شرعی سوالات

عقد نہ ہونے کی صورت میں بیعانے کی رقم   بائع کے پاس رقم بطور امانت ہوتی ہے

سوال :

ہمارے والد مرحوم کا تر کہ ایک مکان تھا ، جسے فروخت کر کے ہم تمام ورثاء کے درمیان شرعی تقسیم کر چکے ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس مکان کی فروخت سے قبل ایک شخص محمد ریاض صاحب نے بیعانہ کے طور پر بارہ لاکھ روپے دئیے اور ملک سے باہر چلے گئے ،تین سال گزر گئے پھر واپس لوٹ کر نہیں آئے ۔ مکان ہم نے دوسرے شخص کو فروخت کر دیا ہے۔ وہ بارہ لاکھ روپے آج تک میرے پاس محفوظ رکھے ہیں ۔اب میرے بہن بھائیوں کا مطالبہ ہے کہ وہ رقم سب کے درمیان تقسیم کی جائے ،آپ سے شرعی حکم معلوم کرنا ہے کہ کیا کیا جائے؟ اگر تقسیم ہو گی تو کس تناسب سے؟  ہم دو بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔

جواب:

مذکورہ بیعانے کی رقم پر آپ یا آپ کے دیگر بہن بھائیوں کا کوئی حق نہیں ہے، اسے تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کے پاس وہ رقم اس شخص کی امانت ہے، اسے اس شخص تک پہنچانے کا اہتمام کریں ۔ غالب گمان یہ ہے کہ وہ شخص کسی اسٹیٹ ایجنٹ کی معرفت آپ کے پاس آیا ہو گا ، اس سے بھی اس کا یا اس کے خاندان والوں کا اتا پتا معلوم کیا جا سکتا ہے ۔ تا ہم آپ اس رقم کو امانت کے طور پر اپنے پاس محفوظ رکھیں اور اس کے بارے میں  مسلسل معلومات کر تے رہیں ۔ اگر اس شخص یا اس کے کسی شرعی وارث کا کسی بھی طریقے سے پتا نہ چل سکے تو اس رقم کو اس کی طرف سے صدقہ کر دیں ،جس کا ثبوت آپ کے پاس موجود و محفوظ رہنا چاہیے ،اگر بعد میں وہ بھی واپس آ جائے اور اس تصدق سے مطمئن ہو تو آپ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہو جائیں گے ، ورنہ آپ کو اس کی رقم ادا کرنی ہو گی اور اس تصدق کا آپ کو اجر ملے گا ۔ اگر آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ جرمانے کے طور پر رقم ضبط کی جانے چاہیے تھی ،تو شریعت میں مالی جرمانہ جائز نہیں ہے ، ہاں! کوئی شخص اگر کسی شخص کا مال ضائع کر دے تو اس سے مال کی قیمت لی جا سکتی ہے کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ: المال بالمال یعنی اگر کسی کا مالی نقصان ہو جائے تو وہ اس کے بدلے مال لے سکتا ہے ۔ شریعت میں تعزیر بالمال منسوخ ہے۔

(تفہیم المسائل، جلد7،صفحہ 316،ضیا القرآن پبلی کیشنز، لاہور)

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button