بہار شریعت

کونسی وصیت مقد م ہے کونسی مؤخر

کونسی وصیت مقد م ہے کونسی مؤخر

مسئلہ۱: جب متعدد وصیتیں جمع ہوجائیں تو اس میں بہت سی صورتیں ہیں ،اگر ثلث مال سے وہ تمام وصیتیں پوری ہوسکتی ہیں تو وہ پوری کردی جائیں گی اور اگر ثلث مال میں وہ تمام وصیتیں پوری نہیں ہوسکتیں لیکن ورثہ نے ان کو جائز کردیا تب بھی وہ تمام وصیتیں ادا کی جائیں گی لیکن اگر ورثہ نے اجازت نہ دی تو دیکھا جائے گا کہ آیا وہ تمام وصیتیں اللہ تعالی کے لئے ہیں یابعض تقرب الی اللہ کے لئے اور بعض بندوں کے لئے یا کل وصیتیں بندوں کے لئے ہیں ، اگر کل وصیتیں اللہ عزوجل کے لئے ہیں تو دیکھا جائے گا کہ آیا وہ کل ایک ہی درجہ کے فرائض سے ہیں یا کل وصیتیں واجبات سے ہیں یا کل کی کل نوافل سے ہیں ، اگر کل وصیتیں ایک ہی درجہ کے فرائض سے ہیں تو پہلے وہ وصیت پوری کی جائے گی جس کا ذکر موصی نے پہلے کیا۔(بدائع از عالمگیری ج ۶ ص۱۱۴)

مسئلہ۲: حج اور زکوۃـ میں اگر حج فرض ہے تو وہ زکوــۃ پر مقدم ہے خواہ موصی نے زکوۃ کا ذکر پہلے کیا ہو ، اور کفارئہ قتل اور کفارئہ یمین میں اس کو مقدم کیا جائے گا جس کو موصی نے مقدم کیا اور مائہ رمضان کے روزے توڑنے کے کفارہ میں اور قتل خطاء کے کفارہ میں کفارئہ قتل خطاء پر مقدم ہوگا(خزانتہ المفتیین از عالمگیری ج ۶ ص۱۱۵)

متعلقہ مضامین

مسئلہ۳: حج اور زکوۃ مقدم ہیں کفارات پر، اور کفارات مقدم ہیں صدقـۃ الفطر پر ، اور صدقۃ الفطر مقدم ہے قربانی پر، اور اگر قربانی سے پہلے منذور بہ کو ذکر کیا تو مندور بہ مقدم ہے قربانی پر، اور قربانی مقدم ہے نوافل پر (عالمگیری) اور ان سب پر اعتاق مقدم ہے خواہ اعتاق منجز ہو یا اعتاق مطلق بالموت ہو(عالمگیری ج۶ ص۱۱۵)

مسئلہ۴: حج کی وصیت کی اور کچھ دیگر تقرب الی اللہ تعالی چیزوں کی وصیت کی اور مسجد معین کے مصالح کے لئے اور کسی قوم کے کچھ مخصوص و مشخص لوگوں کے لئے وصیت کی اور ثلث مال میں یہ سب پوری نہیں ہوئی تو ثلث مال کو ان کے مابین تقسیم کردیا جائے گا، جنتا مال مشخص و معین لوگوں کو ملے گا اس میں سے وہ اپنا اپنا حصہ لے لیں گے اور جتنا مال تقرب الی اللہ کے حصہ میں آئے گا اگر ان میں سوائے حج کے کوئی دوسرا واجب نہٍ ہے تو حج مقدم ہے اگر یہ تمام مال حج ہی کے لئے پورا ہوگیا تو تقرب الی اللہ تعالی کی بقیہ وصیتیں باطل ٹھہریں گی اور اگر کچھ بچ گیا تو تقرب کی وہ وصیت مقدم ہے جس کو موصی نے پہلے ذکر کیا(خزانتہ المفتیین از عالمگیری ج ۶ ص۱۱۵)

مسئلہ۵: کچھ وصیتیں اللہ تعالی کیلئے ہیں اور کچھ بندوں کے لئے تو اگر موصی نے قوم کے خاص خاص معین لوگوں کے لئے وصیت کی تو وہ ثلث مال میں شریک ہیں ، ان کو ثلث مال میں جو حصہ ملے گا وہ تقدیم و تاخیر ان سب کے لئے ہے اور جو حصہ ثلث مال میں سے اللہ تعالی کے تقرب کے لئے ملے گا اس میں فرائض مقدم ہوں گے پھر واجبات پھر نوافل۔(عالمگیری ج ۶ ص۱۱۵)

مسئلہ۶: اگر یہ وصیت کی کہ میرا تہائی مال حج،زکوـۃ، کفارات میں اور زید کے لئے ہے اس صورت میں ثلث مال چار حصوں میں تقسیم ہوگا ایک حصہ موصی لہ زید کے لئے، ایک حصہ حج کے لئے، ایک حصہ زکوۃ کے لئے اور ایک حصہ کفارات کے لئے۔ (بدائع ا ز عالمگیری ج ۶ ص۱۱۵)

مسئلہ۷: کل وصیتیں بندوں کے لئے ہیں اس صورت میں اقوی غیر اقوی پر مقدم ہوگی، اس کا لحاظ نہ کیا جائے گا کہ میت نے کس کا ذکر پہلے کیا تھا اور کس کا بعد میں ، اگر وہ سب قوت میں برابر ہوں تو ہر ایک کو ثلث مال میں سے بقدر اس کے حق کے ملے گا اور اول و آخرکا لحاظ نہ ہوگا۔(عالمگیری ج ۶ ص۱۱۵)

مسئلہ۸: اگر تمام وصیتیں ا ز قسم نوافل ہوں اور ان میں کوئی چیز مخصوص و معین نہ ہو تو ایسی صورت میں میت نے جس کا ذکر پہلے کیا وہ مقدم ہوگی (ظاہر الروایہ از عالمگیری ج ۶ ص۱۱۵) جیسے اس نے وصیت کی کہ میرا نفلی حج کرادینا یا ایک جان میری طرف سے آزاد کرادینا یا اس نے وصیت کی کہ میری طرف سے غیر معین فقراء پر صدقہ کردینا تو ان صورتوں میں جس کا ذکر پہلے کیا وہ پوری کی جائے گی(عالمگیری ج۶ ص۱۱۵)

مسئلہ۹: ایک شخص نے وصیت کی کہ سو درہم فقراء کو دیئے جائیں اور سو درہم اقرباء کو اور اس کی چھوٹی ہوئی نمازوں کے بدلے میں کھانا کھلایا جائے، پھر اس کا انتقال ہوگیا اور اس پر ایک ماہ کی نمازیں باقی تھیں اور اس کا ثلث مال تمام وصیتوں کے لئے ناکافی ہے تو اس صورت میں ثلث مال کو اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ سو درہم فقراء پر، اور سو درہم اقرباء پر اور اس کی ہر نماز کے بدلے نصف صاع گیہوں کی جو قیمت ہو اس پر، پس جو حصہ اقرباء کو پہنچے گا وہ ان کو دیدیا جائے گا اور جو حصہ فقراء اور کھانے کا ہے اس سے کھانا کھلایا جائے اور جو کمی پڑے گی وہ فقراء کے حصہ میں آئے گی(فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج ۶ ص۱۱۶)

مسئلہ۱۰: حجتہ الاسلام یعنی حج فرض کی وصیت کی تو یہ حج مرنے والے کے شہر سے سواری پر کرایا جائے گا لیکن اگر وصیت کے لئے خرچ پورا نہ ہو تو وہاں سے کرایا جائے جہاں سے خرچ پورا ہوجائے اور اگر کوئی شخص حج کرنے کے لئے نکلا اور راستہ میں انتقال ہوگیا اور اس نے اپنی طرف سے حج ادا کرنے کی وصیت کی تو اس کا حج اس کے شہر سے کرایا جائے، یہی حکم اس کے لئے ہے جو حج بدل کرنے والا حج کے راستہ میں مرگیا وہ حج بدل پھر اس کے شہرسے کرایا جائے(کافی از عالمگیری ج ۶ ص۱۱۶)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button