اسلامی رسائلاسلامی معلومات و واقعاتمضامین

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھوکوں کو سیرابی کا ذریعہ

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھوکوں کو سیرابی کا ذریعہ تھی ۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے بیرے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن رسالت مآب صلی اللہ علیہ  وسلم ایسے وقت گھر سے باہر تشریف لائے کہ

لا یخرج فینا ولا یلقاہ احد

پہلے کبھی بھی اس وقت باہر تشریف نہ لاتے تھے اور نہ ہی ملاقات کا وقت تھا

اچانک سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی آگئے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا

ماجاء بک یا ابابکر؟

اے ابوبکر ایسے وقت میں تم کیسے آئے ہو؟

انہوں نے عرض کیا۔

 

خرجت القی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و النظر فی وجہہ والتسلیم علیہ

دل میں خواہش ہوئی کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کروں اور چہرہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت  سے اپنی طبیعت کو سیراب کر کے سلام عرض کروں۔

 

ابھی تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ بھی آگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

ما جاء بک یا عمر؟

اے عمر ! تمہیں کون سی ضرورت اس وقت یہاں لائی ہے؟

انہوں نے عرض کیا

الجوع یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھوک کی وجہ سے حاضر ہوا  ہوں

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا۔

انا قد وجدت بعض ذلک

مجھے (بھی) کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے

  (شمائل ترمذی ، ۳۱)

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھوکوں کو سیرابی کا ذریعہ 

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے دونوں غلاموں کے ساتھ اپنے ایک صحابی حضرت ابو الہیشم  الانصاری  رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے۔ ابو الہیشم کھجوروں کے باغات کے مالک تھے۔ وہ وہاں موجود نہ تھے۔ ان کی اہلیہ سے پوچھا تو انہوں نے عرض کیا وہ ہمارے لئے پانی لینے گئے ہوئے ہیں۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ابو الہیشم آگئے جب انہوں نے دیکھا کہ آج میرے گھر میں محبوب خدا اپنے غلاموں سمیت تشریف لائے ہیں ،  (رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی)  تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔حدیث کے الفاظ میں ان کی کیفیت یوں بیان ہوئی ہے

یلتزم النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و یفدیہ بابیہ وامہ

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لپٹ گئے اور بار بار کہتے آپ ﷺ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ آپ ﷺپر میرے ماں باپ فدا ہوں

(شمائل ترمذی- ۳۱)

فخر المحدثین امام عبدالرؤف المناوی ؒ  یلتزم النبی ﷺ  کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

یعانقہ و یلصق صدرہ و یتبرک بہ

اس انصاری صحابی  رضی اللہ عنہ نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم  سے معانقہ کیا اپنے سینہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر کے ساتھ لگایا اور برکتیں حاصل کیں۔

(شرح شمائل ، ۲=۱۹۱)

مسلم شریف میں ہے کہ اس انصاری صحابی نے جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے گھر بطور مہمان پایا تو اس نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا

الحمد للہ ما احد اکرم اضیافاً منی

تمام تعریف اللہ کے لئے ہے آج میرے معزز مہمان سے بڑھ کر روئے کائنات میں کوئی کسی کا مہمان نہیں

(مسلم ، ۲=۱۷۷)

ذی احتشام مہمانوں کو اس کے بعد اپنے باغ میں لے گئے۔ اور

فسبط لہم بساطا 

ان کے بیٹھنے کے لئے چادر بچھا دی

اجازت لے کر کھجوروں کے خوشے توڑ کر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم  کی بارگاہ اقدس میں پیش کئے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب ملاحظہ فرمایا کہ وہ پورے کا پورا خوشہ توڑ کر لے آئے ہیں۔ تو فرمایا

افلا تنیقیت لنا من رطبہ

ہمارے لئے فقط پکی ہوئی کھجوریں ہی کیوں نہ لائے؟

عرض کیا

انی اردت ان تختاروا او تخیروا من رطبہ و بسرہ

میری خواہش تھی کہ میرے آقا ﷺ ان میں سے خود پسند و منتخب فرمائیں

(شمائل ترمذی، ۳۱)

اس واقعہ میں بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر سے نکلنے میں فقط یہ خواہش کارفرما تھی کہ محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات (رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت)  کروں  ۔ رخ انور دیکھوں(رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کروں )  اور سلام عرض کروں۔

ملاقات ( رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ) کا شوق ملاحظہ فرما لینا

    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایسے وقت میں باہر تشریف لانے کی وجہ شارحین حدیث نے یہ بیان کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نور نبوت سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا (رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا) شوق ملاقات ملاحظہ فرما لیا تھا۔

۱-    امام عبدالرؤف المناوی ؒ (ت – ۱۰۰۳) شرح شمائل میں لکھتے ہیں۔

 فکانالمصطفٰی ادرک بنور النبوۃ ان الصدیق یرید لقاء ہ فی تلک الساعۃ و خرج لہ ابوبکر لما ظہر علیہ من نور الولایۃ ان

المصطفی لا یحتجب منہ فی تلک الساعۃ

اس گھڑی نبی اکرم ﷺ نے اپنے غلام کے شوق ملاقات (رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت) کو نور نبوت سے ملاحظہ فرما لیا تھا۔ اس لئے خلاف معمول باہر تشریف لائے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نور ولایت کی بنا پر یقین ہو گیا تھاکہ محبوب کریم اس موقعہ پر زیارت سے محروم نہیں فرمائیں گے

(شرح شمائل ، ۲ = ۱۸۹)

 اسی بات کو سید امیر شاہ قادری گیلانی نقل کرتے ہیں۔

ظن انست پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنور نبوت دانست کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ طالب ملاقات او است پس برآمد دراں وقت بخلاف عادت

حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نور نبوت سے ابوبکر صدیق ؓ کے حاضر ہونے (اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے شوق ) کو معلوم کر لیا تھا۔ اسی لئے خلاف معمول گھر سے باہر تشریف لے آئے

وبر ابوبکر ظاہر گشت بنور ولایت کہ آنحضرت دریں وقت برآمدہ است برائے اوتا مطلوبش محصل گردو-

ادھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نور ولایت کے ذریعے معلوم کر لیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری ضرورت (رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت) کو پورا کرنے کے لئے تشریف لائیں گے اور میرا مطلوب (رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت) حاصل ہو جائے گا

(انوار غوثیہ شرح شمائل النبویۃ- ۵۳۵)

۳-    مولانا محمد ذکریا سہارنپوری شرح شمائل میں لکھتے ہیں۔

    حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اس وقت خلاف معمول ”آنا دل رابدل راہ است” حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حاجت (رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت) کا پر تو پڑا اور قبل اس کے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ندا دیتے ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود باہر تشریف لے آئے۔

    بعض علماء نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا آنا بھی بھوک کے تقاضے کی وجہ سے تھا۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کو دیکھ کر (رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کر کے) اس کا خیال بھی جاتا رہا اسی لئے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم  کے استفسار پر اس کا ذکر نہیں کیا۔

    بعض علماء کے نزدیک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری بھوک ہی کی وجہ سے تھی۔ مگر اس کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ازرہ شفقت گراں نہ گزرے کیونکہ دوست کی تکلیف اپنی تکلیف پر غالب ہو جایا کرتی ہے۔

(خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی- ۳۸۵-۳۸۶)

    شیخ احمد عبدالجواد الدومی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے جواب کے بارے میں لکھتے ہیں۔

وکانت اجابۃ ابی بکر رضی اللہ عنہ دلیلاً علی عمق تلطفہ ورقۃ حاشیتہ مع حبیبہ و مصطفاہ

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا جواب اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نہایت ہی محبت اور گہرے ربط و تعلق پر دلالت کر رہا ہے۔

(الاتحافات الربانیۃ شرح الشمائل المحمدیہ – ۱۸۸)

    ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بیشک سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھوک کی شدت کی وجہ سے ہی بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے۔ مگر آپ ؓ کے نزدیک اس بھوک کا علاج کھانا نہیں’ دیدار محبوب تھا۔ سو جس علاج  (رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت) کی غرض سے حاضر ہوئے تھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استفسار پر وہی عرض کر دیا۔

شمائل ترمذی کے محشی نے کیا ہی خوب لکھا ہے۔

لعل عمر جاء یتسلیٰ بالنظر فی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کما کان ینفع اھل مصر فی زمن یوسف علیہ السلام و لعل ھذا المعنی کان مقصود ابی بکر و قدادی بالطف وجہ کانہ خرج رسول

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس لئے آئے تھے کہ وہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے اپنی بھوک دور کر سکیں۔ جس طرح اہل مصر حسن یوسف علیہ السلام سے اپنی بھوک دور کر لیتے تھے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عمل میں بھی راز یہی تھا مگر انہوں نے اپنا مدعا نہایت ہی لطیف انداز میں پیش کیا اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

اللہ ؐ بنور الولایۃ انہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خرج لنا فی ھذا الوقت لا نجاح مطلوبہ

پر نور ولایت کی وجہ سے واضح ہو چکا تھا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نصیب ہو گا”

اہل مصر کی قحط سالی ‘ نظارہ حسن یوسف سے مداوا

    محشی نے اہل مصر اور زمانہ حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر کر کے جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے ،وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں قحط پڑ گیا ۔ آپ نے شاہی خزانے کی گندم بھوکوں اور قحط زدہ لوگوں میں تقسیم فرمانا شروع کر دی۔ ابھی آئندہ فصل کو تین مہینے باقی تھے کہ خزانے کی گندم بھی ختم ہو گئی۔ اب حضرت یوسف علیہ السلام سوچنے لگے کہ یہ تین مہینے کیسے گزریں گے؟ اسی وقت جبرائیل امین علیہ السلام حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں اپنے رخ سے نقاب اٹھا دیجئے۔ اپنے چہرہ انور کے دیدار سے بھوکوں کو مشرف کیجئے جو بھوکا بھی چہرہ انور کا دیدار کرے گا سیر ہوتا جائے گا۔ گویا بھوکے پیاسے لوگ دیدار کی سیرابی سے اپنی بھوک کے احساس سے بے نیاز ہو جائیں گے ۔ اور کیوں نہ ہوئے ہوں گے۔ جب قرآن یہ بتا رہا ہے کہ زنان مصر نظارہ حسن یوسف کے غلبے میں اپنے ہاتھوں کے کٹ جانے کے احساس سے بے نیاز ہو گئیں۔ جسمانی اعضاء کا کٹ جانا صاف ظاہر ہے بھوک کے احساس سے کہیں زیادہ شدید تکلیف کا باعث تھا۔ اگر دیدار حسن یوسف ان کی توجہ اس تکلیف کی شدت سے ہٹا سکتاہے تو بھوک کے احساس سے بے نیاز کیوں نہیں کر سکتا؟

سیدنا علی کا ایمان افروز قول

    اس مقام پر حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے اس قول کا بھی ذکر ضروری ہے جس میں آپ نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی لذت کو پیاس کے موقعہ پر ٹھنڈے پانی کی محبت پر فوقیت دی۔

شفا ء شریف میں قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں کہ آپ سے پوچھا گیا

کیف کان حبکم لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

صحابہ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس قدر محبت تھی؟

آپ نے فرمایا

کان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم احب الینا من اموالنا و اولادنا آبائنا وامہاتنا واحب الینا من الماء البارد علی الظمائ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اپنے اموال ، اولاد ،آباؤ اجداد اور امہات سے بھی زیادہ محبوب تھے۔ کسی پیاسے کو ٹھنڈے پانی سے جو محبت ہوتی ہے ہمیں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے بڑھ کر محبوب تھے-

(الشفاء ، ۲= ۵۶۸)

یعنی مشتاقان جمال مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں اور دل رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے جس طرح سیراب ہو جاتے تھے ٹھنڈا پانی بھی کسی پیاسے کو اس طرح سیراب نہیں کر سکتا۔

 

 


  ماخوذ از کتاب:  مشتاقان جمال نبوی کی کیفیات جذب و  مستی

مصنف :   بدر المصنفین شیخ الحدیث محقق العصر حضرت مولانا مفتی محمد خان قادری(بانی ، جامعہ اسلامیہ لاہور)۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button