سوال:
کوئی شخص کسی کو ایک من جو اس شرط پر فروخت کرے کہ جو کے عوض میں ایک من گندم فصل پر مجھ کو دینا۔ اس کا کیا حکم ہے؟باقی غلوں کا بھی یہی حکم ہے یا کچھ فرق ہے مثلا باجرہ دے کر گندم لینا یا مکئی دے کر باجرہ یا گندم لینا، سب کے لیے ایک حکم ہے؟اور یہ تجارت کے لیے جائز ہے یا نہیں؟
جواب:اختلاف جنس کی صورت میں کمی بیشی جائز ہے مگر باوجود اختلاف جنس اگر قدر یعنی ناپ یاوزن میں اتحاد ہو یعنی دونوں ناپ سے بکتی ہوں یا دونوں وزن سے تو ایسی صورت میں اگرچہ تفاضل جائز ہے کہ گیہوں دیکر اس سے دوچند جو لے سے ہیں مگر نسیہ کہ ایک اب دیا جائےاور اس کے بدلے کا دوسرا آئندہ لیا جائے یہ ناجائز وحرام ہے ۔جنس مختلف ہونے کی صورت میں اگر دست بدست نہ ہوتو ربا ہے کہ گیہوں ،جَو دونوں کیلی ہیں اور اگر امام ابو یوسف رحمۃاللہ علیہ کے قول کو لیا جائے تو دونوں آجکل کے عرف کے لحاظ سے وزنی ہیں ۔بہرحال قدر میں اتفاق ہے اور نسیہ جائز نہیں۔یونہی باقی غلوں کا یہی حکم ہے کہ وہ سب وزنی ہیں کیونکہ شرع سے اس میں کوئی نص وارد نہیں اورجس میں کیل یا وزن کے تنصیص نہ وہ عرف وعادت پر محمول ہے ۔یہ تمام کلام اس تقدیر پر ہے کہ جو کو گیہوں کے بدلے بیع کیا ہوا ور اگر الفاظ سوال کی طرف نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گیہوں کے بدلے میں نہیں ہوئی بلکہ فصل میں گیہوں دینے کی شرط ہے اور ثمن کچھ اور ہے اگر یوں بھی ہوجب بھی چونکہ یہ شرط مقتضائے عقد نہیں اور اس میں بائع یعنی جو دینے والے کا فائدہ ہے لہذا یہ شرط فاسد بیع کو فاسد کردیگی کما فی الہدایہ وغیرھا۔بہرحال یہ بیع صحیح نہیں اور بلاضرورت سود کا گناہ لیتا ہے ۔اگر اس کو جو بیچنا ہے توروپیہ کے عوض بیچے جو نرخ چاہے مقرر کر دے اور خریدار اس وقت نہیں دے سکتا ہے تو فصل پر روپیہ ادا کرنے کی میعاد مقرر کردے اور اس روپیہ کے گیہوں خریدے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خریدار روپیہ کی جگہ گیہوں دے دے مگر اس میں یہ ضرور ہوگا کہ اس روپیہ کے جتنے گیہوں ملتے ہوں اتنے ہی لے سکتا ہے زیادہ نہیں یہ شرعا جائز بھی ہے اور نفع بھی غالباً ہوگا یا بیع سلم کرے کہ اس میں بھی غالبا نفع ہی ہوتا ہے اور اس کو شرع نے جائز بتایا ہے ۔بیوپار کے لیے خریدنا ،بیچنا ہو یا کھانے کے لیے سب کاایک حکم ہے جائز ہے تو جائز ہے ،ناجائز ہے تو ناجائز۔
(فتاوی امجدیہ،کتاب البیوع،جلد3،صفحہ185تا186،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)