شرعی سوالات

یوں چرائی پر جانور دینا کہ بچے آدھے آدھے ہوں گے ، ایک ہوا تو اس کی قیمت آدھی آدھی

سوال:

زید نے ایک بکری عمرو کو اس شرط پر دی کہ تم اس کو چراؤ اور اس کی پرورش کرو جب بچے پیدا ہونگے تو نصف ہمارا اور نصف تمہارا اور اگر ایک بچہ پیدا ہوگا تو اس کی قیمت آپس میں تقسیم کرلیں گے تو کیا اس طرح کا لین دین جائز ہے اور زید کے حصہ میں جو بچہ آیا اس کی قربانی جائز ؟اگر ناجائز ہے تو کیوں؟

جواب:

جانور کو اس طرح چرائی پر دینا کہ جو بچہ پیدا ہوگا ،اس کے نصف کا حق دار چرانے والا ہوگا ،ناجائز ہے اور یہ اجارہ فاسدہ ہے ۔اولاً یہ کہ جو اجرات مقرر ہوئی ہے وہ مجہول ہے ،معلوم نہیں بچہ زندہ پیدا ہوگا یا مردہ پیدا ہوگا۔اور زندہ پیدا ہوتو معلوم نہیں ایک پیدا ہوگا یا کئی ہونگے۔اور اجرت مجہول ہونے سے اجارہ فاسد ہوجاتا ہے۔ثانیاًیہ اجیر جس چیز میں کام کرے گا یعنی جو جانور چرائے گا اسی میں سے ایک حصہ اپنی اجرت میں لے گا۔اور ایسا اجارہ صحیح نہیں۔بالجملہ یہ اجارہ صحیح نہیں ۔بکری کے جتنے بچے پیدا ہونگے ،سب کا مالک زید ہی ہے کہ بچے اسی کی ملک ہوتے ہیں جس کی بکری ہو ۔عمرو کو اس صورت میں اتنے دنوں کی چرائی کی اجرت مثل دی جائے گی یعنی اتنے دنوں تک چرانے کی جو اجرت دی جاتی ہو وہ ملے گی ،بشرطیکہ وہ اجرت مثل نصف بچوں کی قیمت سے زائد نہ ہو اور اگر زائد ہوتو صرف نصف بچوں کی قیمت ہی دی جائیگی  زیادہ نہیں کہ اجارہ فاسدہ کا حکم یہی ہے۔اور جبکہ بچے زید کے ہیں تو ان بچوں کی زید قربانی کردسکتا ہے البتہ عمرو کو اگر اجرت میں بچہ ملا ہوتو یہ عمرو اس کی قربانی نہیں کرسکتا کہ عمرو اس بچہ کا مالک نہیں ۔

(فتاوی امجدیہ، کتاب الاجارۃ ،جلد3،صفحہ 281تا282،مطبوعہ  مکتبہ رضویہ،کراچی)

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button