شرعی سوالات

قبضے سے پہلے بیع کا شرعی حکم اور جائز ہونے کی صورت

سوال :

زید کتابوں کا تا جر ہے ، ایک دکاندار سے کتابوں کا آرڈر آتا ہے ، وہ بذریعہ فون یا خط دوسرے دکاندار سے کہہ دیتا ہے کہ اس پتے پر مال بھیج کر بل زید کے کھاتے میں لکھ دینا۔ وہ مال پر قبضہ کرنے سے پہلے اسے دوسری پارٹی پر فروخت کر دیتا ہے۔ اور دوسرا دکاندار اس کے کھاتے میں حساب لکھ دیتا ہے ۔ کیا یہ جائز ہے؟ جبکہ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ مال منقول کی بیع قبل القبض ناجائز ہے ۔

جواب:

یہ بات درست ہے کہ مال منقول (Movable Property )کو قبضے سے پہلے کسی دوسرے شخص پر آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔  اس کے جواز کی صورت یہ ہے کہ آپ دوسرے دکاندار کے ساتھ کمیشن کا معاملہ طے کر دیں ، اس طرح کہ میں آپ کے لئے گا ہک تلاش کروں گا اور وہ جتنی مالیت کی کتابیں خریدیں گے ، ان پر میرا کمیشن اتنے فیصد ہو گا ، جو بھی مقدار فریقین کے درمیان اتفاق رائے سے طے ہو جائے ۔ اس طرح وہ دکاندار خود براہ راست بائع ہو گا اور گا ہک مشتری ہو گا اور آپ جائز طور پر اپنے کمیشن کے حقدار ہوں گے۔ چونکہ مختلف کتابوں پر کمیشن یا ڈسکاؤنٹ کی شرح مختلف ہوتی ہے ، اس لئے ہر سودے کے لئے کمیشن کی الگ الگ شرح بھی طے کر سکتے ہیں ۔ یہ صورت بلا تردد جائز ہے۔ جو صورت آپ نے بیان کی ہے یہ ہمارے ہاں عرف (Custom )اور تعامل(General Practice)  بن چکا ہے اور عرف بھی نص کی طرح مؤثر ہوتا ہے ۔

 جیسا کہ آپ نے لکھا ہے : اردو بازار لاہور ہو یا اردو بازار کراچی کتاب فروش دکانداروں کا یہ عرف و عادت ہے اور تعامل ہے جو جاری و ساری ہے ۔ بعض پبلشرز کا اپنے شہر سے باہر (Out Station) کتابوں کی ترسیل کا نظام ہوتا ہے ، جبکہ ایک عام دکاندار اگر مطلوبہ کتا میں اپنے طور پر بھیجے تو اسے مہنگی پڑتی ہیں ۔اور دکانداروں کے اس تعامل میں بالعموم کوئی نزاع بھی پیدا نہیں ہوتا۔ پبلشر دکاندار اپنے کھاتے میں رقم کا اندراج کرلیتا ہے اور بعد میں آرڈر دینے والے دکاندار سے وصول کر لیتا ہے ۔ اسلامی بینکنگ کے لئے بھی جو”المعائر الشرعیہ“ مسلمہ اور نافذ العمل ہیں، ان کے مطابق مثلاً جاپان سے وہاں کا تاجر مال کی شپنگ کر کے تمام دستاویزات (Documents) کراچی میں اپنے کلائنٹ تا جر کو بیچ دیتا ہے اور کراچی کا تاجر مال کی ملکیت کی ان دستاویزات کو اسلامی بینک کے حوالے کر دیتا ہے اور اسے قبضہ حکمی (Constructive Possession) سے تعبیر کر کے عقد مرابحہ کر لیا جاتا ہے اور بینک رقم کی ادائیگی کر دیتا ہے۔

(تفہیم المسائل، جلد7،صفحہ 324،ضیا القرآن پبلی کیشنز، لاہور)

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button