بہار شریعت

حاضری سرکار اعظم مدینہ طیبہ حضور حبیب اکرم ﷺ

حاضری سرکار اعظم مدینہ طیبہ حضور حبیب اکرم ﷺ

اللہ عزوجل فرماتا ہے :۔

ولو انھم اذظلمو انفسھم جآئ وک فاستغفرواللہ واستغفرلھم الرسول لوجد واللہ توابًارحیمًاط

(اگر لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں اور تمھارے حضور حاضر ہو کر اللہ سے مغفرت طلب کریں اور رسول بھی ان کے لئے استغفار کریں تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا پائیں گے )

حدیث ۱: دار قطنیو بیہقی وغیرہما عبداللہ بن عمر رضی اللہ توالی عنہما سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو میری قبر کی زیارت کرے اس کے لئے میرے شفاعت واجب۔

حدیث۲: طبرانی کبیر کے میں انہی سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو میری زیارت کو آئے سوا میرے زیارت کے اور کسی حاجت کے لئے نہ آیا تو مجھ پر حق ہے کہ قیامت کے دن اس کا شفیع بنوں ۔

حدیث۳: دارقطنی و طبرانی انہی سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے حج کیا اور میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو ایسا ہے جیسے میری حیات میں زیارت سے مشرف ہوا۔

حدیث ۴: بیہقی نے حاطب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی تو گویا اس نے میری زندگی میں زیارت کی اور جو حرمین میں مرے گا قیامت کے دن امن والوں میں اٹھے گا۔

حدیث ۵: بیہقی عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے فرماتے سنا جو شخص میری زیارت کرے گا قیامت کے دن میں اس کا شفیع یا شہید ہوں گا اور جو حرمین میں مرے گا اللہ تعالی اسے قیامت کے دن امن والوں میں اٹھائے گا۔

حدیث۶: ابن عدی کا مل میں انہی سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے حج کیا اور میری زیارت نہ کی اس نے مجھ پر جفا کی۔

(۱)زیارت اقدس قریب بواجب ہے بہت لوگ دوست بن کر طرح طرح ڈراتے ہیں راہ میں خطرہ ہے ‘ وہاں بیماری ہے یہ ہے وہ ہے ۔ خبردار کسی کی نہ سنو اور ہر گز محرومی کا داغ لے کر نہ پلٹو جان ایک دن ضرور جانی ہے اس سے کیا بہتر کہ ان کی راہ میں جائے اور تجر بہ یہ ہے کہ جوان کا دامن تھام لیتا ہے اسے اپنے سایہ میں با آرام لے جاتے ہیں ، کیل کا کھٹکا نہیں ہوتا؎

ہم کو تو اپنے سایہ میں آرام ہی سے لائے

حیلے بہانے والوں کو یہ راہ ڈر کی ہے والحمد للہ

(۲) حاضری میں خالص زیارت اقدس کی نیت کرو یہاں تک کہ امام ابن الہام فرماتے ہیں ا س بار مسجد شریف کی نیت بھی شریک نہ کرے

(۳)حج اگر فرض ہے تو حج کرکے مدینہ طیبہ حاضر ہو ہاں اگر مدینہ طیبہ راسۃ میں ہو تو بغیر زیارت حج کو جانا سخت محرومی و قساوت قلبی ہے اور اس حاضری کو قبول حج و سعادت دینی و دنیوی کے لئے ذریعہ ووسیلہ قرار دے اور حج نفل ہو تو اختیار ہے کہ پہلے حج سے پاک صاف ہو کر محبوب کے دربار میں حاضر ہو یا سرکار میں پہلے حاضری دے کر حج کی مقبولیت و نورانیت کے لئے وسیلہ کرے ‘ غرض پہلے جو اختیار کرے اسے اختیار ہے مگر نیت خیر درکار ہے کہ انماالاعمال بالنیات ولکل امریئٍ مانوی۔اعمال کا مدار نیت پر ہے اور ہر ایک

کے لئے وہ ہے جو اس نے نیت کی

(۴)راسۃ بھر درود و ذ کر شریف میں ڈوب جائواور جس قدر مدینہ طیبہ قریب آتا جائے ذوق و شوق زیادہ ہوتا جائے

(۵)جب حرم مدینہ قریب آئے بہتر یہ کہ پیادہ ہو لو ‘ روتے ‘ سر جھکائے ‘ آنکھیں نیچی کئے درود شریف کی کثرت کرو اور ہو سکے تو ننگے پائوں چلو بلکہ ؎

جائے سرست اینکہ تو پامی نہی پائے نہ بینی کہ ک جا می نہی

حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا ارے سر کا موقع ہے او جانے والے

جب قبہ انور پر نگاہ پڑے درود سلام کی خوب کثرت کرو۔

(۶) جب شہر اقدس تک پہنچو جلال و جمال ﷺ کے تصور میں غرق ہو جائو اور دروازئہ شہر میں داخل ہوتے وقت پہلے دہنا قدم رکھو اور یہ پڑھو:۔

بسم اللہ ماشآئ اللہ لا قو ۃالا باللہ رب ادخلنی مدخل واخرجنی مخرج صدقٍ‘ اللھم افتح لی ابواب رحمتک وارزقنی من زیارۃ رسولک صلی اللہ تعالے علیہ وسلم مارزقت اولیآ ئک واھل طاعتک وانقذنی من النار واغفرلی وارحمنی یا خیر مسئولٍ۔

(اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو اللہ نے چاہا نیکی کی طاقت نہیں مگر اللہ سے ‘ اے رب سچائی کے ساتھ مجھ کو داخل کر اور سچائی کے ساتھ باہر لے جا‘ الہی تو اپنی رحمت کے دروازے میرے لئے کھول دے اور اپنے رسول ﷺ کی زیارت سے مجھے وہ نصیب کر جو اپنے اولیاء اور فرمانبردار بندوں کے لئے تونے نصیب کیا اورمجھے جہنم سے نجات دے اور مجھ کو بخشدے اور مجھ پر رحم فرما اے بہتر سوال کئے گئے )

(۷)حاضری ٔ مسجد سے پہلے تمام ضروریات سے جن کا لگائو دل بٹنے کا باعث ہو نہایت جلد فارغ ہو ان کے سوا کسی بیکار بات میں مشغول نہ ہو معاً وضو و مسواک کرو اور غسل بہتر ‘ سفید پاکیزہ کپڑے پہنو اور نئے بہتر، سر مہ اور خوشبو لگائو اور مشک افضل۔

(۸)اب فوراً آستانۂ اقدس کی طرف نہایت خشوع و خضو ع سے متوجہ ہو رونا نہ آئے تو رونے کا منہ بنائو اور دل کو بزور رونے پر لائو اور اپنی امنگ دلی سے رسول اللہ ﷺ کی طرف التجا کرو۔

(۹) جب در مسجد پر حاضر ہو صلوۃ وسلام عرض کرکے تھوڑا ٹھہرو جیسے سرکار دوعالم سے حاضری کی اجازت مانگتے ہو بسم اللہ کہہ کر سیدھا پائوں پہلے رکھ کر ہم تن ادب ہو کر داخل ہو۔

(۱۰)اس وقت جو ادب و تعظیم فرض ہے ہر مسلمان کا دل جانتا ہے آنکھ ‘ کان ‘ زبان ‘ ہاتھ ‘ پائوں ‘ دل سب خیال غیر سے پاک کرو مسجد اقدس کے نقش و نگار نہ دیکھو ۔

(۱۱)اگر کوئی ایسا سامنے آئے جس سے سلام و کلام ضروری ہو تو جہاں تک بنے کترائو ورنہ ضرورت سے زیادہ نہ بڑھو پھر بھی دل سرکار کی طرف ہو ۔

(۱۲) ہر گز ہر گز مسجد اقدس میں کوئی حرف چلا کر نہ نکلے ۔

(۱۳) یقین جانو کہ حضور اقدس ﷺ سچی حقیقی دنیا وی جسمانی حیات سے ویسے ہی زندہ ہیں جیسے وفات شریف سے پہلے تھے ان کی اور تما م انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی موت صرف وعدئہ خدا کی تصدیق کو ایک آن کے لئے تھی ان کا انتقال صرف نظر عوام سے چھپ جانا ہے ۔ امام محمد بن حاج مکی مدخل میں اور امام احمد قسطلانی مواہب لد نیہ میں اور ائمئہ دین رحمۃ اللہ تعالی علیہم اجمعین فرماتے ہیں ۔

لا فرق بین موتہٖ وحیا تہٖ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فی مشاھدتہٖ لا متہٖ ومعر فتہٖ باحوالھم وعزائمھم وخواطرھم و ذالک عندہٗ جلیٌ لا خفائہٖ۔

(حضور ﷺ کی حیات و وفات میں اس بات میں کوئی فرق نہیں کہ وہ اپنی امت کو دیکھ رہے ہیں اور ان کی حالتوں ان کی نیتوں ان کے ارادوں ان کے دلوں کے خیالوں کو پہچانتے ہیں اور یہ سب حضور ﷺ پر ایساروشن ہے جس میں اصلاً پوشیدگی نہیں )

اما م رحمۃ اللہ تلمیذ اما م محقق ابن الہمام منسک ‘ متوسط اور علی قاری مکی اس کی شرح مسلک متقسط میں فرماتے ہیں ۔

وانہٗ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عالمٌ بحضورک وقیا مک وسلامک ای بل بجمیع احوالک وارتحالک ومقامک۔

(بے شک رسول اللہ ﷺ تیری حاضری اور تیرے کھڑے ہونے اور تیرے سلام بلکہ تیرے تمام افعال و احوال و کوچ و مقام سے آگاہ ہیں )

(۱۴) اب اگر جماعت قائم ہو شریک ہو جائو کہ اس میں تحیۃ المسجد بھی ادا ہوجائے گی ورنہ اگر غلبئہ شوق مہلت دے اور وقت کراہت نہ تو دو رکعت تحیۃ المسجد و شکرانہ حاضری دربار اقدس صرف قل یا ایھا الکفرون اور قل ھواللہ سے بہت ہلکی مگر رعایت سنت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ جہاں اب وسط مسجد کریم میں محراب بنی ہے اور وہاں نہ ملے توجہاں تک ہو سکے اس کے نزدیک ادا کرو پھر سجدہ شکر میں گر و اور دعا کرو ‘الہی اپنے حبیب ﷺ کا ادب اور ان کا اور اپنا قبول نصیب کر آمین۔

(۱۵)اب کمال ادب میں ڈوبے ہوئے گردن جھکائے آنکھیں نیچی کئے لرزتے کانپتے گناہوں کی ندامت سے پسینہ پسینہ ہوتے حضور پر نور ﷺ کے عفو و کرم کی امید رکھتے حضور والا کی پائیں یعنی مشرق کی طرف سے مواجہہ عالیہ میں حاضر ہوگے تو حضور ﷺ کی نگاہ بیکس پناہ تمھاری طرف ہو گی اور یہ بات تمھارے لئے دونوں جہاں میں کافی ہے ‘ والحمد للہ۔

(۱۶)اب کمال ادب و ہیبت و خوف و امید کے ساتھ زیر قندیل اس چاندی کی کیل کے سامنے جو حجرئہ مطہرہ کی جنوبی دیوار میں چہرہ انور کے مقابل لگی ہے کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے سے قبلہ کو پیٹھ اور مزار انورکو منہ کرکے نماز کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے ہو۔لباب و شرح لباب و اختیار شرح مختار و فتاوئے عالمگیری وغیرہا

معتمد کتا بوں میں اس ادب کی تصریح فرمائی ۔

یقف کما یقف فی الصلوۃ ۔حضور ﷺ کے سامنے ایساکھڑا ہو جیسا نماز میں کھڑا ہوتا ہے ۔ یہ عبارت عالمگیری و اختیار کی ہے اور لباب میں فرمایا واضعًا یمینہٗ علی شمالہٖ ۔دست بستہ دہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر کھڑا ہو

(۱۷)خبر دار جالی شریف کو بوسہ دینے یاہاتھ لگانے سے بچو کہ خلاف ادب ہے بلکہ چار ہاتھ فاصلے سے زیادہ قریب نہ جائو ۔ یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ تم کو اپنے حضور بلایا ‘ اپنے مواجہہ اقدس میں جگہ بخشی ‘ ان کی رحمت اور نگاہ کریم اگر چہ ہر جگہ تمھاری طرف تھی اب خصوصیت اور اس درجہ قرب کے ساتھ ہے ‘ وللہ الحمد

(۱۸)الحمدللہ اب دل کی طرح تمھار امنہ بھی اس پاک جالی کی طرف ہو گیا جو اللہ عزوجل کے محبوب عظیم الشان ﷺ کی آرام گاہ ہے نہایت ادب و وقار کے ساتھ بآواز حزیں و صورت درد آگیں و دل شرمسار و جگر چاک چاک ‘ معتدل آواز سے نہ بلند و سخت کہ ان کے حضور آواز بلند کرنے سے عمل اکارت ہو جاتے ہیں ۔ نہایت نرم و پست کہ سنت کے خلاف ہے اگر چہ وہ تمھارے دلوں کے خطروں تک سے آگاہ ہیں جیسا کہ ابھی تصریحات ائمہ سے گزرا مجرا و تسلیم بجالائو اور عرض کرو :۔

السلا م علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبر کاتہٗ السلام علیک یا رسول اللہ السلام علیک یا خیر خلق اللہ السلام علیک یاشفیع المذنبین السلام علیک وعلی الک و اصحابک و امتک اجمعینط

(اے نبی آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور برکتیں اے اللہ کے رسول آپ پر سلام اے اللہ کی تمام مخلوق سے بہتر آپ پر سلام اے گنہگاروں کی شفاعت کرنے والے آپ پر آپ کی آل و اصحاب پر اور آپ کی تمام امت پر سلام )

(۱۹)جہاں تک ممکن ہو اور زبان یا ری دے اور ملال وکسل نہ ہو صلوۃ وسلام کی کثرت کرو‘ حضور سے اپنے ماں باپ ‘ پیر ‘ استاد ‘ اولاد ‘ عزیزوں ‘دوستوں اور سب مسلمانوں کیلئے شفاعت مانگو‘ بار بار عرض کرو۔

اسئالک الشفا عۃ یا رسول اللہ ۔ یارسول اللہ میں حضور سے شفاعت مانگتا ہوں ۔

(۲۰) پھر اگر کسی نے عرض سلام کی وصیت کی تو بجالائو ۔ شرعاً اس کا حکم ہے اور یہ فقیرذلیل ان مسلمانوں کو جو اس رسالہ کو دیکھیں وصیت کرتا ہے کہ جب انھیں حاضری بارگاہ نصیب ہو فقیر کی زندگی میں یا بعد کم از کم تین بار مواجہہ اقدس میں ضرور یہ الفاظ عرض کرکے اس نالائق ننگ خلائق پر احسان فرمائیں ۔ اللہ ان کو دونوں جہان میں جزائے خیر بخشے آمین۔

الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ وعلی الک و ذویک فی کل انٍ و لحظۃٍ عدد کل ذرۃٍ ذرۃٍ الف الف مرۃٍ من عبیدک امجد علی واولا دہٗ یسئلک الشفاعۃ فاشفع لہٗ وللمسلمین ۔

(یارسول اللہ حضور اور حضور کی آل اور سب علاقہ والوں اور ہر آن اور ہر لحظہ میں ہر ہر ذرہ کی گنتی پر دس دس لاکھ درود سلام حضور کے غلام امجد علی کی طرف سے وہ حضور سے شفاعت مانگتا ہے حضور اس کی اور تمام مسلمانوں کی شفاعت فرمائیں )

(۲۱) پھر اپنے داہنے ہاتھ یعنی مشرق کی طرف ہاتھ بھر ہٹ کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے چہرہ نورانی کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کرو۔

السلام علیک یا خلیفۃ رسول اللہ السلام علیک یا وزیررسول اللہ السلام علیک یا صاحب رسول اللہ فی الغار ورحمۃاللہ و برکاتہٗ۔

(اے خلیفہ رسول اللہ ﷺ آپ پر سلام اے رسول اللہ کے وزیر آپ پر سلام اے غار ثور میں رسول اللہ کے رفیق آپ پر سلام اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں )

(۲۲)پھر اتنا ہی اور ہٹ کر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے رو برو کھڑے ہو کر عرض کرو۔

السلام علیک یا امیرالموئمنین السلام علیک یا متمم الاربعین والسلام علیک یا عزالا سلام والمسلمین ور حمۃ اللہ و برکاتہٗ۔

(اے امیر المومنین آپ پر سلام اے چالیس کاعدد پورا کرنے والے آپ پر سلام اے اسلام اور مسلمین کی عزت آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور برکتیں )

(۲۳) پھر بالشت بھر مغرب کی طرف پلٹو اور صدیق و فاروق رضی اللہ تعالی عنہما کے درمیان کھڑے ہو کر عرض کرو۔

السلام علیکما یا خلیفتی رسول اللہ السلام علیکما یا وزیری رسول اللہ السلام علیکما یا ضجیعی رسول اللہ ورحمۃ اللہ وبرکاتۃٗ اسئالکما الشفاعۃ عندرسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلیکما وبارک وسلم۔

(اے رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں آرام کرنے والے آپ دونوں پر سلام اوراللہ کی رحمت اور برکتیں ‘ آپ دونوں حضرات سے سوال کرتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کے حضور ہماری سفارش کیجئے اللہ تعالی ان پر اور آپ پر درود و برکت و سلام نازل فرمائے )

(۲۴) یہ سب حاضریاں محل اجابت ہیں ‘ دعامیں کو شش کرو ۔یہ دعا ئے جامع کرو اور درود پر قناعت بہتر اور چاہو تو یہ دعا پڑھو ۔

اللھم انی اشھدک رسولک وابابکرٍوعمر و اشھدالملئکۃ النازلین علی ھذہٖ الروضۃ الکریمۃ العاکفین علیھا انی اشھد ان لآ الہ الاانت وحدک لا شریک لک وان محمدً عبدک ورسولک اللھم انی مقربجنا یتی و معصیتی فاغفر لی و امنن علی بالذی مننت علی اولیآ ئک فانک المنان الغفورالرحیم ط ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃً وقنا عذاب النار ۵

(اے اللہ میں تجھ کو اور تیرے رسول اور ابوبکر وعمر کو اور تیرے فرشتوں کو جو اس روضہ پر نازل اور معتکف ہیں ان سب کو گواہ کرتا ہوں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو تنہا ہے تیرا کوئی شریک نہیں اور محمد ﷺ تیرے بندے اور رسول ہیں اے اللہ میں اپنے گناہ و معصیت کا اقرار کرتا ہوں تو میری مغفرت فرما اور مجھ پر وہ احسان فرما جو تو نے اپنے اولیاء پر کیا ۔بیشک تو احسان کرنے والا بخشنے والا مہر بان ہے )

(۲۵) پھر منبر اطہر کے قریب دعا مانگو

(۲۶) پھر جنت کی کیاری میں (یعنی جو جگہ منبرو حجرئہ منورہ کے درمیان ہے اسے حدیث میں جنت کی کیاری فرمایا گیا ) آکر دو رکعت نفل غیروقت مکروہ میں پڑھ کر دعا کرو

(۲۷)یونہی مسجد شریف کے ہر ستون کے پاس نماز پڑھو دعا مانگو کہ محل برکات ہیں خصوصاً بعض میں خاص خصوصیت

(۲۸)جب تک مدینہ طیبہ کی حاضری نصیب ہو ایک سانس بیکار نہ جانے دو‘ ضروریات کے سوا اکثر وقت مسجد شریف میں با طہارت حاضر رہو۔ نماز تلاوت و درود میں وقت گزارو دنیا کی بات کسی مسجد میں نہ چاہیئے نہ کہ یہاں

(۲۹) ہمیشہ ہر مسجد میں جاتے وقت اعتکاف کی نیت کرلو یہاں تمھاری یاد دہانی کو دروازہ سے بڑھتے ہی کتبہ ملے گا ــ ۔ نویت سنت الا عتکاف۔ میں نے سنت اعتکا ف کی نیت کی ۔

(۳۰)مدینہ طیبہ میں روزہ نصیب ہو خصوصاً گرمی میں تو کیا کہنا کہ اس پر وعدئہ شفاعت ہے

(۳۱) یہاں ہر نیکی ایک کی پچاس ہزار لکھی جاتی ہے لہذا عبادت میں زیادہ کوشش کرو ۔کھانے پینے کی کمی ضروری کرو اور جہاں تک ہو سکے تصدق کرو خصوصاً یہاں والوں پر خصوصاً اس زمانہ میں اکثر ضرورت مند ہیں

(۳۲) قرآن مجید کا کم سے کم ایک ختم یہاں اور حطیم کعبہ میں کرلو۔

(۳۳) روضہ انور پر نظر عبادت ہے جیسے کعبہ معظمہ یا قرآن مجید کا دیکھنا تو ادب کے ساتھ اسکی کثرت کرو اور درود و سلام عرض کرو

(۳۴) پنجگانہ یا کم از کم صبح و شام مواجہہ شریف میں عرض سلام کے لئے حاضر ہو

(۳۵) شہر میں خواہ شہر سے باہر جہاں کہیں سے گنبد مبارک پر نظر پڑے فوراً دست بسۃ ادھر منہ کرکے صلاۃو سلام عرض کرو‘ بے اس کے ہر گز نہ گزرو کہ خلاف ادب ہے

(۳۶)ترک جماعت بلا عذر ہر جگہ گناہ ہے اور کئی بار تو سخت حرام و گناہ کبیرہ اور یہاں تو گناہ کے علاوہ کیسی سخت محرومی ہے والعیاذ باللہ تعالی ۔ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جس کی میری مسجد میں چالیس نمازیں فوت نہ ہوں اس کے لئے دوزخ و نفاق سے آزادیاں لکھی جائیں (۳۷)حتی الوسع کوشش کرو کہ مسجد اول یعنی حضور اقدس ﷺ کے زمانہ میں جتنی تھی اس میں نماز پڑھو اور اس کی مقدار سو( ۱۰۰) ہاتھ

طول و سو( ۱۰۰) ہاتھ عرض ہے اگر چہ بعد میں کچھ اضافہ ہو ا ہے ‘ اس میں نماز پڑھنا بھی مسجد نبوی شریف ہی میں پڑھنا ہے

(۳۸)قبر کریم کو ہر گز پیٹھ نہ کرو او رحتی الامکان نماز میں بھی ایسی جگہ نہ کھڑے ہو کہ پیٹھ کرنی پڑے (۳۹)روضہ انور کا طواف کرو نہ سجدہ ‘ نہ اتنا جھکنا کہ رکوع کے برابر ہو ۔ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے۔

اہل بقیع کی زیارت

(۴۰) بقیع کی زیارت سنت ہے روضۂ اقدس کی زیارت کرکے وہاں جائے خصوصاً جمعہ کے دن ۔ اس قبرستان میں دس ہزار صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم مدفون ہیں اور تابعیں و تبع تا بعین و اولیاء و علما ء و صلحأو غیرہم بیشمار ہیں ۔ یہاں جب حاضر ہو پہلے تما م مدفونین مسلمین کی زیارت کا قصد کرے اور یہ پڑھے:۔

السلام علیکم دار قومٍ موئ منین انتم لنا سلفٌ و انا انشآ ئ اللہ تعالی بکم لاحقون اللھم اغفرلاھل البقیع بقیع الغر قد اللھم اغفر لنا ولھم ۔

(تم پر سلام اے قوم مومنین کے گھر و الوں تم ہمارے پیشوا ہو اور ہم انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں اے اللہ بقیع والوں کی مغفرت فرما اے اللہ ہم کواور انہیں بخش دے )

اور اگر کچھ اور پڑھنا چاہے تو یہ پڑھے :۔

ربنا اغفر لنا ولوالدینا ولا ستاذینا ولا خواننا واخوتنا ولا ولا دنا ولا حفادنا ولاصحا بنا ولا حبابنا ولمن لہٗ حقٌ علینا ولمن او صانا وللمو منین و الموئمنات والمسلمین والمسلمات۔

(اے اللہ ہم کو اور ہمارے والدین کو اور استادوں اور بھائیوں او ر بہنوں اور ہماری اولاد اور پوتوں اور ساتھیوں اور دوستوں کو اور اس کو جس کا ہم پر حق ہے اور جس نے ہمیں وصیت کی اور تمام مومنین اور مومنات و مسلمین ومسلمات کو بخش دے )

اور درود شریف و سورئہ فاتحہ و آیۃ الکرسی و قل ھواللہ وغیرہ جو کچھ ہوسکے پڑھ کر ثواب اس کا نذر کرے اس کے بعد بقیع شریف میں جو مزارات معروف و مشہور ہیں ان کی زیارت کرے ۔ تمام اہل بقیع میں اس میں افضل امیر المومین سید نا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ان کے مزار پر حاضر ہوکر سلام کرے :۔

السلام علیک یا امیرالمومنین السلام علیک یا ثالث الخلفآئ الراشدین السلام علیک یا صاحب الھجرتین السلا م علیک یا مجھز جیش العسرۃ بالنقدو والعین جزاک اللہ عن رسولہٖ وعن سائرالمسلمین ورضی اللہ عنک وعن الصحابۃ اجمعین۔

(اے امیر المومنین آپ پر سلام اور اے خلفائے راشدین میں تیسرے خلیفہ آپ پر سلام اے دوہجرت کرنے والے آپ پر سلام اے غزوئہ تبوک کی نقد جنس سے تیاری کرنے والے آپ پر سلام اللہ آپ کو اپنے

رسول اورتمام مسلمانوں کی طرف سے بدلہ دے آپ سے اور تما م صحابہ سے اللہ راضی ہو)

قبہ حضرت سیدنا ابراہیم ابن سرور عالم رسول اللہ ﷺ اور اسی قبہ میں ان حضرات کرام کے بھی مزارات طیبہ ہیں حضرت رقیہ ( حضور اکرم ﷺ کی صاحبزادی ) حضرت عثمان بن مظعون ( یہ حضور اقدس ﷺ کے رضائی بھائی ہیں ) عبدالرحمن بن عوف و سعد ابی وقاص ( یہ دونوں حضرات عشرہ مبشرہ سے ہیں ) عبداللہ بن مسعود ( نہایت جلیل قدر صحابی خلفائے اربعہ کے بعد سب سے ا فقہ ) خنیس بن حذافہ سہمی واسد بن زرارہ رضی اللہ تعالے عنہم اجمعین ۔ ان حضرات کی خدمت میں سلام عرض کرے ۔ قبہ حضرت سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ ‘ اسی قبہ میں حضرت سیدنا امام حسن مجتبی و سرمبارک امام حسین رضی اللہ تعالی عنہم ۔ امام زین العابدین و اما محمد باقر و اما م جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہم کے مزارات طیبہ ہیں ان پر سلام عرض کرے ۔ قبہ ازواج مطہرات حضرت ام المومنین خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالی عنہما کا مزار مکہ معظمہ میں اور میمونہ رضی اللہ تعالی عنہما کا سرف میں ہے ۔ بقیہ تمام ازواج مکرمات اسی قبہ میں ہیں ۔ قبہ حضرت عقیل بن ابی طالب اس میں سفیان بن حارث بن عبدالمطلب و عبداللہ بن جعفر طیار بھی ہیں اور اس کے قریب ایک قبہ ہے جس میں حضور اقدس ﷺ کے تین اولادیں ہیں ۔ قبہ صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا حضور ﷺ کی پھوپھی ‘قبہ امام مالک رضی اللہ تعالی عنہ ۔ قبہ نافع مولی ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما ، ان حضرات کی زیارت سے فارغ ہو کر مالک بن سنان و ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہما و اسماعیل بن جعفر صادق و محمد بن عبداللہ بن حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہم و سید الشہدا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی زیارت سے مشرف ہو ۔ بقیع کی زیارت کس سے شروع ہو اس میں اختلاف ہے بعض علماء فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے ابتدا کرے یہ سب میں افضل ہے اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم بن رسول اللہ ﷺ سے شروع کرے اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ قبہ میں سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے ابتدا ء ہو اور قبہ صفیہ رضی اللہ تعالی عنہاپر ختم کہ سب سے پہلے وہی ملتا ہے تو بغیر سلام عرض کئے وہاں سے آگے نہ بڑھے اور یہی آسان بھی ہے ۔

قباء شریف کی زیارت

(۴۱) قباء شریف کی زیارت کرے اور مسجد شریف میں دو رکعت نماز پڑھے ۔ تر مذی میں مروی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسجد قباء میں نماز عمرہ کی مانند ہے اور احادیث صحیح سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ ہر ہفۃ کو قباء تشریف لے جاتے کبھی سوار کبھی پیدل اس مقام کی بزرگی میں او ربھی احادیث ہیں ۔

احد اور شہدائے احد کی زیارت

(۴۲) شہدائے احد شریف کی زیارت کرے ‘ حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ ہر سال کے شروع میں قبور شہدائے احد پر آتے اور یہ فرماتے السلام علیکم بما صبر تم فنعم عقبی الدار ۔اور کوہ احد کی بھی

زیارت کرے کہ صحیح حدیث میں فرمایا کوہ احد ہمیں محبوب رکھتا ہے اور ہم اسے محبوب رکھتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ جب تم حاضر ہو تو اس کے درخت سے کچھ کھائو اگرچہ ببول ہو۔ بہتر یہ کہ پنجشنبہ کے دن صبح کے وقت جائے اور سب سے پہلے حضرت سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مزار پر حاضر ہو کر سلام عرض کرے اور عبداللہ بن حجش و مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہما پر سلام عرض کرے کہ روایت میں ہے یہ دونوں حضرات یہیں مدفون ہیں ۔ سید الشہداء کی پائیں جانب اور صحن مسجد جو قبر ہے یہ دونوں شہدائے احد میں نہیں ہیں ۔

(۴۳) مدینہ طیبہ کے کنوئیں جو حضور کی طرف منسوب ہیں یعنی کسی سے وضو فرمایا اور کسی کا پانی پیا اور کسی میں لعاب دہن ڈالا ۔ اگر کوئی جاننے بتانے والے ملے تو ان کی بھی زیارت کرے اور ان سے وضو کرے اور پانی پئے۔

(۴۴)اگر چاہو تومسجد نبوی میں حاضر رہو۔ سیدی ابن ابی جمرہ قدس سرہ جب حاضر ہوئے آٹھوں پہر برابر حضوری میں کھڑے رہتے ۔ ایک دن بقیع وغیرہ کی زیارات کا خیال آیا پھر فرمایا یہ ہے اللہ کا دروازہ بھیک مانگنے والوں کے لئے کھلا ہوااسے چھوڑ کر کہاں جائو ں ؎

سر ایں جا ‘ سجدہ ایں جا‘ بندگی ایں جا‘ قرار ایں جا

(۴۵) وقت رخصت مواجہہ انور میں حاضر ہو اور حضور ﷺ سے بار بار اس نعمت کی عطاکا سوال کرو اور تمام آداب کہ کعبہ معظمہ سے رخصت میں گزریں ملحوظ رکھواور سچے دل سے دعا کرو کہ الہی ایمان وسنت پر مدینہ طیبہ میں مرنا اور بقیع پاک میں دفن ہونا نصیب کر ۔ آمین

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button