شرعی سوالات

شرعی اعتبار سے خرید وفروخت میں منافع کی حد متعین نہیں ہے

سوال :

شریعت اسلامیہ میں تاجروں کے لیے منافع لینے کی کوئی حد مقرر کی گئی ہے ، اگر ہے تو کس قدر؟ آ ج کل بعض اوقات مصنوعی قلت پیدا کر کے اشیائے صرف کی قیمتیں اچانک غیر معمولی طور پر بڑھا دی جاتی ہیں یا زیادہ نفع کے لالچ میں اپنے ملک میں شدید طلب کے باوجود پڑوسی ملک میں زیادہ قیمت پر برآمد کی جاتی ہیں ، اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب:

اسلام دین فطرت ہے، اسلام نے کاروبار میں نفع کی کوئی خاص شرح مقرر نہیں کی ، اگر ایسا ہوتا تو خلاف فطرت ہوتا اور بعض صورتوں میں ناقابل عمل ہوتا ۔ اصولی طور پر تجارت کا مقصد نفع حاصل کرنا ہی ہوتا ہے ۔ لہذا فی نفسہ جائز طریقے سے نفع کمانا کوئی معیوب بات نہیں ہے، کیونکہ تجارت ذریعہ معاش بھی ہے، معاشرے کی ضرورت بھی ہے اور خدمت بھی ۔ تا جر ہی وہ فرد ہے جو صنعت کار ،کاشت کار اور صارف کے درمیان رابطہ بنتا ہے۔

کاروبار یا تجارت کو انسانیت کے لیے نفع بخش بنانے کی خاطر شریعت نے کچھ اصولی ہدایات دی ہیں:

(1) مجموعی حیثیت سے معاشرے کی فلاح پیش نظر ر ہے۔ظاہر ہے اللہ تعالی ،قرآن مجید اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی خیر خواہی سے مراد شریعت کے احکام پر عمل کرنا ہے اور ائمہ مسلمین کی خیر خواہی سے مراد ان سے دین کے مسائل جاننے کے لیے رہنمائی لینا ہے اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی سے مراد انہیں نقصان سے بچانا ہے اور اللہ تعالی کی خیر خواہی کے ایک معنی اللہ کے بندوں کی خیر خواہی بھی ہے۔

 (2) غرر یعنی دھوکا دہی سے کام نہ لیا جائے ۔  اگر کسی ناتجربہ کار شخص کے ساتھ دھوکا دہی ثابت ہو جائے ، تو وہ بیع سے رجوع کر سکتا ہے۔

(3) یہ کہ جو مال کمایا جائے ،وہ فی نفسہ بھی حلال ہو اور اس کے کمانے کا طریقہ بھی حلال ہو۔

(4) غبن فاحش نہ ہو۔ میری رائے میں ہمارے فقہائے کرام نے اپنے عہد کے اعتبار سے نفع کی یہ حد مقرر فرمائی ہے۔ ہر دور میں عام حالات میں تاجروں کے درمیان جو شرح منافع رائج ہو ، اس کا اعتبار کیا جائے گا ۔ موجودہ دور میں چونکہ اشیاء پیدا کرنے والوں ( جیسے غلہ ،سبز یاں ، پھل ،حلال جانور ،انڈے وغیرہ ) صنعت کاروں اور حرفت والوں اور حقیقی صارفین (Consumers) کے درمیان واسطے( Middle Man) بہت بڑھ گئے ہیں ، اس لیے نفع کی شرح بھی بڑھ گئی ہے اور یہ بات قابل فہم بھی ہے ۔

عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم میں چونکہ اشیاء پیدا کر نے والے یا بنانے والے خودا پنا مال لے کر شہر میں آتے تھے اور وہاں منڈیاں یا بازار لگتے تھے ( جیسے آج کل ہمارے ہاں جمعہ بازار ،اتوار بازار اور منگل بازار ہوتے ہیں، اس طرح مکہ مکرمہ میں ایام جاہلیت میں عکاظ اور ذوالمجنہ کے میلے لگتے تھے) اور دیہاتی لوگ اپنا مال براہ راست تاجروں یا صارفین پر بیچتے تھے ، اس طرح باہر سے آنے والے دیہاتی کو اپنے مال کی مناسب قیمت مل جاتی تھی اور تاجر یا صارف کو تجارت کے فطری اصول کے مطابق صحیح قیمت پر مال مل جا تا تھا ، یعنی درمیان میں واسطہ (Middle Man) نہیں ہوتا تھا ۔ اس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ”تلقی الجلب‘‘اور ”بیع حاضر للبادی‘‘ کی ممانعت فرمائی تھی ، یعنی یہ کہ شہری تا جر شہر سے باہر جا کر تجارت کا مال لانے والے سادہ لوح دیہا تیوں سے مال خرید لے اور پھرا سے شہر میں لا کر من مانی قیمت پر فروخت کرے کیونکہ باہر سے آنے والے دیہاتی یا تجارتی قافلے کو شہر میں کسی چیز کی طلب یا قلت کی بابت صحیح معلومات نہیں ہوتی تھیں ،اسے شریعت میں ”سد ذرائع‘‘ ( یعنی کسی شعبہ حیات میں خرابیوں کے رونما ہونے کے مواقع ، اسباب یا امکانات کے راستے بند کرنا) کہتے ہیں ، یعنی اسلام نے ناجائز نفع خوری کے طریقوں کو بند گیا۔ اس دور میں یہ ہدایات قابل عمل بھی تھیں اور شہری حکومت کے لیے اس طرح کا نظم قائم کرنا یا اس پر نظر رکھنا (Checking) آسان تھا ۔اسے ہم دیہاتیوں کی شہری منڈیوں یا مارکیٹوں تک براہ راست رسائی سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں اور اس کا مقصد تجارت کے لیے فطری اور منصفانہ ماحول پیدا کرنا ہے۔

آج کل بڑے تاجر موقع پر جا کر کاشتکاروں سے مال خرید تے ہیں اور شہر میں آنے والا مال آڑھتیوں یعنی کمیشن ایجنٹوں کے ذریعے منڈیوں میں تھوک کے حساب (Whole Sale) سے فروخت ہوتا ہے اور پھر خوردہ فروش (Retaler) ان سے خرید کر شہروں میں فروخت کر تے ہیں۔ شہر بہت پھیل چکے ہیں اور آبادی بہت بڑھ چکی ہے ، اس لیے ہر کاشت کار ، باغبان یا مویشی بان کے لیے اپنے مال کو شہر کی منڈیوں تک پہنچانا آسان نہیں ہے اور اب بڑی مچھلیوں کے چھوٹی مچھلیوں کو نگل لینے کا محاورہ پوری طرح صادق آرہا ہے ۔ عالمی سطح پر بھی کارپوریٹ کلچر نے اجارہ داریاں قائم کر رکھی ہیں لیکن منافع خوری کو استحصال کا ذریعہ بنانے پر روک ٹوک عائد کر نے کے لیے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے بعض ہدایات فرمائی ہیں مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: تاجر خوش بخت ہے اور ذخیرہ اندوزی(Hoarding) کر نے والا ملعون ہے۔

ذخیرہ اندوزی یہ ہے کہ ایک خاص شعبے سے تعلق رکھنے والے ساہو کار ایک منظم گروپ (Cartel) بنا کر بڑے پیمانے پر اشیائے صرف کی ذخیرہ اندوزی کریں ، رسد (Supply) روک دیں تا کہ طلب (Demand) بڑھے ، یہاں تک کہ قیمتیں غیر فطری انداز میں انتہائی بلند سطح پر چلی جائیں اور پھر عام لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی تجوریاں بھریں، ماضی میں شکر کے معاملے پر ایسا ہوتا رہا ہے، کبھی دواؤں کی اچانک قلت پیدا کی جاتی ہے اور پھر قیمتیں غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہیں ۔اسی طرح بیرون ملک اگر کسی چیز کی قیمت زیادہ مل رہی ہو تو اپنے لوگوں کو اس چیز کے لیے ترستا چھوڑ کر اس مال کو برآمد کر لیتے ہیں ۔موجودہ دور میں حکومت کا کام طلب اور رسد میں توازن پیدا کرنا اور نفع اندوزی کو استحصال کی حد تک پہنچانے سے روکنا ہے، یعنی حکومت کو چاہیے کہ Regulatory Authority کا کردار مؤثر طریقے سے ادا کرے۔

پس حکومت پر لازم ہے کہ وہ اشیائے صرف کی مصنوعی قلت پیدا کر نے کے لیے ذخیرہ اندوزی کر نے والوں پر نظر رکھے ، بنیادی ضرورت کی کسی چیز کی ملک کے اندر طلب بڑھ جانے پر اس کی برآمد پر پابندی لگائے یا اس کی فوری در آمد کے انتظامات کرے ،

الغرض ریاست و حکومت کو چاہیے کہ مارکیٹ کے رجحانات (Market Trends) پر گہری نظر ر کھے ،طلب و رسد میں توازن قائم کرے اور ضرورت پڑنے پر ضروری انتظامی اقدامات کرے اور ’’سد ذرائع‘‘ کی حکمت شرعی سے صرف نظر نہ کرے۔

(تفہیم المسائل، جلد8، صفحہ333،ضیا القران پبلی کیشنز، لاہور)

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button