دیدار باری تعالی
مشہور

دیدار باری تعالی کے متعلق درست عقیدہ کیا ہے؟ کیا اللہ تعالی کا دیدار عقلاً ممکن ہے؟

اہل سنت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ دیدار باری تعالی / اللہ تعالی کا دیدار  عقلاً ممکن ہے۔ اس مضمون میں رؤیت باری تعالی کے ممکن ہونے پر عقلی دلائل دئیے گئے ہیں۔

دیدار باری تعالی کے متعلق درست عقیدہ

اہل سنت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ دیدار باری تعالی / اللہ تعالی کا دیدار  عقلاً ممکن ہے۔ اس عقیدے پر عقلی دلائل بھی موجود ہیں ،  قرآن  پاک کی کثیر آیات اور  احادیث  طیبات سے بھی یہ عقیدہ  ثابت ہے، یہی صحابہ کرام کا متفقہ عقیدہ ہے اور اسی پر تمام اہل سنت کا اجماع ہے  بلکہ اہل سنت کا عقیدہ تو یہ ہے کہ آخرت میں مسلمانوں کو اللہ تعالی کا دیدار نصیب بھی ہو گا۔   ذیل میں رؤیت باری تعالی کے ممکن ہونے پر عقلی دلائل دئیے جا رہے ہیں۔

دیدار باری تعالی کے عقلاً ممکن ہونے کے دلائل:

(1)       جوہر (مثلاً کسی بھی جسم کے طول و عرض)  کو بھی دیکھا جا سکتا ہے اور   اعراض (مثلاً رنگ، روشنی وغیرہ)کو بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ عقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ  کوئی ایسی علت ہونی چاہیے جو دونوں میں مشترک ہو کیونکہ ایک جیسے احکام کی مختلف علتیں ہونا عقلاً ”ناممکن“ ہے اور جوہر اور عرض دونوں میں ”وجود“ مشترک ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو ذات ”موجود“ ہو گی اسے دیکھنا عقلاً درست ہو گا اور اللہ تعالی  بھی ”موجود“ ہے لہذا اللہ تعالی کو بھی دیکھنا عقلاً درست ہے۔

امام اشعری رحمہ اللہ  (وفات: 324ھ) الابانہ عن اصول الدیانہ میں  فرماتے ہیں:” ومما يدل على رؤية الله تعالى بالأبصار؛ أنه ليس موجود إلا وجائز أن یريناه الله عز وجل، وإنما لا يجوز أن يرى المعدوم، فلما  كان الله عز وجل موجودا مثبتا، كان غير مستحيل أن يرينا نفسه عز وجل“ ترجمہ:  آنکھوں سے  اللہ تعالی کی رؤیت کے دلائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب اللہ تعالی موجود ہے تو ممکن ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اپنے دیدار سے مشرف فرما دے کیونکہ جس کو دیکھنا ممکن نہیں ہوتا وہ معدوم ہوتا ہے تو جب اللہ عزوجل کا موجود ہونا ثابت ہے تو یہ بات محال نہیں ہے کہ وہ ہمیں اپنی رؤیت سے مشرف فرما دے۔([1])

اربعین فی اصول الدین میں امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ (وفات: 606ھ) فرماتے ہیں: ”قالوا : ثبت أن الجوهر يصح أن يرى ، واللون يصح أن يرى ، والجواهر والألوان تشتركان فى صحة الرؤية . وهذه الصحة حكم حادث ، فلابد لها من علة . والحكم المشترك يجب تعليله بعلة مشتركة ، لامتناع تعليل الأحكام المتساوية بالعلل المختلفة۔  والمشترك بين الجواهر والأعراض ، والوجود مشترك فيه ،فاذن وجود الله تعالى علة صالحة لصحة رؤيته واذا حصلت العلة ، حصل الحكم لا محالة . فوجب القول بصحة رؤيته “ملتقطاً ترجمہ:  متکلمین یہ دلیل دیتے ہیں کہ جوہر کو دیکھنا  ممکن ہوتا ہے اور رنگ کو دیکھنا بھی ممکن ہوتا ہے  یعنی جوہر اور رنگ رؤیت کے ممکن ہونے میں مشترک ہیں اور یہ حکم (رؤیت کا ممکن ہونا)حادث ہے لہذا اس کے لئے کسی علت کا ہونا ضروری ہے اور حکم مشترک کی علت  کا مشترک ہونا  بھی ضروری ہے کیونکہ ایک جیسے احکام کی مختلف علتیں ہونا، ناممکن ہے۔ جوہر اور اعراض کی مشترک علت ”وجود “ ہے لہذا   ذات باری تعالی میں رؤیت کے ممکن ہونے کی علت ”وجود“ پائی جاتی  ہے اور جب علت پائی جا رہی ہے تو حکم بھی لازماً پایا جائے گا لہذا اللہ تعالی کی رؤیت کے ممکن ہونے کا قول کرنا عقلاً واجب ہے۔([2])

(2)      عقلی اصول یہ ہے کہ جو ذات اپنے آپ کو نہیں  دیکھ سکتی وہ اشیا کو بھی نہیں دیکھ سکتی اور جو ذات خود اپنے آپ کو دیکھ سکتی ہے ، دوسروں کا بھی اسے دیکھنا ممکن ہوتا ہے۔ جب یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالی اشیا کو دیکھتا ہے تو  یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالی خود اپنی ذات کو بھی دیکھ سکتا ہے اور جب اللہ تعالی خود اپنی ذات کو دیکھ سکتا ہے  تو  ثابت ہوا کہ ہمارا  اس ذات کے دیدار سے مشرف ہونا بھی عقلاً ممکن ہے۔

المعتقد المنتقد میں علامہ فضل الرسول بدایونی رحمہ اللہ (وفات: 1289) فرماتے ہیں: ”ولا خلاف عند نا  انہ تعالی یری ذاتہ المقدسہ“ ترجمہ: ہمارے ہاں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں ہے  کہ اللہ تعالی اپنی مقدس ذات کو دیکھتا ہے۔([3])   

الابانۃ عن اصول الدیانۃ میں امام اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  ” و مما يدل على رؤية الله سبحانه بالأبصار أن الله تعالى يرى الأشياء، وإذا كان للأشياء رائيا فلا يرى الأشياء من لا يرى نفسه، وإذا كان لنفسه رائيا فجائز أن يرينا نفسه۔۔  ولما كان الله عز وجل رائيا للأشياء كان رائيا لنفسه، وإذا كان رائيا لها فجائز أن يرينا  نفسه “ترجمہ: جاگتی آنکھوں سے  اللہ تعالی کی رؤیت کے دلائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی اشیا کو دیکھتا ہے ، جب یہ بات ثابت ہے تو اصول یہ ہے کہ جو ذات اپنے آپ کو نہیں  دیکھ سکتی وہ اشیا کو بھی نہیں دیکھ سکتی اور جو ذات خود اپنے آپ کو دیکھ سکتی ہے ، دوسروں کا بھی اسے دیکھنا ممکن ہوتا ہے۔   اس اصول کی روشنی میں جب یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالی اشیا کو دیکھتا ہے تو  یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالی خود اپنی ذات کو بھی دیکھ سکتا ہے اور جب اللہ تعالی خود اپنی ذات کو دیکھ سکتا ہے  تو  ثابت ہوا کہ ہمارا  اس ذات کے دیدار سے مشرف ہونا بھی ممکن ہے۔([4])  

(3)      اگر عقل کو بالکل خالی چھوڑ دیا جائے  اور کوئی دلیل پیش نہ کی جائے تو عقل خود بھی رؤیت باری تعالی کو ممکن سمجھتی ہے اور اس کے محال ہونے کا حکم نہیں لگاتی۔ اگر  رؤیت باری تعالی عقلاً محال ہوتی تو اسے کسی دلیل کی ضرورت نہ پڑتی اور عقل اصلاً رؤیت باری تعالی کے ممکن ہونے کا انکار کرتی کیونکہ اصل اللہ تعالی کے علاوہ ہر چیز کا نہ ہونا ہے۔ 

علامہ سعد الدین تفتازانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ان العقل اذا خلی  ونفسہ لم یحکم بامتناع الرؤیۃ، ما لم یقم لہ برھان علی ذلک، مع ان الاصل عدمہ “ ترجمہ: اگر عقل کو بالکل خالی چھوڑ دیا جائے تو جب تک رؤیت باری تعالی کے محال ہونے پر کوئی دلیل پیش نہ کی جائے اس وقت تک عقل  رؤیت باری تعالی کے محال ہونے کا حکم نہیں لگاتی جبکہ اصل (اللہ تعالی کے علاوہ ہر چیز کا) عدم ہونا ہے۔([5])

(4)      رؤیت کے لئے جسے دیکھا جا رہا ہے اس کا جسم، جہت اور رنگ والا ہونا ضروری و مشروط نہیں ہے  بلکہ رؤیت  اللہ تعالی کی تخلیق ہے (کہ وہ جس کے لئے چاہے، جتنی چاہے، تخلیق فرما دے۔) اسی لئے یہ بات عقلاً ممکن ہے کہ چین میں   بیٹھا شخص مغرب میں واقع اندلس میں مچھر کو اڑتا ہوا دیکھ لے۔ ہاں! عادت الہیہ یہی جاری ہے کہ اللہ تعالی اسباب مذکورہ کے تحت ہی رؤیت کو تخلیق فرماتا ہے اور ان اسباب کے نہ ہونے پر تخلیق نہیں فرماتا؛ لیکن ممکن ہے کہ وہ جس کے لئے چاہے خارق عادت تخلیق فرما دے، جیسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے پیچھے بھی ایسے ہی دیکھتے تھے جیسے آگے دیکھتے تھے۔

شرح العقائد النسفیہ میں ہے: ”و اقوی شبھھم من العقلیات ان الرویۃ مشروطۃ بکون المرئی فی مکان و جھۃ۔۔و الجواب منع ھذا  الاشتراط“ ترجمہ: ایک بہت قوی عقلی اعتراض یہ ہے کہ رؤیت کے لئے شرط ہے کہ جسے دیکھا جا رہا ہے وہ کسی مکان اور جہت میں ہو (ورنہ رؤیت ممکن نہیں ہے۔)  اس کا جواب یہ ہے کہ یہ شرط معتبر نہیں ہے۔ ([6])

اس کے تحت النبراس میں ہے: ”و تحقیقہ ان الرؤیۃ عندنا بخلق اللہ سبحانہ، فلذا جوز المشائخ  ان یری الاعمی بالصين بقة تطير بأندلس من المغرب. نعم، العادة الإلهية جارية بخلق الرؤية عند تحقق الأسباب المذكورة، وبعدم خلقها عند انتفائها، ويجوز أن يخرقها لمن شاء؛ فإن النبي كان يرى خلفه كما يرى أمامه“ترجمہ: در حقیقت ہمارے نزدیک رؤیت  اللہ تعالی کی تخلیق ہے (کہ وہ جس کے لئے چاہے جتنی چاہے تخلیق فرما دے)اسی لئے مشائخ نے اس بات کی صراحت کی  ہے کہ یہ بات عقلاً ممکن ہے کہ چین میں   بیٹھا  اندھا شخص مغرب میں واقع اندلس میں پسو کو اڑتا ہوا دیکھ لے۔ ہاں! عادت الہیہ یہی جاری ہے کہ اللہ تعالی اسباب مذکورہ کے تحت ہی رؤیت کو تخلیق فرماتا ہے اور ان اسباب کے نہ ہونے پر تخلیق نہیں فرماتا؛ لیکن ممکن ہے کہ وہ جس کے لئے چاہے خارق عادت تخلیق فرما دے، جیسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے پیچھے بھی ایسے ہی دیکھتے تھے جیسے آگے دیکھتے تھے۔ ([7])

فتاوی شارح بخاری میں علامہ شریف الحق امجدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”دکھائی دینے کے لئے جسم والا ہونا ضروری نہیں ۔ بلکہ بر بنائے تحقیق جسم کا دکھائی دینا محال ۔ ہم جسم کے رنگ روپ اور ڈیل ڈول کو دیکھتے ہیں، جسم کو نہیں دیکھتے۔ روشنی اور اندھیرا جسم نہیں ، مگر ہم دیکھتے ہیں۔ اس لئے یہ استدلال فاسد ہے۔“([8])

(5)      رؤیت کے لئے جسے دیکھا جا رہا ہے اس کا جہت اور رنگ والا ہونا ضروری و مشروط تسلیم کر بھی لیا جائے تو یہ  بات ممکن ہے کہ یہ شرائط  فقط دنیاوی معاملات میں ہو یا جواہر اور اعراض کے دیکھنے کے متعلق ہو اور اخروی معاملات  اور اللہ تعالی کی رؤیت میں یہ شرائط نہ ہوں۔ لہذا اس سے کسی بھی طرح اللہ تعالی کی رؤیت  عقلاً محال ثابت نہیں ہوتی۔

علامہ عبد العزیز پرھاڑوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لو سلمنا ھذا الاشتراط، فانما هي شروط في هذه النشأة الدنيوية فقط، أو في رؤية الجواهر والأعراض فقط، ويجوز أن يكون الحال في النشأة الأخروية وفي رؤية الحق سبحانه على خلاف ذلك  “ترجمہ: اگر ہم جہت وغیرہ کو شرط تسلیم کر بھی لیں تو  یہ شرائط  فقط دنیاوی معاملات میں ہے یا جواہر اور اعراض کے دیکھنے کے متعلق ہیں، ممکن ہے کہ اخروی معاملات  اور اللہ تعالی کی رؤیت میں رؤیت  کی یہ شرائط نہ ہوں۔([9])

دیدار الہی کے امکان عقلی کے شرعی دلائل:

(6)      قرآن پاک میں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دیدار کا سوال کیا۔ اگر دیدار باری تعالی عقلاً ممکن نہ ہوتا تو حضرت موسی علیہ السلام کبھی بھی اللہ تعالی سے اس کی درخواست نہ کرتے ؛ کیونکہ حضرت موسی علیہ السلام    اللہ تعالی کے نبی  اور کلیم ہیں لہذا یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ آپ کو یہ تک معلوم نہ ہو کہ اللہ تعالی کے حق میں کیا عقائد رکھنا ضروری ہیں اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ آپ علیہ السلام کو معلوم تھا کہ اللہ تعالی کا دیدار ناممکن و محال ہے پھر بھی عرض کی، کیونکہ ناممکن کی درخواست کرنا عبث(بے فائدہ)  و کم عقلی ہے اور انبیا کرام اس سے پاک ہیں۔  

اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ لَمَّا جَآءَ مُوْسٰى لِمِیْقَاتِنَا وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَ ترجمہ:  جب موسیٰ ہمارے وعدہ پر حاضر ہوا اور اس سے اس کے رب نے کلام فرمایا ،عرض کی اے رب میرے مجھے اپنا دیدار دکھا کہ میں تجھے دیکھوں ۔([10])           

کتاب المواقف میں علامہ عضد الدین الایجی رحمہ اللہ (وفات: 756ھ)  فرماتے ہیں: أن موسى سأل الرؤية ولو امتنع لما سأل لأنه حينئذ إما أن يعلم امتناعه أو يجهله فإن علمه فالعاقل لا يطلب المحال فإنه عبث وإن جهله فالجاهل بما لا يجوز على الله ويمتنع لا يكون نبيا كليما “ ترجمہ:  حضرت موسی علیہ السلام نے رؤیت کا سوال کیا۔ اگر رؤیت ناممکن ہوتی تو حضرت موسی علیہ السلام ہرگز اس کا سوال نہ کرتے کیونکہ  یا تو حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی کی رؤیت کے ناممکن ہونے کا  معلوم ہو گا یا معلوم نہیں ہو گا۔ اگر معلوم مانیں (کہ اللہ تعالی کی رؤیت ممکن نہیں)  تو ایک عاقل شخص بھی   ناممکن چیز کا سوال نہیں کرتا کہ یہ ایک فالتو کام ہے ( چہ جائیکہ ایک جلیل القدر نبی سے اس کا تصور کیا جائے)  اور اگر  یہ فرض کیا جائے کہ حضرت موسی علیہ السلام کو معلوم نہ ہو (کہ اللہ تعالی کی رؤیت عقلاً ممکن نہیں ) تو ایسا شخص  جس کو یہ تک معلوم نہ ہو کہ اللہ تعالی کے حق میں کیا بات ممکن ہے اور کیا بات ناممکن ہے، وہ نبی  کلیم نہیں ہو سکتا۔([11]) 

 شرح عقیدہ الطحاویہ میں ہے: ” لا يظن بكليم الله ورسوله الكريم وأعلم الناس بربه في وقته  أن يسأل ما لا يجوز عليه“ ترجمہ: اللہ تعالی کی کے کلیم،  رسول کریم اور اپنے زمانے کے سب سے زیادہ اللہ تعالی کی معرفت رکھنے والے کے بارے میں ایسا گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اللہ تعالی سے اس بات کا سوال کریں جو اللہ تعالی کے حق میں ممکن نہ ہو۔([12])

(7)        اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کی عرض پر  جواباً ” لَنْ تَرٰىنِیْ “ (تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا) فرمایا ، ” : لا أرى “ (مجھے دیکھا نہیں جا سکتا) نہیں فرمایا۔ جواب کے اس انداز  سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کو دیکھا جا سکتا ہے؛  جیسے اگر کسی آدمی کے پاس  ایسی چیز ہو جسے کھانا ممکن نہ ہو مثلاً پتھر ہو  اور اسے دوسرا آدمی کہے:” یہ مجھے دو، میں اسے کھاؤں گا۔“   تو اسے یہ جواب نہیں دیا جائے گا :”تو اسے نہیں کھا سکتا۔“  بلکہ یہ  جواب دیا جائے  گا: ”یہ کھایا نہیں جا سکتا۔“ اور اگر اس شخص کے پاس ایسی چیز ہو جسے کھایا جانا ممکن ہو مثلاً سیب ہو اور کوئی شخص اسے کہے کہ یہ مجھے دو، میں اسے کھاؤں گا۔ تو اسے یہ   جواب  نہیں دیا جاتا: ”یہ سیب کھایا نہیں جا سکتا۔“ بلکہ اسے کہا جائے گا: ”تو کھا نہیں سکے گا۔“ یعنی یہ سیب کھایا تو جا سکتا ہے لیکن(کسی وجہ سے) تو نہیں کھا سکے گا۔ لہذا یہاں بھی انداز جواب(تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا) اس بات کا متقاضی ہے کہ اللہ تعال کی رؤیت عقلاً ممکن ہے۔

اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ قَالَ رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَ قَالَ لَنْ تَرٰىنِیْ ﴾ ترجمہ:  عرض کی اے رب میرے مجھے اپنا دیدار دکھا کہ میں تجھے دیکھوں فرمایا تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا۔([13])

اس آیت کے تحت مفاتیح الغیب میں امام رازی رحمہ اللہ (وفات: 606ھ) فرماتے ہیں: ” أنه تعالى جائز الرؤية وذلك لأنه تعالى لو كان مستحيل الرؤية لقال: لا أرى ۔ألا ترى أنه لو كان في يد رجل حجر فقال له إنسان ناولني هذا لآكله فإنه يقول له هذا لا يؤكل ولا يقول له لا تأكل. ولو كان في يده بدل الحجر تفاحة لقال له: لا تأكلها أي هذا مما يؤكل ولكنك لا تأكله. فلما قال تعالى: لن تراني ولم يقل لا أرى علمنا أن هذا يدل على أنه تعالى في ذاته جائز الرؤية“ ترجمہ: اللہ تعالی کی رؤیت ممکن ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اللہ تعالی کو دیکھنا ممکن نہ ہوتا تو جواباً ”مجھے دیکھا نہیں جا سکتا“ کہا جاتا۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ   اگر کسی شخص کے ہاتھ میں پتھر ہو  اور اسے دوسرا آدمی کہے:” یہ مجھے دو، میں اسے کھاؤں گا۔“   تو اسے وہ جواب دے گا: ”یہ کھایا نہیں جا سکتا۔“ یہ جواب نہیں دے گا :”تو اسے نہیں کھا سکتا۔“ اور اگر اس شخص کے ہاتھ میں پتھر کی بجائے سیب ہو تو اسے جواب دیا جائے گا: ”تو اسے نہیں کھا سکتا۔“ یعنی اسے کھایا تو جا سکتا ہے لیکن تو نہیں کھا سکتا۔ تو اللہ تعالی  کے ” مجھے دیکھا نہیں جا سکتا۔“  کی بجائے ”تو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔“   فرمانے سے ہمیں پتا چل گیا کہ اللہ تعالی کا یہ جواب اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ فی نفسہ اللہ تعالی کو دیکھنا جائز ہے۔([14])

(8)      اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کی درخواست کو پہاڑ  کے اپنی جگہ پر ٹھہرے رہنے پر معلق فرمایا اور پہاڑ کا اپنی جگہ پر ٹھہرے رہنا فی نفسہ تو ممکن ہی ہے کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ”جَعَلَہٗ دَکاًّ“   یعنی پہاڑ پہلے سے ریزہ ریزہ نہیں تھا بلکہ  اللہ عزوجل نے اسے پاش پاش  فرما دیا  اور  اللہ عزوجل چاہتا تو پہاڑ کو ریزہ ریزہ نہ فرماتا اور عقلی قاعدہ ہے کہ اگر کسی چیز کو ممکن پر معلق کیا جائے تو وہ چیز خود بھی ممکن ہوتی ہے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿ لَنْ تَرٰىنِیْ وَ لٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِیْ ﴾ ترجمہ:  تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا ۔ ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھ یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا ۔([15])

 ابو سعید دارمی رحمہ اللہ (وفات: 280ھ) لکھتے ہیں: ”ولو قد شاء لاستقر الجبل ورآه موسى“ ترجمہ: اگر اللہ تعالی چاہتا تو پہاڑ کو اپنی  جگہ پر استقرار عطا فرما  دیتا اور حضرت موسی علیہ السلام کو اپنا دیدار کروا دیتا۔([16])

تفسیر کبیر میں ہے: ” إنه تعالى علق رؤيته على أمر جائز لأنه تعالى علق رؤيته على استقرار الجبل بدليل قوله تعالى: فإن استقر مكانه فسوف تراني واستقرار الجبل أمر جائز الوجود في نفسه ۔۔إذا ثبت هذا وجب أن تكون رؤيته جائزة الوجود في نفسها لأنه لما كان ذلك الشرط أمرا جائز الوجود لم يلزم من فرض وقوعه محال “ترجمہ: اللہ تعالی نے اپنی رؤیت کو ایک ممکن کام پر معلق فرمایا کہ اللہ تعالی نے اس آیت ” فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِیْ “ میں پہاڑ کے قائم رہنے پر اپنی رؤیت کو معلق فرمایا اور پہاڑ کا اپنی جگہ پر قائم رہنا فی نفسہ ممکن کام ہے  تو اس سے ثابت ہوا  کہ فی نفسہ اللہ تعالی کی رؤیت ممکن ہو کیونکہ جب یہ شرط ممکن الوجود ہو   تو اس کے وقوع کا محال ہونا لازم نہیں ہے۔([17])

صدر الافاضل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” پہاڑ کا ثابت رہنا امرِ ممکن ہے کیونکہ اس کی نسبت فرمایا ”جَعَلَہٗ دَکاًّ“ اس کو پاش پاش کر دیا تو جو چیز اللہ تعالی کی مجعول ہو اور جس کو وہ موجود فرمائے ممکن ہے کہ اگر اس کو  وجود عطا نہ کرے تو وہ موجود نہ ہو کیونکہ وہ اپنے فعل میں مختار ہے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ پہاڑ کا استِقرار امرِ ممکن ہے محال نہیں اور جو چیز امرِ ممکن پر معلّق کی جائے وہ بھی ممکن ہی ہوتی ہے محال نہیں ہوتی لہٰذا دیدارِ الٰہی جس کو پہاڑ کے ثابت رہنے پر معلق فرمایا گیا وہ ممکن ہوا تو ان کا قول باطل ہے جو اللہ تعالی کا دیدار محال بتاتے ہیں ۔ “([18])     

(9)       قرآن و حدیث میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ اللہ تعالی نے  حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ کلام فرمایا  تو جب اللہ تعالی سے بغیر واسطے  اور بغیر جہت و جسم کے کلام کیا  جا سکتا ہے تو اسے   دیکھا بھی جا سکتا ہے۔

شرح عقیدہ الطحاویہ میں ہے: ” أن الله كلم موسى وناداه وناجاه، ومن جاز عليه التكلم والتكليم وأن يسمع مخاطبه كلامه بغير واسطة – فرؤيته أولى بالجواز. ولهذا لا يتم إنكار رؤيته إلا بإنكار كلامه“ ترجمہ: اللہ تعالی نے  حضرت موسی علیہ السلام سے ساتھ کلام فرمایا ، ان کو ندا فرمائی اور سرگوشی فرمائی۔ تو جس ذات کے ساتھ کلام کرنا ممکن ہے اور بغیر واسطے کے اس کا کلام سننا ممکن ہے تو اس ذات کو دیکھنا بدرجہ اولی ممکن ہے۔ لہذا رؤیت کا انکار کرنے کے لئے کلام کرنے کا بھی انکار کرنا پڑے گا  ۔([19])

(10)     حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم سورج، چاند اور ستاروں کو اپنا رب ٹھہراتی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے معبودوں  کے باطل ہونے کی دلیل یہ دی کہ  سورج، چاند اور ستارے تو ڈوب جاتے ہیں اور چھپ جاتے ہیں اور جو ڈوب جائے اور چھپ جائے وہ خدا نہیں ہو سکتا۔  غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے ان چاند ، ستاروں کو دیکھنے کے باوجود یہ دلیل نہیں دی کہ ”یہ چاند، ستارے تو نظر آ رہے ہیں   اور اللہ تعالی کو دیکھا نہیں جا سکتا۔“ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کو دیکھنا بالکل ممکن ہے۔

قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اثبات باری تعالی کے متعلق قصہ یوں بیان فرمایا گیا ہے:﴿ فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًاۚ-قَالَ هٰذَا رَبِّیْۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ (۷۶) فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّیْۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَىٕنْ لَّمْ یَهْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ (۷۷) فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَاۤ اَكْبَرُۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ﴾ ترجمہ: پھر جب ان پر رات کا اندھیرا آیا ایک تارا دیکھا بولے اسے میرا رب ٹھہراتے ہو پھر جب وہ ڈوب گیا بولے مجھے خوش نہیں آتے ڈوبنے والے۔ پھر جب چاند چمکتا دیکھا بولے اسے میرا رب بتاتے ہو پھر جب وہ ڈوب گیا کہا اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں بھی انہیں گمراہوں میں ہوتا ۔ پھر جب سورج جگمگاتا دیکھا بولے اسے میرا رب کہتے ہو یہ تو ان سب سے بڑا ہے پھر جب وہ ڈوب گیا کہا اے قوم میں بیزار ہوں ان چیزوں سے جنہیں تم شریک ٹھہراتے ہو ۔([20])

امام ماتریدی رحمہ اللہ (وفات: 333ھ) کتاب التوحید میں فرماتے ہیں: ” محاجة إبراهيم قومه في النجوم وما ذكر بالأفول والغيبة ولم يحاجهم بأن لا يحب ربا يرى ولكن حاجهم بأن لا يحب ربا يأفل إذ هو دليل عدم الدوام “ ترجمہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو ستاروں کے (رب نہ ہونے کے)متعلق   یہ دلیل دی کہ وہ ڈوب جاتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں  ، یہ دلیل نہیں دی کہ وہ ایسے رب کو پسند نہیں کرتے جسے دیکھا جا سکتا ہو بلکہ یہ فرمایا کہ میں ڈوبنے والے کو رب  پسند نہیں کرتا  کہ ڈوبنا عدم دوام کی دلیل ہے۔([21])

(11)      اللہ تعالی نے کفار کے متعلق یہ وعید ارشاد فرمائی کہ وہ قیامت کے دن اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوں گے۔ اللہ تعالی کا کفار کے حق میں اس بات کو بطور وعید ذکر فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کا دیدار ممکن ہے کیونکہ جو چیز (رؤیت کا نہ ہونا) کفار کے لئے وعید و تہدید ہو وہی  چیز (رؤیت کا نہ ہونا) مومنین کے حق میں  بھی مان لی جائے تو اس میں کفار کے لئے کوئی خصوصیت  اور وعید نہیں رہے گی؛ اور مومنین کا دیدار باری تعالی سے مشرف ہونا اس کے ممکن ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

اللہ  رب العزت کا ارشاد ہے:﴿كَلَّاۤ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ یَوْمَىٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ﴾ ترجمہ: ہاں ہاں! بے شک وہ اس دن اپنے رب کے دیدار سے محروم ہیں۔ ([22])

            امام آلوسی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ” أي هؤلاء المكذبين عن ربهم يومئذ لمحجوبون لا يرونه سبحانه وهو عز وجل حاضر ناظر لهم بخلاف المؤمنين فالحجاب مجاز عن عدم الرؤية۔۔ واحتج بالآية مالك على رؤية المؤمنين له تعالى من جهة دليل الخطاب وإلا فلو حجب الكل لما أغنى هذا التخصيص. وقال الشافعي: لما حجب سبحانه قوما بالسخط دل على أن قوما يرونه بالرضا. وقال أنس بن مالك: لما حجب عز وجل أعداءه سبحانه فلم يروه تجلى جل شأنه لأوليائه حتى رأوه عز وجل “ترجمہ:  یعنی یہ جھٹلانے والے اس دن اپنے رب  سے حجاب میں ہوں گے اور مومنین کے برعکس اللہ تعالی کی رؤیت سے محروم ہوں گے اس حال میں کہ اللہ تعالی موجود اور ان کا مشاہدہ فرما رہا ہو گا۔ پس حجاب سے مجازاً ”عدم رؤیت“ مراد ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اس آیت سے مومنین کے لئے اللہ تعالی کی رؤیت کا بطور دلیل خطاب  اثبات فرمایا ہے۔ کیونکہ اگر تمام لوگوں سے حجاب ہوتا تو کافروں کے لئے اس تخصیص کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالی کا ایک گروہ کو بطور سزا  اپنے دیدار سے محروم فرمانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دوسرے گروہ کو بطور رضا اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا۔ اور حضرت انس بن مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”جب اللہ تعالی نے اپنے دشمنوں سے حجاب فرمایا کہ وہ اسے نہ دیکھ سکیں تو اللہ تعالی اپنے اولیاء کو دیدار سے مشرف ضرور فرمائے گا۔ ([23])

خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت ہے:  ” اس آیت سے ثابت ہوا کہ مومنین کو آخرت میں دیدارِ الٰہی کی نعمت میسّر آئے گی کیونکہ محرومی دیدار سے کفّار کی وعید میں ذکر کی گئی اور جو چیز کفّار کے لئے وعید و تہدید ہو وہ مسلمان کے حق میں ثابت ہو نہیں سکتی تو لازم آیا کہ مومنین کے حق میں یہ محرومی ثابت نہ ہو ، حضرت امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ جب اس نے اپنے دشمنوں کو اپنے دیدار سے محروم کیا تو دوستوں کو اپنی تجلّی سے نوازے گا اور اپنے دیدار سے سرفراز فرمائے گا ۔ “([24])

(12)     اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ایک سے زائد مقامات پر  مومنین کو یہ بشادت دی کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی زیارت کریں گے۔ یوں  اللہ تعالی نے خود اپنے دیدار کے وقوع کی خبر ارشاد فرمائی۔  اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ رؤیت باری تعالی عقلاً ممکن ہے کیونکہ   شرعاً وقوع کا ثبوت امکان عقلی  کو مستلزم ہے  کہ محالات عقلی کا وقوع شرعاً بھی  نہیں ہو سکتا۔

  1. ارشاد الہی ہے: ﴿ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌ﴾ ترجمہ: بھلائی والوں کے لیے بھلائی ہے اور اس سے بھی زائد۔([25])

 امام ثعلبی رحمہ اللہ الکشف و البیان میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: ” عن أنس بن مالك قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلّم عن هذه الآية لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنى وَزِيادَةٌ فقال: الذين أحسنوا العمل في الدنيا الحسنى وهي الجنّة والزيادة النظر إلى وجه الله الكريم.

وهو قول أبي بكر الصديق وحذيفة وأبي موسى وصهيب وعبادة بن الصامت وكعب ابن عجرة وعامر بن سعد وعبد الرحمن بن سابط والحسن وعكرمة وأبي الجوزاء والضحاك والسدي وعطاء ومقاتل “ ترجمہ:  حضرت انس بن مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس آیت ” لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنى وَزِيادَةٌ “کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جنہوں نے دنیا میں اچھے عمل کئے ان کے لئے ”حسنی“ یعنی جنت اور ”اس سے بھی زیادہ “ ہے اور زیادہ سے مراد اللہ تعالی کا دیدار ہے۔ (امام ثعلبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ) یہی قول حضرت ابو بکر ، حضرت حذیفہ، حضرت ابو موسی اشعری، حضرت صہیب، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت کعب بن عجرہ، حضرت عامر بن سعد، حضرت عبد الرحمن بن سابط، حضرت حسن، حضرت عکرمہ،       ابو الجوزاء، ضحاک، سدی، عطا اور مقاتل رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہے۔([26])

  1. ایک اور جگہ پر ارشاد باری تعالی ہے:﴿ وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌ(۲۲) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ﴾ترجمہ: کچھ منہ اس دن تروتازہ ہوں گے۔اپنے رب کو دیکھتے ۔([27])

            سنن الترمذی میں ہے : ”عن ابن عمر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن أدنى أهل الجنة منزلة لمن ينظر إلى جنانه وأزواجه ونعيمه وخدمه وسرره مسيرة ألف سنة، وأكرمهم على الله من ينظر إلى وجهه غدوة وعشية»، ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم ﴿وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌ(۲۲) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴾ “ ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:” جو سب سے کم تر درجے کا جنتی ہو گا جو اپنے باغات، بیویوں ، نعمتوں ، خادموں اور تختوں کی طرف دیکھے گا تو وہ ایک ہزار سال کی مسافت پر مشتمل ہوں گے، اور اللہ کے یہاں سب سے مکرم وہ ہو گا جو اللہ کے وجہ کی طرف صبح و شام دیکھے گا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:﴿ وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌ(۲۲) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴾([28])

دیدار باری تعالی کے امکان عقلی پر اجماع :

رؤیت باری تعالی کےعقلاً ممکن ہونے پر صحابہ کرام اور ان کے بعد تمام  اہل سنت کا اجماع ہے۔ حضرت امام ابو زكريا محی الدين النووي رحمۃاللہ علیہ”المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج“میں فرماتے ہیں:”اعلم أن مذهب أهل السنة بأجمعهم أن رؤية الله تعالى ممكنة غير مستحيلة عقلا وأجمعوا أيضا على وقوعها في الآخرة وأن المؤمنين يرون الله تعالى ۔۔ وقد تظاهرت أدلة الكتاب والسنة وإجماع الصحابة فمن بعدهم من سلف الأمة على إثبات رؤية الله تعالى في الآخرة للمؤمنين ورواها نحو من عشرين صحابيا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وآيات القرآن فيها مشهورة “ترجمہ:جان لو کہ اہلسنت کا اجماعی مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالی کا دیدار ممکن ہے ،محال عقلی نہیں ہے۔اور اسی طرح اہلسنت کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ آخرت میں اللہ تعالی کا دیدار ہوگا اور مومنین اللہ تعالی کادیدار کریں گے ،نہ کہ کافر۔ تحقیق قرآن وسنت اور صحابہ کرام اور ان کے بعد کے اسلافِ امت علیہم الرضوان  کے اجماع کے دلائل، آخرت میں  مومنین کے لیے اللہ تعالی کے دیدار کے اثبات پر ظاہرہیں ۔اور تقریبا بیس صحابہ کرام علیہم الرضوان نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے اسے روایت کیا ہے اور قرآن کی آیات اس بارے میں مشہور ہیں ۔  ([29])   

امام عبدالغنی المقدسی رحمہ اللہ (وفات: 600ھ)  لکھتے ہیں: ” أجمع أهل الحق واتفق أهل التوحيد والصدق – أن الله تعالى يرى في الآخرة “ ترجمہ: اہل حق  اور اہل توحید و صدق اس بات پر متفق و مجتمع ہیں کہ اللہ تعالی کا آخرت میں دیدار ہو گا۔([30])

المواقف مع  الشرح لقاضی عضد الدین الایجی رحمہ اللہ (وفات: 756ھ)   میں ہے: ”بل وفی صحتہ ایضا  (اجماع الامۃ قبل حدوث المخالفین علی وقوع الرؤیۃ ) و مثل ھذا الاجماع مفید للیقین“ ترجمہ:  بلکہ آخرت میں دیدار باری تعالی کے وقوع کے درست ہونے پر بھی  مخالفین کے وجود سے پہلے تمام امت کا اتفاق و اجماع تھا اور ایسا اجماع علم یقینی کا فائدہ دیتا ہے۔([31])

شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے: ”وقد قال بثبوت الرؤية الصحابة والتابعون، وأئمة الإسلام المعروفون بالإمامة في الدين، وأهل الحديث، وسائر طوائف أهل الكلام المنسوبون إلى السنة والجماعة وهذه المسألة من أشرف مسائل أصول الدين وأجلها “ ترجمہ:  اللہ تعالی کے رؤیت کے ثبوت کے متعلق صحابہ، تابعین، مشہور ائمہ اسلام، محدثین اور اہل سنت و جماعت کہلانے والے تمام متکلمین متفق ہیں۔  رؤیت باری تعالی کا مسئلہ اصول دین کے اشرف و اجل مسائل میں سے ایک ہے۔([32])

آخرت میں مسلمانوں کا دیدار الہی سے مشرف ہونا:

امام ثعلبی رحمہ اللہ الکشف و البیان میں فرماتے ہیں: ” عن أنس بن مالك قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلّم عن هذه الآية لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنى وَزِيادَةٌ فقال: الذين أحسنوا العمل في الدنيا الحسنى وهي الجنّة والزيادة النظر إلى وجه الله الكريم. وهو قول أبي بكر الصديق وحذيفة وأبي موسى وصهيب وعبادة بن الصامت وكعب ابن عجرة وعامر بن سعد وعبد الرحمن بن سابط والحسن وعكرمة وأبي الجوزاء والضحاك والسدي وعطاء ومقاتل “ ترجمہ:  حضرت انس بن مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس آیت ” لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنى وَزِيادَةٌ “کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جنہوں نے دنیا میں اچھے عمل کئے ان کے لئے ”حسنی“ یعنی جنت اور ”اس سے بھی زیادہ “ ہے اور زیادہ سے مراد اللہ تعالی کا دیدار ہے۔ (امام ثعلبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ) یہی قول حضرت ابو بکر ، حضرت حذیفہ، حضرت ابو موسی اشعری، حضرت صہیب، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت کعب بن عجرہ، حضرت عامر بن سعد، حضرت عبد الرحمن بن سابط، حضرت حسن، حضرت عکرمہ،       ابو الجوزاء، ضحاک، سدی، عطا اور مقاتل رحمہم اللہ علیہم اجمعین کا ہے۔([33])

بہار شریعت میں مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” دنیا کی زندگی میں ﷲ عزوجل کا دیدار نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے اور آخرت  میں ہر سنی مسلمان کے لیے ممکن بلکہ واقع۔ “([34])

حوالہ جات:

[1]…۔ الابانۃ عن اصول الدیانۃ، صفحہ 51-52، دار الانصار، قاھرہ

[2]…۔ اربعین فی اصول الدین، جلد1، صفحۃ268، مکتبۃ الکلیات الازھریہ، مصر

[3]…۔ المعتقد المنتقد،صفحہ136،دار اھل السنۃ،کراچی

[4]…۔ الابانۃ عن اصول الدیانۃ، صفحہ 52، دار الانصار، قاھرہ

[5]…۔ شرح عقائد النسفیہ، صفحہ 263، مکتبۃ البشری، کراچی

[6]…۔ شرح عقائد النسفیہ، صفحہ 272، مکتبۃ البشری، کراچی

[7]…۔ المصدر السابق

[8]…۔ فتاوی شارح بخاری، جلد1، صفحہ 121، شبیر برادرز، لاہور

[9]…۔ النبراس شرح عقائد النسفیہ، صفحہ 272، مکتبۃ البشری، کراچی

[10]…۔ پارہ 9 ،سورۃ اعراف، آیت 143

[11]…۔ کتاب المواقف، جلد3، صفحہ 158، دار الجیل، بیروت

[12]…۔ شرح عقیدہ الطحاویہ، 156، وزارة الشؤون الإسلامية، بیروت

[13]…۔ پارہ 9 ،سورۃ اعراف، آیت 143

[14]…۔  التفسیر الکبیر للرازی، جلد14، صفحہ 355، دار احیاء التراث العربی، بیروت

[15]…۔  پارہ 9 ،سورۃ اعراف، آیت 143

[16]…۔  الرد علی الجھمیہ، صفحہ125، دار ابن اثیر، کویت

[17]…۔ التفسیر الکبیر للرازی، جلد14، صفحہ 355-356، دار احیاء التراث العربی، بیروت

[18]…۔ خزائن العرفان، پارہ9، سورۃ اعراف، آیت 143

[19]…۔ شرح عقیدہ الطحاویہ، 157، وزارة الشؤون الإسلامية، بیروت

[20]…۔ پارہ7، سورت الانعام، آیت 76-78

[21]…۔ کتاب التوحید، صفحہ 78، دار الجماعات المصریہ، الاسکندریہ

[22]…۔ پارہ 30، سورۃ المطففین، آیت 15

[23]…۔ تفسیر روح المعانی، جلد15، صفحۃ 280، دار الکتب العلمیہ، بیروت

[24]…۔ خزائن العرفان، پارہ 30، سورۃ المطففین، آیت 15

[25]…۔ پارہ 11،سورت یونس، آیت 26

[26]…۔ الکشف و البیان، جلد5، صفحہ 129، دار احیاء التراث العربی، بیروت

[27]…۔ پارہ 29، سورت القیامۃ، آیت22-23

[28]…۔ سنن الترمذی، جلد4، صفحۃ 688، مطبوعہ مصر

[29]…۔ المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، باب إثبات رؤیۃ المؤمنین في الآخرۃ ربہم ،جلد3،صفحہ15،بیروت

[30]…۔ عقيدة الحافظ عبدالغني المقدسي، صفحہ58، مطابع الفردوس، ریاض

[31]…۔ شرح المواقف، جلد 8، صفحۃ 150، دار الکتب العلمیہ، بیروت

[32]…۔ شرح عقیدہ  الطحاويۃ، صفحہ153، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت

[33]…۔ الکشف و البیان، جلد5، صفحہ 129، دار احیاء التراث العربی، بیروت

[34]…۔ بہار شریعت، جلد1، صفحہ 20-21، مکتبۃ المدینہ، کراچی

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button