ARTICLESشرعی سوالات

دورانِ طواف بلند آواز سے دُعائیں مانگنا

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہم نے کُتُبِ فقہ میں پڑھا ہے کہ دورانِ طواف بلند آواز سے ذکر کرنااور دعائیں مانگنا مکروہ ہے تو پوچھنا یہ ہے کہ کتنی آواز سے پڑھا جائے تو اس پر کراہت کا اطلاق ہو گا اور پھر کراہت کی دو قسمیں ہیں یہاں کراہت کونسی مراد ہے تحریمی یا تنزیہی؟

(السائل : حافظ محمد فاروق، از کاروانِ اہلسنّت، مکہ مکرمہ)

جواب

باسمہ تعالی وتقدس الجواب : فقہاء کرام نے باآواز بلند ذکر و دُعا کرنے کو مکروہاتِ طواف میں شمار کیا ہے چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی حنفی مکروہاتِ طواف کے بیان میں لکھتے ہیں :

و رفع الصوت و لو بالقراٰن و الذِّکر و الدُّعاء (94)

یعنی، طواف میں آواز بلند کرنا مکروہ ہے اگرچہ تلاوتِ قرآن اور ذکر و دُعا کے ساتھ آواز بلند کرے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :

چہارم رفع صوت در حالۃِ طواف اگرچہ بقرآن یا ذکر یا دُعا باشد (95)

یعنی، چوتھا مکروہ یہ ہے کہ حالتِ طواف میں آواز کو بلند کرے اگرچہ آواز بلند کرنا تلاوتِ قرآن یا ذکر یا دُعا کے ساتھ ہو۔ اور صدر الشریعہ محمد امجد علی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : (مکروہاتِ طواف میں سے ہے ) ذکر یا دُعا یا تلاوت یا کوئی کلام بلند آواز سے کرنا۔ (96) اور دورانِ طواف بلند آواز سے ذکر و دُعا کے مکروہ ہونے سے مراد کراہت تحریمی ہے یا تنزیہی اس میں تفصیل ہے وہ یہ کہ جس طرح فقہاء کرام نے جَہَر کو مکروہاتِ طواف میں ذکر کیا ہے اسی طرح اِخفاء کو مُستحباتِ طواف میں بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ علامہ رحمت اللہ سندھی نے اپنی کتاب ’’لُباب‘‘ میں مُستحباتِ طواف کے بیان میں لکھا ہے :

الإسرار بالذکر و الأدعیۃ (97)

یعنی، دورانِ طواف ذکر اور دُعاؤں میں اِخفا مستحب ہے ۔ تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کراہت سے مراد کراہت تنزیہی ہے کہ کراہت استحباب کے مقابلے میں مذکور ہے ، اگر کوئی یہ کہے کہ فقہاء کرام نے طواف میں ذکر و دُعا کے اخفا کو مسنون بھی لکھا ہے تو کراہت سنّت کے مقابلے میں مذکور ہونے کی وجہ سے تنزیہی کیسے رہے گی۔ اس کا جواب یہ ہو گا کہ اس سے انکار نہیں ہے کہ فقہاء کرام نے اِخفاء کو مسنون بھی لکھا ہے جیسا کہ علامہ ابو بکر علی حدادی حنفی متوفی 800ھ لکھتے ہیں :

و السنّۃ أن یخفی صوتہ بالدعا (98)

یعنی، سنّت یہ ہے کہ دُعا آہستہ آواز سے ہو۔ اور کراہت اگر سنّت کے مقابلے میں مذکور ہو تو بھی تنزیہی ہی ہوتی ہے جیسا کہ اہلِ علم پر مخفی نہیں ہے لیکن اِخفائِ آواز کو واجب بھی کہا گیا ہے جیسا کہ مُلّا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ صاحبِ لُباب کی عبارت کہ ’’دوانِ طواف ذکر و دُعا میں اخفاء مستحب ہے ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں :

و فیہ بحث لأنہ یجب الإخفاء إذا کان الجہر مشوّشاً للطائفین و المصلّین، فقد صرّح ابن الضیاء أن رفع الصوت فی المسجد حرام و لو بالذکر (99)

یعنی، اس میں بحث ہے کیونکہ طواف میں اخفاء واجب ہے جب کہ جہر ایسا ہو کہ طواف کرنے والوں اور نماز پڑھنے والوں کو پریشانی میں ڈال دے ، پس ابن الضیا حنفی (قاضی و مفتیٔ مکہ متوفی 854ھ) نے تصریح فرمائی (100)ہے کہ مسجد میں آواز بلند کرنا حرام ہے اگرچہ ذکر کے ساتھ ہو۔ اور یہاں کراہت واجب کے مقابلے میں ہے لہٰذا تحریمی ہو گی کما لا یخفی۔ اس لئے ثابت ہو گیا کہ دورانِ طواف بلند آواز سے ذکر و دُعا مکروہ تحریمی بھی ہے اور تنزیہی بھی۔ اب یہ بات کہ کب تحریمی ہے اور کب تنزیہی یا کس صورت میں تحریمی ہے اور کس میں تنزیہی یا آواز کتنی بلند ہو تو کراہت تحریمی ہو گی اور کتنی ہو تو تنزیہی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس بارے میں فقہاء کرام کے اقوال و عبارات پر غور کرنے سے جو نتیجہ سامنے آیا وہ یہ ہے کہ اگر آواز اتنی بلند ہے کہ اس کا ضرر کسی دوسرے کو نہ پہنچتا ہو بلکہ پڑھنے والے کی اپنی ذات کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو کراہت تنزیہی ہے جیسے ریا و سمعہ کا اندیشہ، اسی لئے صدر الشریعہ محمد امجد علی لکھتے ہیں : دُعا اور درود آہستہ پڑھو کہ اپنے کان تک آواز آئے ، ملخصاً (101) اور اگر آواز اتنی بلند ہے کہ دوسروں کو ایذاء کا سبب بنے ، طواف کرنے والوں اور نماز پڑھنے والوں کو پریشانی میں مبتلا کردے تو کراہت تحریمی ہو گی جیسا کہ مُلّا علی قاری کی مندرجہ بالا سطور میں مذکور عبارت سے ظاہر ہے اور مکروہاتِ طواف میں مذکور علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی کی عبارت ’’و رفع الصوت الخ‘‘ کے تحت مُلّا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :

أی بحیث یشوّش علی الطائفین و المصلّین (102)

یعنی، (طواف میں آواز بلند کرنا اگرچہ تلاوت قرآن، ذکر و دُعا کے ساتھ آواز بلند کرے مکروہ ہے ) اس حیثیت سے کہ طواف کرنے اور نماز پڑھنے والوں کو پریشانی میں ڈال دے ۔ اور مفتی عبدالواجد قادری لکھتے ہیں : ایسی آواز سے طواف کی دعائیں پڑھنا جس سے دوسرے طواف کرنے والے یا نماز پڑھنے والے کو تو حُّش و پریشانی ہو مکروہ ہے ، اُن پیشہ وروں کی نقل اُتارنے سے بچے جو خود بھی زور زور سے دعائیں پڑھتے اور دوسروں کو پڑھواتے ہیں ۔ (103) اور آواز کی وہ بلندی جو دوسروں کے لئے پریشانی کا باعث ہوتی ہے اُسے اردو میں چلاّ چلاّ کر پڑھنا کہتے ہیں ، چنانچہ علامہ محمد سلیمان اشرف لکھتے ہیں : وہ دس باتیں ہیں جن سے طواف مکروہ ہو جاتا ہے ان کی تفصیل یہ ہے : (10) قرآن کی آیت یا دُعا یا درود چلاّ چلاّ کر پڑھے الخ (104) اور صدر الشریعہ محمد امجد علی لکھتے ہیں : دُعا اور درود چلاّ چلاّ کر نہ پڑھو جیسے مطوّف پڑھایا کرتے ہیں ۔ (105) لہٰذا دورانِ طواف دعائیں وغیرہ چلاّ چلاّ کر پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور اتنی آواز سے پڑھنا کہ خود کے ریاء سُمعہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو مکروہ تنزیہی ہے ، ریا و سُمعہ کا اندیشہ اس طرح ہے کہ جہراً پڑھنے کی صورت میں دوسرے اس کی اقتداء میں لگ جائیں گے تو پڑھنے والے کا ریا و سُمعہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے مُلّا علی قاری نے اسی طرح لکھا ہے ۔ اسی لئے صاحبِ لُباب نے لکھا کہ دورانِ طواف ذکر اور دعاؤں میں اخفاء مستحب ہے اور اس سے مراد اتنا اخفاء ہے کہ جس سے ریا و سُمعہ میں پڑنے کا اندیشہ نہ رہے ، چنانچہ مُلّا علی قاری حنفی نے اس کے تحت لکھا :

لعلّہ أراد بالإسرار المبالغۃ فی الإخفاء تبعیداً عن السُّمعۃ و الریّاء (106)

یعنی، شاید مصنِّف کی آہستہ پڑھنے سے مراد آہستہ پڑھنے میں مبالغہ کرنا ہے کہ جو سُمعہ اور ریاء سے دُور ہو۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الأحد، 29ذی القعدہ 1428ھ، 9دیسمبر 2007 م (New 08-F)

حوالہ جات

94۔ لُباب المناسک، باب أنواع الأطوفۃ، فصل فی مکروہاتہ، ص119

95۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیوم در بیان طواف وانواع آن، فصل ششم دربیان مکروہاتِ طواف، ص152

96۔ بہار شریعت، حج کابیان، طواف وسعی ومروہ و عمرہ کابیان، حج میں یہ 15 باتیں مکروہ ہیں ،1/1113

97۔ لُباب المناسک، باب أنواع الأطوفۃ، فصل فی مستحباتہ،ص118

98۔ الجوہرۃ النیرۃ، کتاب الحج، مطلب فی السعی، تحت قولہ : ویجتھد فی الدعاء، 1/378

99۔ المسلک المتقسّط، باب أنواع الأطوافۃ وأحکامھا، فصل : فی مستحبات الطواف، تحت قولہ : بالذکر والأدعیۃ، 235

100۔ البحر العمیق، الباب العاشر فی دخول مکۃ و فی الطواف و السعی، فصل فی بیان انواع الأطوفۃ،2/1218

101۔ بہار شریعت، حج کابیان، طواف وسعی صفا ومروہ و عمرہ کابیان ،طواف کا طریقہ اور دعائیں ،1/1098

102۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسّط، باب أنواع الأطوفۃ، فصل فی مکروہاتہ، ص234

103۔ حج کے مسائل مع زیارات حرمین، طواف کے مسائل، ص53۔54

104۔ الحج مصنّفہ محمد سلیمان اشرف، ص100

105۔ بہار شریعت، حج کابیان،طواف وسعی صفا ومروہ و عمرہ کابیان، طواف کا طریقہ اور دعائیں ، 1/1098

106۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب أنواع الأطوفۃ، فصل فی مستحباتہ، ص320

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button