بہار شریعت

تیمم کے متعلق احادیث اور مسائل

بہار شریعت جلد اول کے باب تیمم کے متعلق احادیث اور مسائل کا تفصیلی مطالعہ

تیمم کے متعلق احادیث اور مسائل

 اللہ عزّوجل ارشاد فرماتا ہے:

                        و َاِنْ کُنْتُمْ مَرضٰی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِنَ الْغَائِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْامَآئً فَتَیَمَّمُوْاصَعِیْدًاطَیِّبًا فَامْسَحُوابِوُجُوْھِکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ            

متعلقہ مضامین

                        (یعنی اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں کوئی پاخانہ سے آیا یا عورتوں سے مباشرت کی (جماع کیا) اور پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو تو اپنے منہ اور ہاتھوں کا اس سے مسح کرو)۔

حدیث  ۱: صحیح بخاری میں بروایت اُم المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما مروی: فرماتی ہیں، کہ ہم رسول اللہ ﷺ ے ساتھ ایک سفر مین گئے یہاں تک کہ جب بیدا یا ذات الجیش میں ہوئے۔ میری ہیکل ٹوٹ گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی تلاش کے لئے اقامت فرمائی اور لوگوں نے بھی حضور کے ساتھ اقامت کی اور نہ وہاں پانی تھا نہ لوگوں کے ساتھ پانی تھا ۔ لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آ کر عرض کی کیا آپ نہیں دیکھتے کہ صدیقہ نے کیا کیا حضور کو اور سب کو ٹھرا لیا اورنہ یہاں پانی ہے نہ لوگوں کے ہمراہ ہے۔ فرماتی ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور حضور اپناسر مبارک میرے زانو پر رکھ کر آرام فرمارہے تھے اور فرمایا تو نے رسول اللہ ﷺ اور لوگوں کو روک لیا۔ حالانکہ نہ یہاں پانی ہے نہ لوگوں کے ہمراہ ہے۔ اُم المومنین فرماتی ہیں کہ مجھ پر عتاب کیا اور جو چاہا اللہ نے انہوں نے کہا اور اپنے ساتھ سے میری کوکھ میں کونچنا شروع کیا اور مجھے حرکت کرنے سے کوئی چیز مانع نہ تھی مگر حضور کا میرے زانو پر آرام فرمانا تو جب صبح ہوئی ایسی جگہ جہاں پانی نہ تھا حضور اٹھے اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی اور لوگوں نے تیمم کیا اس پر اُسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اے اُل ابوبکر یہ تمہاری پہلی برکت نہیں (یعنی ایسی برکتیں تم سے ہوتی ہی رہتی ہیں) فرماتی ہیں جب میری سواری کا اونٹ اٹایا گیا وہ ہیکل اس کے نیچے سے ملی۔

حدیث  ۲:            مسلم شریف میں بروایت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی: حضور اقدس ﷺ ارشاد فرماتے ہیں منجملہ ان باتوں کے جن سے ہم کو لوگوں پر فضیلت دی گئی یہ تین باتیں ہیں۔

                          (۱)       صفیں ملائکہ کی صفوں کی مثل کی گئیں اور

                        (۲)       ہمارے لئے تمام زمین کو مسجد کر دی گئی اور                                  (۳)      جب ہم پانی نہ پائیں زمین کی خاک ہمارے لئے پاک کرنے والی بنائی          گئی ہے۔

حدیث  ۳:            امام احمد ابو داؤد رترمذی ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی: حضور سیّد عالم ﷺ نے فرمایا کہ پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے اگرچہ دس (۱۰) برس پانی نہ پائے اور جب پانی پائے تو اپنے بدن کو پہنچائے (غسل و وضو کرے) کہ یہ اس کے لئے بہتر ہے۔

حدیث  ۴:            ابو داؤد دارمی نے ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی فرماتے ہیں ۔ دو شخص سفر میں گئے اور نماز کا وقت آیا ان کے ساتھ پانی نہ تھا۔ پاک مٹی پر تیمم کرکے نماز پڑھ لی پھر وقت کے اندر پانی مل گیا ان میں ایک صاحب نے وضو کر کے نماز کا اعادہ کیا اور دوسرے نے اعادہ نہ کیا پھر جب خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اس کا ذکر کیا تو جس نے اعادہ نہ کیا تھا اس سے فرمایا کہ تو سنت کو پہنچا اور تیری نماز ہو گئی اور جس نے وضو کرکے اعادہ کیا اس سے فرمایا تجھے دونا ثواب ہے۔

حدیث  ۵:            صحیح بخاری و صحیح مسلم مین عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی: فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے حضور نے نماز پڑھائی جب نماز سے فارغ ہوئے ملاحظہ فرمایا کہ ایک شخص لوگوں سے الگ بیٹھا ہوا ہے جس نے قوم کے ساتھ نماز نہ پڑھی ۔ فرمایا اے شخص تجھے قوم کے ساتھ نماز پڑھنے سے کیا شے مانع آئی۔ عرض کی مجھے نہانے کی حاجت ہے اور پانی نہیں ہے۔ ارشاد فرمایا، مٹی کولے وہ تجھے کافی ہے۔

حدیث  ۶:            صحیحین میں ابو جہیم بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی : نبی ﷺ بیر جمل کی جانب سے تشریف لا رہے تھے ایک شخص نے حضور کو سلام کیا اس کا جواب نہ دیا یہاں تک کہ ایک دیوا کی جانب متوجہ ہوئے اور منہ اور ہاتھوں کا مسح فرمایا پھر اس کے سلام کا جواب دیا۔

 تیمم کے مسائل:

مسئلہ  ۱ :   جس کا وضو نہ ہو یا نہانے کی ضرورت ہو اور پانی پر قدرت نہ رکھتا ہو تو وضو و غسل کی جگہ تیمم کرے۔ پانی پر قدرت نہ ہونے کی چند صورتیں ہیں:۔     (۱)       ایسی بیماری ہو کہ وضو یا غسل سے اس کے زیادہ ہونے یا دیر میں                       اچھا ہونے کا صحیح اندیشہ ہو خواہ یوں کہ اس نے خود آزمایا ہو کہ                   جب وضو یا غسل کرتا ہے تو بیماری بڑھتی ہے یا کوں کہ کسی                مسلمان اچھے لائق حکیم نے جو ظاہراً فاسق نہ ہو کہہ دیا ہو کہ پانی                  نقصان کرے گا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۸)۔

مسئلہ  ۲ :  محض خیال ہی خیال بیماری بڑھنے کا ہو تو تیمم جائز نہیں۔ یوں ہی کافر یا فاسسق یا معمولی طبیب کے کہنے کا اعتبار نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۸)۔

مسئلہ  ۳ :  اور اگر پانی بیماری کو نقصان نہیں کرتا مگر وضو یا غسل کے لئے حرکت ضرر کرتی ہو یا خود وضو نہیں کر سکتا اور کوئی ایسا بھی نہیں جو وضو کرا دے تو بھی تیمم کرے یونہی کسی کے ہاتھ پھٹ گئے کہ خود وضو نہیں کر سکتا اور جوئی ایسا بھی نہیں جو وضو کرا دے تو تیمم کرے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۸)۔

مسئلہ  ۴ :  بے وضو کے اکثر اعضائے وضو میں یا جنب کے اکثر بدن میں زخم ہو یا چچک نکلی ہو تو تیمم کرے ورنہ جو حصہمسح کرے اور مسح بھی ضرور کرے تو اس عضو پر کپڑا ڈال کر اس پر مسح کرے (عالمگیری ج ۱ ص ۲۸)۔

مسئلہ  ۵ :  بیماری میں اگر ٹھنڈا پانی نقصان کرتا ہے اور گرم پانی نقصان نہ کرے تو گرم پانی سے وضو اور غسل ضروری ہے تیمم جائز نہیں۔ ہاں اگر ایسی جگہ ہو کہ گرم پانی نہ مل سکے تو تیمم کرے یونہی اگر ٹھنڈے وقت میں وضو یا غسل نقصان کرتا ہے اور گرم وقت میں نہیں تو ٹھنڈے وقت تیمم کرے پھر جب گرم وقت آئے تو آئندہ نماز کے لئے وضو کرلینا چاہیے جو نماز اس تیمم سے پڑھ لی اس کے اعادہ کی ضروت نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۸)۔

مسئلہ  ۶ :  اگر سر پر پانی نقصان کرتا ہے تو گلے سے نہائے اور پورے سر کا مسح کرے۔

                        (۲)       وہاں چاروں طرف ایک ایک میل تک پانی کا پتہ نہیں۔

مسئلہ  ۷ :  اگر یہ گمان ہو کہ ایک میل کے اندر پانی ہو گا تلاش کر لینا ضروری ہے۔ بلا تلاش کئے تیمم جائز نہیں پھر بغیر تلاش کے تیمم کر کے نماز پڑھ لی اور تلاش کرنے پر پانی مل گیا تو وضو کرکے نماز کا اعادہ لازم ہے اور اگر نہ ملا تو ہو گئی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۹)۔

مسئلہ  ۸ :  اگر غالب گمان یہ ہے کہ میل کے اندر پانی نہیں ہے تو تلاش کرنا ضروری ہے پھر اگر تیمم کرکے نماز پڑھ لی اور تلاش نہ کیا نہ کوئی ایسا ہے جس سے پُوچھے اور بعد کو معلوم ہوا کہ پانی یہاں سے قریب ہے تو نماز کا اعادہ نہیں مگر یہ تیمم اب جاتا رہا اور اگر کوئی ہواں تھا مگر اس نے پوچھا نہیں اور بعد کو معلوم ہوا کہ پانی قریب ہے تو اعادہ چاہیے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۹)۔

مسئلہ  ۹ :   اور اگر قریب یں پانی ہونے اور نہ ہونے کسی کا گمان نہیں تو تلاش کرلینا مستحب ہے اور بغیر تلاش کئے تیمم کرکے نماز پڑھ لی ہو گئی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۹)۔

مسئلہ  ۱۰ : ساتھ میں زم زم شریف ہے جو لوگوں کے لئے تبرکاً لیے جا رہا ہے یا بیمار کو پلانے کے لئے اور ا تنا ہے کہ وضو ہو جائے گا تو تیمم جائز نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۱)۔

مسئلہ  ۱۱:  اگر چاہے کہ زمزم شریف سے وضونہ کرے اور تیمم جائز ہو جائے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو جس پر بھروسہ ہو کہ دے دے گا وہ پانی ہبہ کر دے اور اس کا کچھ بدلہ ٹھرائے تو اب تیمم جائز ہو جائے گا۔

مسئلہ  ۱۲ : جو نہ آبادی میں ہو نہ آبادی کے قریب اور اس کے ہمراہ پانی موجود ہے اور یاد نہ رہا اور تیمم کرکے نماز پڑھ لی ہو گئی اور اگر آبادی یا آبادی کے قریب میں ہو تو اعادہ کرے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۹)۔

مسئلہ  ۱۳ : اگر اپنے ساتھی کے پاس پانی ہے اور یہ گمان ہے کہ مانگے سے دے دے گا تو مانگنے سے پہلے تیمم جائز نہیں پھر اگر نہیں مانگا اور تیمم کرکے نماز پڑھ لی اور بعد نماز مانگا اس نے دے دیا یا بے مانگے اس نے خود دے دیا تو وضو کرکے نماز کا اعادہ ہ لازم ہے اور اگر مانگا اور نہ دیا تو نماز ہو گئی اور اگر بعد کو بھی نہ مانگا جس سے دینے نہ دینے کا حال کُھلتا اور نہ اس نے خود دیا تو نماز ہو گئی اور اگر دینے کاگمان غالب نہیں اور تیمم کر کے نماز پڑھ لی جب بھی یہی صورتوں ہیں کہ بعد کو پانی دے دیا تو وضو کرکے نماز کا اعادہ کرے ورنہ ہو گئی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۹)۔

مسئلہ  ۱۴ : نماز پڑھتے میں کسی کے پاس پانی دیکھا اور گمان غالب ہے کہ دے دیگا تو چاہیے کہ نماز توڑ دے اور اس سے پانی مانگے اور اگر نہیں مانگا اور پوری کرلی اب اس نے خود یا اس کے مانگنے پر دے دیا تو اعادہ لازم ہے اور نہ دے تو ہو گئی اور اگر دینے کا گمان نہ تھا اور نماز کے بعد اس نے خود دے دیا یا مانگنے سے سے دیا جب بھی اعادہ کرے اور اگر اس نے خود نہ دیا یا نہ اس نے مانگا کہ حال معلوم ہوتا تو نماز ہو گئی اور اگر نماز پڑھتے ہیں تو اس نے خود کہا کہ پانی لو وضو کر لو اور کہنے والا مسلمان ہے تو نماز جاتی رہی توڑ دینا فرض ہے اور کہنے والا کافر ہے تو نہ توڑے پھر نماز کے بعد اگر اس نے پانی دے دیا تو وضو کرکے اعادہ کرلے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۹)۔

مسئلہ  ۱۵ : اور اگر یہ گمان ہے کہ میل کے اندر تو پانی نہیں مگر ایک میل سے کچھ فاصلہ پر مل جائے گا تو مستحب ہے کہ نماز کے آخر وقت مستحت تک تاخیر کرے یعنی عصر و مغرب و عشاء میں اتنی دیر نہ کرے کہ وقتِ کراہت آجائے ۔ اگر تاخیر نہ کی اور تیمم کرکے پڑھ لی تو ہو گئی۔

                        (۳)      اتنی سردی ہو کہ نہانے کے بعد مر جانے یا بیمار ہونے قوی اندیشہ                     ہو اور لحاف وغیرہ کوئی ایسی چیز اس کے پانی نہیں جسے نہانے کے               بعد اوڑھے اور سردی کے ضرر سے بچے نہ آگ ہے جسے تاپ سکے                   تو تیمم جائز ہے۔

                        (۴)      دشمن کا خوف کہ اگر اس نے دیکھ لیا تو مار ڈالے گا یا مال چھین لے                     گا یا اس غریب نادار کا قرض خواہ ہے کہ اسے قید کر ادے گا یا اس               طرف سانپ ہے وہ کاٹ کھائے گا یا شیر ہے کہ پھاڑ کھائے گا یا کوئی      بدکار شخص ہے اور یہ عورت ہے یا مرد ہے جسے اپنی بے آبروئی کا             گمان صحیح ہے تیمم جائز ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۸)۔

مسئلہ  ۱۶ : اگر ایسا دشمن ہے کہ ویسے اس سے کچھ نہ بولے مگر کہتا ہے کہ وضو کے لئے پانی لو گے تو مار ڈالوں گا یا قید کرادوں گا یاتو اس صورت میں حکم یہ ہے کہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے پھر جب موقع ملے تو وضو کرکے اعادہ کر لے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۸)۔

مسئلہ  ۱۷ : قیدی کو قید خانے والے وضو نہ کرنے دیں تو تیمم کرکے پڑھ لے اور اعادہ کرے اور اگر وہ دشمن یا قید خانہ والے نماز بھی نہ پڑھنے دیں تو اشارہ سے پڑھے پھر اعادہ کرے۔

                         (۵)      جنگل میں ڈول رسی نہیں کہ پانی بھرے تو تیمم جائز ہے۔                   (عالمگیری ج ۱ ص ۲۸)۔

مسئلہ  ۱۸ : اگر ہمراہی کے پاس ڈول رسّی ہے وہ کہتا ہے کہ ٹہر جا میں پانی بھر کر فارغ ہو کر تجھے دوں تو مستحب ہے کہ انتظار کرے اور اگر انتظار نہ کیا اور تیمم کرکے پڑھ لی ہو گئی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۸)۔

مسئلہ  ۱۹ : رسّی چھوٹی ہے کہ پانی تک نہیں پہنچتی مگر اس کے پاس کوئی کپڑا (رومال، عمامہ، دوپٹہ وغیرہ) ایسا ہے کہ اس کے جوڑنے سے پانی مل جائے گا تو تیمم جائز نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۸)۔

                        (۶)       پیاس کا خوف یعنی اس کے پاس پانی ہے مگر وضو یا غسل صرف میں                    لائے تو خود یا دوسرا مسلمان یا اپنا اس کا جانور اگرچہ وہ کتّا جس کا پالنا              جائز ہے پیاسا رہ جائے گا اور اپنی یا ان میں سے کسی کی پیاس خواہ فی                    الحال موجود ہو یا آئندہ اس کا صحیح اندیشہ ہو کہ وہ راہ ایسی ہے کہ                   وہاں تک پانی کا پتہ نہیں تو تیمم جائز ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص                ۲۸)۔

مسئلہ  ۲۰ : پانی موجود ہے مگر آٹا گوندھنے کی ضرورت ہے جب بھی تیمم جائز ہے شوربے کی بے ضرورت کیلئے جائز نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۸)۔

مسئلہ  ۲۱ : بدن یا کپڑا اس قدر نجس ہے جو مانع جواز نماز ہے اور پانی صرف اتنا ہے کہ چاہے وضو کرے یا اُس کا پاک کرلے دونوں کام نہیں ہو سکتے تو پانی سے اس کو پاک کرلے پھر تیمم کرے اور اگر پہلے تیمم کر لیا اس کے بعد پاک کیا تو اب پھر تیمم کرے کہ پہلا تیمم نہ ہوا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۹)۔

مسئلہ  ۲۲ : مسافر کو راہ میں کہیں رکھا ہوا پانی ملا تو اگر کوئی وہاں ہے تو اس سے دریافت کرلے اگر وہ کہے کہ صرف پینے کے لئے ہے تو تیمم کرے وضو جائز نہیں کتنا ہی ہو اور اگر اس نے کہا کہ پینے کے لئے بھی ہے اور وضو کے لئے بھی تو تیمم جائز نہیں اور اگر کوئی ایسا نہیں جو بتا سکے اور پانی تھوڑا ہو تو تیمم کرے اور زیادہ ہو تو وضو کر ے۔

                        (۷)      پانی گراں ہونا یعنی وہاں کے حساب سے جو قیمت ہونی چاہئیے اس                      سے دو چند مانگنا ہے تو تیمم جائز ہے اور اگر قیمت میں اتنا فرق نہیں                 تو تیمم جائز نہیں ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۹)۔

مسئلہ  ۲۳ :            پانی مول ملتا ہے اور اس کے پاس حاجتِ ضروریہ سے زیادہ دام نہیں تو تیمم جائز ہے۔

                        (۸)      یہ گمان کہ پانی تلاش کرنے میں قافلہ نظروں سے غائب ہو جائے                    گا یا ریل چھوٹ جائے گی۔ اور

                        (۹)       یہ گمان کہ وضو یا غسل کرنے میں عیدین کی نماز جاتی رہے گی خواہ                   یوں کہ امام پڑھ کر فارغ ہو جائے گا یا زوال کا وقت آجائے گا دونوں             صورتوں میں تیمم جائز ہے۔

مسئلہ  ۲۴ :            وضو کرکے عیدین کی نماز پڑھ رہا تھا اثنائے نماز میں بے وضو ہو گیا اور وضو کرے گا تو وقت جاتا رہے گا یا جماعت ہو چکے گی تو تیمم کرکے نماز پڑھ لے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۱)۔

مسئلہ  ۲۵ :            گہن کی نماز کے لئے بھی تیمم جائز ہے جب کہ وضو کرنے میں گہن کھل جائے یا جماعت ہو جائے کا اندیشہ ہو۔

مسئلہ  ۲۶ : وضو میں مشغول ہو گا تو ظہر یا مغرب یا عشاء یا جمعہ کی پچھلی سُنّتوں کا یا نماز کا یا نماز چاشت کا وقت جاتا رہے گا تو تیمم کرکے پڑھ لے۔

(۱۰)     غیر ولی کو نماز جنازہ فوت ہو جانے کا خوف ہو تو تیمم جائز ہے ولی کو نہیں کہ اس کا لوگ انتطار کریں گے اور لوگ بے اس کی اجازت کے پڑھ بھی لیں تو یہ دوبارہ پڑھ سکتا ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۱)۔

مسئلہ  ۲۷ :            ولی جس کو نماز پڑھانے کی اجازت دی ہو اسے تیمم جائز نہیں اور ولی کو اس صورت میں اگر نماز فوت ہو جائے کا خوف ہو تو تیمم جائز ہے یونہی اگر دوسرا ولی اس سے بڑھ کر موجود ہے تو اس کے لئے تیمم جائز ہے۔ خوف فوت ہونے کے معنی یہ ہیں کہ چاروں تکبیریں جاتی رہنے کا اندیشہ ہو اور اگر یہ معلوم ہو کہ ایک تکبیر بھی مل جائے گی تو تیمم جائز نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۱)۔

مسئلہ  ۲۸ :            ایک جنازہ کے لئے تیمم کیا اور نماز پڑھی پھر دوسرا جنازہ آیا اگر درمیان میں اتنا وقت ملا کہ وضو کرتا تو کر لیتا مگر نہ کیا اور اب وضو کرے تو نماز ہو چکے گی تو اس کے لئے اب دوبارہ تیمم کرے اور اگر اتنا وقفہ نہ ہو وضو کر سکے تو وہی پہلا تیمم کافی ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۱)۔

مسئلہ  ۲۹ : سلام کا جواب دینے یا درود شریف وغیرہ وظائف پڑھنے یا سونے یا بے وضو مسجد میں جانے یا زبانی قرآن پڑھنے کے لئے تیمم جائز ہے اگرچہ پانی پر قدرت ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۶)۔

مسئلہ  ۳۰ :            جس پر نہانا فرض ہے اسے بغیر ضرورت مسجد میں جائے کے لئے تیمم جائز نہیں ہاں اگر مجبوری ہو جیسے ڈول رسّی مسجد میں ہو اور کوئی ایسا نہیں جو لا دے تو تیمم کر کے جائے اور جلد سے جلد لے کر نکل آئے۔

مسئلہ  ۳۱ : مسجد میں سویا تھا اور نہانے کی ضرورت پڑگئی تو آنکھ کھلتے ہی جہاں سویا تھا وہیں فوراً تیمم کر کے نکل آئے تاخیرحرام ہے۔

مسئلہ  ۳۲ :            قرآن مجید چھونے کے لئے یا سجدہ تلاوت یا سجدہ شکر کے لئے تیمم جائز نہیںجب کہ پانی پر قدرت ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۶)۔

مسئلہ  ۳۳ :            وقت اتنا تنگ ہو گیا کہ وضو یا غسل کرے گا تو نماز قضا ہو جائے گی تو چاہیے کہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے پھر وضو یا غسل کر کے اعادہ کرنا لازم ہے۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۳۱)۔

مسئلہ  ۳۴ :            عورت حیض و نفاس سے پاک ہوئی اور پانی پر قادر نہیں تو تیمم کرے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۰)۔

مسئلہ  ۳۵ :            مُردے کواگر غسل نہ دے سکیں خواہ اس وجہ سے کہ پانی نہیں یا ااس وجہ سے کہ اُس کے بدن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ج یسے اجنبی عورت یا اپنی عورت کہ مرنے کے بعد اسے چھو نہیں سکتا تو اسے تیمم کرایا جائے غیر محرم کو اگرچہ شوہر عورت کو تیمم کرانے میں کپڑا حائل ہونا چاہئیے۔

مسئلہ  ۳۶ :            جنب اور حائض اور میّت اور بے وضو یہ سے ایک جگہ ہیں اور کسی نے اتنا پانی جو غسل کے لئے کافی ہے لاکر کہا جو چاہے خرچ کرے تو بہتر یہ ہے کہ جنب اس سے نہائے اور مردے کو تیمم کرایا جائے اور دوسرے بھی تیمم کریں اور اگر کہا کہ اس میں تم سب کا حصہ ہے اور ہر ایک کو اس میں اتنا حصہ ملا جو اس کے کام کے لئے پورا نہیں تو چاہیے کہ مُردے کے غسل کے لئے اپنا حصہ دے دیں اور سب تیمم کریں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۰)۔

مسئلہ  ۳۷ :            دو شخص بیٹے اور باپ ہیں اور کسی نے اتنا پانی دیا کہ اس سے ایک کا وضو ہو سکتا ہے تو وہ پانی باپ کے صرف میں آنا چاہیے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۰)۔

مسئلہ  ۳۸ :            اگر کوئی ایسی جگہ ہے نہ نہ پانی ملتا ہے نہ پاک مٹی کہ تیمم کرے تو اسے چاہیے کہ وقت نماز میں نماز کی سی صورت بنائے یعنی تمام حرکات نماز بلا نیت نماز بجا لائے۔

مسئلہ  ۳۹ : کوئی ایسا ہے کہ وضو کرتا تو پیشاب کے قطرے ٹپکتے ہیں اور تیمم کرے تو نہیں تو اسے لازم ہے کہ تیمم کرے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۱)۔

مسئلہ  ۴۰ :            اتنا پانی ملا جس سے وضو ہو سکتا ہے اور اسے نہانے کی ضرورت ہے تو اس پانی سے وضو کر لینا چاہیے اور غسل کے لئے تیمم کرے۔

مسئلہ  ۴۱ : تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ کی انگلیاں کشادہ کر کے کسی ایسی چیز جو زمین کی قسم سے ہو مار کر لوٹ لیں اور زیادہ گرد لگ جائے تو جھاڑ لیں اور اس سے سارے منہ کا مسح کریں پھر دوسری مرتبہ یونہی کریں اور دونوں ہاتھوں کا ناخن سے کہینوں سمیت مسح کر یں۔

مسئلہ  ۴۲ :            وضو اور غسل کا دونوں کا تیمم ایک ہی طرح ہے۔ (عالمگیری ص ۲۶)۔

مسئلہ  ۴۳ :            تیمم میں تین فرض ہیں:۔                                                                  (۱)        نیّت: اگر کسی نے ہاتھ مٹی پر مار کر اور ہاتھ منہ پر پھیر لیا اور                        نیت نہ کی تو تیمم نہ ہو گا۔

مسئلہ  ۴۴ :            کافر نے اسلام لانے کے لئے تیمم کیا اس سے نماز جائز نہیں کہ وہ اس وقت نیت کا اہل نہ تھا بلکہ اگر قدرت پانی پر نہ ہو تو سِرے سے تیمم کرے۔ (عالمگیری ج ۱ س ۲۶)۔

مسئلہ  ۴۵ :            نماز اس تیمم سے جائز ہو گی جو پاک ہونے کی نیت یا کسی ایسی عبادت مقصود کے لئے کیا گیا ہے جو بلاطہارت جائز نہ ہو تو اگر مسجد میں جانے یا نکلنے یا قرآن مجید چھونے یا اذان و اقامت (یہ سب عبادتیں مقصود نہیں) یا سلام کرنے یا سلام کا جواب دینے یا زیارت قبُور یا دفن میت یا بے وضو نے قرآن مجید پڑھنے کے لئے تیمم کیا (ان سب کے لئے طہارت شرط نہیں) ہو تو اس سے نماز جائز نہیںن بلکہ جس کے لئے کیا گیا ہے اس کے سوا کوئی عبادت بھی جائز نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۶)۔

مسئلہ  ۴۶ :            جنب نے قرآن مجید پڑھنے کے لئے تیمم کیا ہو تو اس سے نماز پڑھ سکتا ہے سجدہ شکر کی نیت سے جو تیمم کیا ہو اس سے نماز نہ ہو گی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۶)۔

مسئلہ  ۴۷ :            دوسرے کو تیمم کا طریقہ بتانے کے لئے جو تیمم کیا اس سے بھی نماز جائز نہیں ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۲۶)۔

مسئلہ  ۴۸ :            نماز جنازہ یا  عیدین یا سنتوں کے لئے اس غرض سے تیمم کیا ہو کہ وضو میں مشغول ہو گا تو نہ نمازیں فوت ہو جائیں گی تو اس تیمم سے اس خاص نماز کے سوا کوئی دوسری نماز جائز نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۱)۔

مسئلہ  ۴۹ : نماز جنازہ یا عیدین کے لئے تیمم اس وجہ سے کیا کہ بیمار تھا یا پانی موجود نہ تھا تو اس سے نماز فرض اور دیگر عبادتیں سب جائز ہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۶)۔

مسئلہ ۵۰ :            سجدہ تلاوت کے تیمم سے بھی نمازیں جائز ہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۶)۔

مسئلہ ۵۱ : جس پر نہانا فرض ہے اسے یہ ضرر نہیں کہ غسل اور وضو دونوں کے لئے تیمم بلکہ ایک ہی دونوں کی نیت کرلے دونوں ہو جائیں گے اور اگر صرف غسل یا وضو کی نیت کی جب بھی کافی ہے۔(عالمگیری ج ۱ ص ۲۶)۔

مسئلہ ۵۲ :            بیمار یا بے دست و پا اپنے آپ تیمم نہیں کر سکتا تو اسے کوئی دوسرا شخص تیمم کرا دے اور اس وقت تیمم کرانے کی نیت کا اعتبار نہیں بلکہ اس کی نیت چاہئے جسے کرایا جارہا ہے۔(عالمگیری ج ۱ ص ۲۶)۔                            (۲) سارے منہ پر ہاتھ پھیرنا اس طرح کہ کہ کوئی حصہ باقی نہ رہ جائے اگر بال برابر بھی جگہ رہ گئی تو تیمم نہ ہوا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۶)۔

مسئلہ ۵۳ :            ڈارھی اور مونچھوں اور بھوؤں کے بالوں پر ہاتھ پھیرا جانا ضروری ہے۔ منہ کہاں سے کہاں تک ہے اس کو ہم نے وضو میں بیان کر دیا بھوؤں کے نیچے اور آنکھوں کے اوپر جو جگہ ہے اور ناک کے حصہ زیریں کا خیال رکھیں اگر خیال نہ رکھیں گے تو ان پر ہاتھ نہ پھیرے گا اور تیمم نہ ہو گا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۶)۔

 مسئلہ ۵۴ :            عورت ناک میں پھول پہنے ہو تو نکال دے ورنہ پھول کی جگہ باقی رہ جائے گی اور نتھ پہنے ہو جب بھی خیال رکھے کہ نتھ کی وجہ سے کوئی جگہ باقی تو نہیں رہی۔

مسئلہ ۵۵ :            نتھنوں کے اندر مسح کرنا کچھ درکار نہیں۔

مسئلہ ۵۶ :            ہونٹ کا وہ حصہ جو عادۃً منہ بند ہونے کی حالت میں دکھائی دیتا ہے اس پر بھی مسح ہو جانا ضروری ہے تو اگر کسی نے ہاتھ پھیرتے وقت ہونٹوں کو زور سے دبالیا کہ کچھ حصہ باقی رہ گیا تیمم نہ ہوا۔ یونہی اگر زور سے آنکھیں بند کرلیں جب بھی تیمم نہ ہو گا۔

مسئلہ ۵۷ :            مونچھ کے بال اتنے بڑھ گئے کہ ہونٹ چھپ گیا تو ان بالوں کو اٹھا کر ہونٹ پر ہاتھ پھیرے، بالوں پر ہاتھ پھیرنا کافی نہیں۔                                    (۳) دونوں ہاتھ کا کہینوں سمیت مسح کرنا اس میںبھی یہ خیال رکھے کہ ذرّہ برابر باقی نہ رہے ورنہ تیمم نہ ہو گا۔

مسئلہ ۵۸ :            انگوٹھی چھلّے پہنے ہو تو انہیں اتار کر ان کے نیچے ہاتھ پھیرنا فرض ہے۔ عورتوں کو اس میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ کنگن چوڑیاں جتنے زیور ہاتھ میں پہنے ہو سب کو ہٹا کر یا اتار کر جلد کے ہر حصہ پر ہاتھ پہنچائے اس کی احیتاطیں وضو سے بڑھ کی ہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۶)۔

مسئلہ ۵۹ : تیمم میں سر اور پاؤں کا مسح نہیں۔

مسئلہ ۶۰ : ایک ہی مرتبہ ہاتھ مار کر منہ اور ہاتھوں کا مسح کر لیا تیمم نہ ہوا ہاں اگر ایک ہاتس سے سارے منہ کا مسح کر کیا اور دوسرے سے ایک ہاتھ کا اور ایک ہاتھ جو بچ رہا اُس کے لئے پھر ہاتھ مارا اور اس پر مسح کر یا تو تو گیا مگر خلاف سنت ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۶)۔

مسئلہ ۶۱ : جس کے دونوں ہاتھ یا ایک نیچے سے کٹا ہو تو کہینوں تک باقی رہ گیا اس پر مسح کرے اور اگر کہینوں سے اوپر تک کٹ گیا تو اسے بقیہ ہاتھ پر مسح کرنے کی ضرورت نہیں پھر بھی اگر اس جگہ پر جہاں سے کٹ گیا ہے مسح کرلے تو بہتر ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۶)۔

مسئلہ ۶۲ : کوئی لنجھا ہے یا اس کے دونوں ہاتھ کٹے ہیں اور کوئی ایسا نہیں جو اسے تیمم کرادے تو وہ اپنے ہاتھ اور رخسار جہان تک ممکن ہو زمین یا دیوار سے مس کرے اور نماز پڑھے مگر وہ ایسی حالت میں امامت نہیں کر سکتا ہاں اس جیسا کوئی اور بھی ہے تو اس کی امامت کر سکتا ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۶)۔

مسئلہ ۶۳ :            تیمم کے ارادے سے زمین پر لوٹا اور منہ اور ہاتھ پر جہاں تک ضرورت ہے ہر ذرّہ پر گرد لگ گئی تو ہو گیا ورنہ نہیں اور اس صورت میں منہ اور ہاتھوں پر ہاتھ پھیر لینا چاہیئے۔ (عالمگیری ج ۲ ص ۲۶)۔

تیمم کی سنتیں :

(۱)                   بسم اللہ کہنا۔

(۲)                   ہاتھوں کو زمین پر مارنا۔

(۳)                  انگلیان کھلی ہوئی رکھنا۔

(۴)                  ہاتھوں کو جھاڑ لینا یعنی ایک ہاتھ کے انگوٹھے کی جڑ کو دوسرے ہاتھ کے انگوٹھے کر جڑ پر مارنا نہ اس طرح کہ تالی کی آواز نکلے۔

(۵)                  زمین پر ہاتھ مار کر لوٹ دینا۔

(۶)                   پہلے منہ کا پھر ہاتھ کا مسح کرنا۔

(۷)                  دونوں کا مسح پے درپے ہونا۔

(۸)                  پہلے داہنے ہاتھ پھر بائیں کا مسح کرنا۔

(۹)                   ڈاڑھی کا خلال کرنا اور

(۱۰)                 انگلیوں کا خلال جب کہ غبار پہنچ گیا ہو اور اگر غبار نہ پہنچا مثلاً پتھر وغیرہ کسی ایسی چیز پر ہاتھ مارا جس پر غبار نہ ہو تو خلال فرض ہے۔ ہاتھوں کے مسح میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے علاوہ چار انگلیوں کا پیٹ داہنے ہاتھ کی پشت رکھے اور انگلیوں کے سروں سے کہتی تک لے جائے اور پھر وہاں سے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے داہنے کے پیٹ کو مس کرنا ہوا گٹے تک لائے اور بائیں انگوٹھے کو پیٹ سے داہنے انگوٹھے کی پشت کا مسح کرے یونہی داہنے ہاتھ سے بائیں کا مسح کرے اور ایک دم سے پوری ہتھیلی اور انگلیوں سے مسح کرلیا تیمم ہو گیا خواہ کہنی سے انگلیوں کی طرف لایا یا انگلیوں سے کہنی کی طرف کے گیا مگر پہلی صورت میں خلاف سنت ہے۔ (عالمگیری ص ۳۰)۔

مسئلہ ۱ :   اگر مسح کرنے میں صرف یتن انگلیاں کام میں لایا جب بھی ہو گیا اور اگر ایک یا دہ سے مسح یا تیمم نہ ہوا اگرچہ تمام عضو پر ان کو پھیر لیا ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۰)۔

مسئلہ ۲ :  تیمم ہوتے ہوئے دوبارہ تیمم نہ کرے۔

مسئلہ ۳ :  خلال کے لئے ہاتھ مارنا ضروری نہیں۔

پندرھواں باب :  کس چیز سے تیمم جائز ہے اور کس سے نہیں

مسئلہ ۱ :   تیمم اسی چیز سے ہو سکتا ہے جو جنس زمین سے ہو اور جو چیز زمین کی جنس سے نہیں اس سے تیمم جائز نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۷)۔

مسئلہ ۲ :  جس مٹی سے تیمم کیا جائے اس کا پاک ہونا ضروری ہے یعنی نہ اس پر کسی نجاست کا اثر ہو نہ یہ کہ محض خشک ہونے سے اثر نجاست جاتا رہا ہو۔

مسئلہ ۳ :  جس چیز پر نجاست گری اور سوکھ گئی اس سے تیمم نہیں کر سکتے اگرچہ نجاست کا اثر باقی نہ ہو البتہ نماز اس پر پڑھ سکتے ہیں ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۲۷)۔

مسئلہ ۴ :  یہ وہم کہ کبھی نجس ہوئی ہو گی فضول ہے اس کا اعتبار نہیں۔

مسئلہ ۵ :  جو آگ سے جل کر راکھ ہوتی ہے نہ پگھلتی ہے نہ نرم ہوتی ہے وہ زمین کی جنس سے ہے اس سے تیمم جائز ہے۔ ریتا، چونا، سرمہ، ہڑتال، گندھک، مروہ سنگ، گیرو پتھر، زبرجد، فیروزہ، عقیق زمرد وغیرہ جواہر سے تیمم جائز ہے اگرچہ ان پر غبار نہ ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۶)۔

مسئلہ ۶ :   پکّی اینٹ چینی یا مٹی کے برتن سے جس پر کسی چیز کی رنگت ہو جنس زمین سے ہے۔  گیرو کھڑ یا مٹی یا وہ چیز جس کی رنگت ہے جنس زمین سے تو نہیں مگر برتن پر اس کا جرم نہ ہو تو ان صورتوں میں اس سے تیمم جائز ہے اور اگر جنس زمین سے نہ ہو اور اس کا جرم برتن پر ہو تو جائز نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۷)۔

مسئلہ ۷ :  شورہ جو ہنوز پانی میں ڈال کر صاف نہ کیا گیا ہو اس سے تیمم جائز ہے ورنہ نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۷)۔

مسئلہ ۸ :  جو نمک پانی سے بنتا ہے اس سے تیمم جائز نہیں اور جو کان سے نکلتا ہے جیسے سیندھا نمک اس سے جائز ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۷)۔

مسئلہ ۹ :   جو چیز آگ سے جل کر راکھ ہو جاتی ہو جیسے لکڑی، گھاس وغیرہ یا پگھل جاتی یا نرم ہو جاتی ہو جیسے سونا، چاندی، تانبا، پیتل، لوہا وغیرہ دھاتیں وہ زمین کی جنس سے نہیں اس سے تیمم جائز نہیں۔ ہاں یہ دھاتیں اگر کان سے نکال کر پگھلائی نہ گئیں کہ ان پر مٹی کے اجزا ہنوز باقی ہیں تو ان سے تیمم جائز ہے اور اگر پگھلا کر صاف کر لی گئیں اور ان پر اتنا غبار ہے کہ ہاتھ مارنے سے اس کا اثر ہاتھ میں ظاہر ہوتا ہے تو اس غبار سے تیمم جائز ہے ورنہ نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۷)۔

مسئلہ ۱۰ : غلہ، گہیوں، جو اور لکڑی اور گھاس اور شیشہ پر غبار ہو تو اس غبار سے تیمم جائز ہے جب کہ اتنا ہو کہ ہاتھ میں لگ جاتا ہو ورنہ نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۷)۔

مسئلہ ۱۱ :  مشک و  عنبر، کافور، لوبان سے تیمم جائز نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۷)۔

مسئلہ ۱۲ : موتی اور سیپ اور گھونگے سے تیمم جائز نہیں اگرچہ پسے ہوں اور ان چیزوں کے چُونے سے بھی ناجائز۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۷)۔

مسئلہ ۱۳ : راکھ اور سونے چاندی فولاد وغیرہ کے کشتوں سے بھی جائز نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۷)۔

مسئلہ ۱۴ : زمین پر پتھر جل کر سیاہ ہو جائے اس سے تیمم جائز ہے یونہی اگر پتھر جل کر راکھ ہو جائے اس سے بھی جائز ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۷)۔

مسئلہ ۱۵ : اگر خاک میں راکھ مل جائے اور خاک زیادہ ہو تو تیمم جائز ہے ورنہ نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۷)۔

مسئلہ ۱۶ : زرد، سرخ، سبز، سیاہ رنگ کی مٹی سے تیمم جائز ہے مگر جب رنگ چھوٹ کر ہاتھ منہ کو رنگین کر دے تو بغیر ضرورت شدیدہ اس سے تیمم کرنا جائز نہیں اور کر لیا تو ہو گیا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۷)۔

مسئلہ ۱۷ : بھیگی مٹی سے تیمم جائز ہے جب کہ مٹی غالب ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۷)۔

مسئلہ ۱۸ : مسافر کا ایسی جگہ گزر ہوا کہ سب طرف کیچڑ ہی کیچڑ ہے اور پانی نہیں پاتا  کہ وضو یا غسل کرے اور کپڑے میں بھی غبار نہیں تو اسے چاہیے کہ کپڑا کیچڑ میں سان کر سکھالے اور اس سے تیمم کرے اور اگروقت جاتا ہو تو مجبوری کوکیچڑ ہی سے تیمم کرلے جب کہ مٹی غالب ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۷)۔

مسئلہ ۱۹ : گدّے اور دری وغیرہ میں غبار ہے تو اس سے تیمم کر سکتا ہے اگرچہ وہاں مٹی موجود نہ ہو جب کہ غبار اتنا ہو کہ ہاتھ پھیرنے سے انگلیوں کا نشان بن جائے۔

مسئلہ ۲۰ :              نجس کپڑے میں غبار ہو اس سے تیمم جائز نہیں ہاں اگر اس کے سُوکھنے کے بعد غبار پڑھے تو جائز ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۷)۔

مسئلہ ۲۱ : مکان بنانے یا گرانے میں یا کسی اور صورت سے منہ اور ہاتھوں پر گرد پڑی اور تیمم کی نیّت سے منہ اور ہاتھوں پر مسح کر لیا تیمم ہو گیا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۷)۔

مسئلہ ۲۲: گچ کی دیوار پر تیمم جائز ہے۔ (عالمگیری ص ۲۶)۔

مسئلہ ۲۳:            مصنوعی مُردہ سنگ سے تیمم جائز نہیں۔

مسئلہ ۲۴:            مونگے یا اس کی راکھ سے تیمم جائز نہیں۔

مسئلہ ۲۵ :            جس جگہ سے ایک نے تیمم کیا دوسرا بھی کر سکتا ہے یہ جو مشہور ہے کہ مسجد کی دیوار یا زمین سے تیمم ناجائز یا مکروہ ہے غلط ہے۔

مسئلہ ۲۶ : تیمم کے لئے ہاتھ زمین پر مارا اور مسح سے پہلے ہی تیمم ٹوٹنے کا کوئی سبب پایا گیا تو اس سے تیمم نہیں کر سکتا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۶)۔

ماخوذ از:
بہار شریعت، جلد1مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button