ARTICLESشرعی سوالات

مکہ مکرمہ میں استقبالِ قبلہ کا حکم

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مسجد الحرام کی طرف رُخ کر کے مسجد سے باہر اس طرح نماز پڑھنا کہ عین کعبہ اس رُخ پر نہ ہو تو استقبالِ قبلہ ہو جائے گا اور نماز ادا ہو جائے گی یا نہیں ؟ (السائل : محمد عرفان ضیائی)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : استقبالِ قبلہ نماز کی شرائط میں سے ایک شرط ہے ، قرآن کریم میں ہے : {فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہٗ} (87) ترجمہ : اپنا منہ اس کی طرف کرو۔ (کنزالایمان) اس کے تحت صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : اس سے ثابت ہوا کہ نماز میں رو بقبلہ ہونا فرض ہے ۔ (خزائن العرفان) پھر جو کعبہ کے پاس ہو اُسے عین کعبہ کی جانب منہ کرنا فرض ہے اور جو دُور ہو اُسے جہتِ کعبہ کی جانب کرنا فرض ہے ، چنانچہ امام مظفر الدین احمد بن علی بن ثعلب ابن الساعاتی الحنفی متوفی 694ھ لکھتے ہیں : و یستقبل آمناً عین الکعبۃإن کان بمکۃ، و جہتہا إن نأی عنہا (88) یعنی ، نمازی حالتِ امن میں رُخ کرے گا عین کعبہ کی جانب اگر مکہ مکرمہ میں ہو اور جہتِ کعبہ کو اگر اس سے دُور ہو۔ اور حافظ الدین ابو البرکات عبداللہ بن احمد بن محمود نسفی متوفی 710ھ لکھتے ہیں : و إستقبال القبلۃ للمکّی فرضہ إصابۃ عینہا، و لغیرہا إصابۃ جہتہا (89) یعنی، اور قبلہ رُخ ہونا ،مکی کے لئے ٹھیک عینِ کعبہ کی طرف منہ کرنا ہے اور غیر مکی کے لئے اس کی سمت کی طرف۔ اور امام ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی متوفی 593ھ لکھتے ہیں : ثم من کان بمکۃ ففرضہ إصابۃ عینہا، و من کان غائباً ففرضہ إصابۃ جہتہا ہو الصحیح، (90) یعنی، پھر جو شخص مکہ مکرمہ میں ہو تو اس پر فرض ہے ٹھیک عینِ کعبہ کی طرف منہ کرنا، اور جو غائب ہو تو اس کا فرض ہے سمتِ کعبہ کی طرف منہ کرنا، یہی صحیح ہے ۔ علامہ حسن بن منصور اوزجندی حنفی متوفی 592ھ (91)لکھتے ہیں اور ان سے علامہ نظام الدین حنفی متوفی 1161ھ (92)نقل کرتے ہیں : اتفقوا علی أن القبلۃ فی حقّ من کان بمکۃ عین الکعبۃ، و یلزمہ التوجّہ إلی عینہا. یعنی، فقہاء کا اتفاق ہے کہ جو شخص مکہ میں ہے اس کے لئے عین کعبہ قبلہ ہے ، اس کے لئے عین کعبہ کی طرف منہ کرنا لازم ہے ۔ علامہ عثمان بن علی زیلعی متوفی 743 ھ (93)لکھتے ہیں اور ان سے علامہ نظام الدین حنفی (94)نقل کرتے ہیں : و لا فرق بین أن یکون بینہ و بینہا حائل من جدارٍ أو لم یکن یعنی، اس میں کوئی فرق نہیں کہ نماز پڑھنے والے اور کعبہ کے درمیان کو دیوار حائل ہے یا نہیں ۔ اور علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی 970 ھ لکھتے ہیں : أطلق فی المکی فشمل من کان بمعاینتہا و من لم یکن (95) یعنی، مصنّف نے مکی کو مطلق رکھا تو یہ اس مکی کو شامل ہو گیا جو کعبہ کے مُعایِن ہے اور اس کو بھی جو مُعایِن نہیں ۔ اور حافظ الدین ابو البرکات نسفی نے ’’الکافی‘‘ میں لکھا ، اُن سے امام کمال الدین ابن ہمام (96) ، علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی (97)، علامہ شلبی (98)، علامہ حسن بن عمار شرنبلالی (99)اور علامہ نظام الدین حنفی (100) نقل کرتے ہیں : حتی لو صلّی مکّی فی بیتہ ینبغی أن یصلیّ بحیث لو أن أزیلت الجدار أن یقع استقبالہ علی شطر الکعبۃ، بخلاف الأفاقی یعنی، یہاں تک کہ مکہ میں رہنے والا گھر میں اگر نماز پڑھے کہ درمیان سے اگر دیوار ہٹا دی جائے تو کعبۃ اللہ کا کوئی حصہ اس کے سامنے آجائے بخلاف آفاقی کے ۔ اور قاضی محمد فراموز الشہیر بملا خسرو حنفی 885ھ لکھتے ہیں : ’’منہا‘‘ أی من شروط’’اسقبال عین الکعبۃللمکی‘‘ اجماعاً حتی لو صلی فی بیتہ یجب أن یصلی بحیث لو أزیل الجداران وقع الاستقبال علی عین الکعبۃ (101) یعنی، نماز کی شرطوں میں سے ایک شرط مکی کے لئے اجماعاً عینِ کعبہ کا استقبال ہے حتی کہ اگر وہ اپنے گھر میں نماز پڑھے تو اس پر واجب ہے کہ اس طرح پڑھے کہ اگر کعبہ اور اس کے درمیان کی دیواریں ہٹا دی جائیں تو اس کا استقبال عینِ کعبہ پر ہو۔ اور علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی نے مکی غیر شاہد کے لئے اسے ضعیف قرار دیا ہے ، چنانچہ لکھتے ہیں : یہاں تک کہ مکی اگر اپنے گھر میں نماز پڑھے تو اُسے چاہئے کہ اس طرح نماز پڑھے کہ اگر دیواریں ہٹا دی جائیں تو اس کا استقبال کعبہ کے کسی حصے پر ہو بر خلاف آفاقی کے ، پس اس کے موانع اگر دُور کر دئیے جائیں تو شرط نہیں ہے کہ اس کا استقبال لا محالہ عینِ کعبہ پر ہو اسی طرح ’’کافی‘‘ میں ہے : وہو ضعیف اور وہ ضعیف ہے ۔ (102) جب کہ اطلاقِ مُتون بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مکی کے حق میں عینِ کعبہ کی طرف منہ کرنا لازم ہے چنانچہ امام ابوالبرکات عبداللہ بن احمد بن محمود نسفی متوفی710ھ اور علامہ سراج الدین عمر بن ابراہیم ابن نجم حنفی متوفی 1005ھ لکھتے ہیں : (إصابۃ عینہا) أی عین القبلۃ التی ہی الکعبۃ سواء کان معایناً لہا أو لا، کما دل علیہ اطلاق المتون (103) یعنی، (مکہ میں رہنے والے کے لئے فرض) عینِ کعبہ کی طرف منہ کرنا ہے یعنی عین قبلہ کی طرف جو کہ کعبہ ہے چاہے اُسے دیکھ رہا ہو یا نہ جیسا کہ مُتون کا اطلاق اسی پر دلالت کرتا ہے ۔ لیکن فقہاء کرام سے یہ تصریح بھی منقول ہے کہ مکی اگر کعبۃ اللہ کے سامنے نہ ہو بلکہ ایسی جگہ ہو کہ اس کے اور کعبہ کے مابین آڑ ہو تو وہ غائب کی مثل ہے اور اسے اصح اور مختار قرار دیا ہے ، چنانچہ امام کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن ہمام حنفی متوفی 861ھ(104) ، علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی (105)اور شبلی حنفی (106) ، علامہ قوام الدین محمد بن محمد البخاری متوفی 729ھ کی کتاب ’’معراج الدرایہ شرح الہدایہ‘‘ سے نقل کرتے ہیں : و فی ’’الدرایۃ‘‘ : و من کان بینہ و بین الکعبۃ حائل الأصح أنہ کالغائب، و لو کان الحائل أصلیاً کالجبل کان لہ أن یجتہد، والأولی أن یصعدہ لیصل إلی الیقین یعنی، ’’درایہ‘‘ میں ہے کہ وہ شخص جس کے اورکعبہ کے مابین کوئی حائل (آڑ) ہو تو اصح یہ ہے کہ وہ مثل غائب کے ہے ، اگرچہ حائل (آڑ) اصلی ہو جیسے پہاڑ تو اُسے جائز ہے کہ وہ (جہتِ کعبہ معلوم کرنے کے لئے ) کوشش کرے اور بہتر ہے کہ وہ اس پر چڑھ جائے تاکہ وہ (جہت کو معلوم کرنے میں ) یقین کی تک پہنچ جائے ۔ علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی متوفی 1069ھ لکھتے ہیں : قال فی ’’معراج الدرایۃ‘‘ و لمن کان بمکۃ و بینہ و بین الکعبۃ حائل یمنع المشاہدۃ کالأبنیۃ، فالأصح أن حکمہ حکم الغائب، و لوکان الحائل أصلیاً کالجبل فلہ أن یجتہد، و الأولیٰ أن یصعد علی الجبل حتی تکون صلاۃ إلی الکعبۃ یقیناً انتہی (107) یعنی، ’’معراج الدرایہ‘‘ میں فرمایا : وہ شخص جو مکہ میں ہو اور اس کے اور کعبہ کے مابین کوئی آڑ ہو جو اُسے کعبہ کے مشاہدہ سے مانع ہو جیسے عمارتیں ، تو اصح یہ ہے کہ اس کا وہی حکم ہے جو مکہ سے غائب شخص کا حکم ہے اور اگر حائل (آڑ) اصلی ہو تو اُسے جائز ہے کہ وہ کوشش کرے ، اور بہتر ہے کہ وہ پہاڑ پر چڑھے یہاں تک کہ اس کی نماز یقینی کعبہ کی طرف ہو۔ اور علامہ سراج الدین عمر بن ابراہیم ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں : لکن الأصح أن حکم من کان بینہ و بینہا بناء حکم الغائب و لو أصلیاً کجبل اجتہد والأولی أن یصعدہ، کذا فی ’’المعراج‘‘ (108) یعنی، لیکن اصح یہ ہے کہ حکم اس شخص کا کہ جس کے اور کعبہ کے مابین کوئی عمارت ہو وہی حکم ہے جو (مکہ سے ) غائب کا حکم ہے ، اگرچہ اس کے اور کعبہ کے مابین حائل اصل ہو جیسے پہاڑ، تو وہ (جہتِ کعبہ معلوم کرنے کے لئے ) اجتہاد کرے ، بہتر ہے کہ اس پر چڑھ جائے ، اسی طرح ’’معراج‘‘ میں ہے ۔ امام ابراہیم بن محمد بن ابراہیم حلبی متوفی 956ھ اورعلامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں : (و قبلۃ من بمکۃ عین الکعبۃ) بحیث لو أزیل الجدار أن یقع استقبالہ علی جزء منہا، لکن الأصح کما نقلہ المصنّف و غیرہ عن ’’معراج الدرایۃ‘‘ : أن من بینہ و بینہا حائل کالغائب (109) یعنی، (اور قبلہ اس شخص کا جو مکہ میں ہو عینِ کعبہ ہے ) اس طور پر کہ اگر دیوار کو زائل کر دیا جائے تو اس کا منہ کعبہ کے کسی جزء کی طرف ہو ، لیکن اصح یہ ہے کہ جیسا کہ مصنّف وغیرہ نے ’’معراج الدرایہ‘‘ سے نقل کیا کہ (مکہ میں ) جس شخص اور کعبہ کے درمیان کوئی حائل ہو وہ (مکہ سے ) غائب کی مثل ہے ۔ علامہ یحییٰ بن علی بن عبداللہ زندوستی کے حوالے سے صاحب ہدایہ علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی (110)، امام کمال الدین ابن ہمام (111)، علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی (112)علامہ جلال الدین خوارزمی (113)اورعلامہ شلبی حنفی ( 114)اورلکھتے ہیں : و ذکر زندوستی رحمہ اللہ فی ’’نظمہ‘‘ : أن الکعبۃ فبلۃ من یصلی فی المسجد الحرام، و المسجد الحرام قبلۃ أہل مکۃ لمن یصلی فی بیتہ، أو فی البطحاء، و مکۃ قبلۃ أہل الحرم، و الحرم قبلۃ أہل العالم ۔و اللفظ للمرغینانی یعنی، زندوستی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’’النظم‘‘ میں ذکر کیا کہ کعبہ اس شخص کا قبلہ ہے جو مسجد الحرام میں نماز پڑھے اور مسجد الحرام اہل مکہ کا قبلہ ہے (ان میں سے ) جو اپنے گھر میں یا بطحاء میں نماز پڑھے ، او رمکہ اہلِ حرم کا قبلہ ہے ، اور حرم اہلِ عالَم کا قبلہ ہے ۔ اس کے تحت صاحب ہدایہ علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی لکھتے ہیں : و ہذا یشیر إلی أن من کان بمعاینۃ الکعبۃ، فالشرط إصابۃ عینہا، و من لم یکن بمعاینتہا فالشرط إصابۃ جہتہا، و ہو المختار (115) یعنی، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے جو کعبہ کے سامنے ہو، اُسے عینِ کعبہ کی طرف رُخ کرنا شرط ہے اور جو سامنے نہ ہو تو اُس کے لئے جہتِ کعبہ کو رُخ کرنا شرط ہے او ریہی مختار ہے ۔ اسی طرح ’’تجنیس‘‘ سے امام کمال الدین نے ’’فتح القدیر ‘‘ (فتح القدیر، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ التی تتقدمھا، تحت قولہ : ففرضۃ إصابۃ عینھا، 1/235) میں علامہ ابن نجیم حنفی نے ، ’’بحر الرائق‘‘ (البحر الرائق،کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، تحت قولہ : فللمکی فرضہ إصابۃ عینھا، 1/495) میں ، علامہ شلبی حنفی نے ’’حاشیۃ التبیین‘‘ (حاشیۃ الشلبی علی التبیین، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، تحت قولہ : إصابۃ عینھا إلی آخرہ، 1/264) میں ، علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی نے ’’امداد الفتاح‘‘ (إمداد الفتاح، کتاب الصلاۃ، مطلب فیما یشترط فیہ إسماع نفسہ، تحت قولہ : علی الصحیح ص232) میں نقل کیا ہے ، چنانچہ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ تحقیق یہ ہے کہ سب کا قبلہ کعبہ ہی ہے نہ کہ مسجد الحرام یا حرم کعبہ ، چنانچہ شمس الائمہ عبد العزیز بن احمد البخاری الحلوانی الحنفی متوفی 452ھ کے حوالے سے علامہ شبلی حنفی (116)اور علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی (117)نقل کرتے ہیں : قا ل الشیخ عبد العزیز البخاری : ہذا علی التغریب و إلا فالتحقیق أن الکبعۃ قبلہ أہلِ العالم اور علامہ جلال الدین خوارزمی لکھتے ہیں : قال مولانا فخر الدین البدیعی رحمہ اللہ : و ہذا علی التغریب فأما التحقیق فالکعبۃ قبلۃ العالَم (118) یعنی شیخ عبدالعزیز بخاری نے فرمایا (اور علامہ جلال الدین لکھتے ہیں : مولانا فخر الدین بدیعی علیہ الرحمہ نے فرمایا) یہ (جو زندوستی نے ذکر کیا) علی التغریب ہے ورنہ تحقیق یہ ہے کہ کعبہ اہلِ عالَم کا قبلہ ہے ۔ بہر حال جو شخض کعبہ کے سامنے موجود ہو اس کے لئے فرض ہے کہ وہ نماز کے لئے عینِ کعبہ کی جانب اپنا رُخ کرے اور مسجد الحرام میں وہ مقامات جہاں سے کعبہ نظر نہیں آتا وہاں صفوں کے لئے بنائے گئے نشان پر صحیح کھڑے ہونے سے عین کعبہ کو منہ کرنا حاصل ہو جائے گا کہ اُن لکیروں پر کھڑا ہونے والے کے آگے سے اگر عمارت اگر ہٹا دی جائے تو اس کا رُخ عین کعبہ کی جانب ہو گا کیونکہ یہ لائنیں اسی مقصد کے لئے لگائی گئی ہیں ۔ اسی طرح مسجد سے باہر صحن میں لگائی گئی لکیروں پر کھڑا ہونے والا عین کعبہ کی طرف رُخ کرنے والا ہو جاتا ہے اگرچہ اصح و مختار قول کے مطابق ان کے لئے جہتِ کعبہ کی طرف منہ کرنا ہی کافی ہے ، اور جو شخص کعبہ سے آڑ میں ہو اس کے لئے جہت کعبہ کو منہ کرنا فرض ہو گا اگرچہ وہ مکہ مکرمہ میں ہی ہو کیونکہ مکہ میں رہنے والا اگر کعبہ سے آڑ میں ہو تو وہ غائب کی مثل ہے اور فقہاء نے اسے اصح اور مختار لکھا ہے جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں گزرا اور اس پر عین کعبہ کی طرف رُخ کرنے کو لازم کرنا تکلیف ما لا یطاق ہے جب کہ اسلام میں تکلیف بقدر طاقت ہوتی ہے ،چنانچہ علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی لکھتے ہیں : التکلیف بحسب الوسع (119) یعنی، تکلیف وسعت کی حیثیت سے ہے ۔ اور علامہ عبداللہ بن محمود الموصلی حنفی لکھتے ہیں : التکلیف بقدر الطاقۃ (120) یعنی، تکلیف بقدرِ طاقت ہوتی ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان لکھتے ہیں : تکلیف بقدرِ وسعت اور طاعت بحسب ِطاقت ہے ۔ (121) اس لئے صاحبِ بحر علامہ زین الدین ان نجیم حنفی کنز کی عبارت ’’ و استقبال القبلۃ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں : أی من شروطہا إستقبال القبلۃ عند القدرۃ (122) یعنی، نماز کی شرطوں میں سے استقبال قبلہ قدرت پائے جانے کے وقت شرط ہے ۔ اسی وجہ سے مشاہدِ کعبہ کے لئے عین کعبہ پر نظر فرض ہے ، چنانچہ علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی لکھتے ہیں : اتفاقاً، لقدرتہ علیہا یقینًا (123) یعنی، مشاہد کعبہ پر بالاتفاق کعبہ کی طرف رُخ کرنا فرض ہے کیونکہ اُسے یقینا اس پر قدرت حاصل ہے ۔ لہٰذا عین کعبہ کی جانب منہ کرنا اس کے لئے فرض ہو گا جو کعبہ کے پاس موجود ہو کعبہ کا مشاہد و معاین ہو اور جو کعبہ سے دُور ہو اگرچہ مکہ میں ہی ہو اسے جہتِ کعبہ کی طرف منہ کرنا لازم ہو گا ۔چنانچہ علّامہ مجد الدین عبداللہ بن محمود حنفی متوفی 683ھ لکھتے ہیں : من کان بحضرۃ الکعبۃ یتوجہ إلی عینہا، و إن کان نائیاً عنہا یتوجّہ إلی جھتہا (124) یعنی، جو شخص کعبہ کے پاس ہو تو وہ متوجہ ہو گا عین کعبہ کی جانب، اور اگر اس سے دُور ہو تو اس کی سمت کی جانب۔ اور بعض فقہاء کرام نے جس طرح غیر معاین و غیر مشاہد مکی کے لئے جہتِ کعبہ کے فرض ہونے کو ’’اصح و مختار‘‘ لکھا ہے اسی طرح بعض نے اسے ’’صحیح ‘‘ لکھا ہے چنانچہ علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی متوفی 1069 ھ لکھتے ہیں : فللمکی المشاہد (للکعبۃ کما فی مراقی الفلاح و إمداد الفتاح) فرضہ إصابۃ عینہا، و لغیر المشاہد جہتہا و لو بمکۃ علی الصحیح (125) یعنی، مکی کعبہ کا مشاہدہ کرنے والے کی نگاہ کا اس پر پڑنا اور کعبہ کو نہ دیکھنے والے کا اس کی سمت رُخ کرنا فرض ہے ، اگرچہ وہ مکہ میں ہو صحیح مذہب کے مطابق۔ اور اس کی شرح میں و لو بمکۃ کے تحت لکھتے ہیں : و حال بینہ و بین الکعبۃ بناء أو جبل (علی الصحیح) کما فی ’’الدرایۃ‘‘ و ’’التجنیس‘‘ (126) یعنی، (غیر مشاہد کے لئے جہتِ کعبہ کو منہ کرنا فرض ہے اگرچہ وہ مکہ میں ہو) اور صحیح قول کے مطابق مکہ میں نماز پڑھنے والے اور کعبہ کے درمیان کوئی عمارت یا پہاڑ حائل ہو (تو اُسے جہتِ کعبہ کو رُخ کرنا فرض ہے ) جیسا کہ ’’درایۃ‘‘ اور ’’تجنیس‘‘ میں ہے ۔ دوسری شرح میں اپنے قول ’’و لغیر المشاہد‘‘ کے تحت لکھتے ہیں : سواء کان بمکۃ أو غیرہا إصابۃ (جہتہا) أی الکعبۃ و ہو الصحیح (127) یعنی، غیر مشاہد کے لئے ٹھیک جہتِ کعبہ کو نماز میں رُخ کرنا لازم ہے چاہے وہ (غیر مشاہد) مکہ میں ہو یا غیر مکہ میں ، یہی صحیح ہے ۔ اور ’’امداد الفتاح‘‘ میں پوری بحث کے بعد بطور نتیجہ لکھتے ہیں : و إذا علمت ما ذکرناہ فالفرض لغیر المشاہد إصابۃ جہتہا (و لو) کان غیر المشاہد بمکۃ (128) یعنی، جب تو نے جان لیا جسے ہم نے ذکر کیا تو غیر مشاہد کے لئے ٹھیک کعبہ کی جہت کو رُخ کرنا فرض ہے اگرچہ وہ غیر مشاہد مکہ میں ہو۔ لہٰذا مُتون میں فقہاء کرام کے قول ’’مکی‘‘ سے مراد مُعاین و مُشاہدِ کعبہ اور ’’لغیرہ‘‘ سے مراد غیر مُعاین و غیر مشاہد ہے ۔ جیسا کہ علّامہ محمد بن عبداللہ بن احمد غزی حنفی تمرتاشی متوفی 1004ھ اور علامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں : و أقرہ المصنّف قائلاً : و المراد بقولی : ’’فللمکی‘‘ مکی یعاین الکعبۃ (ولغیرہ) أی غیر معاینہا (129) یعنی ، اور مصنّف نے اس کو یہ کہتے ہوئے ثابت رکھا کہ اس قول ’’مکی کے لئے ‘‘ سے میری مراد یہ ہے کہ مکی وہ جو کعبہ کا مُعایِن و مُشاہِد ہو اور میرے قول ’’ا س کے غیر کے لئے ‘‘ سے میری مراد وہ شخص ہے جو کعبہ کا مُعایِن نہ ہو ۔ اور دوسرے مقام پر لکھتے ہیں : و الأصح أن من بینہ و بینہا حائل کالغائب، (130) یعنی، اصح یہ ہے کہ جس شخص اور کعبہ کے درمیان کچھ حائل ہو وہ غائب کی طرح ہے ۔ اور غیر مُشاہِد مکی کے حق میں بقدر استطاعت و طاقت نماز میں عینِ کعبہ کو رُخ کرنے کی تحقیق لازم ہو گی جس طرح فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اگر حائل اصلی ہو جیسے پہاڑ تو اس پر چڑھ کر کعبہ کو دیکھ لے تاکہ اس کا کعبہ کی طرف منہ کرنا علی وجہ الیقین ہو جائے کیونکہ یقین کے مقابلے میں گمان قابلِ قبول نہیں ہوتا اور اگر اس طرح بھی کعبہ کو دیکھنے پر قدرت نہیں یا ایسی جگہ ہے کہ کعبۃ اللہ وہاں سے نظر نہیں آتا جیسے فی زمانہ بلند عمارتیں کعبہ کو دیکھنے کی راہ میں رکاوٹ ہوں تو اُسے صرف جہتِ کعبہ کی طرف منہ کرنا کافی ہو گا۔ چنانچہ صدر الشریعہ محمد امجد علی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : استقبالِ قبلہ عام ہے کہ بعینہ کعبہ معظمہ کی طرف منہ ہو جیسے مکہ مکرمہ والوں کے لئے یا اس جہت کو منہ ہو جیسے اوروں کے لئے (در مختار) یعنی تحقیق یہ ہے کہ جو عین کعبہ کی سمت خاص تحقیق کر سکتا ہے اگرچہ کعبہ آڑ میں ہو جسے مکہ معظمہ کے مکانوں میں جب کہ چھت پر چڑھ کر کعبہ کو دیکھ سکتے ہیں ، تو عینِ کعبہ کی طرف دیکھنافرض ہے ، جہت کافی نہیں ، او رجسے یہ تحقیق ممکن نہ ہو اگرچہ خاص مکہ معظمہ میں ہو اس کے لئے جہتِ کعبہ کو منہ کرنا کافی ہے از افادات رضویہ۔ (131) اور جہتِ کعبہ کو منہ ہونے کے بارے میں صدر الشریعہ محمد امجد علی (از ’’در مختار‘‘ و ’’افادات رضویہ‘‘) نقل کرتے ہیں : جہتِ کعبہ کو منہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ مونھ کی سطح کا جو کوئی جزء کعبہ کی سمت میں واقع ہو تو اگر قبلہ سے کچھ انحراف ہے مگر منہ کا کوئی جزء کعبہ کے مواجہہ میں ہے نماز ہو جائے گی، اس کی مقدار 45 درجہ رکھی گئی ہے تو اگر 45 درجہ سے زائد انحراف ہے استقبال نہ پایا گیا نماز نہ ہوئی (132) اور وہ لوگ جو مکہ مکرمہ میں گھروں یا ہوٹلوں میں ہوں اور وہاں نماز پڑھنا چاہیں تو اُن کو اپنے گھر یا ہوٹل کی چھت سے دیکھنا چاہئے کہ وہاں سے کعبہ نظر آتا ہے یا نہیں اگر نظر آتا ہے تو ان کے حق میں عینِ کعبہ کو رُخ کرنا لازم رہے گا کہ ایسوں کے لئے فقہاء کرام کی تصریح مذکور ہے اور اگر نظر نہ آئے بہت کم ہے کہ نظر آئے تو اُن کے حق میں جہت کعبہ کو رُخ کافی ہو گا اور ہوٹلوں میں تقریباً جہتِ کعبہ کی نشاندہی کی ہوئی ہوتی ہے اس کا اعتبار کیا جائے ۔ اعتراض : اگر کہا جائے فقہاء کرام نے اس پر اجماع کا ذکر کیا ہے کہ مکی کے حق میں عینِ کعبہ کو رُخ کرنا فرض ہے تو وہ اگر عینِ کعبہ کو رخ نہ کرے تو اس کی نماز کیونکر درست ہو گی؟ جواب : اس کا جواب یہ ہے کہ اجماع کو مُشاہِد و مُعایِن کعبہ پر محمول کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ اجماعِ مُشاہِد کعبہ کے حق میں ہے نہ کہ غیر مُشاہِد کے حق میں ، ورنہ اجماع کا دعویٰ غلط ہو جائے گا، کیونکہ دوسرے فقہاء کرام نے مکی غیر مشاہد کے حق میں جہتِ کعبہ کو رُخ کرنا فرض قرار دیا ہے اور اسے اصح، صحیح اور مختار قرار دیا ہے جیسا کہ پہلے اس کا ذکر کیا گیا ہے چنانچہ علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی لکھتے ہیں : فقولہ فی ’’مجمع الروایات‘‘ قال فی ’’الکافی‘‘ فمن کان بمکۃ ففرضہ إصابۃ عینہا اجماعاً یمکن حملہ علی ما إذا کان مشاہداً و اإلا فیکف الإجماع مع ما ذکرناہ (133) یعنی، ان کا قول ’’مجمع الروایات‘‘ میں قول کہ ’’ کافی‘‘ میں فرمایا : پس جو شخص مکہ مکرمہ میں ہو تو بالاجماع اس کا فرض ٹھیک کعبہ کی طرف رخ کرنا ہے ، اسے اس پر محمول کرنا ممکن ہے جب کہ وہ مُشاہِد کعبہ ہو ورنہ جو ہم نے (اس کے خلاف فقہاء کے اقوال کو) ذکر کیا اس کے باوجود اجماع کیسے ہو گا۔ اور دوسری کتاب میں لکھتے ہیں : و لیس الإجماع علی الإطلاق بل فی حقّ المشاہد للکعبۃ، أما من بینہ و بینہا حائل فلا إجماع علی اشتراط عینہا فی حقّہ، بل الأصح أنہ کالغائب للزوم الحرج فی إلزام حقیقۃ المساسّۃ فی کل بقعۃ یصلی فیہا (134) یعنی، اجماع علی الاطلاق نہیں ہے بلکہ اجماع کعبہ کے مُشاہِد کے حق میں ہے ، مگر وہ شخص جس کے اور کعبہ کے مابین آڑ ہو تو اس کے حق میں عینِ کعبہ کو رُخ کرنے کی شرط کرنے پر اجماع نہیں ہے بلکہ اصح یہ ہے کہ وہ مثل غائب کے ہے کیونکہ ہر خطہ جس میں وہ نماز پڑھے اس پر حقیقتاً سمت(قبلہ)کو لازم کرنے میں لزوم حرج ہے ۔ دوسرا اعتراض : یہ ہے کہ فقہاء کرام نے تصریح کی ہے کہ مکی اگر گھر میں نماز پڑھے تو اس طرح پڑھے کہ اگر بیچ کی دیواریں ہٹا دی جائیں تو نمازی کا رُخ کعبہ کے کسی جزء کی طرف ہو ، اگر ایسا نہ ہو تو نماز درست نہ ہو گی؟ جواب : دوسرے فقہاء کرام نے اس کی بھی تصریح کی ہے کہ ایسا مکی کالغائب ہے لہٰذا اس کی نماز صرف جہتِ کعبہ کو منہ کرنے سے اسی طرح درست ہو جائے گی جس طرح آفاقی کی نماز درست ہو جاتی ہے ، چنانچہ علامہ شرنبلالی لکھتے ہیں : لکن تفریعہ بقولہ : حتی لو صلّی فی بیتہ، فینبغی أن یصلّی بحیث لو أزیلت الجُدران یقع استقبالہ علی شطر الکعبۃ، یدافعہ لقولہ : بخلاف الآفاقی۔ قال الزاہدی : و فرض الغائب جہۃ الکعبۃ۔ انتہی (135) یعنی، ان کی اپنے اس قول کے ساتھ تفریع حتی کہ مکی اگر اپنے گھر میں نماز پڑھے تو اُسے چاہئے اس طرح نماز پڑھے کہ اگر اس کے اور کعبہ کے مابین دیواروں کو ہٹا دیا جائے تو اس کا استقبال کعبہ کے کسی جزء پر ، اس (اعتراض ) کو دُور کر دیتا ہے انہی کا قول ’’برخلاف آفاقی کے ‘‘ ۔ زاہدی نے کہا کہ غائب کا فرض جہتِ کعبہ ہے ۔ انتہی ہذا ما ظہر لی فی ہذا الباب و اللہ تعالیٰ أعلم بالصواب و علمہ أتم و أحکم یوم الاربعہ 8شوال المکرم 1427 ھ 1نوفمبر 2006 م (255-F)

حوالہ جات

87۔ البقرہ : 2/144

88۔ مجمع البحرین و ملتقی النیّرین، کتب الصلاۃ، فصل : فی شروط الصلاۃ، ص116

89۔ کنز الدقائق، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ص159

90۔ الہدایۃ،کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ التی تتقدمّہا، تحت قولہ : ویستقبل القبلۃ، 1۔2/56

91۔ فتاویٰ قاضیخان علی ہامش الفتاوی الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، باب الأذان، 1/69

92۔ الفتاوی الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث فی الأذان، الفصل الثالث فی استقبال القبلۃ، 1/63

93۔ تبیین الحقائق، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، 1/264

94۔ الفتاوی الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث فی الأذان، الفصل الثالث فی استقبال القبلۃ، 1/63

95۔ البحر الرائق،کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، تحت قولہ : فللمکی فرضہ إصابۃ عینھا، 1/495

96۔ فتح القدیر، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ التی تتقدمھا، تحت قولہ : ففرضۃ إصابۃ عینھا، 1/235

97۔ البحر الرائق،کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، تحت قولہ : فللمکی فرضہ إصابۃ عینھا، 1/495

98۔ حاشیۃ الشلبی علی التبیین، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، تحت قولہ : إصابۃ عینھا إلی آخرہ، 1/264

99۔ إمداد الفتاح، کتاب الصلاۃ، مطلب فیما یشترط فیہ إسماع نفسہ، تحت قولہ : علی الصحیح ص232

100۔ الفتاوی الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث فی شروط الصلاۃ، الفصل الثالث فی اسقبال القبلۃ، 1/63

101۔ غرر الأحکام و شرحہ الدرر الحکام، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ،1/60

102۔ البحر الرائق،کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، تحت قولہ : فللمکی فرضہ إصابۃ عینھا، 1/495

103۔ کنز الدقائق وشرحہ ، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، 1/191

104۔ فتح القدیر، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، 1/235

105۔ البحر الرائق،کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، تحت قولہ : فللمکی فرضہ إصابۃ عینھا، 1/495

106۔ حاشیۃ الشلبی علی التبیین، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، تحت قولہ : إصابۃ عینھا إلی آخرہ، 1/264

107۔ إمداد الفتاح، باب شروط الصلاۃ و أرکانہا، تحت قولہ : علی الصحیح، ص231۔232

108۔ النہر الفائق،کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، 1/191

109۔ ملتقی الأبحر وشرحہ الدر المنتقی، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، 1/125

110۔ التجنیس و المزید، کتاب الصلاۃ، باب فیما یتقدم الصلاۃ من الشروط، فصل : فی القبلۃ، مسألۃ (439)، 1/429۔430

111۔ فتح القدیر، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ التی تتقدمھا، تحت قولہ : ففرضۃ إصابۃ عینھا، 1/235

112۔ إمداد الفتاح، کتاب الصلاۃ، مطلب فیما یشترط فیہ إسماع نفسہ، تحت قولہ : علی الصحیح ص232

113۔ الکفایۃ شرح الہدایۃ مع الفتح، کتاب الصلاۃ باب شروط الصلاۃ التی تتقدمھا ، تحت قولہ : ففرضھا إصابۃ جھتھا ھو الصحیح، 1/236

114۔ حاشیۃ الشلبی علی التبیین، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، تحت قولہ : إصابۃ عینھا إلی آخرہ، 1/264

115۔ التجنیس و المزید، کتاب الصلاۃ، باب فیما یتقدم الصلاۃ من الشروط، فصل فی القبلۃ، 1/430

116۔ حاشیۃ الشلبی علی التبیین، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، تحت قولہ : إصابۃ عینھا إلی آخرہ، 1/264

117۔ إمداد الفتاح، کتاب الصلاۃ، مطلب فیما یشترط فیہ إسماع نفسہ، تحت قولہ : علی الصحیح ص232

118۔ الکفایۃ شرح الہدایۃ مع الفتح، کتاب الصلاۃ باب شروط الصلاۃ التی تتقدمھا ، تحت قولہ : ففرضھا إصابۃ جھتھا ھو الصحیح، 1/236

119۔ الہدایۃ،کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ التی تتقدمّہا، تحت قولہ : ویستقبل القبلۃ، 1۔2/56

120۔ کتاب الاختیار لتعلیل المختار، کتاب الصلاۃ، باب ما یفعل قبل الصلاۃ، تحت قولہ : من کان یحضرۃ الکعبۃ…إلخ، 1/64

121۔ فتاویٰ رضویہ، کتاب الصلٰوۃ، باب شروط الصلٰوۃ، رسالۃ ھدایۃ المتعال فی حد الاستقبال، 6/65

122۔ بحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، 1/493

123۔ إمداد الفتاح، کتاب الصلاۃ، مطلب فیما یشترط فیہ إسماع نفسہ، تحت قولہ : فرضہ إصابۃ عینھا، ص230

124۔ المختار الفتوی مع شرحہ للمصنّف، کتاب الصلاۃ، باب ما یفعل قبل الصلاۃ ،1۔5/64

125۔ نور الإیضاح وشرحہ مراقی الفلاح، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ و أرکانہا، ص81

126۔ نور الإیضاح وشرحہ مراقی الفلاح، کتاب الصلاۃ، باب لشروط الصلاۃ….إلخ، ص81

127۔ إمداد الفتاح شرح نورالإیضاح، کتاب الصلاۃ، مطلب فیما یشترط فیہ إسماع نفسہ، ص230

128۔ إمدا د الفتاح شرح نور الإیضاح، کتاب الصلاۃ، مطلب فیما یشترط فیہ إسماع نفسہ، ص231

129۔ تنویر الأبصار وشرحہ الدر المختار ،کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ص61

130۔ الدر المختار شرح تنویر الأبصار،کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، تحت قولہ : إصابۃ عینھا، ص61

131۔ بہار شریعت، حصہ (3)، نماز کی شرطوں کا بیان، تیسری شرط، 1/487

132۔ بہار شریعت، حصہ (3)، نماز کی شرطوں کا بیان، تیسری شرط، 1/487

133۔ إمداد الفتاح، کتاب الصلاۃ، مطلب فیما یشترط فیہ إسماع نفسہ، تحت قولہ : علی الصحیح ص232

134۔ غنیۃ ذوی الأحکام فی بغیۃ درر الحکام،کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، تحت قولہ : إستقبال عین الکعبۃ الخ، 1/60

135۔ إمداد الفتاح، کتاب الصلاۃ، مطلب فیما یشترط فیہ إسماع نفسہ، تحت قولہ : علی الصحیح ص232

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button