مضامین

یوم عرفہ کا روزہ کس اعتبار سے رکھا جائے گا؟

سوال: احادیث میں عرفہ کے روزے کی فضیلت آئی ہے، سوال یہ ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ کس اعتبار سے رکھا جائے گا؟ کیا سعودی عرب کے اعتباد سے رکھا جائے گا یا اپنے ملک و شہر کا اعتبار ہو گا؟

جواب:

سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ اسلام میں قمری ماہ و سال کی حیثیت بہت زیادہ ہے اور اکثر عبادات میں اسی کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کی حکمت خود قرآن پاک میں یہ بیان فرمائی کہ یہ اوقات کے حساب کے لئے ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ” ترجمہ : لوگ آپ سے چاند کے بارے میں دیافت کرتے ہیں۔ آپ فرما دیجئے وہ لوگوں کے لئے اور حج کے لئے وقت جاننے کے ذرائع ہیں۔ (سورہ البقرہ : ۱۸۹)

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تاریخ کے تعیین کے لئے شمسی تاریخ کی بجائے قمری تاریخ کو معیار قرار دیا اور اسی کو اختیار کرنے کی تاکید فرمائی گئی۔

یہاں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ چاند کی تاریخ کا حساب کس اعتبار سے کیا جائے گا؟ کیا سعودی عرب سے کسی نے چاند دیکھ لیا تو ہمارا مہینہ بھی اسی وقت شروع ہو جائے گا؟ کیا ہم بھی تمام عبادات سعودی عرب کی تاریخ کے اعتبار سے کریں گے یا اپنی؟

چاند کی رویت کا اعتبار:

احادیث میں واضح طور پر نبی اکرم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ قمری تاریخ اور عبادات کے حساب کے لئے کسی دوسرے ملک کا اعتبار نہیں بلکہ خود اپنے چاند کے دیکھنے کا اعتبار ہو گا۔ مثلا سعوی عرب میں رمضان کا چاند نظر آ گیا تو ہم بھی یہاں روزہ نہیں رکھ لیں گے بلکہ ہم اپنے ملک کی رویت کا انتظار کرین گے۔ اگر ہمارے ہاں چاند نظر آ گیا تو روزہ رکھیں گے ورنہ تیس دن پورے کئے جائیں گے۔ چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:

(1) "عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلَالَ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ أُغْمِيَ عَلَيْكُمْ فَاقْدِرُوا لَهُ، و فی روایۃ قال الشھر تسع و عشرون لیلۃ فلا تصوموا حتی تروہ فان غم علیکم فاکملوا العدۃ ثلاثین "ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: چاند دیکھے بغیر روزہ نہ رکھو اور چاند دیکھے بغیر افطار نہ کرو۔ اور اگر بادل چھا جائیں تو اس کا اندازہ کر لو۔ ایک روایت میں ہے کہ مہینہ 29 دن کا بھی ہوتا ہے تو اگر بادل چھا جائے تو 30 دن کی تعداد پوری کرو۔ (متفق علیہ)
(2) "عن ابی هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلاَثِينَ” ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چاند دیکھ کرروزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو اور اگر تم پر بادل چھا جائے تو شعبان کے دنوں کی تعداد پوری کرو۔ (متفق علیہ )

ایک اہم بات:

بعض ملکوں میں چاند  ایک دن پہلے نظر آ جاتا ہے اور بعض ملکوں میں اگلے دن نظر آتا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ صحابہ کرام  نے اس مسئلہ میں کیا موقف اختیار فرمایا۔ ایک صحیح حدیث میں موجود ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ملک شام کے چاند کا اعتبار نہیں کیا بلکہ اپنے ملک کی رویت کا اعتبار فرمایا۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں:

"عَنْ كُرَيْبٍ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ، بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ، فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، وَرَآهُ النَّاسُ، وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ: ” لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ، فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ، أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَوَ لَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ فَقَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” ترجمہ: کریب سے روایت ہے کہ ام الفضل بنت الحارث نے ان کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا۔ فرماتے ہیں: میں شام گیا اور میں نے ان کا م پورا کیا۔ میں شام ہی میں تھا کہ رمضان شروع ہوگیا۔ میں نے وہاں چاند جمعہ کی رات میں دیکھا اور پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے حال احوال پوچھا، پھر دریافت فرمایا: تم لوگوں نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے بتایا: جمعہ کی رات۔ انہوں نے پوچھا: کیا تم نے خود دیکھا تھا؟ میں نے عرض کیا: ہاں ، میں نے بھی دیکھا تھا اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا تھا۔ اگلے دن ان لوگوں نے بھی روزہ رکھا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: مگر ہم لوگوں نے چاند ہفتے کی رات دیکھا تھا۔ اس لئے ہم لوگ روزہ رکھیں گے ، یہاں تک کہ تیس دن پورے کر لیں، کریب نے کہا: کیا آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی رویت (چاند دیکھنے) اور ان کے روزے کا اعتبار نہیں کریں گے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں ، اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے (کہ خود چاند دیکھو، کسی دوسرے ملک کی رویت کا اعتبار نہ کرو)۔  (صحیح مسلم : ۱/۳۴۷، طبع دہلی)

اب آئیے اصل سوال کی طرف کہ یوم عرفہ کے روزہ کس اعتبار سے رکھا جائے گا؟ٓ کیا سعودی عرب کے اعتباد سے رکھا جائے گا یا اپنے ملک کے حساب سے؟

یوم عرفہ کا روزہ:

جب ذوالحجہ کا مہینہ اپنے ملک کے حساب سے شروع کیا جائے گا، باقی تمام دن اپنے ملک کے حساب سے گزارے جائیں گے حتی کہ عید بھی اپنے ملک کے حساب سے کی جائے گی تو نو ذو الحجہ یعنی یوم عرفہ کا روزہ بھی اپنے ملک کے حساب سے رکھا جائے گا۔ اس کی وجوہات درج دزیل ہیں:

دلائل:

(1) وہ عبادات جو چاند کی تاریخ کے حساب سے ہوں ان میں اپنے ملک کا اعتبار ہوتا ہے، جیسے کہ اوپر بیان ہوا۔

(2) احادیث میں ”یوم عرفہ“ کی بجائے 9 ذو الحجہ کا روزہ رکھنے کے الفاظ بھی آئے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ روزہ رکھنے میں سعودی عرب کے ”وقوف عرفہ“ کی بجائے 9 ذو الحجہ کی تاریخ کا اعتبار ہے۔

”کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صلی الله علیه و سلم یَصُومُ تِسْعَ ذِی الحِجَّةِ وَیَومَ عَاشُورَاء” ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذوالحجہ کی 9 تاریخ اور عاشوراء (نو، دس محرم) کے روزے رکھا کرتے تھے.” (ابوداؤد :2437، نسائی :2372،2417، احمد: 22334،27376)

(3) اصل میں یوم عرفہ 9 ذو الحجہ کو کہتے ہیں۔ اس لئے جب بھی 9 ذوالحجہ آئے گی اسی دن روزہ رکھنا باعث فضیلت ہو گا۔ اگر ہم سعودی عرب کے ساتھ روزہ رکھیں گے تو اس دن تو ہماری 8 ذو الحجہ ہو گی۔ (پاکستان میں 9 ذو الحجہ اس سال (2022) ہفتے کو آ رہی ہے۔) اس جواب کے تفصیلی دلائل ملاحظہ فرمائیں:

یوم عرفہ کسے کہتے ہیں؟

بنایہ شرح ہدایہ میں ہے: ”وإنما سمي يوم عرفة؛ لأن جبريل -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – علم إبراهيم صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المناسك كلها يوم عرفة، فقال: أعرفت في أي موضع تطوف؟ وفي أي موضع تسعى؟ وفي أي موضع تقف؟ وفي أي موضع تنحر وترمي؟ فقال: عرفت؛ فسمي يوم عرفة’‘. ترجمہ: حضرت ابراہیم کو آٹھ(۸) ذی الحجہ کی رات خواب میں نظر آیا کہ وہ اپنے بیٹے کوذبح کر رہے ہیں، تو ان کو اس خواب کے اللہ تعالی کی طرف سے ہونے یا نہ ہونےمیں کچھ تردد ہوا، پھرنو(۹)ذی الحجہ کو دوبارہ یہی خواب نظرآیا تو ان کو یقین ہو گیا کہ یہ خواب اللہ تعالی کی طرف سےہی ہے، چوں کہ حضرت ابراہیم کویہ معرفت اور یقین نو (9) ذی الحجہ کو حاصل ہوا تھا، اسی وجہ سے نو(9) ذی الحجہ کو ’یومِ عرفہ‘ کہتے ہیں۔

(البناية شرح الهداية، 4 / 211)

اعتراض: 

ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب والے ایک دن پہلے روزہ رکھیں اور ان کو وہ فضیلت ملے اور ہم ایک دن بعد رکھیں تو ہمیں بھی وہی فضیلت ملے۔ فضیلت کا دن تو ایک ہی ہے لہذا وقت بھی ایک ہی ہونا چاہیے۔

جواب:

اس میں کوئی حیران ہونے والی بات نہیں ہے۔ ہم روزہ بھی تو ایک دن بعد ہی رکھتے ہیں (یعنی ان پر ایک دن پہلے روزہ فرض ہوا اور ہم پر ایک دن بعد)، اسی طرح ہم عید بھی ایک دن بعد کرتے ہیں اور ساری فضیلتیں حاصل ہو جاتی ہیں۔ پھر فرض کریں اگر ہم ”یوم عرفہ“ کا روزہ ایک ہی دن رکھ لیں تو بھی سعودی عرب اور پاکستان کے وقت میں دو گھنٹوں کا فرق ہے۔ اس صورت میں بھی وہاں روزے کی فضیلت دو گھنٹے پہلے شروع ہو جائے گی اور یہاں دو گھنٹے بعد(یعنی ایک دن کرنے کے باوجود بھی بات تو وہیں رہی)۔ اصل بات یہ ہے کہ ثواب اور فضیلت کا دار و مدار اللہ تعالی کی ذات پر ہے تو جس ذات  نے چاند میں یہ اختلاف پیدا فرمایا ہے، وہ ذات اس بات پر بھی قادر ہے کہ جو فضیلت ایک دن پہلے سعودی عرب والوں کو عطا فرمائی تھی وہی فضیلت و ثواب مجھے اپنے نبی و محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان پر عمل کرنے کے باعث ایک دن بعد روزہ رکھنے پر عطا فرما دے۔ اور یہی اس کا حکم بھی ہے۔

و اللہ و رسولہ اعلم بالصواب

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button