شرعی سوالات

حربی کافر کو قرض دے کر نفع لینا جائز ہے جبکہ سود نہ سمجھے۔

سوال:

کسی کافر کو روپیہ ادھار دے کر بنام سود نفع لے سکتے ہیں یا نہیں ؟

جواب:

یہاں کے کفار حربی ہیں اور مسلمان و حربی کے درمیان سود نہیں۔ لہذا یہاں کے کافروں کو روپیہ ادھار دے کر بلا شبہہ نفع لے سکتا ہے مگر سود سمجھ کر نہ لیں بلکہ مال مباح سمجھ لیں۔

                                                     (فتاوی فقیہ ملت، جلد 2، صفحہ 209، شبیر برادرز لاہور)

سوال :

حربی کفار سے سود لینا کیسا؟ ملخصا

جواب:

سود حرام قطعی ہے، نہ مسلمان سے لینا حلال، نہ کافر سے، نہ ذمی سے، نہ حربی سے۔ سود ہونے کے لئے مال معصوم درکار ہے جس کا مال معصوم ہو، اس سے زائد لینا سود ہو گا،کہیں گے۔ اور جس کا مال معصوم نہیں اس سے جو کچھ ملے وہ حرام و سود نہیں۔ ہاں غدر بد عہدی نہ کرے کہ حرام ہے۔ یہ حکومت جو نفع دیتی ہے وہ درحقیقت سود ہی نہیں ۔ یوں ہی یہاں کے کفار کہ سب حربی ہی ہیں۔ اور ان کا مال معصوم نہیں ، سود سمجھ کر لینا گناہ ہے، مگر بخوشی یہ سمجھتے ہوئے کہ سود ہے لی وہ سود نہیں ۔ بکری کو سوئر سمجھ کر کھانا گناہ، مگر جو کھایا وہ سوئر نہیں بکری ہی تھا۔ دارالحرب کی قید اتفاقی ہے احترازی نہیں کہ دار  دون دار کی کوئی تخصیص نہیں۔ فی دارالحرب حسب واقع ارشاد ہوا کہ اس زمان برکت نشان میں کوئی ایسی صورت ہی نہیں  تھی کہ دار، دارالاسلام ہو اور کفار حربی۔ اصل علت وہی عدم عصمۃ ہے۔

(فتاوی مفتی اعظم، جلد 5 ، صفحہ 79 تا 85، شبیر برادرز لاہور)

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button