ARTICLES

رمی،قربانی اورحلق کے درمیان ترتیب کاحکم اوراس کے خلاف کرنے پرحکم؟

الاستفتاء : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ رمی،قربانی اورحلق کے درمیان ترتیب کیاہے اوراگر کسی وجہ سے ترتیب بدل جائے توپھرکیاحکم ہے ؟

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں قارن اورمتمتع حاجی کے لئے رمی،قربانی اورحلق کے درمیان ترتیب قائم رکھنا واجب ہے اورحج افرادکرنے والے پرچونکہ قربانی لازم نہیں ،اس لئے مفردپرفقط ر می اورحلق کے درمیان ترتیب واجب ہے یعنی پہلے وہ رمی کرے اورپھرحلق یاتقصیر،اورخلاف ترتیب عمل کرنے والے حاجی پرایک دم لازم ہوگا۔چنانچہ علامہ علاءالدین ابوبکربن مسعودکاسانی حنفی متوفی587ھ لکھتے ہیں :

ان كان قارنًا او متمتعًا يجب عليه ان يذبح ويحلق،ويقدم الذبح على الحلق ؛ لقوله تعالى : ﮃيذكروا اسم اللٰه فيٓ ايامٍ معلومٰتٍ علٰي ما رزقهم منۢ بهيمة الانعام ۚ فكلوا منها واطعموا الباۗىٕس الفقيرﮂ()ﮃثم ليقضوا تفثهمﮂ()رتب قضاء التفث، وهو الحلق على الذبح۔()

یعنی،اگرکوئی قارن یامتمتع ہو،تواس پرقربانی اورحلق کرناواجب ہے اوروہ قربانی کوحلق پرمقدم رکھے ،اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے : ﮃاللہ کا نام لیں جانے ہوئے دنوں میں اس پر کہ انہیں روزی دی بے زبان چوپائے تو ان میں سے خود کھاؤاورمصیبت زدہ محتاج کوکھلاؤ،پھر اپنا میل کچیل اتاریں ﮂاللہ تعالیٰ نے میل کچیل اتارنے یعنی حلق کوقربانی پرمرتب فرمایاہے ۔ علامہ فریدالدین عالم بن علاءدہلوی حنفی متوفی786ھ لکھتے ہیں :

فی المنافع : فی یوم النحر یقدم الرمی، ثم الذبح، ثم الحلق، والضابط قولھم،’’رذح‘‘۔()

یعنی،’’منافع‘‘میں ہے دسویں ذوالحجہ میں رمی کومقدم رکھے ،پھرقربانی اورپھرحلق کرے ،اورقاعدہ فقہائے کرام کاقول ’’رذح‘‘ہے (ر‘سے رمی، ذ‘سے ذبح اورح‘سے حلق)۔ اورعلامہ سراج الدین عمربن ابراہیم ابن نجیم حنفی متوفی1005ھ لکھتے ہیں :

(اخر الحلق) عن وقتہ اعنی ایام النحر (او) اخر (طواف الرکن) عنھا ایضا یعنی یجب علیہ لکل منھما دم عند الامام ، وقالا : لا شیء علیہ وکذا الخلاف فی تاخیر الرمی وفی تقدیم نسکٍ علی نسک ، کالحلق قبل الرمی ، ونحر القارن قبل الرمی، والحلق قبل الذبح ، کذا فی الھدایۃ و شروحھا۔()

یعنی،حلق یاطواف زیارت کوایام نحرسے مؤخرکرنے والے پرامام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک دونوں میں سے ہرایک کے بدلے دم لازم ہوگااورصاحبین نے فرمایاکہ اس پرکچھ لازم نہیں ہوگااوراسی طرح رمی کومؤخر کرنے اورایک نسک کو دوسرے نسک پرمقدم کرنے میں اختلاف ہے جیسے رمی سے پہلے حلق اورقارن کارمی سے پہلے قربانی کرنا،اورقربانی سے پہلے حلق کرنا،اسی طرح ’’ہدایہ‘‘اوراس کی شروحات میں ہے ۔ علامہ حسن بن
عمارشرنبلالی حنفی متوفی1069ھ’’واجبات حج‘‘کے بیان میں لکھتے ہیں :

تقديم الرمي على الحلق ونحر القارن والمتمتع بينهما۔()

یعنی،رمی کوحلق پرمقدم کرنااورقارن ومتمتع کاان دونوں کے درمیان قربانی کرناواجب ہے ۔ علامہ نظام الدین حنفی متوفی1161ھ اورعلمائے ہندکی جماعت نے لکھاہے :

لو كان قارنًا او متمتعًا فلا بد له من الذبح ثم يحلق او يقصر والحلق افضل،كذا في شرح الطحاوي۔()

یعنی،اگرحاجی قارن یامتمتع ہو،تواس کے لئے قربانی ضروری ہے پھروہ حلق یاقصرکرے اورحلق افضل ہے اسی طرح ’’شرح طحاوی‘‘میں ہے ۔ علامہ
سیدمحمدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ لکھتے ہیں :

يجب ترتيب الثلاثة : الرمي ثم الذبح ثم الحلق، لكن المفرد لا ذبح عليه فيجب عليه الترتيب بين الرمي والحلق فقط۔()

یعنی،قارن اورمتمتع کے لئے تین امورمیں ترتیب واجب ہے : رمی پھر قربانی اورپھرحلق،لیکن مفردپرقربانی لازم نہیں ،پس اس پر فقط رمی اورحلق کے درمیان ترتیب واجب ہے ۔ اورخلاف ترتیب عمل کرنے والے حاجی پردم لازم ہونے نہ ہونے میں فقہاءکرام کااختلاف ہے ،امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک اس پردم لازم ہوگاجبکہ امام ابویوسف اورامام محمدرضی اللہ تعالیٰ عنہماکے نزدیک دم لازم نہیں ہوگااورقوی قول امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کاہے اوراسی پرفتویٰ بھی ہے ۔ چنانچہ علامہ ابوالحسن علی بن ابی بکرمرغینانی حنفی متوفی593ھ لکھتے ہیں :

الخلاف في تقديم نسكٍ على نسكٍ كالحلق قبل الرمي، ونحر القارن قبل الرمي، والحلق قبل الذبح. لهما : ان ما فات مستدرك بالقضاء ولا يجب مع القضاء شيء اخر.وله : حديث ابن مسعودٍ رضي الله عنه انه قال : “من قدم نسكًا على نسكٍ فعليه دم”، ولان التاخير عن المكان يوجب الدم فيما هو موقت بالمكان كالاحرام فكذا التاخير عن الزمان فيما هو موقت بالزمان۔()

یعنی،افعال حج کوایک دوسرے پرمقدم کرنے کے حکم میں اختلاف ہے جیسے رمی سے پہلے سرمنڈانا،یاقارن قربانی کورمی سے پہلے کرنا،یاقربانی سے پہلے حلق کرنا،امام ابویوسف اورامام محمدکے نزدیک یہ جائزہے ان کی دلیل یہ ہے کہ جوچیز فوت ہوجائے اس کی تلافی قضاسے ہوجاتی ہے اورقضاکے ساتھ کوئی اورچیزلازم نہیں ہوتی ،امام ابوحنیفہ کے نزدیک ترتیب کے خلاف کرنے سے دم لازم اتاہے ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ’’جس شخص نے حج کے ایک فعل کودوسرے پرمقدم کردیاتواس پردم لازم ہے ‘‘،اوراس لئے کہ جو چیزبھی جگہ کے ساتھ مؤقت ہے اس سے مؤخرکرنے پردم واجب ہوتاہے جیسے احرام،پس اسی طرح زمانے کے ساتھ مؤقت چیزکواس سے مؤخرکرناموجب دم ہوگا۔ اورعلامہ ابن ہمام حنفی متوفی861ھ لکھتے ہیں :

ولهما ايضًا من المنقول ما في الصحيحين «انه عليه السلام وقف في حجة الوداع فقال رجل : يا رسول الله لم اشعر فحلقت قبل ان اذبح، قال اذبح ولا حرج، وقال اخر : يا رسول الله لم اشعر فنحرت قبل ان ارمي، قال : ارم ولا حرج، فما سئل يومئذٍ عن شيءٍ قدم ولا اخر الا قال افعل ولا حرج».والجواب ان نفي الحرج يتحقق بنفي الاثم والفساد فيحمل عليه دون نفي الجزاء، فان في قول القائل لم اشعر ففعلت ما يفيد انه ظهر له بعد فعله انه ممنوع من ذلك، فلذا قدم اعتذاره على سؤاله والا لم يسال او لم يعتذر.لكن قد يقال : يحتمل ان الذي ظهر له مخالفة ترتيبه لترتيب رسول الله صلى الله عليه وسلم فظن ان ذلك الترتيب متعين فقدم ذلك الاعتذار وسال عما يلزمه به، فبين عليه الصلاة والسلام في الجواب عدم تعينه عليه بنفي الحرج، وان ذلك الترتيب مسنون لا واجب. والحق انه يحتمل ان يكون كذلك، وان يكون الذي ظهر له كان هو الواقع الا انه عليه السلام عذرهم للجهل وامرهم ان يتعلموا مناسكهم، وانما عذرهم بالجهل؛ لان الحال كان اذ ذاك في ابتدائه، واذا احتمل كلا منهما فالاحتياط اعتبار التعيين والاخذ به واجب في مقام الاضطراب فيتم الوجه لابي حنيفة، ويؤيده ما نقل عن ابن مسعودٍ رضي الله عنه من قدم نسكًا على نسكٍ فعليه دم بل هو دليل مستقل عندنا.وفي بعض النسخ : ابن عباسٍ وهو الاعرف رواه ابن ابي شيبة عنه ولفظه من قدم شيئًا من حجه او اخره فليهرق دمًا وفي سنده ابراهيم بن مهاجرٍ مضعف. واخرجه الطحاوي بطريقٍ اخر ليس ذلك المضعف : حدثنا ابن مرزوقٍ، حدثنا الخصيب، حدثنا وهيب عن ايوب عن سعيد بن جبيرٍ عن ابن عباسٍ مثله. قال : فهذا ابن عباسٍ احد من روى عنه عليه السلام افعل ولا حرج لم يكن ذلك عنده على الاباحة، بل على ان الذي فعلوه كان على الجهل بالحكم فعذرهم وامرهم ان يتعلموا مناسكهم.ومما استدل به قياس الاخراج عن الزمان بالاخراج عن المكان. واما الاستدلال بدلالة قوله تعالى ﮃفمن كان منكم مريضًا او بهٖٓ اذًى من راسهٖ ففدية ﮂ()الاية. فان ايجاب الفدية للحلق قبل اوانه حالة العذر يوجب الجزاء مع عدم العذر بطريق اولى۔()

یعنی،امام ابویوسف اورامام محمدکی دلیل یہ بھی ہے کہ’’صحیح بخاری‘‘ اور ’’صحیح مسلم‘‘میں ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریمﷺحجۃ الوداع میں کھڑے ہوئے تھے ،ایک شخص نے کہا : یارسول اللہ میں نے لاعلمی میں قربانی سے پہلے سرمنڈالیا،اپ نے فرمایا : ’’کوئی حرج نہیں ‘‘،اب ذبح کرلو،ایک اورشخص نے کہا : میں نے لاعلمی میں رمی سے پہلے قربانی کردی ہے ،اپ نے فرمایا : ’’کوئی حرج نہیں اب رمی کرلو‘‘، اوراس دن جس چیزکے بھی مقدم یامؤخرکرنے کے بارے میں پوچھاگیاتواپ نے یہی فرمایاکہ اب کرلواورکوئی حرج نہیں ہے ،اس حدیث کاجواب یہ ہے کہ حرج نہ ہونے کامعنی یہ ہے کہ اس سے گناہ نہیں ہوگااورحج فاسدنہیں ہوگا،یہ معنی نہیں ہے کہ اس پر کوئی جزاءاورفدیہ نہیں ہے کیونکہ کہنے والے نے یہ کہاہے کہ میں نے لاعلمی سے یہ کام کیاہے جس کامفادیہ ہے کہ کام کرنے کے بعد اس پرمنکشف ہواکہ یہ تقدیم یا تاخیرممنوع تھی اسی وجہ سے اس نے سوال کرنے سے قبل اپناعذربیان کیاورنہ وہ سوال نہ کرتے یاوہ عذربیان نہ کرتے ،لیکن صاحبین کی طرف سے یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ بھی احتمال ہے کہ سائل نے جب یہ دیکھاکہ اس کی ترتیب رسول اللہﷺکی ترتیب کے خلاف ہے اوراس نے یہ گمان کیاکہ یہ ترتیب معین ہے تواس نے عذر پیش کرکے سوال کیاکہ اس کے سبب کیالازم ائے گا،تونبی علیہ الصلوۃ و السلام کریمﷺنے جواب میں حرج کی نفی کرکے یہ ظاہرفرمایاکہ یہ ترتیب مسنون ہے نہ کہ واجب،اورحق یہ ہے کہ جس طرح یہ احتمال ہے اسی طرح یہ بھی احتمال ہے کہ یہ ترتیب واجب ہو، مگرنبیﷺنے ان کولاعلمی کی وجہ سے معذور قرار دیاہو، اور اپ نے صحابہ کرام کوافعال حج سیکھنے کاحکم دیااورجہل کے سبب ان کو معذور قرار دیا،کیونکہ یہ فرضیت حج کاابتدائی دورتھا،اورجب اس معاملے میں یہ دونوں احتمال موجودہیں تواحتیاطاترتیب واجب ہونے کے قول پرعمل کرناچاہیے اوراس سے امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دلیل مضبوط ہوتی ہے اوران کی تائیدحضرت ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فرمان سے ہوتی ہے : جس نے حج کے ایک فعل کودوسرے پرمقدم کردیاتواس پردم لازم ہے ، بلکہ ہمارے نزدیک یہ ایک مستقل دلیل ہے ،اور ’’ہدایہ‘‘کے بعض نسخوں میں حضرت ابن مسعودکی جگہ حضرت ابن عباس کاذکر ہے اوریہ زیادہ معروف ہے ،امام ابن ابی شیبہ نے اسے روایت کیاہے ، اوران کے الفاظ یہ ہیں ’’جو شخص اپنے حج میں کسی عبادت کو مقدم یامؤخر کردے وہ ایک قربانی دے ‘‘() اوراس حدیث کی سندمیں ایک راوی ابراہیم بن مہاجر ہے جسے ضعیف کہا گیا ہے ، امام طحاوی نے یہ روایت ایک اورسندسے بیان کی ہے جس میں یہ ضعیف راوی نہیں ہے وہ سندیہ ہے : حدثنا ابن مرزوق، حدثنا خصیب،حدثنا وھیب عن ایوب عن سعید بن جبیر عن ابن عباس مثلہ. امام طحاوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماان راویوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے یہ روایت بیان کی ہے کہ کوئی حرج نہیں ہے اب کرلو،اوریہ حدیث امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک مباح ہونے پرمحمول نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک اس پرمحمول ہے کہ انہوں نے لاعلمی کی وجہ سے بعض عبادات کومقدم یا مؤخرکردیاتھاتواپ نے ان کومعذورقراردیااورحج کی عبادات سیکھنے کاحکم دیا،اورامام ابوحنیفہ کے نظریہ پرزمانے سے تاخیرکومکان سے تاخیر پر قیاس کرکے استدلال کیا گیاہے اورامام اعظم ابوحنیفہ کے نظریہ پراس ایت سے بھی استدلال ہے ’’پھر جوتم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہوتووہ فدیہ دے ‘‘اس ایت میں اللہ تعالیٰ نے عذرکی بناءپراپنے وقت سے پہلے سرمنڈانے پر فدیہ دینے کوواجب فرمایاہے توجب عذرکی بناءپروقت سے پہلے سرمنڈانے پرفدیہ لازم اتاہے تووقت سے پہلے بلاعذرسرمنڈانے پرتو بطریق اولیٰ فدیہ لازم ائے گا۔ اورامام فخرالدین عثمان بن علی زیلعی حنفی متوفی743ھ لکھتے ہیں :

اذا اخر الحلق او طواف الزيارة عن وقته، وهو ايام النحر في المشهور من الرواية يجب عليه دم، وهذا عند ابي حنيفة وقالا : لا شيء عليه فيهما، وعلى هذا الخلاف في تاخير الرمي، وفي تقديم نسكٍ على نسكٍ كالحلق قبل الرمي ونحر القارن قبل الرمي والحلق قبل الذبح۔()

یعنی،حاجی جب حلق یاطواف زیارت کواس کے وقت سے مؤخر کرے اوروقت مشہورروایت کے مطابق ایام نحرہے ،تو اس پردم واجب ہوگااوریہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک ہے اورصاحبین رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اس پران دونوں میں تاخیرپرکچھ لازم نہیں ہوگااوراسی پررمی کو مؤخر کرنے میں اورایک نسک کودوسرے نسک پر مقدم کرنے میں اختلاف ہے ،جیسے رمی سے پہلے سرمنڈانااورقارن کارمی سے پہلے قربانی
کرنااورقربانی سے پہلے سرمنڈانا ۔ اورصدرالشریعہ عبیداللہ بن مسعودحنفی متوفی747ھ لکھتے ہیں :

(قدم نسکا علی اخر) کالحلق قبل الرمی، ونحر القارن قبل الرمی ، او الحلق قبل الذبح، (فعلیہ دم)۔ ()

یعنی،کسی نے حج کے ایک فعل کودوسرے پرمقدم کیاجیسے رمی سے پہلے حلق،اورقارن کارمی سے پہلے قربانی یاقربانی سے پہلے حلق کرنا،تواس پردم لازم ہوگا۔ اورعلامہ ابن نجیم حنفی متوفی970ھ لکھتے ہیں :

في معراج الدراية اعلم ان ما يفعل في ايام النحر اربعة اشياء : الرمي والنحر والحلق والطواف.وهذا الترتيب واجب عند ابي حنيفة ومالكٍ واحمد اهـ.لاثر ابن مسعودٍ او ابن عباسٍ : من قدم نسكًا على نسكٍ لزمه دم .وظاهره انه اذا قدم الطواف على الحلق يلزمه دم عنده. وقد نص في المعراج في مسالة حلق القارن قبل الذبح انه اذا قدم الطواف على الحلق لا يلزمه شيء .فالحاصل انه ان حلق قبل الرمي لزمه دم مطلقًا. وان ذبح قبل الرمي لزمه دم ان كان قارنًا او متمتعًا لا ان كان مفردًا؛ لان افعاله ثلاثة. الرمي والحلق والطواف، واما ذبحه فليس بواجبٍ فلا يضره تقديمه وتاخيره ، وعندهما لا يلزمه شيء بتقديم نسكٍ على نسكٍ للحديث السابق الا انه مسيء۔()

یعنی،’’معراج الدرایہ‘‘میں ہے توجان کہ ایام نحرمیں کئے جانے والے اعمال چارہیں ،رمی،قربانی،حلق اورطواف زیارت، اوریہ ترتیب امام اعظم ابو حنیفہ،امام مالک،امام احمدبن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نزدیک حضرت ابن مسعودیاحضرت ابن عباس کی حدیث کی وجہ سے واجب ہے کہ جس نے حج کے ایک فعل کودوسرے پرمقدم کردیاتواس پردم لازم ہے ، اوراس کاظاہریہ ہے کہ جب کوئی حلق سے پہلے طواف کرلے توامام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے نزدیک اس پردم لازم ہوگاحالانکہ’’معراج الدرایہ‘‘میں اس مسئلے کی تصریح ہے کہ قارن جب طواف کوحلق پرمقدم کردے تو اس پرکچھ لازم نہیں ہوگا،لہٰذاحاصل یہ کہ اگرحاجی رمی سے پہلے سرمنڈالے تومطلقااس پردم لازم ہوگا،اوراگررمی سے پہلے قربانی کردے توقارن یامتمتع پردم لازم ہوگا، مفردپرنہیں ،کیونکہ حج افراد کرنے والے کے افعال تین افعال ہیں ، رمی،حلق اورطواف،اورقربانی اس پرواجب نہیں ہے پس اسے قربانی کو مقدم اورمؤخرکرناضررنہ دے گااورصاحبین کے نزدیک حج کے ایک فعل کودوسرے پرمقدم کرنے کی صورت میں اس پرپیچھے گزرنے والی حدیث کی وجہ سے کچھ لازم نہیں ہوگا مگر وہ براکرنے والاہوگا۔ اورشیخ الاسلام مخدوم محمدہاشم ٹھٹوی حنفی متوفی1174ھ لکھتے ہیں :

تقدیم رمی جمرہ عقبہ برذبح واجب است درحق قارن ومتمتع وسنت است درحق مفردنزدابی حنیفۃ ونزدصاحبیہ سنت است درحق جمیع پس اگرذبح کردقارن یامتمتع قبل ازرمی جمرہ عقبہ واجب گردددم بروے نزدابی حنیفہ غیران دم کہ واجب است بروے اتفاقًابسبب قران یاتمتع۔()

یعنی،امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک جمرہ عقبہ کی رمی کو قربانی پرمقدم کرناقارن اورمتمتع کے حق میں واجب ہے اورمفردکے حق میں سنت ہے اورصاحبین کے نزدیک سب کے حق میں سنت ہے لہٰذاقارن یامتمتع جمرہ عقبہ کی رمی سے قبل قربانی کرے گاتواس پرامام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے نزدیک دم واجب ہوگا،البتہ قران یاتمتع کے سبب بالاتفاق دم لازم ہوگا۔ اورامام اہلسنت امام احمدرضاخان حنفی متوفی1340ھ لکھتے ہیں : رمی سے پہلے حلق کرلیا دم دے (اور)قارن یا متمتع رمی سے پہلے قربانی یا قربانی سے پہلے حلق کریں تو دم دیں ۔() اورصدرالشریعہ محمدامجدعلی اعظمی حنفی متوفی1367ھ لکھتے ہیں : حلق رمی سے پہلے کیا یا قارن و متمتع نے قربانی سے پہلے کیا یا ان دونوں نے رمی سے پہلے قربانی کی تو ان سب صورتوں میں دم ہے ۔() اورمفتی احمدیارخان نعیمی حنفی متوفی1391ھ لکھتے ہیں : دسویں ذی الحجہ کو حج کے افعال چار ادا ہوتے ہیں اولًا جمرہ عقبہ کی رمی،پھر قربانی،پھرسر منڈانا،پھر طواف زیارت ان چاروں ارکان میں ترتیب امام شافعی،احمد،اسحاق کے ہاں سنت ہے کہ اس کے بدل جانے سے دم واجب نہیں صرف ثواب میں کمی ہوگی مگر ابن جبیر،امام مالک و امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہم کے ہاں ان بعض میں ترتیب واجب ہے کہ بدل جانے سے دم واجب ہے ۔ان بزرگوں کے ہاں لاحرج کے معنی ہیں تم پر گناہ نہیں ،مگر ان حضرات کے ہاں اس کے معنی ہیں تم پر فدیہ یا قربانی واجب نہیں ،مگر قول امام ابو حنیفہ قوی ہے کہ سیدنا عبداللہ ابن عباس نے بھی اسی کی مثل روایت فرمائی،مگروہ ترتیب بدلنے سے قربانی واجب فرماتے ہیں ،جب راوی کا مذہب یہ ہے ،تو معلوم ہواکہ ان کے ہاں بھی اس حدیث کے یہی معنی ہیں ۔()

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب منگل،17رجب1442ھ۔1مارچ2021م

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button