دیدار باری تعالی
مشہور

كيا کسی ولی عام آدمی كو دنیا میں سر کی آنکھوں سے اللہ تعالی کا دیدار ہو سکتا ہے؟

کسی ولی کو بھی دنیا میں سر کی آنکھوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وراثت اور توسل کے طور پر بھی اللہ تعالی کا دیدار نہیں ہو سکتا ، چہ جائیکہ کہ کوئی عام شخص ایسا دعوی کرے، اور جو ایسا دعوی کرے جو شخص جھوٹا  اور معرفت الہی سے ناآشنا ہے ۔

كيا کسی ولی عام آدمی  كو  دنیا میں سر کی آنکھوں سے اللہ تعالی کا دیدار  ہو سکتا ہے؟

عام انسان تو کجا ، کسی ولی  کو بھی، چاہے وہ اللہ تعالی کا کتنا ہی مقرب اور برگزیدہ ہو جائے، دنیا میں سر کی آنکھوں سے  اللہ تعالی کا دیدار  نصیب کبھی ہوا ، نہ ہو گا۔ یہی موقف    جمہور  اہل سنت فقہا و متکلمین کا  ہے حتی کہ علما کی ایک جماعت نے اس پر اجماع بھی نقل فرمایا ہے۔ جید مشائخ صوفیا مثلاً صاحب التعرف علی مذھب اھل التصوف ابوبکر  کلابازی (وفات: 380ھ) ، غوث اعظم سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (وفات: 561ھ)،  ابو عمرو  ابن صلاح (وفات: 643ھ)  ، ابو شامہ المقدسی (وفات: 665ھ)، امام عبد الوہاب الشعرانی (وفات: 973ھ)  رحمہم اللہ وغیرہ کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ کسی ولی کو بھی دنیا میں سر کی آنکھوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وراثت اور توسل کے طور پر بھی اللہ تعالی کا دیدار نہیں ہو سکتا ، چہ جائیکہ کہ کوئی عام شخص ایسا دعوی کرے، اور جو ایسا دعوی کرے جو شخص جھوٹا  اور معرفت الہی سے ناآشنا ہے ۔علما نے اس کے درج ذیل دلائل بیان فرمائے ہیں:

  1. حضرت عبد اللہ بن عمر(مسلم، ترمذی)، حضرت عبادہ بن ثابت (مسند احمد، سنن دارمی، السنۃ لابن ابی عاصم)، حضرت ابو امامہ باہلی (مختصر تایخ دمشق، السنۃ لابن ابی عاصم، الفتن لابن ابی عاصم) اور حضرت امیر معاویہ (السنۃ لابن ابی عاصم) رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ” تعلموا أنه لن يرى أحد منكم ربه حتى يموت “ ترجمہ: یاد رکھو! تم میں سے کوئی بھی موت سے قبل اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتا۔ یہ حدیث شریف ان الفاظ سے بھی مروی ہے: ” وإنكم لن تروا ربكم حتى تموتوا ۔“ 
  2. حضرت عائشہ (مسلم)، حضرت ابن مسعود (مصنف عبد الرزاق) اور حضرت عبد اللہ بن مسعود (معجم الکبیر للطبرانی) رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے مروی ہے  کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ” الموت قبل لقاء الله تعالى “ ترجمہ: اللہ تعالی سے ملاقات سے پہلے موت ہے۔
  3. مشہور حدیث جبریل میں ہے: ” قال: ما الإحسان؟ قال: أن تعبد الله كأنك تراه “  ترجمہ: حضرت جبریل علیہ السلام نے دریافت کیا: ”احسان کیا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ”تم اللہ کی عبادت یوں کرو گویا اسے دیکھ رہے ہو۔“  یہاں ”گویا اسے دیکھ رہے ہو “ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں بیداری کے ساتھ چشم سر سے دیدار الہی ممکن نہیں  ورنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یوں  ارشاد  فرماتے : ”یوں عبادت کرو کہ اسے دیکھو۔“
  4. بعض علما نے اس آیت ” لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ  “ کی  ایک تفسیر یہ بھی بیان فرمائی کہ یہاں ادراک سے مراد رؤیت ہے(اور یہاں الف لام عموم و استغراق  کے لئے نہیں) لہذا یہ نفی دنیا کی زندگی پر محمول ہے ۔  معنی یہ ہے کہ آنکھیں دنیا میں اس کی رؤیت نہیں کر سکتیں۔
  5. اس شرف سے تو حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام  جیسے جلیل القدر نبی کو بھی منع کر دیا گیا  اور ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق بھی دیدار الہی کے ہونے میں اختلاف ہے  ، تو  جو شخص ان جلیل القدر انبیا کے مقام سے کوسوں دور ہو، اس کا ایسا دعوی  کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے!!
  6. سر کی آنکھوں سے اللہ تعالی کا دیدار ”سب سے بڑی نعمت الہیہ“ ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ افضل مکان  ”جنت“ میں ہو، کیونکہ اگر  دنیا میں ہی یہ  سب سے بڑی نعمت مل جائے تو  اس فانی دنیا اور باقی رہنے والی جنت کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔
  7. دنیاوی آنکھ میں یہ طاقت نہیں رکھی گئی کہ وہ اس دیدار کی تاب لا سکے کیونکہ دنیاوی آنکھیں کمزور اور فنا ہونے والی ہیں جبکہ  آخرت میں اللہ تعالی جو  آنکھیں عطا فرمائے گا وہ  قوی و ابدی ہوں گی اور ان میں نور بصارت بکمال و تمام ہو گا جس کے ذریعے اللہ تعالی کا دیدار  ہو سکے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارک آنکھوں میں اللہ تعالی نے  دنیا میں ہی وہ قوت و نور بصارت  ودیعت فرما دیا تھا  جس کے باعث  آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رؤیت باری تعالی دنیا میں ہی ہو گئی۔
  8. نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معراج کی رات دیدار الہی سانوں آسمانوں سے پرے اور حدود دنیا سے باہر  لامکاں میں ہوا  لہذا   معراج دنیاوی معاملہ نہیں بلکہ اخروی معاملہ ہے اور اس پر دنیاوی معاملات کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔

دنیا میں سر کی آنکھوں سے اللہ تعالی کا دیدار ہونے کے متعلق جمہور اہل سنت کا موقف:

فتاوی حدیثیہ میں علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ (وفات: 974) لکھتے ہیں: ” الرؤية وإن كانت ممكنة عقلا وشرعا عند أهل السنة لكنها لم تقع في هذه الدار لغير نبينا صلى الله عليه وسلم “ ترجمہ: اہل سنت کے نزدیک رؤیت باری تعالی اگرچہ عقلا و منقولاً ممکن ہے لیکن اس دنیا میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ کسی کے لئے واقع نہیں ہوئی۔([1])

مولانا بحر العلوم عبد العلی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”و اما در رؤیت  غیر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم در یقظہ منع کردند جمہور اہل سنت و جماعت باتفاق  “ ترجمہ: جمہور اہل سنت و جماعت بالاتفاق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ   کسی اور کے لئے سر کی آنکھوں سے اللہ تعالی کے دیدار کی نفی کرتے ہیں ۔([2])

دنیا میں سر کی آنکھوں سے اللہ تعالی کا دیدار نہ ہونے پر اجماع امت:

لوامع الأنوار البہیۃ میں ہے: وقد نقل جماعۃ الإجماع علی أنہا لا تحصل للأولیاء فی الدنیا“  ترجمہ: علما کی ایک جماعت نے  اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ دنیا میں اولیا کو سر کی آنکھوں سے دیدار الہی حاصل نہیں ہو سکتا۔([3])

منح الروض الازھر فی شرح الفقہ الاکبر میں علامہ ملاعلی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں: ”ان الامۃ قد اتفقت علی انہ تعالیٰ لا یراہ احد فی الدنیا بعینہ،ولم یتنازعوا فی ذلک الا لنبینا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم حال عروجہ علی ما صرح بہ فی شرح عقیدۃ الطحاوی“ ترجمہ: امت اس بات پر متفق ہے کہ اللہ تعالی کو کوئی بھی شخص دنیا میں اپنی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا، اور اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا، مگر یہ کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لئے (اللہ تعالیٰ کا دیدار)معراج میں ثابت ہے، جیسا کہ شرح عقیدہ میں اس کی تصریح کی۔([4])

علامہ ابن الملک کرمانی حنفی  رحمہ اللہ (وفات: 854ھ)  مصابیح السنۃ کی شرح میں لکھتے ہیں:  ” أنه تعالى لا يرى في الدنيا في اليقظة لا عند الموت ولا قبله، وعليه الإجماع. “ترجمہ:  اللہ تعالی کی رؤیت  دنیا میں سر کی آنکھوں سے  نہیں ہو گی، نہ موت کے وقت نہ اس سے کبھی پہلے، اور اس پر اجماع ہے۔([5])

کنز الفوائد اور المعتقد المنتقد میں ہے: واللفظ للاخر ” قد صح وقوعھا لہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔۔ وکذااختلف موسی علیہ السلام  و الاصح الذی علیہ الجمہور: انہ لم یرہ سبحانہ ھذا، ولم یرو فی غیرھما شئی اصلاً“ ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے اللہ تعالی کا دیدار کا وقوع ثابت ہے ۔ حضرت موسی علیہ السلام کی رؤیت کے متعلق اختلاف ہے، اور اصح موقف جس پر جمہور ہیں وہ یہ  ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے بھی اللہ تعالی سبحانہ و تعالی کا دیدار نہیں کیا۔ اور ان دونوں کے علاوہ  کسی تیسرے شخص کے لئے اصلاً کچھ مروی نہیں ہے۔ ([6])

صوفیا کا موقف:

لوامع الأنوار البہیۃ  میں امام السفارینی حنبلی رحمہ اللہ (وفات: 1188ھ) اور عمدۃ المرید میں امام اللقانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: واللفظ للاخر ”ذھب ابوعمر و ابن الصلاح و الکلابازی الی تکذیب مدعیھا یقظۃ فی الدنیا، و ان مدعی ذلک لم یعرف اللہ تعالی“ ترجمہ: ابو عمرو  ابن صلاح (وفات: 643ھ)  اور (صاحب التعرف علی مذھب اھل التصوف ) ابوبکر  کلابازی (وفات: 380ھ) رحمہم اللہ دنیا میں سر کی آنکھوں سے اللہ تعالی کا دیدار کے وقوع کا دعوی کرنے والے کی تکذیب کی طرف گئے ہیں اور  یہ کہ ایسا دعوی کرنے والا اللہ عزوجل کی معرفت نہیں رکھتا۔([7])

الیواقیت و الجواھر میں  امام شعرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”فھل وقعت رویۃ اللہ تعالی یقظۃ فی الدنیا  لاحد غیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، بحکم الارث لہ فی ھذا المقام؟ فالجواب: کما قالہ الشیخ عبد القادر الجیلی رضی اللہ عنہ: لم یبلغنا وقوع ذلک فی الدنیا لاحد غیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم “ ترجمہ: سوال: کیا  دنیا میں سر کی آنکھوں سے اللہ تعالی کی رؤیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ کسی کے لئے اس مقام میں  آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وراثت اور توسط سے وقوع پذیر ہوئی ؟   اس کا جواب وہی ہے جو سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس دنیا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ کسی اور کے لئے اس کا وقوع ہم تک نہیں پہنچا۔([8])

پہلی حدیث کے متعلق جزئیات:

صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دجال کے متعلق ارشاد فرمایا:” إنه مكتوب بين عينيه كافر، يقرؤه من كره عمله، أو يقرؤه كل مؤمن، وقال: تعلموا أنه لن يرى أحد منكم ربه عز وجل حتى يموت “ترجمہ: دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان ”کافر“ لکھا ہو گا جسے ہر وہ شخص جو اس کے اعمال کو ناپسند کرتا ہو گا (یا  فرمایا) ہر مومن شخص پڑھے گا اور پھر فرمایا: جان لو کہ تم میں سے کوئی بھی موت سے پہلے اپنے رب عزوجل کو نہیں دیکھ سکتا ۔([9])

اس کی تخریج انیس الساری میں ہے:  ” أخرجه نعيم بن حماد في “الفتن” (1454)  وأخرجه الهيثم بن كليب (1226)  وأخرجه أحمد (5/ 324) وفي “السنة” (1007) وأبو داود (4320) وابن أبي عاصم في “السنة” (437) والبزار (2681) والنسائي في “الكبرى” (7764) والطبراني في “مسند الشاميين” (1157) والآجري في “الشريعة” (881) وعبد الجبار الخولاني في “تاريخ داريا” (ص 71) وابن منده في “التوحيد” (424) وأبو نعيم في “الحلية” (5/ 157 و 221 و 9/ 235) ([10])

علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ (وفات: 855ھ)عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں: ” الدليل الصريح على عدم وقوع رؤية الله تعالى بالأبصار في الدنيا ما رواه مسلم من حديث أبي أمامة قال عليه السلام:  واعلموا أنكم لن تروا ربكم حتى تموتوا “ ترجمہ: دنیا میں آنکھوں سے اللہ تعالی کی رؤیت کے عدم وقوع پر صریح دلیل یہ حدیث ہے جسے امام مسلم نے ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت فرمایا کہ نبی علیہ الصلوۃ و السلام نے ارشاد فرمایا: جان لو کہ تم میں سے کوئی بھی موت سے پہلے اپنے رب عزوجل کو نہیں دیکھ سکتا ۔([11])

دوسری حدیث کے متعلق جزئیات:

صحیح مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ” من أحب لقاء الله، أحب الله لقاءه، ومن كره لقاء الله، كره الله لقاءه، والموت قبل لقاء الله “ ترجمہ: جو اللہ تعالی سے ملنا پسند کرتا ہے ، اللہ تعالی بھی اس سے ملنا پسند فرماتا ہے اور جو اللہ تعالی سے ملنا پسند نہیں کرتا ، اللہ عزوجل بھی اس سے ملنا پسند نہیں فرماتا۔ اور اللہ تعالی سے ملاقات سے قبل موت ہے۔([12])           

علامہ ابن الملک کرمانی حنفی  رحمہ اللہ (وفات: 854ھ)  مصابیح السنۃ کی شرح میں لکھتے ہیں:  ” وهذا يدل على أنه تعالى لا يُرى في الدنيا في اليقظة لا عند الموت ولا قبله “ترجمہ: یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالی کی رؤیت  دنیا میں سر کی آنکھوں سے  نہیں ہو گی، نہ موت کے وقت نہ اس سے کبھی پہلے۔ اور اس پر اجماع ہے۔([13])

تیسری حدیث کے متعلق جزئیات:

حدیث جبریل سے مستنبط ہونے والے فوائد کو ذکر کرتے ہوئے علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ (وفات: 855ھ)عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں: ” الثاني عشر فيه دليل على أن رؤية الله تعالى في الدنيا بالأبصار غير واقعة “ ترجمہ:  بارہواں فائدہ: اس حدیث شریف میں دلیل ہے کہ کہ دنیا میں اللہ تعالی کا سر کی آنکھوں سے  دیدار واقع نہیں ہو سکتا۔([14])

نزھۃ القاری فی شرح صحیح البخاری میں علامہ شریف الحق امجدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”کانک تراہ: میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں بیداری کے ساتھ چشم سر سے دیدار الہی ممکن نہیں ورنہ کانک تراہ نہ فرماتے۔ بلکہ یہ فرماتے یوں عبادت کرو کہ اسے دیکھو۔“([15])

لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ کی ایک تفسیر:

الكشف والبيان عن تفسير القرآن میں علامہ ابو اسحاق الثعلبی رحمہ اللہ (وفات: 427ھ) فرماتے ہیں: ” قال ابن عباس ومقاتل: معناه لا تدركه الأبصار في الدنيا وهو يرى في الآخرة “ ترجمہ:  حضرت ابن عباس اور حضرت مقاتل رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس آیت کا معنی یہ ہے کہ آنکھیں دنیا میں اللہ تعالی کو نہیں دیکھ سکتیں ، آخرت میں دیکھیں گی۔([16])

ضوء الساری  الی معرفۃ رویۃ الباری میں علامہ المقدسی رحمہ اللہ(وفات: 600ھ) مندرجہ بالا آیت کے متعلق فرماتے ہیں: ”الثانی: انہ محمول علی نفی الادراک فی الدنیا دون الاخرۃجمعا بین الادلۃ۔۔ قلت: و  سر ذلک  ما ذکرہ شیخنا ابو الحسن فی تفسیرہ قال: ھذا الامتناع مخصوص بالدار الاولی لان اھلھا  لا یستطیعون روئتہ عز وجل “ ترجمہ: دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہ ادراک کی نفی آخرت کی بجائے  دنیا پر محمول ہے، دلائل  کے تعارض کو ختم کرنے کے لئے۔ میں (علامہ مقدسی) کہتا ہوں: اس کا راز ہمارے استاد ابو حسن رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں یہ بیان فرمایا کہ یہ نفی دنیا کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ اس میں رہنے والے اللہ عزوجل کی رؤیت کی استطاعت نہیں رکھتے۔([17])

جب رؤیت کلیم اللہ کے لئے ثابت نہیں ، تو کسی ولی کے لئے اس کا اثبات کیونکر ہو؟

لوامع الأنوار البہیۃ میں ہے:  قال الشیخ أبو عمرو بن الصلاح وأبو شامۃ: إنہ لا یصدق مدعی الرؤیۃ فی الدنیا یقظۃ، فإن شیئا منع منہ موسی کلیم اللہ علیہ الصلاۃ والسلام، واختلف فی حصولہ لنبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کیف یسمح بہ لمن لم یصل لمقامھما “  ترجمہ: شیخ ابو عمرو بن صلاح اور ابو شامہ فرماتے ہیں: دنیا میں سر کی آنکھوں سے اللہ تعالی کا دیدار کرنے کا دعوی کرنے والے کی تصدیق نہیں کی جائے گی کیونکہ اس شرف سے تو حضرت موسی کلیم اللہ  علیہ السلام کو بھی منع کر دیا گیا  اور ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق بھی دیدار الہی کے ہونے میں اختلاف ہے  ، تو  جو شخص ان جلیل القدر انبیا کے مقام تک کو  نہیں پہنچا اس کے لئے کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے!! ([18])

سب سے افضل نعمت کا تقاضا:

التعرف لمذهب أهل التصوف میں امام  ابوبکر الکلاباذی الحنفی رحمہ اللہ(وفات: 380ھ)   دنیا میں اللہ تعالی کا دیدار نہ ہونے کی وجہ بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ” لأنه غاية الكرامة وأفضل النعم ولا يجوز أن يكون ذلك إلا في أفضل المكان ولو أعطوا في الدنيا أفضل النعم لم يكن بين الدنيا الفانية والجنة الباقية فرق “ ترجمہ: کیونکہ یہ بہت بڑی کرامت اور افضل نعمت ہے اور مناسب یہی ہے کہ یہ افضل مکان (جنت) میں ہو کیونکہ اگر  یہ دنیا میں ہی افضل نعمت عطا کر دی جائے تو پھر اس فانی دنیا اور باقی رہنے والی جنت کے درمیان فرق نہیں رہے گا۔([19])

دنیاوی آنکھ میں رؤیت باری تعالی کی طاقت نہیں:

حضرت عطاء رحمہ اللہ سے مروی ہے: ”اوحی اللہ لایوب انک لتنظر الی غداً فقال: یا رب افبھاتین العینین؟ فقال: اجعل لک عینین باقیتین، فینظر الی البقاء بالبقاء“ ترجمہ:  اللہ تعالی نے حضرت ایوب علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی: کل قیامت کے دن تم میری زیارت سے ضرور مشرف ہو گے۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے عرض کی: اے میرے رب! کیا  زیارت ان دو آنکھوں سے ہو گی؟ ارشاد فرمایا: میں تمہیں دو  باقی رہنے والی آنکھیں عطا کروں گا تو باقی رہنے والی آنکھوں سے باقی رہنے والی ذات کی زیارت ہو گی۔ ([20])

الشفاء شریف میں قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  ” مالك بن أنس رحمه الله قال  لم ير في الدنيا لأنه باق ولا يرى الباقي بالفاني فإذا كان في الآخرة ورزقوا أبصار باقية رئي الباقي بالباقي وهذا كلام حسن مليح وليس فيه دليل على الاستحالة إلا من حيث ضعف القدرة فإذا قوى الله تعالى من شاء من عباده وأقدره على حمل أعباء الرؤية لم تمتنع في حقه “ ترجمہ:   امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ تعالی  کو دنیا میں نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ اللہ تعالی باقی ہے اور باقی ذات کو فانی (آنکھ) کے ساتھ نہیں دیکھا جا سکتا ۔ اور آخرت میں باقی رہنے والی آنکھیں عطا فرما دی جائیں گی  پھر باقی (آنکھ ) باقی ذات (اللہ سبحانہ و تعالی )  کا دیدار کرے گی۔ یہ کلام  نہایت  خوب اور جازب قلب ہے اور اس میں محال ہونے پر ضعف قدرت کے علاوہ کوئی دلیل نہیں ہے ، لہذا  اللہ عزوجل   اپنے بندوں میں سے جسے چاہے قوت دے دے اور اپنی رؤیت کا بوجھ اٹھانے کی قدرت دے دے ، اس کے حق میں رؤیت باری تعالی (دنیا میں بھی)  ممتنع نہیں رہے گی۔([21])

معراج اخروی معاملہ ہے:

  قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” قد قال أبو بكر الهذلي في قوله (لن تراني) أي ليس لبشر أن يطيق أن ينظر إلي في الدنيا “ ترجمہ: ابوبکر ہزلی نے اللہ عزوجل کے فرمان ” تو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ “ کی تفسیر میں کہا:کسی بشر میں سے استطاعت نہیں کہ وہ دنیا میں اللہ عزوجل کا دیدار کر سکے۔

اس  عبارت کی شرح میں ملا علی القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” الاسراء لیس من الدنیا بل من الاخری“ ترجمہ: معراج دنیا میں نہیں تھی بلکہ یہ اخروی معاملہ تھا۔([22])

علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ (وفات: 855ھ)عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں: ” فإن قلت:  فالنبي صلى الله عليه وسلم قد رآه قلت قال بعضهم وأما النبي صلى الله عليه وسلم فذاك لدليل آخر قلت رؤية النبي صلى الله عليه وسلم ربه عز وجل لم يكن في دار الدنيا بل كانت في الملكوت العليا والدنيا لا تطلق عليها “ ترجمہ:  اگر تم پوچھو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی تو  دنیا میں ہی اللہ عزوجل کا دیدار فرمایا! تو  میں کہوں گا کہ بعض نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ  نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے رؤیت الہی کا ثبوت دیگر دلائل سے ثابت ہے۔ اور میں اس کا جواب یہ دیتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اپنے رب عزوجل کو دیکھنا اس دنیا میں تھا ہی نہیں بلکہ وہ تو ملکوت علیا میں تھا اور اس پر دنیا کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ([23])

 حوالہ جات:

[1]…۔ فتاوی حدیثیہ، صفحہ 108، دار الفکر، بیروت

[2]…۔ شرح فقہ اکبر، صفحہ 68، طبع مجتبائی، لکھنو 

[3]…۔ لوامع الأنوار البہیۃ وسواطع الأسرار الأثریۃ لشرح الدرۃ المضیۃ فی عقد الفرقۃ المرضیۃ،جلد2،صفحہ285، مؤسسۃ الخافقین ،دمشق

[4]…۔ منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر،صفحہ354،دار البشائر الاسلامیہ، بیروت

[5]…۔ شرح المصابیح لابن الملک، جلد2، صفحہ 330، ادارہ الثقافۃ الاسلامیہ، بیروت

[6]…۔ المعتقد المنتقد،صفحہ138،دار اھل السنۃ،کراچی

[7]…۔ عمدۃ المرید لجوھرۃ التوحید، جلد2، صفحہ 763، دار النور، عمان

[8]…۔ الیواقیت و الجواھر، جلد1، صفحہ 229، نوریہ رضویہ، لاہور

[9]…۔ صحیح مسلم، جلد4، صفحۃ 2245، دار احیاء التراث العربی، بیروت

[10]…۔  انیس الساری تخریج احادیث فتح الباری، جلد2، صفحہ 1089، موسسۃ الریان، بیروت

[11]…۔عمدۃ القاری ، جلد1، صفحہ 291، دار احیاء التراث العربی، بیروت

[12]…۔ صحیح مسلم، جلد4، صفحہ 2066، دار احیاء التراث العربی، بیروت

[13]…۔ شرح المصابیح لابن الملک، جلد2، صفحہ 330، ادارہ الثقافۃ الاسلامیہ، بیروت

[14]…۔ عمدۃ القاری ، جلد1، صفحہ 291، دار احیاء التراث العربی، بیروت

[15]…۔ نزھۃ القاری، جلد1، صفحہ 378، فرید بک سٹال، لاہور

[16]…۔ الكشف والبيان عن تفسير القرآن، جلد4، صفحہ 176، دار احیاء التراث العربی، بیروت

[17]…۔ ضوء الساری  الی معرفۃ رویۃ الباری ، صفحہ 173، دار الکتب العلمیہ، بیروت

[18]…۔ لوامع الأنوار البہیۃ وسواطع الأسرار الأثریۃ لشرح الدرۃ المضیۃ فی عقد الفرقۃ المرضیۃ،جلد2،صفحہ285، مؤسسۃ الخافقین ،دمشق

[19]…۔ التعرف لمذهب أهل التصوف، صفحہ 43، دار الکتب العلمیہ، بیروت

[20]…۔ نسیم الریاض ، جلد3، صفحہ 136-137، دار الکتب العلمیہ، بیروت

[21]…۔ الشفاء بتعریف حقوق مصطفی مع حاشیہ الشمنی ، جلد1، صفحہ 200، دار الفکر، بیروت

[22]…۔ شرح شفاء لملا علی القاری، جلد1، صفحہ 425،  دار الکتب العلمیہ، بیروت

[23]…۔ عمدۃ القاری ، جلد1، صفحہ 291، دار احیاء التراث العربی، بیروت

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button