شرعی سوالات

بقیہ ثمن لیٹ کرنے کی بنیاد پر بیع ختم کرنے کا حق

سوال:

میں نے اپنا ایک فلیٹ اپنے ایک واقف کار محمد عابد کو 75,000 روپے میں فروخت کیا محمد عابد نے بیعانہ کے طور پر38,000 روپے دے کر چابی وصول کر لی ۔ میں نے یہ معاہدہ کیا کہ جب وہ باقی رقم ادا کرے گا ، میں اسے فلیٹ کے کاغذات بھی دے دوں گا اور پھر Sale Deed کا معاہدہ کروں گا ۔اب تقریباً 24 سال گزرنے کے باوجود محمد عابد نے بقیہ رقم ادا نہیں کی اور 24 سال سے اس فلیٹ میں رہ رہا ہے ،اس دوران میں نے بار ہا رقم کا تقاضا کیا لیکن نہ تو اس نے رقم دی اور نہ ہی میں نے رقم کی واپسی کے لئے سختی کی ۔ میں گزشتہ ماہ اس کے پاس گیا تو کہنے لگا کہ اب میں صرف بقیہ رقم

 000 73 روپے ادا کر سکتا ہوں ۔ جبکہ میرا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنے38,000 روپے لے کر مجھے فلیٹ واپس کر دے ،فلیٹ کے کاغذات میرے پاس ہیں ۔معلوم یہ کرنا چاہتا ہوں کہ میرے مطالبے کی کیا شرعی حیثیت ہے؟

جواب:

نفس مسئلہ سے قبل یہ بات مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق تجارت و معاملات میں دیانت ،امانت ،صداقت اور عہد و پیمان کی پابندی کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اور یہ خو بیاں اسلامی تعلیمات کا طرۂ امتیاز ہیں ۔ ایجاب و قبول سے بیع منعقد ہو جاتی ہے اور چیز بائع کی ملک سے نکل کر مشتری کی ملک میں داخل ہو جاتی ہے ۔ بیع منعقد ہونے کے بعد ا سے کوئی ایک فریق یک طرفہ طور پر فسخ نہیں کر سکتا ،لہذا آپ کا مطالبہ شرعاً درست نہیں ہے ۔ مذکورہ صورت میں مشتری ، بائع کا مقروض ہے اور اس سے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے ،  ایجاب و قبول کے بعد مبیع کا نرخ اگر بڑھ جائے تو بائع کو زائد رقم لینے کا اختیار نہیں ہے، بلکہ طے شدہ قیمت پر ہی مشتری کو دے گا۔ محمد عابد صاحب کو چونکہ آپ مکان کا قبضہ اپنی رضا و رغبت سے دے چکے تھے ،تو شرعا بیع اسی وقت مکمل ہو گئی اور بقایا37,000 روپے آپ کے اس کے ذمے واجب الادا رہ گئے، Sale Deed یا بیع نامہ کی تکمیل محض قانونی تقاضا ہے ۔آپ نے خود تحریر کیا ہے کہ آپ نے اپنی رقم کا تقاضا کر نے میں نرمی برتی ، ایک روایت کی رو سے کسی شخص کا دوسرے شخص پر قرض ہو اور وہ اس کا تقاضا نہ کرے تو اسے ہر روز اتنی رقم کے برابر صد قے کا ثواب ملتا ہے۔ اللہ تعالی کے محبوب بندوں کا شعار تو یہ ر ہا ہے کہ محض دل میں ارادہ کر لیا ہو ،ابھی عقد تمام نہ ہوا ہو تب بھی اس پر قائم رہتے ہیں۔

محمد عابد صاحب نے اتنے طویل عرصے میں اگر استطاعت کے باوجود رقم ادا نہیں کی تو اسے حدیث پاک میں ظلم قرار دیا گیا ہے ،اسے آپ سے اور اللہ تعالی سے معافی مانگنی چاہیے ،اسے آج کل کاروباری اصطلاح میں WILL FULL DEFAULT کہا جا تا ہے ۔البتہ اگر محمد عابد آپ کے مطالبے یا پیشگی شرط کے بغیر اصل واجب الادا رقم سے کچھ زائد تبرعاً دیدیں تو وہ جائز اور مستحسن ہے۔

(تفہیم المسائل، جلد6،صفحہ 395،ضیا القرآن پبلی کیشنز، لاہور)

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button