سوال:
زید نے عابد کو اپنا موبائل فون مثلاً 100 روپے میں فروخت کر نے کیلئے دیااگر عابد نے 110 روپے میں فروخت کر دیا اور زید کو نہیں بتایا ۔ آیا یہ نفع عابد کو رکھنا کیسا ہے؟ دوسری صورت میں عابد نے زید کو نفع بتا کر رکھا لہذا اب عابد کے لئے یہ نفع جائز ہے یا نہیں؟ تیسری صورت میں زید نے عابد سے کہا کہ مجھے 100 روپے دے دینا ،اس سے اوپر جتنا منافع ہو، وہ تمہارا ہے، آیا اس صورت میں عابد کے لئے اس نفع کا کیا حکم ہے؟
جواب:
پہلی صورت ناجائز ہے کہ زید کے علم میں لائے بغیر زائد رقم اپنے پاس رکھ لینا غبن ہے ۔ اس صورت میں دوسری قباحت یہ ہے کہ زید نے عابد پر واضح نہیں کیا کہ اس عمل ( موبائل فروخت کر نے) پر عابد کو کتنی اجرت دے گا ؟ دوسری صورت میں جو نفع حاصل ہوا چونکہ عابد نے زید کو بتا کر رکھا اور زید نے اس پر رضا مندی بھی ظاہر کر دی ،تو عابد کے لئے یہ منافع جائز ہے ۔ تیسری صورت میں اگر چہ منافع مجہول ہے لیکن اثر ابن عباس کی وجہ سے بطور استحسان جائز ہے ۔
اس کے برعکس بہتر صورت یہ ہے کہ عابد زید سے 100 روپے پر وہ موبائل خرید لے، پھر وہ اسے حسب منشا قیمت پر بیچ سکتا ہے یاز ید عابد سے یہ کہے کہ یہ موبائل مجھے اتنے میں پڑا ہے، آپ اسے نفع پر بیچ دیں اور منافع کی رقم ہم نصف نصف یا جو بھی تناسب طے ہو اس کے مطابق تقسیم کر لیں گے ۔صحیح بخاری میں سمسار ( کمیشن ایجنٹ) کے ساتھ عقد کے جواز کی ایک صورت اثر عبداللہ بن عباس کے حوالے سے ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص سے کہے کہ کپڑا اتنے میں بیچ دو، اس سے زیادہ جو رقم تمہیں ملے و ہ تمہاری ہے ۔ تابعی ابن سیرین نے کہا کہ ایک شخص نے ( کمیشن ایجنٹ )سے یہ کہا کہ یہ چیز اتنے میں بیچ دو ،اس سے زیادہ جو نفع ملے وہ تمہارا ہے یا ہم دونوں نصف نصف کے حق دار ہوں گے ،تو جہاں پہ عرف رائج ہو تو بطور استحسان یہ جائز ہے ۔
(تفہیم المسائل، جلد6،صفحہ 409،ضیا القرآن پبلی کیشنز، لاہور)