Roman Urdu Articles

kia yazeed jannti he?

Islamic Media Visit krne ka Shakira! Aj kal ye Question bht zyada pocha ja rha he k "kia yazeed jannti he?” Is Question ki ahmiyat ko dekhte hoe is ka Short Answer Urdu zuban me bayan kr dia he tak parhne me Aasani ho. Is Question kia yazeed jannti he? ya Answer ki bahtari ke mutaliq ksi bhi mashyare ke lie ap neche apna tabsra kr sakte han. 

Sawal: kia yazeed jannti he?

سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ یزید جنتی ہے کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ سب سے پہلے جوقسطنطنیہ پر حملہ کرے گا وہ بخشاہوا ہے اور سب سے پہلے حملہ کرنے والایزیدہے،اس کی کیا حقیقت ہے؟

جواب:یزید پلید جس نے مسجد نبوی اور بیت اللہ شریف کی سخت بے حرمتی کی جس نے ہزاروں صحابہ کرام وتابعین عظام رضی اللہ عنہم کا بے گناہ قتل عام کیا،مدینہ طیبہ کی پاک دامن عورتوں کوتین شبانہ روز اپنے لشکر پر حلال کیااور فرزند رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو تین دن بے آب ودانہ رکھ کر پیاسا ذبح کیا ایسے بد بخت مردود کو جو لوگ بخشا بخشایاہوا پیدائشی جنتی کہتے ہیں اور ثبوت میں بخاری شریف کی حدیث بیان کرتے ہیں وہ اہل بیت رسالت کے دشمن اور خارجی اور یزیدی ہیں ،ان باطل پرستوں کا مقصد یہ ہوتاہے کہ جب یزید کی بخشش اس کا جنتی ہونا ثابت ہے تو امام حسین کاایسے شخص کی بیعت نہ کرنا اور اس کے خلاف علم جنگ بلند کرنا بغاوت ہے اور اس فتنہ وفساد کی ذمہ داری انہیں پر ہے۔ نعوذباللہ من ذالک۔

یہ لوگ جس حدیث کو یزید پلید کے جنتی ہونے کے متعلق پیش کرتے ہیں اس کے اصل الفاظ یہ ہیں: ((قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اول جیش من امتی یغزون مدینۃ قیصر مغفور لھم))ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر(قسطنطنیہ) پر حملہ کرے گا وہ بخشا ہوا ہے۔

( صحیح بخاری،کتاب الجہاد،باب ما قیل فی قتال الروم، جلد4، صفحہ42 ،دار طوق النجاۃ)

اللہ کے محبوب دانائے خفاء و غیوب جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ فرمان بحق ہے لیکن قیصر کے شہر قسطنطنیہ پر پہلا حملہ کرنے والا یزید ہے ان لوگوں کا یہ دعوی غلط ہے اس لئے کہ یزید نے قسطنطنیہ پر کب حملہ کیا اس کے بارے میں4 اقوال ہیں: 49ھ؁،50ھ؁،52ھ؁،55ھ؁ جیسا کہ کامل ابن اثیر جلد سوم ص131،بدایہ والنہایہ جلد 8 ص 23،عینی شرح بخاری جلد 14اور اصابہ جلد 1ص405 میں ہے ۔

اس سے معلوم ہوا کہ یزید 49ھ؁ سے 55ھ؁ تک قسطنطنیہ کی جنگ میں شریک ہوا چاہے سپہ سالار وہ رہا ہو یا حضرت سفیان بن عوف سپہ سالارہوںاور وہ معمولی سپاہی رہا ہو۔

مگر قسطنطنیہ پراس سے پہلے حملہ ہوچکا تھا جس کے سپہ سالار حضرت عبد الرحمن بن خالد بن ولید تھے اور ان کے ساتھ حضرت ابو ایوب انصاری بھی تھے ۔رضی اللہ عنہم جیساکہ ابو دائودمیں حدیث ہے((عن اسلم بن ابی عمران قال غزونا من المدینۃ نرید القسطنطنیہ وعلی الجماعۃ عبد الرحمن بن خالد بن الولید الخ ))ترجمہ:حضرت ابوعمران اسلم کہتے ہیں کہ ہم نے مدینہ سے قسطنطنیہ پرحملہ کرنے والے غزوے میں شرکت کی اس وقت عبدالرحمن بن خالدبن ولید امیر تھے ۔(سنن ابو دائود ،کتاب الجہاد، جلد2صفحہ 215دار الکتب العلمیہ، بیروت)

اور حضرت عبدالرحمن بن خالد کا انتقال 46ھ؁ یا47ھ؁ میں ہوا جیسا کہ بدایہ ونہایہ جلد 8 ص 31،کامل ابن اثیر جلد سوم ص229اور اسد الغابہ جلد سوم ص440میں ہے۔

ابوداؤد کی روایت اور عبدالرحمن بن خالد کی تاریخِ وفات کو ملانے سے معلوم ہوا کہ قسطنطنیہ پر 46ھ؁ یا47ھ؁ میںپہلاحملہ ہوا،اور تاریخ کی معتبر کتابیں شاہد ہیں کہ یزید قسطنطنیہ کی ایک جنگ کے علاوہ کسی جنگ میں شریک نہیں ہوا ۔

معلوم ہواکہ حضرت عبدالرحمن نے قسطنطنیہ پر جو پہلا حملہ کیا اس میں یزید شریک نہیں تھا اور حدیث(( اول جیش من امتی الخ)) میں یزید داخل ہی نہیں ،جب وہ داخل ہی نہیں تو اس حدیث کی بشارت کا وہ مستحق کیسے ہوگا؟

چونکہ ابو دائود صحاح ستہ میں سے ہے اس لئے عام کتب تاریخ کے مقابلے میں اس کی روایت کو ترجیح دی جائے گی۔

رہی یہ بات کہ حضرت ابو ایوب انصاری کا انتقال اس جنگ میں ہوا جس کا سپہ سالار یزید تھا تو اس میں کوئی تعارض نہیں اس لئے کہ قسطنطنیہ کا پہلا حملہ جو حضرت عبدالرحمن کی سرکردگی میں ہوا آپ اس میں شریک رہے پھر بعد میں اس لشکر میں شریک ہوئے جس کا سپہ سالار یزید تھا تو قسطنطنیہ میں آپ کا انتقال ہو گیا اس لئے کہ قسطنطنیہ پر متعددبار اسلامی لشکر حملہ آور ہوا ہے۔

اوربالفرض اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ کرنے والے لشکرمیں یزید بھی شامل تھا پھر بھی یہ بات ثابت نہیں ہوگی کہ اس کے سارے کرتوت معاف ہوگئے اور وہ جنتی ہے۔ اس لئے کہ حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ(( مامن مسلمین یلتقیان فیتصافحان الا غفر لہما قبل ان یتفرقا))ترجمہ:جب دو مسلمان آپس میں مصافحہ کرتے ہیں تو جدا ہونے سے پہلے ان کو بخش دیا جاتا ہے۔(جامع الترمذی،باب ماجاء فی المصافحہ،ج4،ص75،مصطفی البابی،مصر)

اور حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ(( من فطر فیہ صائما کان لہ مغفرۃ لذنوبہ ))ترجمہ:جو کوئی اس مہینے میں روزہ دار کو روزہ افطار کرائے تویہ اس کے گناہوں کے لئے مغفرت ہے ۔

(مشکوۃ المصابیح،ج1،ص612،المکتب الاسلامی،بیروت)

اور سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی یہ حدیث بھی ہے کہ(( یغفر لامتہ فی آخر لیلۃ من رمضان))ترجمہ:روزہ وغیرہ کے سبب ماہ رمضان کی آخری رات میںا س امت کو بخش دیا جاتا ہے۔

(مشکوۃ المصابیح،ج1،ص614،المکتب الاسلامی،بیروت)

لہذا اگران لوگوں کی بات مان لی جائے تو ان احادیث کریمہ کا مطلب یہ ہو گاکہ مسلمان سے مصافحہ کرنے والے،روزہ دار کو افطار کروانے والے، اور ماہ رمضان میں روزہ رکھنے والے سب بخشے بخشائے جنتی ہیں ۔اب اگر وہ حرمین طیبین کی بے حرمتی کریں معاف ،کعبہ کو معاذاللہ کھود کر پھینک دیں معاف،مسجد نبوی میں غلاظت ڈالیں معاف، ہزاروں بے گناہوں کو قتل کریں معاف،یہاں تک کہ اگر سید الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر پاروں کو معاذاللہ تین دن بھوکا پیاسا رکھ کر ذبح کر دیںوہ بھی معاف،اور جو چاہیں کریں سب معاف۔نعوذ باللہ من ذٰلک

بلکہ حدیث قسطنطنیہ والی بشارت اور دیگر احادیث میں موجود بشارتوں کو پانے کے لیے اہل مغفرت میںسے ہونا شرط ہے۔بخاری شریف کی شرح عمدۃ القاری میں علامہ عینی اس مسئلہ پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

” اگر تو کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لشکر کے متعلق بخشش کی بشارت دی ہے تو میں نے کہا کہ اس عمومی بشارت سے یہ لازم نہیں آتا کہ اسے دلیل خاص سے نہ نکالا جائے ۔اس لئے کہ اہل علم کا اس میں اختلاف نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان کے مغفور ہونے کے متعلق فرمان اس پر مشروط ہے کہ وہ اہل مغفرت بھی ہوں ۔ اگر کوئی اس غزوہ کے بعد ارتداد کرلے تو وہ وہ ہرگز اس عمومی بشارت میں داخل نہیں ہوسکے گا۔یہ اس پر دلیل ہے کہ مغفو روہی ہے جس میں مغفورہونے کی شرط پائی جائے۔” (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،کتاب الجہاد،باب ما قیل فی قتال الروم،ج14 ، ص 199، دار إحیاء التراث العربی ،بیروت)

غلطی کی اصلاح:

اوپر موجود مسئلہ کی ہیڈنگ یا حوالہ میں کسی قسم کی کوئی غلطی نظر آئے تو کمینٹ سیکشن  (تبصرہ)میں ضرور بتائیں۔ ان شاء اللہ اسے جلد از جلد ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

مزید مسائل کی تلاش:

اگر آپ اس کے علاوہ کسی اور مسئلے کی تلاش میں ہیں تو بھی پریشان نہ ہوں الحمد للہ ہماری ویب سائٹ میں اس کے علاوہ بھی سینکڑوں شرعی مسائل اور اسلامک آرٹیکلزموجود ہیں۔ اوپر دئیے گئے  سرچ بٹن پر کلک کریں اور اپنا مطلوبہ مسئلہ لکھ کر تلاش کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button