Roman Urdu Articles

Kya door zadeek se Nida karna or "Ya Rasool Allah” kehna jaiz hai?

Islamic Media Visit krne ka Shakira! Aj kal ye Question bht zyada pocha ja rha he k "Kya door zadeek se Nida karna or "Ya Rasool Allah” kehna jaiz hai?” Is Question ki ahmiyat ko dekhte hoe is ka Short Answer Urdu zuban me bayan kr dia he tak parhne me Aasani ho. Is Question Kya door zadeek se Nida karna or "Ya Rasool Allah” kehna jaiz hai? ya Answer ki bahtari ke mutaliq ksi bhi mashyare ke lie ap neche apna tabsra kr sakte han. 

Sawal: Kya door zadeek se Nida karna or "Ya Rasool Allah” kehna jaiz hai?

سوال:کیادورونزدیک سے محبوبانِ خدا کو ندا کرنا بالخصوص”یا رسول اللہ "کہنا جائز ہے؟

جواب:جی ہاں ،محبوبان خدا کو دورونزدیک سے ندا کرنا،”یارسول اللہ”کہنا بالکل جائز ودرست اور حصول ِبرکات کا ذریعہ ہے ،اس پر کچھ دلائل درج ذیل ہیں:حیات ظاہری میں یاکے ساتھ ندا:

صحیح مسلم میں حضرت براء رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب حضورصَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہجر ت فرما کر مدینہ پاک میں داخل ہوئے تو:((فَصَعِدَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاء ُ فَوْقَ الْبُیُوتِ، وَتَفَرَّقَ الْغِلْمَانُ وَالْخَدَمُ فِی الطُّرُقِ، یُنَادُونَ:یَا مُحَمَّدُ یَا رَسُولَ اللہِ یَا مُحَمَّدُ یَا رَسُولَ اللہِ))ترجمہ:عورتیں اور مرد چھتوں پر چڑ ھ گئے ،بچے اور غلام گلی کوچوں میں متفرق ہو گئے نعرے لگاتے پھرتے تھے یا محمد یارسول اللہ یا محمد یا رسول اللہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)۔(صحیح مسلم، ج2، ص419، قدیمی کتب خانہ،کراچی )اے نبی آپ پر سلام ہو:

صحیح بخاری میں ہے:((قَالَ عَبْدُ اللَّہِ:کُنَّا إِذَا صَلَّیْنَا خَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ،قُلْنَا:السَّلاَمُ عَلَی جِبْرِیلَ وَمِیکَائِیلَ السَّلاَمُ عَلَی فُلاَنٍ وَفُلاَنٍ، فَالْتَفَتَ إِلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:إِنَّ اللَّہَ ہُوَ السَّلاَمُ، فَإِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ، فَلْیَقُلْ:التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ، السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ، فَإِنَّکُمْ إِذَا قُلْتُمُوہَا أَصَابَتْ کُلَّ عَبْدٍ لِلَّہِ صَالِحٍ فِی السَّمَاء ِ وَالأَرْضِ، أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ))ترجمہ:حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:جب ہم نبی کریمصَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پیچھے نماز اداکرتے تھے تو(قعدہ میں)کہتے کہ حضرت جبریل ومیکائیل پر سلام ہو،فلاں اورفلاںپر سلام ہو۔نماز کے بعد رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ارشادفرمایا:بے شک اللہ ہی سلام ہے،جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اس طرح کہے:التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ، السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ،جب تم اس طرح کہو گے تو تمہارا سلام زمین وآسمان میں موجود اللہ کے ہرنیک بندے کو پہنچ جائے گا (پھر کہو) أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہ۔(صحیح بخاری،باب التشہد فی الآخیرہ،ج1،ص166،مطبوعہ دارطوق النجاۃ)

اس حدیث پاک سے چند فائدے حاصل ہوئے:

(1)نبی کریم صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے خود اپنی بارگاہ میں نداکرکے سلام کرنے کی تعلیم ارشادفرمائی ہے۔

(2)اس حدیث پاک کی رو سے نبی کریم صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو حیات ظاہری میں،وصال ظاہر ی کے بعد،قریب سے ،دور سے ،ہر طرح ندا کی جاسکتی ہے۔

(3)’’السلام علیک ایھا النبی‘‘اور’’ الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ ‘‘خطاب کرکے حرفِ ندا کے ساتھ حضور کی بارگاہ میں سلام بھیجنے میں یکساں ہیں،جب پہلا درست ہے تو دوسرا بھی صحیح ہے۔

(4)امام اہلسنت امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں’’حضور سید عالم صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو نداء کرنے کے عمدہ دلائل سے ’’ التحیات‘‘ہے جسے ہر نمازی ہر نماز کی دو رکعت پر پڑھتا ہے اوراپنے نبی کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم سے عرض کرتا ہے : السلام علیک ایہاالنبی و رحمۃ اﷲوبرکاتہ ۔سلام آپ پر اے نبی اور اﷲکی رحمت اور اس کی برکتیں۔

اگر ندا معاذ اﷲشرک ہے، تو یہ عجب شرک ہے کہ عین نماز میں شریک و داخل ہے۔ولاحول ولاقوۃ الا باﷲالعلی العظیم۔ (فتاوی رضویہ،ج29،ص566،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)روضہ اقدس پر یارسول اللہ کہہ کرپکارنا :

حضرت مالک الدار سے روایت ہے ،فرماتے ہیں:((اَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِی زَمَنِ عُمَرَ، فَجَاء َ رَجُلٌ إِلَی قَبْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللَّہِ! اسْتَسْقِ لِأُمَّتِکَ فَإِنَّہُمْ قَدْ ہَلَکُوا، فَأَتَی الرَّجُلَ فِی الْمَنَامِ فَقِیلَ لَہُ:ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْہُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْہُ أَنَّکُمْ مُسْتَقِیمُونَ وَقُلْ لَہُ:عَلَیْکَ الْکَیْسُ، عَلَیْکَ الْکَیْسُ "، فَأَتَی عُمَرَ فَأَخْبَرَہُ فَبَکَی عُمَرُ ثُمَّ قَالَ:یَا رَبِّ لَا آلُو إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْہُ))ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میںلوگوں پر قحط پڑھ گیا۔ ایک آدمی نبی کریمصَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی قبر مبارک پر آیا اور کہا یارسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ! اللہ عزوجل سے اپنی امت کے لئے بارش طلب کریں کہ یہ ہلاک ہورہے ہیں۔ رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اس آدمی کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایاعمرکو میرا سلام کہنا اور اسے خبر دینا کہ بارش ہوگی،اور یہ بھی کہنا کہ نرمی اختیار کرے،اس شخص نے حاضر ہوکر خبر دی تو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر روئے،پھر کہا :اے میرے رب!میں کوتاہی نہیں کرتا مگر اس چیز میں جس سے میں عاجز ہوں۔

(مصنف ابن شیبہ،کتاب الفضائل ،ماذکر فی فضل عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جلد12،صفحہ32،الدار السلفیۃ، الہندیۃ)بیابان جنگل میں اکیلے مدد کے لئے پکارنا:

حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرمصَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:((إِذَا أَضَلَّ أَحَدُکُمْ شَیْئًا أَوْ أَرَادَ أَحَدُکُمْ عَوْنًا وَہُوَ بِأَرْضٍ لَیْسَ بِہَا أَنِیسٌ، فَلْیَقُلْ:یَا عِبَادَ اللہِ أَغِیثُونِی، یَا عِبَادَ اللہِ أَغِیثُونِی، فَإِنَّ لِلَّہِ عِبَادًا لَا نَرَاہُمْ ))وَقَدْ جُرِّبَ ذَلِک ۔ ترجمہ:جب تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کو گم کردے یا اسے مدد کی حاجت ہواوروہ ایسی جگہ ہو جہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے یوں پکارے: اے اللہ کے بندو میری مدد کرو، اے اللہ کے بندومیر ی مدد کرو۔ کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں جنھیں یہ نہیں دیکھتا وہ اس کی مدد کرینگے ۔یہ پکار مجرب (تجربہ شدہ)ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی،مااسند عتبہ بن غزوان،ج17،ص117،مکتبہ ابن تیمیہ،القاہرہ)حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور نداء:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ(متوفی256ھ) نے’’ الادب المفرد‘‘میں روایت نقل کی ہے:((خَدِرَتْ رِجْلُ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ:اذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَیْکَ، فَقَالَ:یَا مُحَمَّد))ترجمہ: حضرت عبداﷲبن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہماکا پاؤں سوگیا ، ایک آدمی نے ان سے کہا: انہیں یاد کیجئے جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ حضرت نے کہا:یا محمد(صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) !۔ (الادب المفرد،باب مایقول الرجل اذا خدرت رجلہ،ج1،ص335،دار البشائر الاسلامیہ،بیروت)

غلطی کی اصلاح:

اوپر موجود مسئلہ کی ہیڈنگ یا حوالہ میں کسی قسم کی کوئی غلطی نظر آئے تو کمینٹ سیکشن  (تبصرہ)میں ضرور بتائیں۔ ان شاء اللہ اسے جلد از جلد ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

مزید مسائل کی تلاش:

اگر آپ اس کے علاوہ کسی اور مسئلے کی تلاش میں ہیں تو بھی پریشان نہ ہوں الحمد للہ ہماری ویب سائٹ میں اس کے علاوہ بھی سینکڑوں شرعی مسائل اور اسلامک آرٹیکلزموجود ہیں۔ اوپر دئیے گئے  سرچ بٹن پر کلک کریں اور اپنا مطلوبہ مسئلہ لکھ کر تلاش کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button