ARTICLESشرعی سوالات

حج یا عمرہ کی نیت کے بغیر مکہ مکرمہ آنے والے کا حکم

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہمارے گروپ میں ہم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ شلوار پہنے بیٹھا تھا جب کہ ہم آج ہی کراچی سے مکہ مکرمہ پہنچے ہیں اور کسی نے ابھی تک عمرہ بھی ادا نہیں کیا وہ بھی احرام کی چادریں پہن کر ہمارے ساتھ آیا تھا، ہم نے اُسے کہا کہ تو نے سِلے ہوئے کپڑے پہن لئے ہیں تجھ پر دَم لازم آ جائے گا تو اس نے کہا میں نے کراچی سے آتے ہوئے احرام کی نیت نہیں کی تھی تو مجھ پر دَم کیسے آئے گا؟ تو حضرت اِس صورت میں شرع مطہر کی روشنی میں اِس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

(السائل : محمد ریحان ولد ابو بکر، لبیک حج گروپ )

جواب

باسمہ تعالی وتقدس الجواب : شرع مطہر نے حرم کے گرد ایک دائرہ مقرر فرمایا ہے جسے میقات کہا جاتا ہے اور اس دائرے پر پانچ مقامات کو متعین کیا ہے اور وہ مندرجہ ذیل ہیں : 1۔ قَرنُ الْمَنَازِل (یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً 180کلو میٹرکے فاصلے پر ہے ) جسے اب ’’السیل الکبیر‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے یہ ان لوگوں کی میقات ہے جو نجد میں رہتے ہیں یا جو اس راستے سے گزریں ۔ 2۔ ذَاتِ عِرق (یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً 90 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ) یہ عراق والوں اور اس راستہ سے گزرنے والوں کی میقات ہے ۔ 3۔ یَلَمْلَم (یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً 130 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ) جسے اب ’’سعدیہ‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے ، یہ یمن والوں کی اور جو اس راستہ سے گزریں میقات ہے ۔ 4۔ جُحْفہ (یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً 182 کلومیٹرکے فاصلے پر ہے ) ’’رابغ‘‘ کے قریب ایک مقام ہے یہ مغرب، شام اور مصر سے آنے والوں اور اس راستہ سے گزرنے والوں کی میقات ہے ، چاہے آنے والے خشکی کے راستیسے آئیں یا سمندری راستے سے یا ہوائی جہاز سے ۔ 5۔ ذُوالْحُلَیْفَہ (اَبیارِ علی مکہ مکرمہ سے تقریباً 410 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ) جس کو اب ’’ابیار علی‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے یہ مدینہ والوں اور اس راستے سے گزرنے والوں کی میقات ہے ۔ نوٹ : مواقیت خمسہ کی یہ تفصیل وزارۃ الحج مملکت سعودی عرب کی طرف سے شائع ہونے والے ایک پمفلٹ ’’فریضۂ حج عام احکامات‘‘ کے ص5 پر مذکور ہے ۔ اس دائرے سے باہر رہنے والے آفاقی کہلاتے ہیں ، کوئی شخص بھی اس دائرے کے باہر سے مکہ مکرمہ یا حرم شریف کی حُدود میں آنا چاہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ میقات سے احرام کے ساتھ گزرے ۔ اور اگر وہ احرام نہیں باندھتا تو اس پر لازم ہے کہ واپس میقات پر جائے اور احرام باندھ کر آئے چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :

من جاوز وقتہ غیر محرم ثم أحرم أو لا فعلیہ العود إلی وقت (1)

یعنی، جو شخص میقات سے بغیر احرام کے گزر گیا، پھر اس نے احرام باندھا یا نہ باندھا تو اس پر میقات کو لوٹنا لازم ہے ۔ کیونکہ احرام کی میقات سے تاخیر کرنا حرام ہے ، چنانچہ علامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :

و حرُم تأخیرُ الإحرام عنہا کلِّہا لمن أی : لآفاقیٍّ قَصَدَ دخولَ مکَّۃَ یعنی : الحرمَ و لو لحاجۃٍ غیر الحَجِّ (2)

یعنی، احرام کو تمام مواقیت سے مؤخّر کرنا حرام ہے یعنی آفاقی کے لئے جو مکہ مکرمہ یعنی (حُدودِ) حرم میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہو اگرچہ حج کے سوا کسی اور حاجت کے لئے ۔ مذکور شخص جب نیتِ احرام کے بغیر مکہ مکرمہ آ گیا تو اس پر لازم ہو گیا کہ وہ کسی بھی میقات کو جائے اور وہاں سے احرام باندھ کر آئے پھر اگر وہ نہیں لوٹتا تو اس پر دم لازم ہو گا، چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی993ھ اور مُلّا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :

(و إن لم یعد)أی مطلقاً (فعلیہ دم) أی المجاوزۃ الوقت (3)

یعنی، اگر مطلقاً میقات کو نہیں لوٹتا تو اس پر میقات سے (بغیر احرام کے ) گزرنے کی وجہ سے دَم لازم ہے ۔ اور یہ ضروری نہیں کہ جس میقات سے بغیر احرام کے گزرا تھا اسی میقات کو لوٹے ، احرام کے لئے جس میقات کو بھی جائے کافی ہو گا، چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :

فعلیہ العَوْدُ إلی میقات منہا و إن لم یکن میقاتَہ لیحرم منہ، و إلّا فعلیہ دمٌ (4)

یعنی، اس پر مواقیت میں سے کسی میقات کو لوٹنا لازم ہے تاکہ وہاں سے وہ احرام باندھے اگرچہ وہ میقات نہ ہو (کہ جس سے بغیر احرام گزر کر آیا تھا) ورنہ اس پر دَم لازم ہو گا۔ اور دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :

فالمرادُ أیَّ میقاتٍ کان، سواء کان میقاتَہُ الذی جاوَزَہ غیرَ مُحرِمٍ أو غیرہ، أقربَ أو أبعد، لأنّہما کلّہا فی حقّ المحرم سوائٌ، و الأَولٰی أن یُحرِمَ من وقتہ ’’بحر‘‘ عن ’’ المحیط‘‘ (5)

یعنی، تو مراد یہ ہے کہ جو بھی میقات ہو، چاہے وہی میقات ہو کہ جس سے گزر کر آیا تھا یا اس کی غیر، زیادہ قریب یا زیادہ دُور ہو کیونکہ مُحرِم کے حق میں سب برابر ہیں ، بہتر ہے کہ اسی میقات سے احرام باندھے
۔’’بحرالرائق ‘‘(6)بحوالہ’’ محیط ‘‘(7)ہے یاد رہے کہ بغیر احرام کے مکہ مکرمہ آنے والا شخص واپس جا کر کسی میقات سے عمرہ یا حج کا احرام باندھ کر آ جاتا ہے تو اُس سے بغیر احرام کے میقات سے گزر کر آنے کی وجہ سے لازم آنے والا دَم ساقط ہو جائے گا مگر میقات سے بغیر احرام کے گزر آنے کا گُناہ برقرار رہے گا کہ فقہاء کرام نے میقات سے بغیر احرام مکہ یا حرم آنا حرام لکھا ہے اور اس حرام کا ارتکاب اس نے کر لیا اس لئے اُسے سچی توبہ کرنا لازم ہو گی۔ مگر کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ بغیر احرام کے مکہ یا حرم آنا ممنوع ہے ۔ تویہ اس کے لئے ہے جو مکہ عمرہ یا حج کے ارادے سے آئے اور جو حج یا عمرہ کا ارادہ نہ رکھتا ہو اُس پر میقات کو لوٹنا اور وہاں سے احرام کے ساتھ آنا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں دَم وغیرہ کچھ بھی لازم نہیں ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے جو شخص بھی مکہ یا حرم کے ارادے سے میقات سے گزرتا ہے تو شرعاً اس پر حج و عمرہ دونوں میں سے ایک عبادت لازم ہو جاتی ہے چاہے وہ خود حج یا عمرہ کا ارادہ نہ رکھتا ہو چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :

اگر آفاقی عبور کند بر این مواقیت مذکورہ وارادہ داشتہ باشد دخولِ مکہ یا دخولِ ارضِ حرم را، واجب گردد بروی ادائے اَحدُ النُّسکین اعنی حج یا عمرہ(8)

یعنی، آفاقی اگرمواقیت مذکورہ سے گزرے اور وہ مکہ مکرمہ یا سرزمینِ حرم میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس پر دو نُسک یعنی حج یا عمرہ میں سے ایک (عبادت) واجب ہو جاتی ہے ۔ اس لئے حج و عمرہ دونوں میں سے کسی ایک کا احرام باندھنا بھی واجب ہو جاتا ہے ، چنانچہ لکھتے ہیں :

و واجب شود بروے احرام برائے آن (9)

یعنی، اور اس پر اس (یعنی حج یا عمرہ) کے لئے (میقات سے ) احرام باندھنا واجب ہو جاتا ہے ۔ پھر وہ میقات کو لوٹے بغیر احرام باندھے یا نہ باندھے دَم بہر صورت اس پر لازم رہے گا، چنانچہ علامہ شمس الدین محمد بن عبداللہ بن احمد غزّی تمرتاشی حنفی متوفی 1004ھ لکھتے ہیں :

و جاوَزَ وقتَہ ثمَّ أحرَمَ لَزِمَہ دمٌ، کما إذا لم یُحْرِم (10)

یعنی، اپنی میقات سے بغیر احرام کے گزرا پھر احرام باندھا تو اس کو دَم لازم ہو گا جیسا کہ جب احرام نہ باندھے (تو اس کو دَم لازم ہو جاتا ہے )۔ سقوطِ دَم کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ میقات کو لوٹے اور احرام باندھ کر آئے جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں ہے ۔ لہٰذا صورتِ مسؤلہ میں مذکور شخص کو احرام باندھنے کے لئے میقات لوٹنا اور وہاں سے احرام باندھنا لازم ہو گا اور نہ لوٹنے کی صورت میں دَم دینا ہو گا اور توبہ بہر صورت کرنی ہو گی۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الثلثاء،24ذی القعدہ 1428ھ، 4دیسمبر 2007 م (New 01-F)

حوالہ جات

1۔ لُباب المناسک، باب المواقیت، فصل فی مجاوزۃ المیقات بغیر إحرام، ص81

2۔ الدُّرُّ المختار، کتاب الحج والمواقیت، مع قولہ : حرم تأخیر الإحرام إلخ، ص158

3۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب المواقیت، فصل فی مجاوزۃ المیقات بغیر إحرام، ص95

4۔ رد المحتار ، کتاب الحج، مطلب : فی المواقیت، تحت قولہ : وحرم ألخ، 3/551۔552

5۔ رد المحتار، باب الجنایات، مطلب : لا یجبُ الضَّمانُ بکسرِ الآلاتِ اللّہو، تحت قولہ : إلی میقات ما، ص706

6۔ البحر الرائق، المجلد (3)، کتاب الحج، باب مجاوزۃ المیقات بغیر إحرام، ص52

7۔ المحیط البرھانی

8 حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب اوّل در بیان اِحرام، فصل دویم در بیانِ مواقیت، نوع اوّل، ص58

9۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب اوّل در بیان اِحرام، فصل دویم در بیانِ مواقیت، نوع اوّل، ص58

10۔ تنویر الأبصار مع شرحہ للحصکفی، کتاب الحج، باب الجنایات، ص 171

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button