مضامین

لعاب نبوی کی حیرت انگیز تاثیر

سیدنا مولا علی کرم اللہ وجھہ الکریم کی چشمانِ مبارک میں لعاب نبوی ﷺ کی حیرت انگیز تاثیر

بابِ مدینۃ العلم سیدنا مولا علی کرم اللہ وجھہ الکریم کی چشمانِ مبارک میں لعاب نبوی ﷺ کی حیرت انگیز تاثیر:۔

سیدنا سہل بن سعد  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:غزو ہ خیبر والے دن حضورسرور عالم  ﷺنے ارشاد فرمایا:

لَاُعْطِیَنَّ ھٰذَا الرَّأْیَۃَ غَدًارَجُلًا یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلٰی یَدیْہِ یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیُحِبُّہ ٗ اللّٰہُ وَرَسُوْ لُہ ٗ

کَل میں یہ جھنڈا ایسے مرد کامل کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ عزوجل فتح عطا فرمائے گا اور وہ اللہ اور اس کے رسول  ﷺ سے محبت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اوراس کا رسول  ﷺ اس سے محبت کرتے ہیں۔

 حضرت سہل  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں :پھر لوگوں نے اس غورو خوض میں رات گزاری کہ کس خوش نصیب شخص کو یہ جھنڈا عطا کیا جائے گا ۔سو جب صبح ہوئی تو لوگ سیدنا رسول اللہ  ﷺکی خدمت میں صبح صبح حا ضر ہوئے اور سب یہ آرزو لئے ہوئے تھے کہ یہ جھنڈامجھے عطا کیا جائے گا ۔تو سید عالم  ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 اَیْنَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِبٍ قالَ رَجُلٌ ہُوَ یَا رَسُوْ لَ اللّٰہِ یَشْتکِیْ عَیْنیْہِ قَالَ فَاَرْسَلُوْا اِلَیْہِ فَاُتِیَ بِہٖ فَبَصَقَ رَسُوْ لُ اللّٰہِ ﷺ فی عینیہ ودعا لہ فبرأ حتی کان لم یکن بہ وجع فاعطاہ الرایۃ

علی بن ابی طا لب ( رضی اللہ عنہ  )کہاں ہیں ؟ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ ان کی چشمان مبارک میں تکلیف ہے۔ راوی نے کہا لوگ ان کو بلا کر لے آئے۔ پھر سید عالم ﷺ نے ان کی آنکھوں پر لعاب مبارک لگایااور ان کے لئے دعا فرمائی وہ فورًا ٹھیک ہو گئے حتٰی کہ ایسا لگتا تھا گویا کبھی ان کو (آنکھوں میں)تکلیف ہوئی ہی نہیں تھی۔پھر آپ ﷺ نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا۔

سیدنا علی المرتضٰی کر م اللہ وجھہ الکریم نے عرض کی  :یارسول اللہ ﷺ کیا میں ان لوگوں سے اس وقت تک لڑتا رہوں یہاں تک کہ وہ ہماری مثل (مومن ومسلم) ہو جائیں؟رسالت ماٰبﷺ نے ارشاد فرمایا :

 ادعھم الی الاسلام واخبرھم بما یجب علیھم من حق اللہ فیہ فواللہ لان یھدی اللہ بک رجلا واحداً خیرلک من ان یکون لک حمرالنعم  

 تم ان کو دین اسلام کی طرف بلائواور ان کو اللہ تعالیٰ کے ان حقوق کی خبر دو جو ان پر اللہ عزوجل کی طرف سے واجب ہیں۔سنئے اللہ کی قسم اگر تمہارے صدقے اللہ تعالٰی کسی ایک شخص کو(دین اسلا م کی) ہدایت عطا فرما دے تو تمہا را یہ عمل یقینا تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔

  (دلائل النبوۃ للبیہقی:ج ۴ ص۰۵ ۲ ۔طبع دار الکتب بیروت لبنان)

حضرت سیدنا سلمہ بن اکوع  رضی اللہ عنہ  کی روایت

             حضرت سیدنا سلمہ بن اکوع  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں :پھر سیدنارسول اللہ ﷺ نے سیدنا علی المرتضٰی کر م اللہ وجھہ الکریم کی طرف ایک قاصد آپ  رضی اللہ عنہ  کو بلانے کے لئے بھیجا۔

وَھُوَ اَرْمَدُ فَقَالَ لَاُ عْطِیَنَّ الرَّأْ یَۃَ اَلْیَوْمَ رَجُلًا یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ ویُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ قال فجئت بہ اقودہ قال فبصق رسول اللہ ﷺ فی عینیہ فبرأ فأعطاہ الرأیۃ  

حالانکہ آپ  رضی اللہ عنہ  کی چشمان ِ مبارک میں تکلیف تھی ۔تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :آج میں جھنڈا ایسے عظیم شخص کو عطا کروں گا جو اللہ عزوجل اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ عزوجل اور اس کا رسول اس سے محبت فرما تے ہیں ۔حضرت سلمہ بن اکوع  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں: پھر میں نے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کا ہاتھ پکڑ کر بارگاہ ِرسالت ماٰبﷺ میں پیش کر دیا ،تو حضور سید عالم ﷺ نے ان کی چشمان مبارک میں لعاب شریف ڈالا وہ فورًا ٹھیک ہو گئے پھر ان کو جھنڈا عطا فر ما دیا۔

             (دلائل النبوۃ للبیہقی :ج ۴ ص ۲۰۹ ۔طبع دارالکتب العلمیہ بیروت )

سیدنا سلمہ بن اکوع  رضی اللہ عنہ  سے منقول ایک اور روایت کا ذکر :۔

             امام بیہقی رحمہ اللہ (ت:۴۵۸ھ)رقمطراز ہیں:

            سیدنا سلمہ بن اکوع  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں :

فَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَہُوَ یَوْ مَئِذٍ اَرْمَدُ فَتَفَلَ فِی عَیْنِہٖ وَقَا لَ خُذْ ھٰذِہٖ الرَّأْ یَۃَ فَامْضِ بِھَاحَتٰی یَفْتَحَ اللّٰہُ عَلَیْکَ فخَرَج َبِھَا وَاللّٰہِ یَاْ نَحُ یَقُوْلُ یُھَرْوِلُ ھَرْوَلَۃً وَ اِنَّا لَخَلْفَہ ٗ نَتَّبِعُ اِثْرَہ ٗ حَتّٰی رَ کَزَ رَأْ یَتَہ ٗ فِیْ رَضْمٍ مِن حِجَا رَۃٍتَحْتَ الْحِصْنِ فَا طَّلَعَ اِلَیْہِ یَھُوْ دِیٌّّمِنْ رَأْ سِ الْحِصْنِ فَقَالَ مَنْ اَنْتَ؟ قال انا علی بن ابی طالب 

 پھر حضور سید عالم ﷺ نے سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کو بلایا ۔ان دنوں آپ  رضی اللہ عنہ  کو آنکھوں میں شدید تکلیف تھی ،سو آپ ﷺ نے ان کی آنکھوں میں لعاب شریف ڈالااور فرمایا اس جھنڈا کو لے کر چلئے یہاں تک کہ اللہ عزوجل تمہارے ہاتھ پر فتح عطافرما  دے گا ۔ پس سیدنا علی رضی اللہ عنہ  اس جھنڈے کو لے کر نکلے خدا کی قسم وہ تھوڑے سے بو جھل تھے۔فرماتے ہیں وہ تیزی کے ساتھ بھاگتے جا رہے تھے اور ہم آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے ۔یہا ں تک کہ آپ  رضی اللہ عنہ نے قلعہ کے نیچے ایک مضبوط پتھر میں آپ نے جھنڈے کو گاڑ دیا،اسی دوران قلعہ کی چھت سے ایک یہودی نے آپ  رضی اللہ عنہ  کی طرف جھا نکتے ہوے کہا کون ہو تم ؟آپ  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا میںعلی بن ابی طالب ہوں( رضی اللہ عنہ  )۔

پھرسیدنا مولا علی کر م اللہ وجھہ الکریم نہ لوٹے یہاںتک کہ خالق کائنات نے ان کے ہا تھوں پر فتح و نصرت عطا فرما دی ۔

 (دلائل النبوۃ للبیہقی :ج۴ ص۲۱۰۔ طبع دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

 حضرت بریدہ  رضی اللہ عنہ سے درج ذیل کلمات طیبہ منقول ہیں:

             امام بیہقی رحمہ اللہ(ت:۴۵۸ھ) رقمطراز ہیں :

  فَدَعَا عَلِیَّ بْنَ اَبِیِْ طَا لِبٍ وَہُوَیَشْتَکِی عَیْنَہُ فَمَسَحَھَا ثُمَّ دَ فَعَ اِلَیْہِ الِلّوَا ئَ فَفُتِحَ

پھر آپ ﷺ نے سیدنا  علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ  کو بلایا دراں حا لیکہ آپ  رضی اللہ عنہ  کی آنکھ مبارک میں تکلیف تھی، تو آپ ﷺ نے ان کی اس آنکھ شریف پر دست مبارک پھیرا (وہ فو رًا ٹھیک ہو گئی) پھر جھنڈا ان کے حوالے فرمایااور فتح و نصرت حاصل ہو گئی۔

 (دلائل النبوۃ للبیہقی: ج ۴ ص۲۱۰۔ طبع دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

   حضرت بُریدہ  رضی اللہ عنہ  سے درج ذیل الفاظ بھی منقول ہیں:۔

             امام بیہقی رحمہ اللہ(ت:۴۵۸ھ) لکھتے ہیں:

  فَاصْبَحَ وَجَآ ئَ عَلِیٌّ عَلٰی بَعیْرٍ لَہ ٗ حَتٰی اَ نَاخَ قَرِیْبًا وَہُوَ اَرْمَدُ قَدْ عَصَبَ عَیْنَہٗ بِشِقَّۃِ بُرْدٍ قَطَریٍّ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہﷺ مَا لَکَ؟قَالَ رَمِدْتُّ بَعْدَکَ قَالَ اُدْنُ مِنِّی فَتَفَلَ فِیْ عَیْنَیْہِ فَمَا وَجِعَھَا حَتّٰی مَضٰی لِسَبِیْلِہٖ ثُمَّ اَعْطَا ہُ الرَّأْیَۃَ فَنَھَضَ بِالرَّأْیَۃِوَعَلَیْہِ جُبَّۃُ اُرْ جَوَانَ حَمْرَائَ قَدْ اَخْرَجَ خَمْلَھَا

صبح کے وقت سیدنا علی کرم اللہ وجھہ الکریم اپنے اُونٹ شریف پر بیٹھ کر تشریف لائے، قریب والی جگہ اُونٹ کو بٹھا یا اس  حال میں کہ آپ رضی اللہ عنہ کی چشمان مبارک میں تکلیف تھی اور آ پ رضی اللہ عنہ نے قطری چادر کے کنارے سے اپنی آنکھ شریف پر پٹی باندھی ہوئی تھی۔ سیدنا رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا ؟ عرض گزار ہوئے:آپﷺ کے بعد(ملاقات وغیرہ) میری آنکھوں میں تکلیف ہو گئی۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:میرے قریب ہو جاؤ۔پھر آپﷺ   نے ان کی آنکھ میں لعاب شریف ڈالا توفوری طور پر آنکھ کا درد ختم ہو گیا یہاں تک کہ جہاد کے لئے روانہ ہو گئے۔ پھر آپ ﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا عطا فرمایا۔آپ  رضی اللہ عنہ  وہ جھنڈا لے کر اُٹھے اس حال میں کہ آپ  رضی اللہ عنہ  کے جسم انور پرسرخ اُرْ جُوَان(سر خ رنگ کے کپڑے ہی کو کہا جاتا ہے)کا جُبَّہ شریف تھااور اس کے اوپر کپڑے کا رُواں (روئی دار کپڑا)نکلا ہوا تھا

(دلائل النبوۃ للبیہقی: ج ۴ ص۲۱۱۔ طبع دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

 فائدہ:

             امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ (ت:۷۴۷ھ)نے امام حاکم رحمہ اللہ کی موافقت کرتے ہوئے فرمایا :اس حدیث مبارک کی سند صحیح ہے اور شیخین رحمہمااللہ نے اس کی تخریج نہیں فرمائی۔

                        (تلخیص المستدرک للحاکم للذہبی:ج۳ ص۳۷۔ طبع حلب  )

باب مدینۃ العلم سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم  کا دلکش فرمان مبارک:۔

             امام بیہقی رحمہ اللہ(ت:۴۵۸ھ) رقمطراز ہیں: سیدہ اُمِ موسٰی k فرماتی ہیں:میں نے سیدنا علی کر م اللہ وجھہ الکریم کو فرماتے ہوئے سنا :

 لَارَمدْتُّ وَلَا صُدِّعْتُ مُذْ دَفَعَ اِلیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ الرَّأیَۃَ یَوْ مَ خَیْبَرَ

جب سے خیبر والے دن سیدنا رسول اللہ ﷺ  نے مجھے جھنڈا عطا فرمایا ، اس دن سے نہ کبھی مجھے آنکھوں میں تکلیف ہوئی ہے (کیو نکہ غزوہ خیبر کے موقع پر حضورسرور عالم A نے آپ  رضی اللہ عنہ  کی آنکھو ں میں لعاب  دہن شریف لگایا تھا ) اور نہ کبھی میرے سر میں درد ہوا۔

            (دلائل النبوۃ للبیہقی:ج۴  ص۲۱۳ ۔طبع دار الکتب  العلمیہ بیروت لبنان)

            (مجمع الزوائد و منبع الفوائد للہیثمی:ج۹ ص۱۲۲۔ طبع دارالکتاب العربی بیروت)

 فائدہ :۔

             علامہ نو ر الدین ہیثمی رحمہ اللہ(ت:۸۰۷ھ) فرماتے ہیں:

رواہ ابو یعلی واحمد با ختصار  ورجالھمارجال  الصحیح غیر ام موسٰی وحدیثہا مستقیم

اس حدیث کو امام ابو یعلیٰ اور امام احمد رحمہما اللہ نے اختصار کے ساتھ روایت کیا ہے اور ان کے راوی صحیح کے راوی ہیں،سوائے اُم موسی کے اور ان کی حدیث بھی مستقیم (درست) ہے ۔

             (ایضاً )

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button