احادیث قدسیہ

زمانے کو برا کہنا کیسا

اس مضمون میں زمانے کو برا کہنے کے متعلق حدیث قدسی کا متن، آسان اردو میں حدیث کا ترجمہ اور قرآن پاک کی آیات کی روشنی میں باحوالہ مختصر تشریح کی گئی پے۔

اس مضمون میں زمانے کو برا کہنے کے متعلق حدیث قدسی بیان کی جائے گی۔ آپ کی آسانی کے لئے اعراب کے ساتھ عربی میں حدیث شریف کا متن، آسان اردو میں حدیث کا ترجمہ اور قرآن پاک کی آیات کی روشنی میں باحوالہ مختصر تشریح کی گئی پے۔

متعلقہ مضامین

زمانے کو برا کہنا؛ حدیث قدسی:

۔عَنْ أبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ  صلى الله عليه وسلم: قَالَ اللهُ تَعَالىٰ: يُؤْذِيْنِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأنَا الدَّهْرُ بِيَدِي الأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

ابن آدم زمانے کو برا کہہ کر مجھے اذیت دیتا ہے کیونکہ میں ہی زمانے (کا خالق) ہوں، اس کے سارے معاملات میرے ہی قبضہ قدرت میں ہیں، میں ہی رات اور دن کو پھیرتا ہوں.

حدیث قدسی کی تشریح:

یہاں زمانے کو برا کہنے کے متعلق حدیث قدسی کی آسان الفاظ میں پوائنٹس کی صورت میں تشریح اور مسائل بیان کئے جا رہے ہیں۔

  1. اذیت تکلیف دینے کو کہتے ہیں اوریہ محال ہے کہ کوئی اللہ تعالی کو تکلیف پہنچا سکے کیونکہ تکلیف پہنچنا عیب (کمی) ہے اور اللہ تعالی ہر عیب سے پاک ہے۔ جیسے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِۚ-وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ(۱۵)ترجمہ: اے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج  اور اللہ ہی بے نیاز ہے سب خوبیوں سراہا۔

اس لیےاللہ تعالی کی شایان شان  اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ  ابن آدم میری طرف ایسی بات منسوب کرتا ہے جو میرے مناسب نہیں ہے یا جو میرے جلال کا سبب بنتی ہے۔

  1. اللہ تعالی کو مطلقاً”دہر“ یعنی زمانہ کہنا جائز نہیں ہے کہ زمانہ مخلوق ہے اور اللہ خالق۔
  2. اللہ تعالی ہی زمانے کو تخلیق کرنے اور چلانے والا ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:اَللّٰهُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَؕ-كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّىؕ-یُدَبِّرُ الْاَمْرَ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ(۲)ترجمہ: اللہ ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا بے ستونوں کے کہ تم دیکھو پھر عرش پر اِستوا فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ہر ایک ایک ٹھہرائے ہوئے وعدہ تک چلتا ہے اللہ کام کی تدبیر فرماتا اور مفصل نشانیاں بتاتا ہے کہیں تم اپنے رب کا ملنا یقین کرو ۔

 لہذا زمانے کو برا کہنا دراصل اللہ تعالی کی تخلیق و طریقہ کار پر اعتراض ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی بہت سے لوگ زمانے کو غلط کہتے ہیں، اس سے بچنا چاہیے۔

حدیث شریف کا حوالہ:

1:صحیح بخاری، کتاب تفسیر القران، باب وما يهلكنا إلا الدهر ، جلد6، صفحہ133، حدیث نمبر 4482، دار طوق النجاہ،لبنان

2: صحیح مسلم، كتاب الألفاظ من الأدب وغيرها ، باب النهي عن سب الدهر ، جلد4، صفحہ1762، حدیث نمبر2246، دار إحياء التراث العربي ، بيروت

حدیث شریف کا حکم:

اس حدیث شریف کی سند صحیح ہے۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button