ARTICLESشرعی سوالات

جمرات کی رمی میں ترتیب

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اِس مسئلہ میں کہ ایک شخص طوافِ زیارت کر کے 11 تاریخ کو مکہ مکرمہ سے ظہر کے بعد گیا اُس نے سوچا کہ اگر میں جمرۂ اُولیٰ کی طرف جاتا ہوں تو چکر لمبا ہو گا اس لئے اس نے جمرۂ عقبہ سے رمی شروع کی اور جمرۂ اُولیٰ پر ختم کی اب اِس صورت میں اُس کی رمی ہو گئی یا نہیں ؟ اور اُس پر کوئی دَم یا صدقہ وغیرہ تو لازم نہیں ہو گا، اگر ہو گا تو کیا؟

(السائل : ریحان ابو بکر، مکہ مکرمہ)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : تینوں جمرات کی رمی میں مسنون ہے کہ جمرۂ اُولیٰ سے ابتداء کرے اور عقبہ پر اختتام چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ

عن ابنِ عمرَ رضی اللہ عنہما : أَنَّہُ کَانَ یَرْمِی الْجَمْرَۃَ الدُّنْیَا بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ، یُکَبِّرُ مَعَ کُلِّ حَصَاۃٍ، ثُمَّ یَتَقَدَّمُ حَتَّی یُسْہِلَ، فَیَقُوْمُ مُُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ فَیَقُوْمُ طَوِیْلاً، وَ یَدْعُوْا وَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ، ثُمَّ یَرْمِی الْوُسْطیٰ، ثُمَّ یَأْخُذُ ذَاتَ الشِّمَالِ فَیَتَسَہَّلُ وَ یَقُوْمُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ، ثُمَّ یَدْعُوْا وَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ، فَیَقُوْمُ طَوِیْلاً، ثُمَّ یَرْمِیْ جَمْرَۃَ ذَاتِ الْعُقْبَۃِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِیْ، وَ لَا یَقِفُ عِنْدَہَا، ثُمَّ یَنْصَرِفُ فَیَقُوْلُ : ہٰکذَا رَأَیْت النَّبِیَّ ﷺ یَفْعَلُہٗ (14)

یعنی، حضرت عبد ا للہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ جمرۂ اُولیٰ کو سات کنکریاں مارتے ، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے ، پھر آگے بڑھتے پس نرم زمین پر تشریف فرما ہوتے ، پھر قبلہ رُو ہو کر طویل قیام فرماتے پس دُعا فرماتے اور دُعا میں اپنے ہاتھ اٹھاتے ، پھر جمرۂ وسطیٰ کو کنکریاں مارتے پھر اپنی بائیں جانب کو ہو کر نرم زمین پر تشریف فرما ہوتے پھر قبلہ رُو ہو کر وطویل قیام فرماتے پس دُعا فرماتے اور دُعا میں اپنے ہاتھ اٹھاتے پھر بطنِ وادی سے جمرۂ عَقَبہ کی رمی فرماتے اور اُس کے پاس قیام نہ فرماتے ، پھر لوٹ جاتے اور فرمایا کہ اِسی طرح میں نے نبی کریم ﷺ کو کرتے دیکھا ہے ۔ اسی لئے فقہاء کرام میں سے بعض نے اِس ترتیب کو واجب قرار دیا ہے جیسا کہ ’’لباب المناسک‘‘ میں مذکور ہے (15)، اور ہمارے نزدیک یہ ترتیب واجب نہیں ہے چنانچہ امام مظفر الدین احمد بن علی بن ثعلب ابن الساعاتی حنفی متوفی 694ھ لکھتے ہیں :

و نسقطُ التّرتیب فی الرّمِی (16)

یعنی، ہم رمی میں ترتیب کو ساقط کرتے ہیں ۔ اس کی شرح میں ابن الملک نے لکھا کہ

أی : فی رَمی الجِمارِ حتی لو بدَأَ بجمرۃ العَقَبۃ ثمَّ بالوُسطٰی، ثُمَّ بالتی تلی المسجدَ جازَ عندنا (17)

یعنی، رمی جمار میں یہاں تک کہ اگر جمرہ عقبہ سے ابتداء کی پھر وُسطیٰ کی رمی کی پھر اسے جو مسجد خیف سے ملے ہوا ہے تو ہمارے نزدیک جائز ہے ۔ اور اکثر فقہاء کرام نے مسنون قرار دیا ہے چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :

و الأکثرُ علی أَنَّہ سنّۃٌ (18)

یعنی، اکثر فقہاء اِس پر ہیں کہ یہ ترتیب سنّت ہے ۔ ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :

کما صَرَّحَ بہ صاحبُ ’’البدائع‘‘ و ’’الکرمانیُّ‘‘ و ’’المحیط‘‘، و ’’فتاویٰ السراجیَّۃ‘‘، و قال ابنُ الہمام : و الذی یقوی عندی استنانُ التّرتیبِ لا تَعیِیْنُہُ (19)

یعنی، جیسا کہ اس کی (یعنی مسنون ہونے کی) تصریح صاحبِ بدائع (20)، اور کرمانی (21)نے کی اور ’’محیط‘‘ (22)اور ’’فتاوی السراجیہ‘‘ میں (اس کی تصریح) ہے اور ’’ابن الہمام‘‘ (23)نے فرمایا وہ جو میرے نزدیک قوی ہے وہ اس ترتیب کا مسنون ہونا ہے نہ کہ واجب ہونا۔ اور علامہ علاؤ الدین حصکفی حنفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :

و بعدَ زوالِ ثانی النَّحْر رَمَی الجِمارَ الثَّلاثَ بیدأُ استناناً بما یَلیِ مسجدَ الخَیْفِ ثمَّ بما یَلِیہ الوُسطی ثمَّ العَقَبۃ سبعاً سبعاً الخ (24)

یعنی، اور ایام نحر میں سے دوسرے دن زوال کے بعد تینوں جمرات کی رمی کرے از روئے سنت ہونے کے ، اُس جمرہ سے شروع کرے جو مسجد خیف سے ملا ہوا ہے ، پھر اُسے جو اس سے ملا ہوا ہے یعنی وُسطیٰ کو پھر جمرۂ عَقَبہ کو، ہر ایک کو سات سات کنکریاں مارے ۔ اِس کے تحت علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :

حاصلُہ أنَّ ہذا التّرتیبَ مسنُونٌ لا متعیّنٌ، و بہ صرَّحَ فی ’’المجمع‘‘ وغیرہ، و اختارَہُ فی ’’الفتح‘‘ و قال فی ’’اللباب‘‘ : و الأکثرُ علی أَنَّہ سُنَّۃٌ، و عزاہُ شارحہ إلی ’’البدائع‘‘ و ’’الکرمانیّ‘‘، و ’’المحیط‘‘، و ’’السّراجیَّۃ‘‘ (25)

یعنی، اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ ترتیب مسنون ہے متعین نہیں ہے اور اسی کی تصریح ’’مجمع‘‘ وغیرہ میں کی اور اس کو ’’فتح القدیر‘‘ (26) میں اختیار کیا، اور ’’لباب‘‘ (27) میں فرمایاکہ اکثر اس پر ہیں کہ یہ ترتیب سنّت ہے اور اس کے شارح (ملا علی قاری) نے اسے ’’بدائع‘‘ (28)، ’’کرمانی‘‘، ’’محیط‘‘، ’’سراجیہ‘‘ (29) کی طرف منسوب کیا ہے ۔ اور اگر غیر مسنون طریقے پر رمی کر لی پھر اُسی روز یاد آ گیا تو جمرۂ وسطیٰ اور جمرۂ عَقَبہ کی بالترتیب دوبارہ رمی کر لے ۔ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبد الغفور سندھی حنفی لکھتے ہیں :

فلو بدأَ بجمرۃِ العَقَبۃِ ثمَّ بالوُسطی، ثمَّ بالأُولٰی و ہی التی تَلِی مَسجدَ الخَیفِ، ثم تذکَر ذلک فی یومِہ، فإنَّہ یُعیدُ الوُسطیٰ و العَقَبۃَ حتماً أو سنّۃ ً (30)

یعنی، پس اگر جمرۂ عقبہ سے شروع کیا پھر درمیانے کو پھر پہلے کو اور پہلا جمرہ وہ ہے جو مسجدِ خَیف سے ملا ہوا ہے ، پھر اُسے اُسی دن یا دآیا تو درمیانے اور عقبہ کی رمی (بعض کے نزدیک) وجوباً یا (اکثر کے نزدیک) از روئے سنّت کے دہرائے ۔ اور شمس الائمہ سرخسی نے اِس باب میں جو لکھا ہے اُس سے اعادہ کا وُجوب مستفاد ہے اگرچہ اکثر فقہاء اِس کے خلاف پر ہیں اِس لئے بہتر ہے کہ اُسی دن اعادہ کر لے ۔ اور ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :

ففی ’’المبسوط‘‘ للسّرخسی، فإنْ بدأَ فی الیومِ الثّانی بجمرۃِ العَقَبۃِ فَرَماہا، ثمَّ بالجمرۃِ الوُسطٰی، ثمّ بالتی تلی المسجدَ ثُمَّ ذَکرَ ذلک فی یومِہ یُعیدُ علی جمرۃ الوسطیٰ، و جمرۃ العَقَبۃ لأَنَّہ نسکٌ شُرِع مرتَّباً فی ہذا الیومِ، فیما سَبقَ أوانُہ لا یُعتدُّ بہ، فکان جمرۃ ا لأُولٰی بمنزلۃِ الافتتاحِ لجمرۃِ الوُسطٰی و الوُسطٰی للعَقَبۃِ فما أَدَّی قبلَ وُجوبِ افتتاحِہ لا یکونُ معتدّاً بہ کمَن سَجَد قبلَ الرُّکوعِ، أو سَعَی قبلَ الطَّوافِ، و المعتدُّ ہنا مِن رَمیِہ الجمرۃ الأولٰی، فلہٰذا یُعِیدُ علی الوُسطٰی و العَقَبۃ انتھٰی (31)

یعنی، پس ’’مبسوط‘‘ سرخسی میں ہے کہ پس اگر دوسرے دن جمرۂ عقبہ سے شروع کیا پس اُس کی رمی کی، پھر جمرۂ وسطیٰ کو پھر اُسے جو مسجد خیف سے ملا ہوا ہے (یعنی جمرۂ اُولیٰ کی رمی کی) پھر اُسے اُسی دن یاد آ گیا تو جمرۂ وسطیٰ اور جمرۂ عقبہ کی رمی کا اعادہ کرے کیونکہ یہ ایک نُسُک ہے جو ترتیب وار مشروع کیا گیا ہے اور جو اپنے وقت سے پہلے ہوا اُس کا اعتبار نہیں کیا جاتا، پس گویا کہ جمرۂ اُولیٰ جمرۂ وسطیٰ کے لئے بمنزلہ افتتاح کے ہیں پس جو اس کے افتتاح کے وُجوب سے قبل ادا کیا گیا اُسے شمار نہیں کیا جاتا اُس شخص کی مثل جس نے رکوع سے قبل سجدہ کر لیایا طواف سے قبل سعی کی اور یہاں اُس کی جمرۂ اُولیٰ کو رمی شمار کی جائے گی اِسی لئے جمرۂ وسطیٰ اور جمرۂ عقبہ کی رمی کا اعادہ کرے گا۔ اھ اور رمی جمرات میں معروف ترتیب کا ترک کرنا اُن کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے جو اِس ترتیب کے وجوب کے قائل ہیں اور دوسروں کے نزدیک جو اِس ترتیب کے سنّت مؤکدہ ہونے کے قائل ہیں مکروہ تنزیہی ہے اور وہ اکثر فقہاء کرام ہیں ۔ علامہ علاؤ الدین حصکفی حنفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :

فلو عکَسَ ترتیبَ الجِمارِ جازَ و کرہَ (32)

یعنی، پس اگر ترتیب جمرات کا عکس کیا تو جائز اور مکروہ ہوا۔ اسی لئے وہ رمی جس میں معروف ترتیب کو ترک کیا گیا ہو اس کا اعادہ بعض فقہاء کے نزدیک واجب ہے اور اکثر کے نزدیک سنّت مؤکدہ ہے چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی اور ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :

حتماً أی وُجوباً عند البعضِ أو سنّۃً مؤکّدۃً عندَ الأکثرِ (33)

یعنی، وجوباً بعض کے نزدیک یا سنت مؤکدہ اکثر کے نزدیک ۔ اور اختلاف سے نکلنے کے لئے افضل یہی ہے کہ اُسی دن اعادہ کر لے ۔ اور اگر وہ دن گزر جائے تو اُس پر سوائے اسائت کے کچھ لازم نہ ہو گا کہ اکثر فقہاء کرام اِس ترتیب کو سنّت مؤکّدہ قرار دیتے ہیں اِس لئے ترک مکروہ تنزیہی ہو گا اور یہاں دن سے مراد اُس دن کی رمی کے وقت کا گزر جانا ہے اور بارہ اور تیرہ تاریخ کی رمی کا وقت زوالِ آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور اگلے دن کی صبح صادق پر ختم ہوتا ہے یعنی کسی حاجی نے رمی میں ترتیب کو ترک کر دیا تو وہ اگلے روز کی صبح صادق تک اس کا اعادہ کر سکتا ہے ۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الأحد، 12 ذوالحجۃ1430ھ، 29نوفمبر 2009 م 663-F

حوالہ جات

14۔ صحیح البخاری، کتاب الحج، باب إذا رمی الجمرتین الخ، برقم : 1751، 1/430

15۔ لُباب المناسک ، باب مناسک منیً، فصل فی أحکام الرّمی و شرائطِہ و واجباتہ، العاشر، ص166، و فیہ : العاشر التّرتیب فی رمی الجمار علی قول البعض، یعنی دسواں واجب بعض کے قول کی بنا پر رمی جمار میں ترتیب۔

16۔ مجمعُ البَحرَین وملتقی النَّیِّرَین، کتاب الحجّ، فصل فی صفۃ أفعال الحجّ، ص230

17۔ تحقیق مجمع البحرین و ملتقی النَیِّرَینْ، کتاب الحجّ، فصل فی صفۃ أفعال الحجّ، ص230

18۔ لباب المناسک ، باب مناسک منیً، فصل فی أحکام الرّمی إلخ، ص166

19۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب رمی الجمار و أحکامہ، فصل فی أحکام الرمی الخ، تحت قولہ : و الأکثر علی أنّہ سنّۃ، ص352

20۔ بدائع الصنائع، کتاب الحجّ، فصل فی حکمہ (أی الرمی) إذا تأخّر عن وقتہ أوفات، 3/97

21۔ المسالک فی المناسک للکرمانی، القسم الثّانی فی بیان نسک الحج، فصل الرّمی فی الیوم الثّانی إلخ، 1/603

22۔ المحیط البرھانی، کتاب المناسک، الفصل الثّالث، تعلیم أفعال الحجّ، برقم : 3265، 3/409، مطبوعۃ : إدارۃ القرآن، کراتشی 1424ھ۔ 2004م

23۔ فتح القدیر، کتاب الحجّ، باب الإحرام، تحت قولہ : فیبتدیٔ بالتی إلخ، 2/391

24۔ الدُّرُّ المختار شرح تنویر الأبصار، کتاب الحجّ، بعد قول التّنویر : ثُمَّ أتی منیً، ص163

25۔ رَدُّ المحتار علی الدُّرِّ المختار، کتاب الحجّ، مطلب : فی رمی الجمرات الثّلاث، تحت قولہ : یبدأُ استناناً إلخ، 3/617، 618

26۔ فتح القدیر، کتاب الحج، باب الإحرام، تحت قولہ : فیبتدیٔ بالتی الخ، 2/391

27۔ لباب المناسک ، باب رمی الجمار وأحکامہ، فصل فی أحکام الرمی وشرائطہ وواجباتہ، ص166

28۔ بدائع الصنائع، کتاب الحجّ، فصل و أما بیان حکمہ إذا تأخّر عن وقتہ، 3/97

29۔ الفتاوی السّراجیّۃ، کتاب الحجّ، باب ترتیب أفعال الحجّ، ص33

30۔ لباب المناسک، باب رمی الجمار و أحکامہ، فصل فی أحکام الرّمی و شرائطہ و واجباتہ، ص166

أیضاً ردّ المحتار علی الدُّرِّ المختار، کتاب الحجّ، مطلب : فی رمی الجمرات الثّلاث، تحت قولہ : یبدأ استناناً إلخ، 3/618

31۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب رمی الجمار و أحکامہ، فصل فی أحکام الرّمی و شرائطہ و واجباتہ، تحت قولہ : العاشر التّرتیب إلخ، ص352

32۔ الدّر المنتقی فی شرح الملتقی، کتاب الحجّ، فصل إذا دخل مکّۃ إلخ، تحت قولہ : یعود إلی منًی فیرمی إلخ، 1/415

33۔ لباب المناسک وشرحہ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب رمی الجمار و أحکامہ، فصل فی أحکام الرّمی و شرائطہ و واجباتہ، ص352

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button