Islamic Media Visit krne ka Shakira! Aj kal ye Question bht zyada pocha ja rha he k "Kya Allah Ta’ala ki bargah mein Ambiya alaihimussalam aur auliya karam alaihimur rahmah ka waseela pesh karna Quran aur Hadees se sabit hai?” Is Question ki ahmiyat ko dekhte hoe is ka Short Answer Urdu zuban me bayan kr dia he tak parhne me Aasani ho. Is Question Kya Allah Ta’ala ki bargah mein Ambiya alaihimussalam aur auliya karam alaihimur rahmah ka waseela pesh karna Quran aur Hadees se sabit hai? ya Answer ki bahtari ke mutaliq ksi bhi mashyare ke lie ap neche apna tabsra kr sakte han.
Sawal: Kya Allah Ta’ala ki bargah mein Ambiya alaihimussalam aur auliya karam alaihimur rahmah ka waseela pesh karna Quran aur Hadees se sabit hai?
سوال: کیااللہ تعالی کی بارگاہ میں انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام علیہم الرحمۃ کاوسیلہ پیش کرنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے ؟
جواب:جی ہاں ! وسیلہ کا ثبوت قرآن وحدیث میں موجود ہے۔اس پر کچھ دلائل درج ذیل ہیں: وسیلہ تلاش کرو:
قرآن پاک میں ہے{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوا إِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ }ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔
(سورۃ المائدہ،سورت5،آیت35)
اعمال کا مقبول ہونا یقینی نہیں،جب ان کو وسیلہ بناسکتے ہیں تووہ ہستیاں جو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں یقینا مقبول ہیں ان کا وسیلہ بدرجۂ اولیٰ جائز ہے۔تفسیر روح البیان میں اس آیت کی تفسیر میں ہے’’واعلم ان الآیۃ الکریمۃ صرحت بالامر بابتغاء الوسیلۃ ولا بد منہا البتۃ فان الوصول الی اللہ تعالی لا یحصل الا بالوسیلۃ وہی علماء الحقیقۃ ومشایخ الطریقۃ‘‘ترجمہ:جان لو کہ اس آیت میں وسیلہ ڈھونڈنے کی صراحت ہے ،بغیر اس کے چارہ نہیںاوراللہ عزوجل تک پہنچنا بغیر وسیلہ کے حاصل نہیں ہوتا اور وسیلہ علمائِ حقیقت اور مشائخ طریقت ہیں۔(روح البیان ،فی التفسیر،سورۃ المائدہ،سورت5،آیت35،ج2،ص387،دارالفکر،بیروت)بعثت سے پہلے حضور صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا وسیلہ:
حضور صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بعثت سے قبل یہودی ان کے توسل سے دعا کرتے تھے ۔قرآن پاک میں ہے{وَلَمَّا جَائَ ہُمْ کِتَابٌ مِّنْ عِنْدِ اللّہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ وَکَانُواْ مِن قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُواْ } ترجمہ کنزالایمان:اور جب ان کے پاس اللہ کی وہ کتاب (قرآن)آئی جو ان کے ساتھ والی کتاب (توریت)کی تصدیق فرماتی ہے اور اس سے پہلے وہ اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے۔(سورۃ البقرۃ،سورت2،آیت89)
امام ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی310ھ)اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے،فرماتے ہیں:یہودی رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بعثت سے پہلے آپ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے وسیلہ سے اوس اور خزرج قبیلوں پر فتح حاصل کرنے کے لیے دعائیں کرتے تھے،جب حضور صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عرب میںمبعوث ہوئے تو انہوں نے آپ کے ساتھ کفر کیا اور جو کہتے تھے اس کا انکار کردیا ۔ حضرت معاذبن جبل اوربنی سلمہ کے بھائی بشر بن براء بن معرورنے کہا:اے یہودیو! اللہ سے ڈرواور اسلام قبول کرلو،تم محمد مصطفی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے وسیلہ سے ہم پر فتح مانگتے رہے ہواور اس وقت ہم مشرک تھے اور تم ہمیں بتاتے تھے کہ وہ مبعوث ہونے والے ہیں اور ہمیں ان کی صفات بیان کرتے تھے۔ (تفسیر طبری،تحتِ آیتِ مذکورہ،ج2،ص332،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت)نبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں آجاؤ:
اللہ تعالی فرماتا ہے:{وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ جَاء ُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّہَ تَوَّابًا رَحِیمًا} ترجمہ:اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھیں تو اے محبوب آپ کی بارگاہ میں آجائیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور رسول بھی ان کے لیے استغفار کریں تو اللہ تعالیٰ کو بخشنے والا مہربان پائیں گے۔(پ5،سورۃ النساء ،آیت64)
امام قرطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(متوفی671ھ)نے اس آیت پاک کے تحت یہ روایت نقل کی ہے:
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دفن کرنے کے تین دن بعد ایک اعرابی ہمارے پاس آیا، اور روضہ شریفہ کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا :یا رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جو آپ نے فرمایا ہم نے سنا اور جو آپ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یاد کیا اور ہم نے آپ سے یاد کیا،اور جو آپ پرنازل ہوا اس میں یہ آیت بھی ہے {وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذْ ظَلَمُوا}میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور آپ کے حضور میں اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہنے حاضر ہوا تو میرے رب سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے، اس پرقبر شریف سے ندا آئی کہ تیری بخشش کی گئی۔ (الجامع لاحکام القرآن لقرطبی،تحت الآیۃ{ولو انہم اذ ظلموا انفسہم۔۔۔} ،ج5، ص265,266، دارالکتب المصریہ،القاہرہ)حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا توسل کرنا:
صحیح البخاری میں ہے:((أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ، کَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَی بِالعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ فَقَالَ: اللَّہُمَّ إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَسْقِینَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ: فَیُسْقَوْنَ))ترجمہ:بے شک حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ قحط کے زمانہ میں حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہ کے وسیلے سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا مانگتے اور عرض کرتے ہم تیری طرف اپنے نبی کریم صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو وسیلہ بناتے تھے توتو سیراب فرماتا تھا ۔اب ہم تیری بارگاہ میں نبی کریم صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے چچا (حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ )کو وسیلہ بناتے ہیں تو ہمیں سیراب فر ما دے ۔تو راوی کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں سیراب (بارش نازل)فرما دیتا تھا۔(صحیح البخاری، ج1،ص137،قدیمی کتب خانہ،کراچی)حضور صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا خود وسیلہ سکھانا:
حدیث پاک میں ہے:((عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَیْفٍ، أَنَّ رَجُلًا ضَرِیرَ الْبَصَرِ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:ادْعُ اللَّہَ لِی أَنْ یُعَافِیَنِی فَقَالَ:إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَکَ وَہُوَ خَیْرٌ، وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ فَقَالَ:ادْعُہْ، فَأَمَرَہُ أَنْ یَتَوَضَّأَ فَیُحْسِنَ وُضُوء َہُ، وَیُصَلِّیَ رَکْعَتَیْنِ، وَیَدْعُوَ بِہَذَا الدُّعَاء:اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ، وَأَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ، یَا مُحَمَّدُ إِنِّی قَدْ تَوَجَّہْتُ بِکَ إِلَی رَبِّی فِی حَاجَتِی ہَذِہِ لِتُقْضَی، اللَّہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیّ َ))ترجمہ:حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،ایک نابینا آدمی نبی کریم صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی باگارہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعاکریں کہ وہ مجھے عافیت دے۔فرمایا: اگر تو چاہے تو میں تمہارے لیے دعاکو مؤخر کردوں اور یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر چاہے تو دعاکروں۔اس نے عرض کیا:دعافردیں۔تو نبی کریم صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اسے حکم دیا کہ اچھی طرح وضو کرکے دورکعت نماز پڑھو اور اس طرح دعاکرو: اے اﷲ!میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں بوسیلہ تیرے نبی محمد صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے کہ مہربانی کے نبی ہیں، یارسول اﷲصَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ !میں حضور کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف اس حاجت میں توجہ کرتا ہو کہ میری حاجت روا ہو۔ الہٰی ان کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما۔(سنن ابن ماجہ،باب ماجاء فی صلوۃ الحاجۃ،ج1،ص441،داراحیاء الکتب العربیہ،بیروت٭ جامع ترمذی،کتاب الدعوات،باب فی دعاء الضیف،ج5،ص461،دارالغرب الاسلامی، بیروت٭ مسند احمدبن حنبل،حدیث عثمان بن حنیف ،ج 28،ص478،مؤسسۃ الرسالہ،بیروت٭ صحیح ابن خزیمہ،باب صلوۃ الترغیب والترہیب ،ج2،ص225،المکتب الاسلامی ، بیروت٭ المستدرک ،کتاب صلوۃ التطوع،باب دعاء ردالبصر،ج1،ص458،دارالکتب العلمیہ،بیروت٭ دلائل النبوۃ،باب مافی تعلیمہ الضریرماکان فیہ،ج6،ص166،دارالکتب العلمیہ،بیروت)
سنن ابن ماجہ میں اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے’’قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ:ہَذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ‘‘ترجمہ:امام ابواسحق نے کہا:یہ صحیح حدیث ہے۔(سنن ابن ماجہ،باب ماجاء فی صلوۃ الحاجۃ،ج1،ص441،داراحیاء الکتب العربیہ،بیروت)
امام حاکم نے اس حدیث کے بارے میں لکھا’’ہَذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّیْخَیْن‘‘ترجمہ:یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔(المستدرک ،کتاب صلوۃ التطوع،باب دعاء ردالبصر،ج1،ص458،دارالکتب العلمیہ،بیروت)
امام ترمذی نے اس کے بارے میں کہا’’ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ غَرِیب ‘‘ ترجمہ:یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔(جامع ترمذی،کتاب الدعوات،باب فی دعاء الضیف،ج5،ص461،دارالغرب الاسلامی،بیروت)وصال ظاہری کے بعدوسیلہ:
حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں:((أَنَّ رَجُلًا، کَانَ یَخْتَلِفُ إِلَی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِی اللہُ عَنْہُ فِی حَاجَۃٍ لَہُ، فَکَانَ عُثْمَانُ لَا یَلْتَفِتُ إِلَیْہِ وَلَا یَنْظُرُ فِی حَاجَتِہِ، فَلَقِیَ ابْنَ حُنَیْفٍ فَشَکَی ذَلِکَ إِلَیْہِ، فَقَالَ لَہُ عُثْمَانُ بْنُ حُنَیْفٍ:ائْتِ الْمِیضَأَۃَ فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ قُلْ: اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ، یَا مُحَمَّدُ إِنِّی أَتَوَجَّہُ بِکَ إِلَی رَبِّی فَتَقْضِی لِی حَاجَتِی وَتُذَکُرُ حَاجَتَکَ وَرُحْ حَتَّی أَرْوَحَ مَعَکَ، فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ فَصَنَعَ مَا قَالَ لَہُ، ثُمَّ أَتَی بَابَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِی اللہُ عَنْہُ، فَجَاء َ الْبَوَّابُ حَتَّی أَخَذَ بِیَدِہِ فَأَدْخَلَہُ عَلَی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِی اللہُ عَنْہُ، فَأَجْلَسَہُ مَعَہُ عَلَی الطِّنْفِسَۃِ، فَقَالَ:حَاجَتُکَ؟ فَذَکَرَ حَاجَتَہُ وَقَضَاہَا لَہُ، ثُمَّ قَالَ لَہُ:مَا ذَکَرْتُ حَاجَتَکَ حَتَّی کَانَ السَّاعَۃُ، وَقَالَ: مَا کَانَتْ لَکَ مِنْ حَاجَۃٍ فَأَذْکُرُہَا، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِہِ فَلَقِیَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَیْفٍ، فَقَالَ لَہُ: جَزَاکَ اللہُ خَیْرًا مَا کَانَ یَنْظُرُ فِی حَاجَتِی وَلَا یَلْتَفِتُ إِلَیَّ حَتَّی کَلَّمْتَہُ فِیَّ، فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَیْفٍ: وَاللہِ مَا کَلَّمْتُہُ، وَلَکِنِّی شَہِدْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَتَاہُ ضَرِیرٌ فَشَکَی إِلَیْہِ ذَہَابَ بَصَرِہِ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :فَتَصَبَّرْ فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللہِ، لَیْسَ لِی قَائِدٌ وَقَدْ شَقَّ عَلَیَّ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :ائْتِ الْمِیضَأَۃَ فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ صَلِّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ ادْعُ بِہَذِہِ الدَّعَوَاتِ قَالَ ابْنُ حُنَیْفٍ: فَوَاللہِ مَا تَفَرَّقْنَا وَطَالَ بِنَا الْحَدِیثُ حَتَّی دَخَلَ عَلَیْنَا الرَّجُلُ کَأَنَّہُ لَمْ یَکُنْ بِہِ ضُرٌّ قَطّ))ترجمہ: ایک حاجتمند اپنی حاجت کے لیے امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں آتا جاتا، امیر المومنین نہ اس کی طرف التفات فرماتے نہ اس کی حاجت پر نظر فرماتے، اس نے عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس امر کی شکایت کی، انہوں نے فرمایا وضو کرکے مسجد میں دو رکعت نماز پڑھ پھر دعا مانگ :الہٰی میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف اپنے نبی محمدصَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے توجہ کرتا ہوں، یارسول اﷲ!میں حضور کے توسل سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ میری حاجت روا فرمائیے۔اور اپنی حاجت ذکر کر، پھر شام کو میرے پاس آنا کہ میں بھی تیرے ساتھ چلوں۔ حاجتمند نے (کہ وہ بھی صحابی یا کبار تابعین میں سے تھے۔) یوں ہی کیا، پھر آستانِ خلافت پر حاضر ہوئے، دربان آیا اور ہاتھ پکڑ کر امیر المومنین کے حضور لے گیا، امیر المومنین نے اپنے ساتھ مسند پر بٹھالیا، مطلب پوچھا ، عرض کیا، فوراً روا فرمایا، اور ارشاد کیا اتنے دنوں میں اس وقت اپنا مطلب بیان کیا، پھر فرمایا:جو حاجت تمہیں پیش آیا کرے ہمارے پاس چلے آیا کرو۔ یہ صاحب وہاں سے نکل کر عثمان بن حنیف سے ملے اور کہا اﷲتعالیٰ تمہیں جزائے خیر دے امیر المومنین میری حاجت پر نظر اور میری طرف توجہ نہ فرماتے تھے یہاں تک کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی، عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :خدا کی قسم !میں نے تو تمہارے معاملے میں امیر المومنین سے کچھ بھی نہ کہا مگر ہوا یہ کہ میں نے سید عالم صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو دیکھا حضور کی خدمتِ اقدس میں ایک نابینا حاضر ہوا اور نابینائی کی شکایت کی حضور نے یونہی اس سے ارشاد فرمایا کہ وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھے پھر یہ دعا کرے۔ خدا کی قسم ہم اُٹھنے بھی نہ پائے تھے باتیں ہی کررہے تھے کہ وہ ہمارے پاس آیا گویا کبھی وہ اندھا نہ تھا۔ (المعجم الکبیرللطبرانی،مااسند عثمان بن حنیف،ج9،ص30،مکتبہ ابن تیمیہ،القاہرہ)
امام منذری اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں’’قَالَ الطَّبَرَانِیّ بعد ذکر طرقہ والْحَدِیث صَحِیح‘‘ترجمہ:امام طبرانی نے اس کے طرق ذکر کرنے کے بعد کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ (الترغیب والترہیب،کتاب النوافل الترغیب فی المحافظۃ،ج1،ص273،دارالکتب العلمیہ، بیروت)
غلطی کی اصلاح:
اوپر موجود مسئلہ کی ہیڈنگ یا حوالہ میں کسی قسم کی کوئی غلطی نظر آئے تو کمینٹ سیکشن (تبصرہ)میں ضرور بتائیں۔ ان شاء اللہ اسے جلد از جلد ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
مزید مسائل کی تلاش:
اگر آپ اس کے علاوہ کسی اور مسئلے کی تلاش میں ہیں تو بھی پریشان نہ ہوں الحمد للہ ہماری ویب سائٹ میں اس کے علاوہ بھی سینکڑوں شرعی مسائل اور اسلامک آرٹیکلزموجود ہیں۔ اوپر دئیے گئے سرچ بٹن پر کلک کریں اور اپنا مطلوبہ مسئلہ لکھ کر تلاش کریں۔