ARTICLES

سعی میں ستر عورت کا حکم

الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ سعی کرتے ہوئے کسی خاتون کے بال ظاہر ہوں یا کسی مرد کی ناف کے نیچے سے کچھ حصہ ظاہر ہوجائے تو سعی درست ہوجائے گی یا نہیں اور عمرہ اور حج کی سعی کا حکم ایک ہے یا الگ الگ ہے ؟

(السائل : ایک حاجی ،از مکہ مکرمہ)

جواب

باسمہ تعالی وتقدس الجواب : ۔صورت مسؤلہ میں جاننا چاہیے کہ سعی چاہے حج کی ہو یا عمرہ کی اس میں ستر عورت نہ شرط ہے اور نہ ہی واجب اس معاملے میں اس حقیر نے فقہ حنفی کی وہ تمام کتب جو میسر ائیں سب کے کتاب الحج میں سعی کے بیان کو دیکھا کسی نے بھی ستر عورت کوسعی کی شرائط یا واجبات میں ذکر نہیں کیا ہاں انہوں نے سعی کو ستر عورت کی سنن میں بیان کیاہے ۔چنانچہ علامہ رحمۃ اللہ سندھی حنفی متوفی993ھ سعی کی سنن میں لکھتے ہیں :

وستر العورۃ۔(92)

یعنی، (سعی کی سنتوں میں سے ) ستر عورت ہے ۔ البتہ یہ یاد رہے کہ ویسے توستر عورت بنفس خود فرض ہے ۔ چنانچہ ملاعلی بن سلطان قاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں :

ای سنۃ فیہ مع انہ فرض فی کل حال لئلا یتوھم وجوب الجزاء بترکہ او لانہ یاثم بترکہ فی السعی اثم تارک السنۃ لاجل السعی مع ثبوت اثم ترک الفرض ۔(93)

یعنی،ستر عورت کے ہرحال میں فرض ہونے کے باوجود سعی میں سنت ہے اس لئے کہ اس ترک پر وجوب جزاکا وہم نہ ہو یااس لئے کہ ترک فرض کے گناہ کے ثابت ہونے کے باوجوداس میں تارک سنت کے گناہ کی طرح اس کے ترک پرسعی کی وجہ سے گناہگار ہوگا ۔ چنانچہ شیخ الاسلام مخدوم المخادیم محمد ہاشم ٹھٹوی حنفی متوفی 1174ھ سعی کی سنتوں کے بیان میں لکھتے ہیں :

ششم ستر عورت کہ ان سنت است در حق سعی اگر چہ فرض است بنفس خود پس اگر سعی عورہ برہنہ لازم نیاید دم بروے اگر چہ اثم گردد بواسطہ ترک فرض۔(94)

یعنی،سعی کی چھٹی سنت ستر عورت ہے جو کہ سعی کے حق میں سنت ہے اگر چہ بنفس خود فرض ہے ،یعنی اگر برہنہ سعی کی تو اس پر دم لازم نہیں ائے گا اگر چہ ترک فرض کے واسطے سے گنہگار ہوگا۔ اورقاضی ومفتی مکہ مکرمہ امام ابو البقاء محمد بن احمد بن محمد بن الضیاء مکی حنفی متوفی 854 ھ لکھتے ہیں :

ومن مستحباتہ : ستر العورۃ فی السعی ،حتی لو سعی مکشوف العورۃ صح سعیہ۔(95)

یعنی، سعی میں سترعورت اس کے مستحبات سے ہے ۔یہاں تک کہ اگرکسی نے ستر عور ت کھولے ہوئے سعی کی تو اس کی سعی صحیح ہے ۔ اور ستر عورت کے سنت ہونے سے مراد کوئی یہ نہ لے کہ سعی میں ستر عورت تو وہ ستر کی حفاظت سے بے پرواہ ہوجائے یاد رہے کہ ستر عورت بنفس خود فرض ہے اس لئے اس کا تارک گنہگار ہوگااور صرف حج یا عمرہ کی سعی میں لزوم جزاء کے اعتبار سے یہ سنت کے درجے میں ہے لہٰذا اگر کوئی سعی میں ستر عورت کو کھلا رکھتا ہے تو وہ سعی کی سنت کوترک کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ ایک مطلقا فرض کا تارک بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ گنہگار قرار پاتا ہے اور اس پر اس گناہ سے توبہ لازم اتی ہے باقی جہاں تک حج یا عمرہ میں کفارے کی بات ہے تو اس پر کچھ لازم نہیں اتا نہ دم اور نہ صدقہ۔ چنانچہ صدر الشریعہ محمدامجدعلی اعظمی متوفی1367ھ لکھتے ہیں : سعی میں ستر عورت سنت ہے یعنی اگرچہ ستر کا چھپانا فرض ہے مگر اس حالت میں فرض کے علاوہ سنت بھی ہے کہ اگر ستر کھلا رہا تو اس کی وجہ سے کفارہ واجب نہیں مگر ایک گناہ فرض کے ترک کا ہوا، دوسرا ترک سنت کا۔(96)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

یوم الجمعۃ،20،ذوالحجۃ ، 1439ھ ۔31،،سبتمبر ،2018م FU-60

حوالہ جات

(92) لباب المناسک و عباب المسالک،باب السعی بین الصفا والمروۃ،فصل فی سننہ،ص : 128

(93) المسلک المتوسط فی المنسک المتوسط علی لباب المناسک،باب السعی بین الصفا والمروۃ ، فصل فی سننہ،تحت قولہ : وستر العورۃ،ص254

(94) حیات القلوب فی زیارۃ المحبوب،باب چہارم در بیان سعی ،فصل اول درمیان شرائط صحت سعی وواجبات ، سنن و مستحبات اں ، سنن سعی ، 159

(95) البحر العمیق،الباب العاشر : فی دخول مکۃ وفی الطواف والسعی،بعد فصل : فی سبب شرعیۃ السعی،3/1296

(96) بہارشریعت،حج کابیان،طواف وسعی صفا ومروہ و عمرہ ،1/1110

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button