مضامین

قاعدہ الضرر يزال /  لا ضرر ولا ضرار: نقصان کو دور کرنا واجب ہے

قاعدہ الضرر يزال /  لا ضرر ولا ضرار: نقصان کو دور کرنا واجب ہے

پانچ بڑے قاعدوں میں سے یہ چوتھا قاعدہ ہے اور علماء کرام نے اس قاعدہ مختلف الفاظ میں ذکر کیا ہے تا ہم یہ قاعدہ دو لفظوں سے زیادہ مشہور ہے متاخرین کے یہاں لا ضرر ولا ضرار  کے لفظ سے مشہور ہے جبکہ متقدمیں کے یہاں الضرر یزال  کیساتھ معروف ہے لیکن قاعدہ کو الفاظ نبوی کیساتھ بیان کرنا ہی تین وجہ سے زیادہ بہتر اور اولی ہے

  1. جب کوئی قاعدہ شریعت کے نصوص میں وارد ہو تو اسے اسی طرح ہی بیان کرنا زیادہ اولی ہے کیونکہ الفاظ شریعت کے اندر جو معانی پنہاں ہوتے ہیں وہ انسانی کلام میں نہیں ہوتا ہے
  2. جب کوئی قاعدہ شریعت کى الفاظ میں وارد ہو تو اس میں ایسی قوت اور صلاحیت ہوتی ہے جو دوسروں میں نہیں ہوتی کیونکہ ہم اس سے فوری طور پر کسی مسئلہ کا استنباط کر سکتے ہیں ۔
  3. الضرر یزال کا معنى جب ضرر واقع ہو تو اس کو دور کیا جائےگا لیک الفاظ نبوی لا ضرر ولا ضرار کا معنى یہ کہ ضرر اور نقصان کو دونوں صورت واقع ہونے کے بعد اور واقع ہونے سے پہلے دور کیا جائے گا جو پہلے الفاظ سے معانی کے اعتبار سے زیادہ جامع اور شامل ہے۔

قاعدہ کے مفردات کا معانی:

ضرر اور ضرار دونوں کلمہ لفظ ضر سے مشتق ہے اور لغت اس کا معنى ہو نقصان جو نفع کا برعکس ہے ۔

ضرر اور ضرار کا اصطلاحی معنى :

ضرر اور ضرار کے معنى بیان کرنے میں علماء کرام کی دو  قول ہے ۔

  1. ضرر اور ضرار میں کپھ فرق نہیں ہے جو معنى ضرر ہے وہی معنى بعینہ ضرار کا ہے یعنی حدیث نبوی میں دوسرا کلمہ پہلا کلمہ کی تاکید ہے ۔
  2. ضرر اور ضرار کے اصطلاحی معنی میں فرق ہے اور دونوں کا بعینہ ایک ہی معنى نہیں ہے , ضرر کا معنی یہ کہ ہے دوسر وں اس نوعیت کی تکلیف اور نفصان پہچانا جس تکلیف یا نقصان میں تکلیف پہچانے والے کو فائدہ حاصل ہو جیسے کہیں کسی شخص کا کھانا رکھا ہوا ہو اور آپ جاکر بلا إجازت اسکو چٹ کرلیں تو اس صاحب کھانا کو نقصان ہوا کہ اس کا کھانہ چلاگیا لیکن نقصان پہچانے والے کو فائدہ ہوا کہ اس سے اسکی بھوک جاتی رہی , اور ضرار کا معنى یہ ہے دوسروں کو اس نوعیت کی تکلیف اور نقصان پہچانا جس نقصان پہچانے والے کو فائدہ نہ ہو جیسے آپ کسی کے کھانےکو غصہ میں کہیں پھینک کر برباد کردیں اس میں کسی کو بھی فائدہ نہیں پہچا تو دونوں قسم کی تکلیف کو شریعت میں واجب ہے ۔اور یہ معنى زیادہ اولی ہے کیونکہ ہمارے پاس قاعدہ ہے التأسیس اور من التأکید نیز زیادت حروف زیادت معانی پر دلالت کرتی ہے۔

قاعدہ کا اجمالی معنى:

شریعت اسلام میں ہر قسم کے ناحق ضرر اور نقصان کو دور کرنا واجب ہے۔

قاعدہ کی شرطیں:

 اس قاعدہ کی  دوشرط ہے:

  1. وہ نقصان نا حق ہو اگر وہ نقصان حق ہو تو جائز ہے جیسے کسی نے چوری کیا اور زنا کیا تو اس پر حد قائم کرنے میں اس کو ضرور تکلیف اور نقصان پہچتا ہے مگر یہ ناحق نہیں ہے بلکہ حق اور شریعت نے اسکی اجازت دی ہے۔ اسی طرح سے کسی نے کسی کا کچھ نقصان کردیا تو اس بدلے میں تاوان دینے میں جو تکلیف حاصل ہے اس کو دور نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ حق ہے اور شریعت نے اس کی اجازت دی ہے۔
  2. نقصان کو دور کرنے میں کوئی اور نقصان در آمد نہ ہو۔

قاعدہ کی دلیل:

اس قاعد کی بہت ساری دلیلیں ہیں ہم ذیل میں چند دلیلوں کا ذکر کرتے ہیں :

  1. آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : لا ضرر ولا ضرار یعنی شریعت اسلام کسی قسم کا نقصان نہیں ہے ۔ اور یہ حدیث صحیح ہے ۔
  2. [البقرة: ٢٣١] یعنی : تم انہیں نقصان پہچانے کی غرض سے روک کر ان پر ظلم وزیادتی نہ کروا اور جس نے ایسا کیا اسے اپنى نفس پر ظلم کیا۔
  3. [البقرة: ٢٨٢] یعنی : نا کاتب کو نقصان پہچانا جائز ہے اور نا ہی گواہ کو۔

قاعدہ الضرر يزال /  لا ضرر ولا ضرار کی مثالیں:

اس قاعدہ کے تحت بہت سارے فقہی مسائل آتے ہیں ہم ذیل چند کا ذکر کرتے ہیں :

  1. خرید وفروخت میں اختیار کی تمام صورتیں کی مشروعیت سے خریدنے والے سے نقصان کو دور کرنا۔
  2. شفعہ کی مشروعیت سے ساجھی دار سے نقصان کو دور کرنا۔
  3. بیڑی , سگریٹ , تمباکو , گٹکھا, زہر وغیرہ کے استعمال سے اپنے آپ کو نقصان پہچانا جائز ہ نہیں ہے۔
  4. کسی کے درخت کی ٹہنی اتنی لمبی ہوکر پڑوسی کے گھر تک جا پہنچے اور پڑوسی کو اس سے تکلیف اور نقصان تو مالک درخت پر واجب ہے کہ وہ درخت کی ٹہنی کاٹ لے۔
  5. کسی کے ہاتھ یا پیر میں کینسر ہو جائے اور اس کے پورے جسم میں سرایت ہو نے کا خوف ہو تو اس کے کینسر شدہ ہاتھ یا پیر کو جان جانے کے نقصان سے بچنے کیلے کاٹنا واجب ہے۔

دوسروں کی جان جانے کا نقصان دور کرنے کیلئے قصاص کا قائم کرنا واجب ہے۔ وغیرہ۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button