ARTICLESشرعی سوالات

گیارہ اور بارہ ذوالحج کی راتیں منیٰ میں گزارنا

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ گیارہ اور بارہ ذوالحجہ کی راتوں میں کوئی حاجی ایک پہر کے لئے بھی منٰی نہ آئے تو کیا اس پر کچھ واجب ہو گا؟

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : ایام رمی کی راتیں منٰی میں گزارنا سنّت ہے ،چنانچہ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ

’’ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی مِنًی فَمَکَثَ بِہَا لَیَالِیْ أَیَّامَ التَّشْرِیْقِ‘‘ رواہ أبو داؤد فی المناسک، باب فی رمی الجمار، و أحمد فی ’’مسندہ‘‘ (6/90)، و أبو یعلی فی ’’مسندہ‘‘ و ابن حبان فی ’’صحیحہ‘‘ و الدار قطنی فی ’’سننہ‘‘ و الحاکم فی ’’المستدرک‘‘

یعنی، (طوافِ زیارت کی ادائیگی کے بعد) نبی ا پھر مکہ مکرمہ سے منیٰ تشریف لائے اور ایامِ تشریق کی راتیں وہیں گزاریں ۔ اور امام ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :

لماروی : ’’اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ بَاتَ بِمِنیً لَیَالِی الرَّمْیِ‘‘ وہذہ البیتوتۃ سنّۃً عندنا (55)

یعنی، اس لئے کہ مروی ہے : ’’بے شک نبی ا نے رمی کی راتیں منیٰ میں گزاریں ‘‘ او ریہ راتیں (منیٰ میں ) گزارنا ہمارے نزدیک سنّت ہے ۔ اور علامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی لکھتے ہیں :

و السنّۃ أن یبیت بمنی لیالی أیام الرمی (56)

یعنی، سنّت یہ ہے کہ حاجی ایام رمی کی راتیں منیٰ میں گزارے ۔ اور ملا علی القاری متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :

لأن البیتوتۃ بمنی لیالیہا سنّۃ عندنا (57)

یعنی، کیونکہ یہ راتیں منیٰ میں گزارنا ہمارے نزدیک سنّت ہے ۔ اور صدر الشریعہ محمد امجد علی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : دسویں ، گیارہویں ، بارہویں کی راتیں منیٰ میں بسر کرنا سنّت ہے ۔ (58) لہٰذا جو شخص ان راتوں میں ایک پہر کو بھی منیٰ نہ آئے و ہ تارکِ سنّت ہو گا اور اس کا یہ فعل مکروہ ہو گا، چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی ’’لباب‘‘ میں اور ملا علی قاری اس کی شرح میں لکھتے ہیں :

(’’و لو بات‘‘ أکثر لیلہا فی غیر منی کرہ) أی تنزیہاً، (’’و لا یلزمہ الشیٔ‘‘) أی عندنا (59)

یعنی، اگر اس نے یہ راتیں منیٰ کے علاوہ اور جگہ گزاریں تو مکروہ تنزیہی ہو گا او رہمارے نزدیک اُس پر کچھ لازم نہ ہو گا۔ اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :

فیبیت بہا للرمی أی لیالی أیام الرمی، ہو السنّۃ، فلو بات بغیرہ کرہ، و لا یلزمہ شیٔ (60)

یعنی، حاجی رمی کے لئے ایامِ رمی کی راتیں منیٰ میں گزارے گا یہ سنّت ہے ، پس اگر اس نے منیٰ کے علاوہ کسی اور جگہ راتیں گزاریں تو مکروہ ہوگا اور اس پر کچھ لازم نہ ہو گا۔ او رکچھ لازم نہ ہو نا اس لئے ہے کہ رمی کی راتیں منیٰ میں بسر کرنا واجب نہیں ، چنانچہ علامہ مظفر الدین ابن الساعاتی متوفی 694ھ لکھتے ہیں :

و لا نوجب المبیت فی ہذہ اللیالی بمنیً و یکرہ ترکہ (و قال ابن ملک فی شرحہ : أی لیالی الرمی ، وہی لیلۃ الحادی عشر، و الثانی عشر، و الثالث عشر) (61)

یعنی، ہم ان راتوں کو منیٰ میں بسر کرنا واجب نہیں کرتے (شارح ابن ملک نے فرمایا : یعنی وہ راتیں یہ ہیں : گیارہ، بارہ اور تیرہ کی رات) اور اس کا ترک مکروہ ہے ۔ اور شارح ابن ملک نے منیٰ میں بسر ہونے والی راتوں میں تیرہ کی رات بھی ذکر کی ہے تو تیرہ کی رات منیٰ میں بسر کرنا اس شخص کے حق میں مسنون ہو گاجیسے 12 تاریخ کا سورج منیٰ میں ہی غروب ہو جائے اور کراہت سے مراد ظاہر ہے کہ تنزیہی ہے نہ کہ تحریمی کہ وہ واجب کے مقابل ہوتی ہے جب کہ منیٰ میں رات کا قیام ہمارے نزدیک سرے سے واجب ہی نہیں بلکہ مسنون ہے ۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الثلثاء، 6ذی القعدۃ1427ھ، 28نوفمبر 2006 م (263-F)

حوالہ جات

55۔ المسالک فی المناسک، فصل فی دخول مکۃ بطواف الزیارۃ،1/593

56۔ لباب المناسک، باب طواف الزیارۃ، فصل إذا فرغ من الطواف،ص158

57۔ المسلک المتقسّط، باب طواف الزیارۃ، فصل إذا فرغ من الطواف، ص332

58۔ بہار شریعت، حج کا بیان، طوافِ فرض،1/1146

59۔ لباب المناسک وشرحہ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب طواف الزیارۃ، فصل : فی الرجوع الی منی بعد طواف الزیارۃ، ص332

60۔ رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الحج، مطلب : فی حکم صلاۃ العید و الجمعۃ فی منیٰ، 2/617

61۔ مجمع البحرین، کتاب الحج، فصل فی صفۃ أفعال الحج، ص231

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button