اوراحرام عمرہ کی جگہ حل ہے ۔ امام ابوزکریایحی بن شرف نووی شافعی لکھتے ہیں : ان كان المعتمر خارج الحرم، فميقات عمرته ميقات حجه بلا فرقٍ. وان كان في الحرم مكيا كان او مقيمًا بمكة، فله ميقات واجب… اما الواجب فان يخرج الى ادنى الحل ولو خطوةً من اي جانبٍ شاء، فيحرم بها۔( ) یعنی،اگرعمرہ کرنے والاحرم سے
باہرہو(اورمیقات کے اندرہو)تواس کے لئے عمرہ کی میقات بغیرکسی فرق کے وہی ہے جواس کے حج کی ہے (یعنی حل)،اوراگروہ حرم میں ہوخواہ مکی ہویامکہ مکرمہ میں مقیم،پس اس کے لئے میقات واجب ہے ،واجب اس طرح کہ اسے قریبی حل کی طرف نکلناواجب ہے ،اوراگرچہ ایک ہی قدم یعنی حل میں جہاں سے وہ چاہے تواس کااحرام باندھ لے ۔ اورعلامہ عبداللہ بن عبدالرحمٰن متوفی918ھ لکھتے ہیں : ومن كان بمكة فيحرم بالحج منها ، وبالعمرۃ من ادني الحل۔( ) یعنی،جومکہ مکرمہ میں ہوتوحج کااحرام مکہ ہی سے باندھے ،اورعمرہ کااحرام قریبی حل سے ۔ فقہاءمالکیہ کے فتاویٰ : ۔ امام ابن عبدالبرقرطبی متوفی463ھ لکھتے ہیں : والمكي يحرم بحجه من مكة، ويحرم لعمرته من اى الحل شاء۔( ) یعنی،مکی اپنے حج کااحرام مکہ سے باندھے ،اوراپنے عمرہ کااحرام کسی بھی حل سے چاہے ،باندھ سکتاہے ۔ قاضی ابو الوليد محمد بن احمدقرطبی مالکی متوفی595ھ لکھتے ہیں : ان المكي لا يهل الا من جوف مكة اذا كان حاجا، واما اذا كان معتمرًا فانهم اجمعوا على انه يلزمه ان يخرج الى الحل، ثم يحرم منه۔( ) یعنی،بے شک حج کرنے والا’’مکی‘‘احرام نہیں باندھے گامگرمکہ سے ،اورجب عمرہ کرنے والاہو،توفقہاء کرام کااس پراجماع ہے کہ وہ ’’حل‘‘ کی طرف نکلے ،پھروہ اس سے احرام باندھے ۔ امام ابوعبداللہ محمدبن محمدمالکی متوفی954ھ لکھتے ہیں : واما من اراد الاحرام بالعمرۃ فان….کان فی الحرم فلا بد من الخروج الی الحل۔( ) یعنی،حرم میں موجودشخص احرام عمرہ کاارادہ کرے تواسے ’’حل‘‘ کی طرف نکلناضروری ہے ۔ فقہاءحنابلہ کے فتاویٰ : ۔ علامہ موفق الدین ابومحمدعبداللہ بن احمدبن محمدبن قدامہ حنبلی متوفی620ھ لکھتے ہیں : ميقات العمرة للمكي ومن فی الحرم، من الحل؛ لما «روت عائشة رضي الله عنها- ان النبي – صلى الله عليه وسلم- امر اخاها عبد الرحمٰن فاعمرها من التنعيم» متفق عليه. وكانت بمكة يومئذ. ومن اي الحل احرم جاز۔( ) یعنی،مکی اورحرم میں موجودشخص کے لئے عمرہ کی میقات ’’حل‘‘ ہے کیونکہ ام المؤمنین حضرت عائشہنے روایت کیاہے : بے شک نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریمﷺنے ان کے بھائی حضرت عبدالرحمن کوحکم فرمایاکہ تم انہیں ’’تنعیم‘‘سے عمرہ کرواؤ(متفق علیہ)اوراپ()ان دنوں مکہ مکرمہ میں تھیں ،اورکسی بھی ’’حل‘‘سے اس نے احرام باندھ لیاتوجائزہے ۔ ابو العباس تقی الدين احمد بن تیمیہ حنبلی متوفى728ھ نے لکھاہے : ومن كان منزله دون الميقات فميقاته من موضعه، حتى اهل مكة يهلون منها لحجهم، ويهلون للعمرة من الحل۔( ) یعنی،جومیقات کے اندرہو،پس اس کی میقات وہی جگہ ہے ،یہاں تک کہ مکہ مکرمہ والے اپنے حج کااحرام مکہ سے باندھیں گے ،اورعمرہ کا احرام ’’حل‘‘سے ۔ امام ابوبکرتقی الدین بن ابراہیم حنبلی متوفی861ھ لکھتے ہیں : من ھو بمکۃ اوالحرم اذا اراد العمرۃ فمیقاتہ من الحل ، سواء کان مكيا او غیرہ۔( ) یعنی،جومکہ مکرمہ یاحرم شریف میں ہو،اوروہ عمرہ کاارادہ کرے تو اس کی میقات’’حل‘‘ہے ،خواہ مکی ہویااس کے علاوہ۔ علامہ علاء الدين ابو الحسن علی بن سليمان مرداوی حنبلی متوفی 885ھ لکھتے ہیں : (واهل مكة اذا ارادوا العمرة : فمن الحل) سواء كان من اهلها، او من غيرهم. وسواء كان في مكة او في الحرم. هذا الصحيح منالمذهب۔( ) یعنی،مکہ مکرمہ والے جب عمرہ کاارادہ کریں توحل سے احرام باندھیں ،برابرہے کہ اہل مکہ سے ہویاان کے علاوہ،اوربرابر ہے کہ وہ مکہ میں ہویاحرم میں .یہ صحیح مذہب ہے ۔ اور امام شمس الدین محمدبن احمدنابلسی حنبلی متوفی1188ھ لکھتے ہیں : وان اراد من بمکۃ من اھلھا او غیرھم وکذا من بالحرم العمرۃ ، فیحرم بھا من الحل ، ومن التنعیم افضل ، وھو ادني الحل الی مکۃ۔( ) یعنی،مکہ میں موجودشخص جب عمرہ کاارادہ کرے تواس کااحرام حل سے باندھے خواہ مکہ والوں میں سے ہویاان کے علاوہ ہو،اوراسی طرح جوحرم میں ہوتے ہوئے عمرہ کاارادہ کرے ،اور’’تنعیم‘‘سے احرام باندھناافضل ہے ،اوریہ مکہ کی طرف قریبی حل ہے ۔ غیرمقلدین کے فتاویٰ : ۔ ابن حزم ظاہری متوفی456ھ نے لکھاہے : ومن كان من اهل مكة فاراد الحج فميقاته منازل مكة، وان اراد العمرة فليخرج الى الحل فليحرم منه وادنى ذلك : التنعيم۔( ) یعنی،اہل مکہ سے جوحج کاارادہ کرے تواس کی میقات مکہ ہے ، اور اگرعمرہ کاارادہ کرے تووہ’’حل‘‘کی طرف نکلے پھراس سے احرام باندھے ، اورقریبی حل’’تنعیم‘‘ہے ۔ قاضی محمدبن علی شوکانی متوفی1250ھ نے لکھاہے : لا يحتاجون الى الخروج الى الميقات للاحرام منه ،وهٰذا في الحج، واما فی العمرة ، فيجب الخروج الى ادنى الحل ،كما سياتي۔( ) یعنی،مکہ مکرمہ والوں کواحرام کے لئے میقات کی طرف نکلنے کی حاجت نہیں ہے ،اوریہ حکم حج میں ہے ،اورعمرہ میں قریبی حل کی طرف نکلنا واجب ہے ،جیساکہ عنقریب ائے گا۔ اورابوالطیب محمدصدیق حسن خان قنوجی بخاری متوفی 1308ھ نے لکھاہے : (حتى اهل مكة)وغیرھم ممن ھو بھا يهلون….(من مكة)؛ اي : لا يحتاجون الى الخروج الى الميقات للاحرام منه ،بل يحرمون من مكة ؛ كالافاقي الذي بين مكة والميقات، فانه يحرم من مكانه ،ولا يحتاج الى الرجوع الى الميقات ليحرم منه، وهذا خاص بالحاج….واما المعتمر ، فيجب علیہ ان یخرج الى ادنى الحل۔( ) یعنی،مکہ مکرمہ والے اوران کے علاوہ مکہ میں موجودلوگ مکہ سے احرام باندھیں یعنی : انہیں احرام کے لئے میقات کی طرف نکلنے کی حاجت نہیں ہے ،بلکہ وہ مکہ ہی سے احرام باندھ لیں ؛جیسے افاقی مکہ اورمیقات کے درمیان ہو،پس وہ اپنی جگہ ہی سے احرام باندھے گا،اوراسے احرام باندھنے کے لئے میقات کی طرف نکلنے کی حاجت نہیں ہے ،اوریہ حکم حج کرنے والے کے ساتھ خاص ہے ،اوررہاعمرہ کرنے والا،تواس پرقریبی حل کی طرف نکلناواجب ہے ۔ سعودی علماء کے فتاویٰ : ۔ شیخ عبدالعزیزبن عبداللہ بن عبدالرحمن بن بازنے لکھاہے : من بدا لہ الحج وھو فی مکۃ فانہ یحرم من مکانہ ، اما العمرۃ فلا بد من خروجہ للحل ؛ لحدیث عائشۃ رضی اللٰہ عنہا فی ذلک۔( ) یعنی،جومکہ میں ہوتے ہوئے حج کی ابتداءکرناچاہے ،پس وہ اپنی جگہ یعنی مکہ سے احرام باندھے ،رہاعمرہ ،تواس میں احرام کے لئے حدیث عائشہ کی وجہ سے حل کی طرف نکلناضروری ہے ۔ اورسعودی ادارہ’’اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء‘‘ کے فتاویٰ میں سے ایک فتویٰ بمع سوال درج ذیل ہے ۔ س4 : من این یحرم اھل مکۃ للعمرۃ؟ ج4 : اھل مکۃ یحرمون للعمرۃ من خارج الحرم کالتنعیم۔ عضو نائب رئیس اللجنۃ الرئیس عبداللٰہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللٰہ بن باز( ) یعنی،س4 : اہل مکہ عمرہ کے لئے کہاں سے احرام باندھیں ؟ جواب4 : مکہ مکرمہ والے عمرہ کے لئے حدود حرم سے باہراحرام باندھیں ، جیسے تنعیم۔ لہذاحدیث شریف کی روسے اورشارحین حدیث اورچاروں مذاہب کے فقہاء حتی کہ غیرمقلدین خصوصا سعودی علماء کے نزدیک بھی حکم یہی ہے کہ جومکی ہویامکی کے حکم میں ہو،وہ عمرہ کااحرام’’حل‘‘سے باندھے گانہ کہ حرم سے ،اورفاضل مدینہ یونیورسٹی مفتی عبدالرحمٰن عابدکی بات حدیث شریف اوراجماع اورشارحین حدیث اورفقہاء مذاہب اربعہ اور خود غیر مقلدین کے نظریے کے خلاف ہے ،اورانہوں نے اپنے نظریے کی تائید میں جس حدیث شریف کاحوالہ دیاہے اوراس حدیث شریف سے جو سمجھا ہے وہ اس حدیث شریف کے جملہ شارحین کے نظریے کے خلاف ہے ،اس لئے موصوف کی بات کاکوئی اعتبارنہیں ہے ۔ اس حکم کی ایک وجہ یہ ہے کہ حج کی ادائیگی’’عرفہ‘‘میں ہے ،اور عرفہ’’حل‘‘میں ہے ،لہذاحج کااحرام’’حرم‘‘سے ہوگا،تاکہ سفرکی نوع متحقق ہو،اورعمرہ کے تمام افعال چونکہ‘‘حرم’’میں ہی اداہوتے ہیں ،لہذاعمرہ کا احرام ’’حل‘‘سے ہوگا۔ چنانچہ علامہ ابوالحسن علی بن ابی بکرمرغینانی حنفی لکھتے ہیں : ولان اداء الحج في عرفۃ،وهي في الحل فيكون الاحرام من الحرم ليتحقق نوع سفرٍ، واداء العمرة في الحرم فيكون الاحرام من الحل لهذا، الا ان التنعيم افضل لورود الاثر به۔( ) یعنی،اوراس وجہ سے کہ بے شک حج کی ادائیگی’’عرفہ‘‘میں ہے ، اوریہ حل میں ہے ،پس حج کااحرام’’حرم‘‘سے ہوگا،تاکہ سفرکی نوع متحقق ہو،اورعمرہ کی ادائیگی’’حرم‘‘میں ہوتی ہے ،لہذاعمرہ کااحرام’’حل‘‘ سے ہوگا،مگرحدیث کے واردہونے کی وجہ سے ’’تنعیم‘‘افضل ہے ۔ علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں : لان المقصود بالاحرام منه الجمع بين الحل والحرم في النسك؛ لان افعال العمرة كلها في الحرم، الا الاحرام، بخلاف الحج فانه يفتقر الى الحل للوقوف بعرفة، فيحصل الجمع بين الحل والحرم۔( ) یعنی،کیونکہ حل سے احرام باندھنے میں مقصود ’’حل‘‘اور’’حرم‘‘ کو نسک میں جمع کرناہے ،اوریہ اس وجہ سے کہ بے شک عمرہ کے تمام افعال حرم میں اداہوتے ہیں ،سوائے احرام کے ،بخلاف حج کے ،کیونکہ حاجی’’وقوف عرفہ‘‘ کے لئے حل کی طرف نکلنے کامحتاج ہوتاہے ،پس حل اورحرم کوجمع کرناحاصل ہوجائے گا۔ علامہ ابوالعباس احمدبن عمرابراہیم قرطبی مالکی متوفی656ھ لکھتے ہیں : واما العمرۃ فلا بد فیھا من الجمع بین الحل والحرم۔( ) یعنی،عمرہ میں حل اورحرم کوجمع کرناضروری ہے ۔ امام شمس الدین ابوعبداللہ محمدبن موسی عسقلانی شافعی متوفی 837ھ لکھتے ہیں : لان اعمال العمرة كلها في الحرم، فالقصد یکون قبل الحرم،والحج من اعمالہ ما ھو فی الحل،وھو عرفۃ، فیحصل القصد وھو فی الحرم۔( ) یعنی،کیونکہ عمرہ کے تمام افعال حرم میں اداہوتے ہیں ،پس ارادہ حرم سے پہلے ہوگا،اورحج ان اعمال سے ہے جو ’’حل‘‘میں اداہوتاہے ،اوروہ عرفہ کاوقوف ہے ،پس حرم میں ہوتے ہوئے قصدحاصل ہوجاتاہے ۔ مکہ یاحرم سے احرام عمرہ باندھ لینے پرحکم : ۔ اوراگرکسی شخص نے ایساکیاجیساکہ مذکورشخص تعلیم دے رہاہے تووہ گناہ گارہوگا،اوراس پرلازم ہوگاکہ وہ حل کی جانب لوٹ کر’’تلبیہ‘‘ کہے ،اوراگروہ نہیں لوٹے گا،تواس پردم لازم ہوگا۔ چنانچہ امام ابوبکربن علی حنفی متوفی800ھ لکھتے ہیں : ولو ترك المكي ميقاته،واحرم للحج في الحل،وللعمرة في الحرم ، يجب عليه دم۔( ) یعنی،اگرمکی نے اپنے میقات کوترک کیا،اورحج کااحرام’’حل‘‘میں باندھ لیا،اورعمرہ کااحرام’’حرم‘‘میں ،تواس پردم لازم ہوگا۔ اورعلامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی993ھ لکھتے ہیں : ولو ترك المكي ميقاته، فاحرم للحج من الحل ، اوللعمرة من الحرم ، فعليه دم وھذا اذا خرج الی الحل بارادة الحج اما اذا خرج الی الحل لحاجۃ فاحرم منہ ووقف بعرفۃ لا شيی علیہ۔( ) یعنی،اگرمکی نے اپنے میقات کوترک کیا،پس اس نے حج کااحرام ’’حل‘‘سے باندھ لیا،یاعمرہ کااحرام ’’حرم‘‘سے باندھ لیا،تواس پردم لازم ہوگا،اوردم کاحکم اس وقت ہے جبکہ وہ حل کی طرف حج کے ارادے سے نکلا ہو،اوراگروہ’’حل‘‘کی طرف کسی حاجت کے لئے نکلاہو،پھراس نے ’’حل‘‘ سے احرام باندھ کر’’وقوف عرفہ‘‘ کیا،تواس پرکچھ لازم نہیں ہوگا۔ شیخ الاسلام مخدوم محمدہاشم ٹھٹوی حنفی متوفی1174ھ لکھتے ہیں : کسی کہ داخل حرم ست اگراحرام بست ازحل برای حج یا ازحرم برای عمرہ اثم گردد ولازم باشد بروے کہ عود کند بسوی مکان مشروع برائے احرام واگرعود نہ کرد لازم گردد دم بروے ۔( ) یعنی،حرم میں داخل شخص نے حج کااحرام ’’حل‘‘سے باندھایاعمرہ کا احرام’’حرم‘‘سے ہی باندھ لیاتووہ گناہگارہوگااوراس پرلازم ہوگاکہ وہ احرام کے لئے مشروع جگہ لوٹے ،اوراگرنہ لوٹا،تواس پردم لازم ہوگا۔ اورعلامہ سیدمحمدابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ لکھتے ہیں : فلو عكس فاحرم للحج من الحل او للعمرة من الحرم لزمه دم الا اذا عاد ملبيًا الى الميقات المشروع له كما في ’’اللباب‘‘ وغيره۔( ) یعنی،اگرالٹ کیایعنی مکی نے حج کااحرام ’’حل ‘‘سے یاعمرہ کااحرام ’’حرم‘‘سے باندھاتواس پردم لازم ہوگا،مگریہ کہ وہ اپنے مشروع میقات کی طرف لوٹ کر’’تلبیہ‘‘کہے ،جیساکہ ’’لباب‘‘وغیرہ میں ہے ۔ اورغیرمشروع جگہ سے احرام باندھنے پرتوبہ بہرصورت کرنی ہوگی،کیونکہ اس فعل کامرتکب گناہ گارہوتاہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم یوم الاربعاء،جمادی الاولیٰ1441ھ۔15جنوری2020م

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button