ARTICLESشرعی سوالات

مسعیٰ مسجد الحرام کی حُدود میں ہے یا خارج

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مسعیٰ (سعی کی جگہ) مسجد الحرام کی حدود کے اندر ہے یا خارج ، اور عورت حیض اور نفاس کی حالت میں سعی کر سکتی ہے یا نہیں ؟

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : مسعٰی مسجد الحرام سے خارج ہے ، چنانچہ امام محمد بن اسحاق خوارزمی حنفی متوفی 827ھ لکھتے ہیں :

واعلم أن البیت فی وسط المسجد الحرام ، و المسجد الحرام فی وسط مکۃ، والصفا خارج المسجد من الجانب الشرقیّ، و الصفا فی جہۃ الجنوب، و المروۃ کذلک فی الجانب الشمالیّ (1)

یعنی، جان لیجئے کہ بیت اللہ مسجد الحرام کے وسط میں ہے اور مسجد الحرام مکہ معظمہ کے وسط میں ہے ، اور صفا مشرق کی جانب مسجد الحرام سے خارج ہے اور صفا جہتِ جنوب میں ہے اورمروہ اسی طرح (مسجد الحرام سے خارج) جانبِ شمالی میں ہے ۔ علامہ ابو الولید محمد بن عبداللہ بن احمد ازرقی لکھتے ہیں :

عن علی الأزدی قال : سمعت أبا ہریرۃ یقول : إنا لنجد فی کتاب اللہ عزّ وجلّ أن حدّ المسجد الحرام من الحزورۃ إلی المسعٰی (2)

یعنی، علی ازدی سے مروی ہے کہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا کہ ہم کتاب اللہ عزّ وجلّ میں پاتے ہیں کہ مسجد حرام کی حدّ حزورہ سے مسعیٰ تک ہے ۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ مسعیٰ (سعی کی جگہ) مسجد سے خارج ہے ۔ اور مسعیٰ جب مسجد سے خارج ہے تو حائضہ و نفساء عورت کو وہاں جانے کی ممانعت بھی نہیں اس لئے عورت نے اگر اکثر طواف کرلیا ہے تووہ سعی کرسکتی ہے کیونکہ ممانعت تو دُخولِ مسجد سے ہے ، اما م ابو داؤد نے اپنی ’’سنن‘‘ میں اور امام بخاری نے ’’تاریخ کبیر‘‘ میں اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا جس میں ہے حضور ا نے فرمایا :

’’لَا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَّ لَا جُنُبٍ‘‘

یعنی ، پس حائضہ اور جنبی کے لئے مسجد کو حلال نہیں کرتا۔ اور ابن ماجہ اور طبرانی کی اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں ہے کہ حضور ا نے بلند آواز سے ارشاد فرمایا کہ ’’مسجد جنبی اور حائضہ کے لئے حلال نہیں ‘‘۔ اور فقہاء کرام نے بھی لکھا ہے کہ حائضہ عورت کو مسجد میں آنا ممنوع ہے چنانچہ امام ابو الحسن احمد بن محمد القدوری متوفی 428ھ لکھتے ہیں :

لا تدخل المسجد (3)

یعنی، (حائضہ عورت) مسجد میں داخل نہ ہو گی۔ برہان الشریعۃ محمود بن صدر الشریعہ احمد بن عبیداللہ المحبوبی ’’وقایۃ الروایۃ‘‘ میں لکھتے ہیں :

یمنع الصلاۃ و الصوم و دخول المسجد الخ (باب الحیض)

یعنی،حیض نماز ، روزہ اور دخولِ مسجد سے مانع ہے ۔ اور حافظ الدین ابو البرکات عبداللہ بن احمد بن محمود نسفی متوفی 710ھ ’’کنزالدقائق‘‘ میں لکھتے ہیں :

و یمنع صلاۃً، و صوماً، و دخول مسجدٍ الخ (باب الحیض)

یعنی، حیض نماز، روزہ اور دخولِ مسجد سے مانع ہے ۔ اور حیض و نفاس طواف سے بھی مانع ہے جیسا کہ ’’وقایۃ الروایۃ‘‘ اور ’’کنزالدقائق‘‘ میں ہے ۔ اور امام ابو الحسن احمد بن محمد القدوری متوفی 428ھ لکھتے ہیں :

و لا تطوف بالبیت (مختصر القدوری)

یعنی، وہ بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گی۔ اور طوافِ کعبہ سے ممانعت کی وجہ دخولِ مسجد ہے ، چنانچہ شارح وقایہ علامہ عبیداللہ بن مسعود بن تاج الشریعۃ ’’وقایۃ الروایۃ‘‘ کے قول ’’یمنع الطواف‘‘ کے تحت لکھتے ہیں :

لکونہ یُفعل فی المسجد (4)

یعنی، طواف سے ممانعت اس لئے ہے کہ طواف مسجد میں ہوتا ہے ۔ پھر ایک سوال یہ ہے کہ جب طواف مسجد میں ہوتا ہے اس لئے حالتِ حیض میں ممنوع ہے پھر جب فقہاء کرام نے فرمایا کہ حائضہ مسجد میں داخل نہیں ہو گی تو طواف سے ممانعت ثابت ہو گئی اور مُتون جو کہ مختصر ہیں ان میں طواف کی ممانعت کو صراحۃً ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی تواس کے جواب میں علامہ ابو بکر بن علی متوفی 800 ھ لکھتے ہیں :

فإن قیل : الطواف لا یکون إلا بدخول المسجد فقد عرف منعہا منہ فما الفائدۃ فی ذکر الطواف، قیل : یتصور ذلک فیما إذا جائہا الحیض بعد ما دخلت المسجد و قد شرعت فی الطواف أو نقول لما کان للحائض أن تصنع ما یصنعہ الحاج من الوقوف و غیرہ ربما یظن ظان أنہا یجوز لہا الطواف أیضاً کما جازلہا الوقوف و ہو أقوی منہ فأزال ہذا الوہم بذلک (5)

یعنی، پس اگر کہا جائے کہ طواف دخولِ مسجد کے بغیر نہیں ہوتا اور اس سے منع تو پہلے جان لیا گیا تو طواف کے ذکر کا کیا فائدہ ہے ؟ اس کے جواب میں کہا گیا کہ وہ اس صورت میں متصوّر ہے کہ جب عورت کو حیض آئے تو وہ مسجد کے اندر ہو اور وہ طواف شروع کر دے یا طواف کے صراحۃً ذکر کے فائدے کے بارے میں ہم کہیں گے کہ جب حکم تھا کہ حائضہ عورت وہ کرے جو حاجی کرتے ہیں جیسے وقوفِ عرفہ وغیرہ ، کبھی گمان کرنے والا یہ گمان کر لے کہ اس کے لئے طواف بھی جائز ہے جیسا کہ اس کے لئے وقوفِ عرفہ جائز ہے اور وہ اس سے زیادہ قوی ہے تو طواف کا صراحۃً ذکر کر کے اس وہم کا ازالہ کر دیا گیا۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الثلثاء،29شوال المکرم 1427 ھ، 21نوفمبر 2006 م (257-F)

حوالہ جات

1۔ إثارۃ الترغیب و التشویق إلی المساجد الثلاثۃ و البیت العتیق، القسم الأول، الفصل الخامس و الخمسون فی ذکر ما جاء فی بناء المسجد الحرام الخ ، ص302

2۔ أخبار مکۃ، باب ذکر غور زمزم و ما جاء فی ذلک ، ذکر حدّ مسجد الحرام، 2/63

3۔ مختصر القدوری ، کتب الطہارۃ، باب الحیض،ص19

4۔ شرح الوقایۃ، کتاب الطہارۃ، باب الحیض،1/527

5۔ الجوہرۃ النیرۃ،کتاب الصلاۃ، باب الحیض،1/87

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button