سوال:
زید کہتا ہے کہ حدیث شریف میں ہے لا ربوٰ بین المسلم و الحربی فی دار الحربیعنی دارالحرب میں مسلمان اور کافر کے درمیان سود نہیں اور ہندوستان دارالاسلام ہے دارالحرب نہیں لہذا یہاں پر مسلمان اور حربی کافروں کے درمیان سود ہے تو زید کا قول صحیح ہے کہ نہیں؟
جواب:
زید کا قول صحیح نہیں اس لیے کہ حدیث شریف میں دارالحرب کی قید یا تو احترازی نہیں ہے اتفاقی ہے کہ اس زمانہ میں کافروں میں سے صرف ذمی اور مستامن دارالسلام میں رہتے تھے اور حربی دارالحرب ہی میں رہتا تھا اس لیے کہ بغیر امان لیے اگر وہ دارالسلام میں داخل ہوتا تو اس کی جان و مال محفوظ نہ رہتے۔ اس لیے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ ولہ وسلم نے فی دارالحرب فرما دیا نہ اس لیے کہ حربی کافر کبھی دارالسلام میں رہے تو مسلمان اور اس کے درمیان سود ہو جائے گا جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا۔ یٰاایھا الذین اٰمنوا لا تاکلوا الربوٰا اضعافا مضاعفۃ یعنی اے ایمان والو! دونا دون سود نہ کھاؤ۔ تو اس آیت کریمہ میں دونا دون کی قید احترازی نہیں ہے کہ دونا دون سے کچھ کم و بیش سود کھانا جائز ہے بلکہ اس زمانہ میں لوگ عام طور پر دونا دون سود کھاتے تھے اس لیے فرمایا کہ دونا دون سود نہ کھاؤ۔
اور یا تو حدیث شریف میں فی دار الحرب کی قید مستامن کو نکالنے کے لیے ہے یعنی جب حربی مستامن ہو جائے تو اس کے اور مسلمان کے درمیان سود ہے اس لیے کہ امان کے سبب اس کا مال مباح نہیں رہ جاتا کہ عقود فاسدہ کے ذریعہ مسلمان اس کو حاصل کرسکے۔ (فتاوی فیض الرسول،کتاب الربا،جلد2،صفحہ389، 390،شبیر برادرز لاہور)
Leave a Reply