سوال:
ایک صاحب قرض دیتے ہیں اور لینے والے سے کہتے ہیں کہ ہمارا کچھ کام کراجا یا کرو اور اس کے بدلے میں ہم کچھ نہ دیں گے دیا ہوا قرض پورا پورا لیں گے۔
جواب:
قرض دینے کے سبب قرض لینے والے سے مفت کام لینا جائز نہیں۔ ہاں شخص مذکور اگر بغیر نفع کے قرض نہیں دیتا یا کسی شخص کو بغیر سود کے قرض نہیں ملتا تو سود کے گناہ اور حرام سے بچنے کے لیے علمائے کرام نے چند صورتیں تحریر فرمائیں ہیں ان میں سے ایک بیع عینہ ہے جس کے ذریعہ قرض دینے والا گناہ سے بچتے ہوئے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور قرض چاہنے والا بغیر کسی شرعی گرفت کے قرض لے کر اپنی غرض پوری کر سکتا ہے۔ بیع عینہ کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص نے دوسرے سے مثلا دس روپئے قرض مانگے اس نے کہا میں قرض نہیں دوں گا یہ البتہ کر سکتا ہوں کہ چیز تمھارے ہاتھ بارہ روپیہ میں بیچتا ہوں اگر تم چاہو خرید لو اسے بازار میں دس روپیہ پر بیع کر دینا تمھیں دس روپے مل جائیں گے اور کام چل جائے گا اور اسی صورت سے بیع ہوئی بائع نے زیادہ نفع حاصل کرنے اور سود سے بچنے کا یہ حیلہ نکالا کہ دس کی چیز بارہ میں بیع کر دی اس کا کام چل گیا اور خاطر خواہ اس کو نفع مل گیا۔ اسی طرح ایک شخص نے دوسرے سے سو روپیہ قرض مانگا تو اس نے قرض دینے سے انکار کیا اور کہا کہ گیہوں ایک سو پچیس روپئے کا تمھارے ہاتھ بیچتا ہوں اگر چاہو تو اسے لے کر بازار میں سو روپیہ پر بیچ ڈالنا تمھیں سو روپئے مل جائیں گے تو یہ بھی جائز ہے غرضیکہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ سود جو حرام قطعی ہے اس کی لعنت سے بچیں اور بہتر یہ ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو قرض حسن دیں اور اگر یہ نہ ہو سکے تو بیع عینہ کریں۔
(فتاوی فیض الرسول،کتاب الربا،جلد2،صفحہ394، 398،شبیر برادرز لاہور)