بہار شریعت

وضو کے متعلق احادیث

بہار شریعت جلد اول کے باب وضو کے متعلق احادیث کا تفصیلی مطالعہ

وضو کےفقہی احکام 

وضو کے فرائض:

    احکام فقہی وہ آئیہ کریمہ جو اوپر لکھی گئی اس سے یہ ثابت کہ وضو میں چار فرض ہیں۔

متعلقہ مضامین

                        ۱) منہ دھونا

                        ۲) کہینیوں سمیت دونوں ہاتھوں کا دھونا

                        ۳) سر کا مسح کرنا

                        ۴)  ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں کو دھونا

فائدہ :                 کسی عضو کے دھونے کے یہ معنی ہیں کہ اس عضو کے ہرحصہ پر کم سے کم دو بوند پانی بہہ جائے۔ بھیگ جانے یا تیل کی طرح پانی چپڑ لینے یا ایک آدھ بوند بہہ جانے کو دھونا نہیں کہیں گے نہ اس سے وضو یا غسل ادا ہوگا اس امر کا لحاظ بہت ضروری ہے لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور نمازیں اکارت جاتی ہیں۔ بدن میں بعض جگہیں ایسی ہیں کہ جب تک ان کاخاص کیال نہ کیا جائے ان پر پانی نہ بہے گا جس کی تشریح ہر عضو میں بیان کی جائے گی کسی جگہ موضع حدث پر  (جس کا مسح ضروری ہو) تری پہنچنے کو مسح کہتے ہیں۔

 ۱ ۔منہ دھونا :         شروع پیشانی سے یعنی جہاں سے بال جمنے کی انتہا ہو ٹھوڑی تک طویل میں اور عرض میں ایک کان سے دوسرے کان تک منہ ہے اس حد کے اندر جلد کے ہر حصہ پر ایک مرتبہ پانی بہانا فرض ہے۔

مسئلہ ۱  :   جس کے سر کے اگلے حصے کے بال گر گئے یا جمتے نہیں اس پر وہیں تک منہ دھونا فرض ہے جہاں تک عادۃً بال ہوتے ہیں اور اگر عادۃً جہاں تک بال ہوتے ہیں اس سے نیچے تک کسی کے بال جمے تو ان زائد بالوں کا جڑ تک دھونا فرض ہے۔

مسئلہ ۲  :  مونچھوں یا بھوؤں یا بچی کے بال گھنے ہوں کہ کھال بالکل نہ دکھائی دے تو جلد کا دھونا فرض نہیں بالوں کا دھونا فرض ہے اور اگر ان جگہوں کے بال گھنے نہ ہوں تو جلد کا دھونا بھی فرض ہے۔ (شامی ج۱ ص ۹۴، صغیری ص ۸)۔

مسئلہ ۳  :  اگر مونچھیں بڑھ کر لبوں کو چھپالیں تو اگرچہ گھنی ہون مونچھیں ہٹا کر لب کا دھونا فرض ہے ۔ (شامی ج ۱ ص ۹۴)۔

مسئلہ ۴  :  داڑھی کے بال اگر گھنے نہ ہوں تو جلد کا دھونا فرض ہے اور اگر گھنے ہوں تو گلے کی طرف دبانے سے جس قدر چہرے کے گردے میں آئیں ان کا دھونا فرض ہے اور جڑوں کا دھونا فرض نہیں اور جو حلقے سے نیچے ہوں انکا دھونا ضروری نہیں اور اگر کچھ حصہ میں گھنے ہوں اور کچھ چھدرے تو جہاں گھنے ہوں وہاں بال اور جہاں چھدرے ہوں اس جگہ جلد کا دھونا فرض ہے۔

مسئلہ ۵  :  لبوں کو وہ حصہ جو عادۃً لب بند کرنے کے بعد ظاہر رہتا ہے اس کا دھونا فرض ہے تو اگر کوئی خوب زور سے لب بند کرے کہا س م یں کچھ حصہ چھپ گیا کہ اس پر پانی نہ پہنچا۔ نہ کلی کی کہ دُھل جاتا تو وضو نہ ہوا ۔ ہاں وہ حصہ جو عادۃً منہ بند کرنے میں ظاہر نہیں ہوتا اس کا دھونا فرض نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۴)۔

مسئلہ ۶  :  رخسار اور کان کے بیچ میں جو جگہ ہے جسے کنپٹی کہتے ہیں اس کا دھونا فرض ہے ہاں اس میں حصہ میں جتنی جگہ داڑھی کے گھنے بال ہوں وہاں بالوں کا اور جہاں بال نہ ہوں یا گھنے نہ ہوں تو جلد کا دھونا فرض ہے۔ (درمختار شامی ج ۱ ص ۹۰،  عالمگیری ج۱ ص ۴)۔

مسئلہ ۷  :  نتھ کا سوراخ اگر بند نہ ہو تا اس میں پانی بہانا فرض ہے اگر تنگ ہو تو پانی ڈالنے میں نتھ کو حرکت دے ورنہ ضروری نہیں۔

مسئلہ ۸  :  آنکھوں کے ڈھیلے اور پپوٹوں کی اندرونی سطح کا دھونا کچھ درکار نہیں بلکہ نہ چائیے کہ مُضر ہے۔ (عالمگیری ج۱ ص ۴)۔

مسئلہ ۹  :   منہ دھونے وقت آنکھیں زور سے میچ لیں کہ پلک کے متصل ایک خفیف سی تحریر بند ہو گئی اور اس پر پانی نہ بہا اور وہ عادۃً بند کرنے سے ظاہر رہتی ہو تو وضو ہو جائے گا مگر ایسا کرنا نہیں چاہیئے اور اگر کچھ زیادہ دھلنے سے رہ گیا تو وضو نہ ہو گا۔

مسئلہ ۱۰  : آنکھ کے گوشے پر پانی بہانا فرض ہے مگر سرمہ کا جسم گوشے یا پلک میں رہ گیا اور وضو کرلیا اور اطلاع نہ ہوئی اور نماز پڑھ لی تو حرض نہیں نماز ہو گئی۔ وضو بھی ہو گیا اور اگر معلوم ہے تو اسے چھڑا کر پانی بہانا ضروری ہے۔ (ّدرمختار و شامی ج ۱ ص۹۰)۔

مسئلہ ۱۱  :  پلک کا ہر بال پورا دھونا فرض ہے اگر اس میں کیچڑ وغیرہ کوئی سخت چیز جم گئی ہو تو چھڑا نا فرض ہے۔

۲۔ہاتھ دھونا :اس حکم میں کہینیاں بھی داخل ہیں۔

مسئلہ ۱۲  : اگر کہینیوں سے ناخن تک کوئی جگہ ذرّہ بھر بھی دھلنے سے رہ جائے گی تو وضو نہ ہو گا۔

مسئلہ ۱۳  : ہر قسم کے جائز ، ناجائز گھنے چھلّے، انگوٹھیاں، پہنچیاں، کنگن، کانچ لاکھ وغیرہ کی چوڑیاں، ریشم کے لچھّے وغیرہ اگر اتنے تنگ ہوں تو نیچے پانی نہ پہنچے تو اتار کر دھونا فرض ہے اور اگر ہلا کر دھونے سے پانی بہہ جاتا ہو تو حرکت دینا ضروری ہے اور اگر ڈیلے ہوں کہ بے ہلائے بھی نیچے پانی بہہ جائے گا تو کچھ ضروری نہیں۔

مسئلہ ۱۴  : ہاتھوں کی آٹھوں گھائیاں انگلیوں کی کروٹیں ناخنوں کے اندر جو جگہ خالی ہے کلائی کا بال جڑ سے نوک تک ان سب پر پانی بہہ جانا ضروری اگر کچھ بھی رہ کیا یا بالوں کی جڑوں پر پانی بہہ گیا کسی ایک بال کی نوک پر نہ بہا وضو نہ ہوا مگر ناخنوں کے اندر کا میل معاف ہے۔

 مسئلہ ۱۵  : بجائے پانچ کے چھ انگلیاں ہیں تو سب کا دھونا فرض ہے اور اگر ایک مونڈے پر دو ہاتھ نکلے تو جو پورا ہے اس کا دھونا فرض ہے اور دوسرے کا فرض نہیں مستحب ہے مگر اس کا وہ حصہ کہ اس ہاتھ کے موض فرض سے متصل ہے اتنے کا دھونا فرض نہیں۔ (درمختار ج ۱ ص ۹۵، عالمگیری ج ۱ ص ۴)۔

۳۔سرکا مسح کرنا :

                           چوتھائی سر کا مسح فرض ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۴۔

مسئلہ ۱۶  : مسح کرنے کے لئے ہاتھ تر ہونا چاہیئے خواہ ہاتھ میں تری اعضا کے دھونے کے بعد رہ گئے ہو یا نئے پانی سے ہاتھ کر کر لیا ہو۔ (درمختار ج ۱ ص ۹۲، عالمگیری ج ۱ ص ۶)۔

مسئلہ ۱۷  : کسی عضو کے مسح کے بعد جو ہاتھ میں تری باقی رہ جائے گی وہ دوسرے عضو کے مسح کے لئے کافی نہ ہوگی۔ (شامی ج ۱ ص ۹۲، عالمگیری ج ۱ ص ۶)۔

مسئلہ ۱۸  : سر پر بال نہ ہوں تہ جلد کی چوتھائی اور جو بال ہوں تو خاص سر کے بالوں کی چوتھائی کا مسح فرض ہے اور سر کا مسح اسی کو کہتے ہیں۔

مسئلہ ۱۹  : عمامے ٹوپی دوپٹے پر مسح کافی نہیں۔ ہاں اگر ٹوپی دوپٹہ اتنا باریک ہو کہ تری پھٹ کر چوتھائی سر کو تر کر دے تو مسح ہو جائے گا۔ (عالمگیری ج  ص۶)

مسئلہ ۲۰  : سر سے جو بال لٹک رہے ہوں ان پر مسح کرنے سے مسح نہ ہوگا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۶)۔

۴۔پاؤں کو گٹوں سمیت ایک دفعہ دھونا :

مسئلہ ۲۱  : چھلے اور پاؤں کے گہنوں کا وہی حکم ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔

مسئلہ ۲۲  : بعض لوگ کسی بیماری کی وجہ سے پاؤں کے انگوٹھوں میں اس قدر کھینچ کر دھاگا باندھ دیتے ہیں کہ پانی کا بہنا درکنار تاگے کے نیچے تر بھی نہیں ہوتا ان کو اس سے بچنا لازم ہے کہ اس صورت میں وضو نہیں ہوتا۔

مسئلہ ۲۳  :            گھائیاں اور انگلیوں کی کروٹیں تلوے ایریاں کونچیں سب کا دھونا فرض ہے۔

مسئلہ۲۴  :            جن اعضا کا دھونا فرض ہے ان پر پانی بہہ جانا شرط ہے یہ ضروری نہیں کہ قصداً پانی بہائے بلا قصدو اختیار بھی ان پر پانی بہہ جائے (مثلاً بارش برسا اور اعضائے وضو کے ہر حصے سے دو دو قطرے بارش کے بہہ گئے وہ اعضا دُھل گئے اور سر کا چوتھائی حصہ نم ہو گیا۔

مسئلہ ۲۵  :            جس چیز کی آدمی کو عموماً یا خصوصاً ضرورت پڑتی رہتی ہے اور اس کی نگہداشت و احتیاج میں حرج ہو ناخنوں کے اندر یا اوپر اور کسی دھونے کی جگہ پر اس کے لگے رہ جانے سے اگرچہ جسم دار اس کے نیچے نہ پہچے اگرچہ سخت چیز نہ ہو وضو ہو جائے گا جیسے پکانے گوندھے والوں کے لئے آٹا۔ رنگریز کے لئے رنگ کا جرم۔ عورتوں کے لئے مہندی کا جرم۔ لکھنے والوں کے لئے روشنائی کا جرم۔  مزدور کے لئے گارا مٹی۔ عام لوگوں کیلئے کوئے یا پلک میں سرمہ کا جرم۔ اسی طرح بدن کا میلؔ، مٹیؔ، غبارؔ، مکھیؔ، مچھر ؔ کی بیٹ وغیرہا۔

مسئلہ ۲۶  : کسی جگہ چھالا تھا اور وہ سوکھ گیا اس کی کھال جدا نہ ہوئی تو کھال جدا کر کے پانی بہانا ضروری نہیں بلکہ اسی چھالے کی کھال پر پانی بہالینا کانی ہے۔ پھر اس کو جدا کر دیا تو اب بھی اس پر پانی بہانا ضروری نہیں۔

 مسئلہ ۲۷  :            مچھلی کا سِنّا اعضائے وضو پر چپکا رہ گیا وضو نہ ہو گا کہ پانی اس کے نیچے نہ بہے گا۔

وضو کی سنتیں:

مسئلہ  ۲۸  :            و ضو پر ثواب پا لینے کے لئے حکم الٰہی بجا لانے کی نیت سے وضو کرنا ضروری ہے ورنہ وضو ہو جائے گا ثواب نہ پائے گا۔

مسئلہ ۲۹  : بسم اللہ سے شروع کرے اور اگر وضوسے پہلے استنجاء کرے تو قبل استنجے کے بھی بسم اللہ کہے مگر پاخانہ میں جانے یا بدن کھولنے سے پہلے کہے کہ نجاست کی جگہ اور بعد ستر کھولنے کے زبان سے ذکرِ الٰہی منع ہے۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۰۱، عالمگیری ج ۱ ص ۶)۔

مسئلہ ۳۰  :            اور شروع یوں کرے کہ پہلے ہاتھوں کو گٹنوں تک تین تین بار دھوئے ۔(درمختارو شامی ص ۱۰۲، ہندیہ ج ۱ ص ۶)۔

مسئلہ ۳۱  : اگر پانی برتن میں ہو اور کوئی چھوٹا برتن بھی نہیں کہ اس میں پانی انڈیل کر ہاتھ دھوئے تو اسے چاہئے کہ نائیں ہاتھ کی انگلیاں ملا کر صرف تین بار دھوئے پھر داہنے ہاتھ کو جہاں تک دھویا ہے بلا تکلف پانی میں ڈال سکتا ہے اور اس سے پانی نکال کر بایاں ہاتھ دھوئے۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۰۴، ہندیہ ج ۱ ص ۶)۔

مسئلہ ۳۲  :            یہ اس صورت میں ہے کہ ہاتھ میں کوئی نجاست نہ لگی ہو ورنہ کسی طرح ہاتھ ڈالنا جائز نہیں ہاتھ ڈالے گا تو پانی ناپاک ہو جائے گا۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۶)۔

مسئلہ ۳۳  :            اگر چھوٹے برتن میں پانی ہے یا پانی تو بڑے برتن میں ہے مگر وہاں کو چھوٹا برتن بھی موجود ہے اور اس نے بے دھویا یا ہاتھ پانی میں ڈال دیا بلکہ انگلی کا پورا ناخن ڈالا تو وہ سارا پانی وضو کے قابل نہ رہا مائے مستعمل ہو گیا۔

مسئلہ ۳۴  :            یہ اس وقت کی بات ہے جتنا ہاتھ پانی میں پہنچا اس کا کوئی حصہ بے دھلا ہو ورنہ اگر پہلے ہاتھ دھو چکا اور اس کے بعد حدث نہ ہوا تو جس قدرحصہ دھلا ہو ہو اتنا پانی میں ڈالنے سے مستعمل نہ ہو گا اگرچہ کہنی تک ہاتھ دھولیا تو اس کے بعد بغل تک ڈال سکتا ہے کہ اب اس کے ہاتھ پر کوئی حدث باقی نہیں ہاں جنب کہنی سے اوپر اتنا حصہ ڈال سکتا ہے جتنا دھو چکا ہے کہ اس کے سارے بدن پر حدث ہے۔

مسئلہ ۳۵  :            جب سو کر اٹھے تو پہلے ہاتھ دھوئے استنجے کے قبل بھی اور بعد بھی۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۰۲)۔

مسئلہ ۳۶  :            کم سے کم تین تین مرتبہ داہنے بائیں اوپر نیچے کے دانتوں میں مسواک کرے اور ہر مرتبہ مسواک کو دھوئے اور مسواک نہ بہت نرم ہو نہ سخت اور پیلو یا زیتون یا نیم وغیرہ کڑوی لکڑی ہو۔ میوے یا خوشبودار پھول کے درخت کی نہ ہو۔ چھنگلیا کے برابر موٹی اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت لمبی اور اتنی چھوٹی بھی نہ ہو کہ مسواک کرنا دشوار ہو ۔جو مسواک ایک بالشت سے زیادہ ہو اس پر شیطان بیٹھتا ہے ۔ مسواک جب قابلِ استعمال نہ رہے تو اسے دفن کر دیں یا کسی جگہ احتیاط سے رکھ دیں کہ کسی ناپاک جگہ نہ گرے کہ ایک تو وہ آلہء ادائے سنت ہے اس کی تعظیم چاہئے دوسرے آب دہن مسلم ناپاک جگہ ڈالنے سے خود محفوظ رکھنا چاہئے اسی لئے پاخانہ میں تھوکنے کو علماء نے نامناسب لکھا ہے۔ (درمختار وشامی ج ۱ ص ۱۰۶، ۱۰۷)۔

مسئلہ ۳۷  :            مسواک داہنے ہاتھ دے کرے اور اس طرح ہاتھ میں لے کر چھنگلیاں مسواک کے نیچے اور بیچ کی تین انگلیاں اوپر اور انگوٹھا سرے پر نیچے ہو اور مٹھی نہ باندھے۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۰۶)۔

مسئلہ ۳۸  :            دانتوں کی چوڑائی میں مسواک کرے لمبائی میں نہیں۔ چت لیٹ کر مسواک نہ کرے۔ (درمختارو شامی ج ۱ ص ۱۰۷، ہندیہ ج ۱ ص ۷)

مسئلہ ۳۹  : پہلے داہنی جانب کے اوپر کے دانت مانجے پھر بائیں جانب کے اوپر کے دانت پھر داہنی جانب کے نیچے کے پھر بائیں جانب کے نیچے کے ۔ (شامی ج ۱ ص ۱۰۶، ہندیہ ج ۱ ص ۷)۔

مسئلہ ۴۰  :            جب مسواک کرنا ہو تا اسے دھولے یوہین ؔفارغ ہونے کے بعد دھو ڈالے اور زمین پر پڑی نہ چھوڑ دے بلکہ کھڑی رکھے اور ریشہ کی جانب اوپر ہو۔

مسئلہ ۴۱  : اگر مسواک نہ ہو تو انگلی یا سنگین کپڑے سے دانت مانج لے یوہیں اگر دانت نہ ہوں تو انگلی یا کپڑی مسوڑوں پر پھیر لے۔

مسئلہ ۴۲  :            مسواک نماز کے لئے سنت نہیں بلکہ وضو کے لئے ۔ تو جو ایک وضو سے چند نمازیں پڑگے اس سے ہر نماز کے لئے مسواک کا مطالبہ نہیں جب تک تغیر رائمہ منہ میں بدنو نہ ہو ا ہو ورنہ اس کے دفع کے لئے مستقل سنب ہے البتہ اگر وضو میں مسواک نہ کی تھی تو اب نماز کے وقت کر لے۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۰۵)۔

مسئلہ ۴۳  :            پھر تین چُلّو سے پانی سے تین کلیاں کرے کہ ہر بار منہ کے ہر پرزے پر پانی بہہ جائے اور روزہ دار نہ ہو تو غرغرہ کرے۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۰۸)۔

مسئلہ ۴۴  :            پھر تین چُلّو سے تین بار ناک میں پانی چڑھائے کہ جہاں تک نرم گوشت ہوتا ہے ہر بار اس پر پانی بہ جائے اور روزہ دار نہ ہو تو ناک کی جڑ تک پانی پہنچائے اور نہ دونوں کام داہنے ہاتھ سے کرے پھر بائیں ہاتھ سے ناک صاف کرے۔ (شامی ج ۱ ص ۱۰۸)۔

مسئلہ ۴۵  :            منہ دھوتے وقت داڑھی کا خلال کرے بشرطیکہ احرام نہ باندھے ہوں یوں کہ انگلیوں کو گردن کی طرف سے داخل کرے اور سامنے نکالے۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۰۹)۔

مسئلہ ۴۶  :            ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرے پاؤں کی انگلیوں کا خلال بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے کرے اس طرح داہنے پاؤں میں چھنگلیا سے شروع کرے اور انگوٹھے پر ختم کرے اور بائیں پاؤں میں انگوٹھے سے شروع کرکے چھنگلیا پر ختم کرے اور اگر بے خلال کئے پانی انگلیوں کے اندر سے نہ بہتا ہو تو خلا فرض ہے یعنی پانی پہنچانا اگرچہ بے خلال ہو مثلاً گھائیاں کھول کر اوپر سے پانی ڈال دیا یا پاؤں حوض میں ڈال دیا۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۱۰، ہندیہ ج ۱وس ص ۷)۔

مسئلہ ۴۷  :            جو اعضا دھونے کے ہیں  ان کو تین با ر دھوئے ہر مرتبہ اس طرح دھوئے کہ کوئی حصہ نہ رہ جائے ورنہ سنت ادا نہ ہو گی (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۱۰)

                        اگر یوں کیا کہ پہلی مرتبہ کچھ دھل گیا اور دوسری بار کچھ اور تیسری دفعہ کچھ کہ تینوں بار میں پورا عضو دھل گیا تو یہ ایک ہی بار دھونا ہو گا اور وضو ہو جائے گا مگر خلاف سنت۔ اس میں چلوؤں کی گنتی ہے کہ وہ تین مرتبہ ہو اگرچہ کتنے ہی چلوؤں سے ۔ (درمختار ج ۱ ص ۱۱۰)

مسئلہ ۴۸  :            پورے سر کا ایک بار مسح کرنا اور کانوں کا  مسح کرنا اور ترتیب کہ پہلے منہ پھر ہاتھ دھوئیں  پھر سر کا مسح کریں پھر پاؤں دھوئیں اگر خلاف ِترتیب وضو کیا یا کوئی اور سنت چھوڑ گیا تو وضو ہو جائے گا مگر ایک دفعہ ایسا کرنا برا ہے اور ترک سنت موکدہ کی عادت ڈالی تو گنہگار ہے اور داڑھی کے جو بال منہ کے دائرے سے نیچے ہیں انکا مسح سنت ہے اور دھونا مستحب ہے اور اعضا کو اس طرح دھونا کہ پلے والا عضو سوکھنے نہ پائے۔

وضو کے مستحبات :

                        بہت سے مستحبات ضمناً اوپر ذکر ہو چکے بعض باقی رہ گئے وہ لکھے جاتے ہیں۔

مسئلہ ۴۹  :

(۱)                   داہنی جانب سے ابتدا کریں مگر

(۲)                   دونوں رخسارے کہ ان دونوں کی ساتھ ہی ساتھ دھوئیں گے ایسے ہی

(۳)                  دونوں کانوں کی مسح کرنا ساتھ ہی ساتھ ہو گا۔ ہاں اگر کسی کے ایک ہی ہاتھ ہو

(۴)                  منہ دھونے اور

(۵)                  مسح کرنے میں بھی داہنے کو مقدم کرے

(۶)                   انگلیوں کی پشت سے

(۷)                  گردن کا مسح کرنا وضو کرتے وقت

(۸)                  کعبہ رو

(۹)                   اونچی جگہ

(۱۰)                 بیٹھنا۔

(۱۱)                  وضو کا پانی پاک جگہ گرانا اور

(۱۲)                 پانی بہاتے وقت اعضا پر ہاتھ پھیرنا خاص کر جاڑے میں۔

ّ۱۳)                پہلے تیل کی طرح پانی چپیڑ لینا خصوصاً جاڑے میں۔

(۱۴)                 اپنے ہاتھ سے پانی بھرنا۔

 (۱۵)                 دوسرے وقت کے لئے پانی بھر کر رکھ چھوڑنا ۔

(۱۶)                 وضو کرنے میں بغیر ضرورت دوسرے سے مدد نہ لینا۔

(۱۷)                 انگوٹھی کو حرکت دینا جب کہ ڈھیلی ہو کہ اس کے نیچے پانی بہہ جانا معلوم ہو ورنہ فرض ہو گا۔

(۱۸)                 صاحب عذن نہ ہو تو وقت سے پہلے وضو کر لینا۔

(۱۹)                  اطمینان سے وضو کرنا۔ عوام میں جو مشہور ہے کہ وضو جوان کا سا نماز بوڑھوں کی سی یعنی وضو جلد کریں۔ ایسی جلدی نہ چاہئے جس سے کوئی سنت یا مستحب ترک ہو۔

(۲۰)                 کپڑوں کو ٹپکتے قطروں سے محفوظ رکھنا۔

(۲۱)                 کانوں کا مسح کرتے وقت بھیگی چھنگلیا کانوں کے سوراخ میں داخل کرنا

(۲۲)                 جو وضو کامل طور پر کرنا ہو کہ کوئی جگہ باقی نہ رہ جاتی ہو اسے کوؤں، ایڑیوں، تلوؤں، کونچوں، گھائیوں، کہنیوں کابالتخصیص خیال رکھنا مستحب ہے اور بے خیالی کرنے والوں کو تو فرض ہے کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ مواضع خشک رہ جاتے ہیں یہ نتیجہ ان کی بے خیالی کا ہے۔ ایسی بے خیالی حرام ہے اور خیال رکھنا فرض۔

(۲۳)                وضو کا برتن مٹی کا ہو تانبے وغیرہ کا ہو تو بھی حرج نہیں مگر

(۲۴)                قلعی کیا ہوا۔ اگر وضو کا برتن لوٹے کی  قسم سے ہو تو

۲۵)                  بائیں جانب رکھے اور طشت کی قسم سے ہو تو

(۲۶)                 داہنی جانب آفرابہ میں دستہ لگا ہوس تو

(۲۷)                دستہ کو تین بار دھو لیں اور ہاتھ اس کے

(۲۸)                دستہ پر رکھیں اس کے منہ پر نہ رکھیں

(۲۹)                 داہنے ہاتھ سے کلی کرنا ناک میں پانی ڈالنا

(۳۰)                 بائیں ہاتھ سے ناک صاف کرنا

(۳۱)                 ہاتھ سے کی چھنگلیا ناک میں ڈالنا

(۳۲)                پاؤں کو بائیں ہاتھ سے دھونا

(۳۳)                منہ دھوتے میں ماتھے کے سرے پر ایسا پھیلا کر پانی ڈالنا کہ اوپر کا بھی کچھ حصہ دھل جائے۔

تنبیہ:                 بہت سے لوگ یوں کرتے ہیں کہ ناک یا آنکھ یا بھوؤں پر چلّو ڈال کر سارے منہ پر ہاتھ پھیرلیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ منہ دھل گیا حالانکہ پانی کا اوپر چڑھنا کوئی معنی نہیں رکھتا اس طرح دھونے میں منہ نہیں دُھلتا اور وضو نہیں ہوگا

(۳۴)                دونوں ہاتھ منہ دھونا

(۳۵)                ہاتھ پاؤں دھونے میں انگلیوں سے شروع کرنا

(۳۶)                چہرے اور

(۳۷)                ہاتھ پاؤں کی روشنی وسیع کرنا یعنی جتنی جگہ پر پانی بہانا فرض ہے اس کے اطراف میں کچھ بڑھانا مثلاً نصف بازو نصف پنڈلی تک دھونا

(۳۸)                مسح سی میں مستحب طریقہ یہ ہے کہ انگوٹھے اور کلمے کی انگلی کے سوا ایک ہاتھ کی باقی انگلیوں کا سرا دوسرے ہاتھ کی تینوں انگلیوں کے سرے سے ملائے اور پیشانی کے بال یا کھال پر رکھ کر گدی تک اس طرح لے جائے کہ ہتھیلیاں سر سے جدا رہیں وہاں سے ہتھیلیوں سے مسح کرنا واپس لائے اور

(۳۹)                 کلمہ کی انگلی کے پیٹ سے کان کے اندرونی حصہ کا مسح کرے اور

(۴۰)                انگوٹھے کے پیٹ سے کان کی بیرونی سطح کا اور انگلیوں کی پشت سے گردن کا مسح

(۴۱)                 ہر عحو دھو کر اس پر ہاتھ پھیردینا چاہئیے کہ بوندیں بدن یا کپڑے پر نہ ٹپکیں خصوصاً جب مسجد میں جانا ہو کہ قطروں کا مسجد میں ٹپکنا مکروہ تحریمی ہے

(۴۲)                بہت بھاری برتن سے وضو نہ کرے خصوصاً کمزور کہ پانی بے احتیاطی سے گرے گا

(۴۳)                زبان سے یہ کہہ لینا کہ وضو کرتا ہوں

(۴۴)                ہر عضو کے دھونے یا مسح کرتے وقت نیتِ وضو حاضر رہنا اور

(۴۵)                بسم اللہ اور

(۴۶)                درود اور

(۴۷)                اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیْکَ لَہ‘ وَاشْھَدُ اَنَّ سَیَّدَنَا مُحَمَّدًا عَبْدُہ‘ وَ رَسُوْلُہ‘ (صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم)

                        (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ ہماے سردار محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں)ٰ

(۴۸)                کلی کرتے وقت اَللّٰھُمَّ اَعِنِّی عَلٰی تِلاَوَۃِ الْقُرْاٰنِ وَذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ اور

                        (اے اللہ تو میری مدد کر کہ قرآن کی تلاوت اور تیرا ذکر و شکر کروں اور تیری اچھی عبادت کروں)

(۴۹)                 اور ناک میں پانی ڈالتے وقت اَللّٰھُمَّ اَرِحْتِیْ رَائِحۃَ الْجَنَّۃِ وَلاَ تُرِحْنِيْ رَائِحَۃَ النَّار

                        (اے اللہ تو مجھ کو جنت کی خوشبو سُونگھا اور جہنم کی بُو سے بچا)

(۵۰)                اور منہ دھوتے وقت اَللّٰھُمَّ بَیِّضْ یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَ تَسْوَدُّ وَجُوْہٌ

                        (اے اللہ تو میرے چہرے کو اجالا کر جس دن کہ کچھ منہ سفید ہوں گے اور کچھ سیاہ)

(۵۱)                 اور داہنا دھوتے وقت اَللّٰھُمَّ اَعْطِنِي وََکِتَابِی بِیَمِیِْنيِ وَحَاسِبْنِيحِسَابًا یَّسِیْراً

                        (اے اللہ میرا نامۂ اعمال داہنے ہاتھ میں دے اور مجھ سے آسان حساب کرنا)

(۵۲)                اور بایاں ہاتھ دھوتے وقت اَللّٰھُمَّ لاَ تُعْطِنِی کِتَابِیْ بٍشَمَالِیْ وَلاَ مِنْ وَرَائِ ظَھْرِیْ  اور

                        (اے اللہ میرا نامۂ اعمال نہ بائیں ہاتھ میں دے اور نہ پیٹھ کے پیچھے سے)

 (۵۳)                اور سر کا مسح کرتے وقت اَللّٰھُمَّ اَظِلَّنَیْ تَحْتَ عَرْشِکَ یَوْمَ لاَ ظِلَّ الِاَّ ظِلَّ عَرْشِکَ

                        اے اللہ تو مجھے اپنے عرش کے سایہ میں رکھ جس دن تیرے عرش کے             سایہ کے  سوا کہیںسا یہ  نہ ہو گا)

(۵۴)                اور کانوں کو مسح کرتے وقت اَلّٰلھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہ‘ اور

                        (اے اللہ مجھے ان میں کر دے جو بات سنتے ہیں اور اچھی بات پر عمل کرتے ہیں)

(۵۵)                اور گردن کا مسح کرتے وقت اَللّٰھُمَّ اَعْتِقْ رَقْبَتِی مِنْ النَّارِ اور

                        (اے اللہ میری گردن آگ سے آزاد کر دے)

(۵۶)                اور داہنا پاؤں دھوتے وقت اَللّٰھُمَّ ثَبِّتْ قَدَمِیْ عَلَی الِصَّراطِ یَوْمَ تَزِّلُّ الْاَقْدَامُ  اور

                        (اے اللہ میرا قدم پل صراط پر ثابت قدم رکھ جس دن کہ اس پر قدم لغزش کریں گے)

(۵۷)                اور بایاں پاؤں دھوتے وقت اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ ذَنْبِیْ مَغْفُوْراً وَّسَعْيِْ مَشْکُورًا وَّ تِجَارَتِی لَنْ تَبُوْرَ پڑھے یا سب جگہ دُرود شریف ہی پڑھے اور یہی افضل ہے اور

                        (اے اللہ میرے گناہ بخش دے اور میری کوشش بار آور کر دے اور میری تجارت ہلاک نہ ہو)

(۵۸)                وضو سے فارغ ہوتے ہی یہ پڑھے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ اْلمُتَطَھِّریْنَ  اور

                        (الٰہی تو مجھے توبہ کرنے والوں اور پاک لوگوں میں کر دے)

(۵۹)                 اور بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر تھوڑا پی لے کہ شفائے امراض ہے اور

(۶۰)                 آسمان کی طرف منہ کرکے سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَ اَتُوْبُ اِلَیْکَ (تو پاک ہے اے اللہ اور میں تیری حمد کرتا ہوں میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اور تیری طرف توبہ کرتا ہوں) اور کلمہ شہادت اور سورہ اِنَّا اَنْزَلْنَا  پڑھے۔

(۶۱)                 اعضاء بغیر ضرورت نہ پونچھے اور پونچھے تو بے ضرور خشک نہ کرے۔

(۶۲)                 قدرے نمی باقی رہنے دے کہ روزِ قیامت پلہء حسنات میں رکھی جائے گی

(۶۳)                اور ہاتھ نہ جھٹکے کہ شیطان کا پنکھا ہے بعد وضو میانی پر پانی چھڑک لے

(۶۴)                اور مکروہ وقت نہ ہو تو دو رکعت نماز نفل پڑھے اس کو تحیۃ الوضو کہتے ہیں۔ (درمختار و شامی ص ۱۱۵ تا ۱۲۲ ہندیہ ج ۱ ص ۸۔۹)۔

وضو میں مکروہات:

(۱)                   عورت کے غسل یا وضو کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنا۔

(۲)                   وضو کے لئے نجس جگہ بیٹھنا۔

(۳)                  جگہ وضو کا پانی گرانا۔

(۴)                  مسجد کے اندر وضو کرنا۔

(۵)                  اعضائے وضو سے لوٹے وغیرہ میں قطرہ ٹپکانا۔

(۶)                   پانی میں رینٹھ یا کھنکار ڈالنا۔

(۷)                  قبلہ کی طرف گھوک یا کھنکار ڈالنا یا کلی کرنا۔

(۸)                  بے ضرورت دنیا کی بات کرنا۔

(۹)                   زیادہ پانی خرچ کرنا۔

(۱۰)                 اتنا کم خرچ کرنا کہ سنت ادا نہ ہو۔

(۱۱)                  منہ پر پانی مارنا یا

(۱۲)                 منہ پر پانی ڈالتے وقت پھونکنا۔

(۱۳)                 ایک ہاتھ سے منہ دھونا کہ رافضیوں دشمنانِ صحابہ و ہنود کا شعار ہے۔

(۱۴)                 گلے کا مسح کرنا۔

(۱۵)                 بائیں ہاتھ سے کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا۔

(۱۶)                 داہنے ہاتھ سے ناک صاف کرنا۔

(۱۷)                 اپنے لئے کوئی لوٹا وغیرہ خاص کر لینا۔

(۱۸)                 تین جدید پانیوں سے تین بار سر کا مسح کرنا

(۱۹)                  جس کپڑے سے استنجے کا پانی خشک کیا ہو اس سے اعضائے وضو پونچھنا۔

(۲۰)                 دھوپ کے گرم پانی سے وضو کرنا۔ ہونٹ یا آنکھیں زور سے بند کرنا اور اگر کچھ سوکھا رہ جائے تو وضو ہی نہ ہو گا۔ ہر سنت کا ترک مکروہ ہے ہونہی ہر مکروہ کا ترک سنت۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۲۲ تا ۱۲۴)۔

وضو کے متفرق مسائل:

مسئلہ ۴۹  : اگر وضو نہ ہو تو نماز اور سجدہ تلاوت اور نماز جنازہ اور قرآن عظیم چھونے کے لئے وضو کرنا فرض ہے۔

مسئلہ ۵۰ :            طواف لے لئے وضو واجب ہے۔

مسئلہ ۵۱ : غسل جنابت سے پہلے اور جنب (جس پر وضو فرض ہو صحبت کی وجہ سے) کو کھانے، پینے۔، سونے اور اذان و اقامت اور خطبہ جمعی و عیدین اور روضہء مبارکہ رسول اللہ ﷺ کی زیارت اور وقوف عرفہ اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کے لئے وضو کر لینا سنت ہے۔

مسئلہ ۵۲ :            سونے کے لئے اور سونے کے بعد اور میت کے نہلانے یا اٹھانے کے بعد اور جماع سے پہلے اور جب غصہ آجائے اس وقت اور زبانی قرآن عظیم پڑھنے کے لئے اور حدیث اور علمِ دین پڑھنے پڑھانے اور علاسہ جمعہ و عیدین باقی خطبوں کے لئے اور کتب دینیہ چھونے کے لئے اور بعد ستر غلیظ چھونے اور جھوٹ بولنے ، گالی دینے، فحش لفظ نکالنے، کافر سے بدن چھو جائے، صلیب یا بُت چھونے کوڑھی یا سپید داغ والے سے مس کرنے بغل کھجانے سے جب کہ اس میں بدبو ہو، غیبت کرنے، قہقہ لگانے، لغو اشعار پڑھنے اور اونٹ کا گوشت کھانے، کسی عورت کے بدن سے اپنا بدن بے حائل مس ہو جائے سے اور باوضو شخص کے نماز پڑھنے کے لئے ان سب صورتوں میں وضو مستحب ہے۔

مسئلہ ۵۳ :            جب وضو جاتا رہے وضو کرلینا مستحب ہے۔

مسئلہ ۵۴ :            نابالغ پر وضو فرض نہیں مگر ان سے وضو کرانا چاہئے تاکہ عادت ہو اور وضو کرنا آجائے اور مسائل وضو سے آگاہ ہو جائیں۔

مسئلہ ۵۵ :            لوٹے کی ٹونٹی نہ ایسی تنگ ہو کہ پانی بدّقت گرے نہ اتنی فراخ کہ حاجت سے زیادہ گرے کہ متوسط ہو۔

مسئلہ ۵۶ :            چلّو میں پانی لیتے وقت خیال رکھیں کہ پانی نہ گرے کہ اسراف ہو گا۔ ایس ہی جس کام کے لئے چلو میں پانی لیں اس کا اندازہ رکھیں ۔ ضرورت سے زیادہ نہ لیں مثلاً ناک میں پانی ڈالنے کے لئے  آدھا چلّو کافی ہے تو پورا چلّو نہ لے کہ اسراف ہو گا۔

مسئلہ ۵۷ :            ہاتھ پاؤں سینہ پر بال ہوں تو ہڑتال وغیرہ سے صاف کر ڈالے یا ترشوانے نہیں تو پانی زیادہ خرچ ہو گا۔

فائدہ :                 لہان ایک شیطان کا نام ہے جو وضو میں وسوسہ ڈالتا ہے اس کے  وسوسہ سے بچنے کے لئے  بہتیرین تدابیر یہ ہیں:۔

(۱)                   رجوع الیٰ اللّٰہ

(۲)                   وَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ وَلاَ حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ

(۳)                  سورہ ناس

(۴)                  اٰمَنْتُ بِاللّٰہ وَ رَسُوْلِہِ

(۵)                  ھُوَاْلاَوَّلُ وَاْلاَخِرُ وَالْظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ وَھُوَ بِکُلِ شَیْئٍ عَلِیْمٍ

(۶)                   سُبْحَانَ الْملَکِ الْخَلَّاقِ اِنْ یَّشأ یُذْہِبْکُمْ وَیَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ ط

(۷)                  وسوسہ کا بالکل خیال نہ کرنا بلکہ اس کے خلاف کرنا بھی دافعِ وسوسہ ہے۔

ماخوذ از:
بہار شریعت، جلد1مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button