استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہوائی سفر کے لئے جمع بین الصلاتین جائز ہے یا نہیں ، سنا ہے کچھ حنفی علماء نے علانیہ باجماعت ایسا کیا ہے ، کیا ان کا فعل جواز کی دلیل بن سکتا ہے ؟
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : اللہ تعالیٰ نے ہر نماز کا ایک وقت مقرر کر دیا ہے ، چنانچہ ارشاد ہے :
{إِنَّ الصَّلوٰۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا
مَّوْقُوْتًا}الاٰیۃ (144)
ترجمہ : بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے ۔ (کنزالایمان) تو لازم ہے کہ اس کی اوقات کی رعایت کی جائے ۔ (خزائن العرفان) اور حدیث شریف ہے :
عن عبداللہ قال ’’مَا رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ جَمَعَ بَیْنَ صَلَاتَیْنِ اِلاَّ بَجَمْعٍ وَ صَلّٰی الصُّبْحَ یَوْمَئِذٍ قَبْلَ وَقْتِہَا‘‘ و اللفظ للنسائی، راوہ البخاری فی الحج، باب متی یصلّی الفجر بجمع (برقم : 1682)، مسلم فی الحج، باب إستحباب زیادۃ التغلیس بصلاۃ الصبح یوم النحر (برقم : 1289)و أبو داؤد فی المناسک، باب الصلاۃ بجمع (برقم : 1934)، و النسائی فی المواقیت، باب الجمع بین المغرب و العشاء بمزدلفۃ (برقم : 654)، و أحمد فی ’’مسندہ‘‘ 1/384
یعنی،حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ا کو دو نمازیں ایک ساتھ جمع کرتے ہوئے نہیں دیکھا مگر مزدلفہ میں ، اور اس دن صبح کی نماز اس کے وقت سے پہلے ادا کی(145)۔ یہ الفاظ سنن نسائی کے ہیں ، اس حدیث کو امام بخاری نے حج کے بیان میں ، امام مسلم نے حج کے بیان میں ، ابو داؤد نے مناسک کے ذکر میں ، نسائی نے مواقیت کے بیان میں اور امام احمد نے اپنی ’’مسند‘‘ (1/384) میں روایت کیا ہے ۔ اور علامہ ابو الحسنات عبدالحی لکھنوی لکھتے ہیں :
أما عدم جواز الجمع فی غیر ذلک فلحدیث : ’’لَیْسَ فِی النَّوْمِ التَّفْرِیْطَ إِنَّمَا التَّفْرِیْطُ فِی الْیَقْظَۃِ أَنْ یُّؤَخِّرَ الصَّلَاۃَ حَتّٰی یَجِیَٔ وَقْتُ الْأُخْرٰی‘‘ أخرجہ مسلم وغیرہ ، و لحدیث : ’’مَنْ جَمَعَ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ فَقَدْ أَتٰی بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْکَبَائِرِ‘‘ أخرجہ الحاکم و الترمذی لکن فی سندہ ضعیف جداً (146)
یعنی، مگر نماز کو اس کے وقت کے غیر میں جمع کرنے کا عدمِ جواز تو اس حدیث کی بنا پر ہے کہ تفریط نیند میں نہیں ہے وہ تو جاگنے میں ہے کہ نمازکو مؤخر کر دے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت آ جائے ، اسے مسلم وغیرہ نے تخریج کیا اور اس حدیث کی بنا پر ہے : ’’جس نے دو نمازوں کو بلا عذر جمع کیا تووہ کبائر کے ابواب کو آیا‘‘ اسے امام حاکم اور ترمذی نے تخریج کیا لیکن اس کی سند میں ایک راوی بہت ضعیف ہے ۔ حنفیہ کے نزدیک جمع بین الصلاتین بہر صورت ناجائز ہے ، چنانچہ تاج الشریعہ محمود بن صدر الشریعہ احمد بن جمال الدین عبیداللہ المحبوبی لکھتے ہیں :
و لا یجمع فرضان فی وقت بلا حج (147)
یعنی، دو نمازوں کو ایک وقت میں بغیر حج (یعنی عرفات و مزدلفہ) کے جمع نہ کیا جائے ۔ اور علامہ عبداللہ بن محمود موصلی حنفی متوفی 683ھ لکھتے ہیں :
و لا یُجمع بین صلاتین فی وقت واحدٍ فی حضرو لا سفر إلا بعرفۃ و المزدلفۃ (148)
یعنی، دو نمازوں کو ایک وقت میں نہ حضر میں اور نہ ہی سفر میں جمع کیا جائے گا سوائے عرفات اور مزدلفہ کے ۔ اور امام مظفرالدین احمد بن علی بن ثعلب ابن الساعاتی متوفی 694ھ لکھتے ہیں :
لا نجمع لسفر أو مطر (149)
یعنی، ہم نمازوں میں جمع نہیں کریں گے سفر اور بارش کی وجہ سے ۔ اس کے تحت شارح ابن ملک لکھتے ہیں :
یعنی الجمع بین الظہر و العصر، بین صلاتی المغرب و العشاء لعذر سفر أو مطر غیر جائز عندنا خلافاً للشافعی
یعنی، ہمارے نزدیک ظہر اور عصر میں اور مغرب و عشاء میں عذرِ سفر یا عذرِ بارش کی وجہ سے جمع کرنا ناجائز ہے بر خلاف امام شافعی کے ۔ اور علامہ ابو البرکات عبداللہ بن احمد بن محمود نسفی حنفی متوفی 710 ھ لکھتے ہیں :
عن الجمع بین الصلاتین فی وقت واحد بعذر (150)
یعنی، منع کیا گیا ہے دو نمازوں کو کسی عذر کے سبب ایک وقت میں جمع کرنے سے ۔ اور علامہ حسن بن منصور اوزجندی حنفی متوفی 592ھ لکھتے ہیں :
و لا یجوز الجمع بین الصلاتین فی وقت واحد بعذر عندنا إلا صلاۃ الظہر و العصر بعرفۃ، و المغرب و العشاء بمزدلفۃ الخ (151)
یعنی، ہمارے نزدیک دو نمازوں کو ایک وقت میں کسی بھی عذر کی بنا پر جمع کرنا جائز نہیں سوائے نماز ظہر اور عصر کے عرفات میں اور نمازِ مغرب اور عشاء مزدلفہ میں ۔ اور قاضی محمد بن فراموز الشہیر بملا خسرو حنفی متوفی 885 ھ لکھتے ہیں :
و لا یجمع فرضان فی وقت العذر بل بحج (152)
یعنی، دو فرضوں کو کسی عذر کے باعث ایک وقت میں جمع نہ کیا جائے گا بلکہ حج (عرفات و مزدلفہ) میں (جمع کیا جائے گا) کیونکہ جمع کرنے سے وقت میں تغیر ہو گا، چنانچہ علامہ موصلی حنفی لکھتے ہیں :
و فی الجمع تغییر الوقت (153)
یعنی، اور جمع کرنے میں وقت کی تغییر ہے ۔ اگر ایک فرض کو مقدم کیا تو وہ فاسد ہو گا اور اگر مؤخر کیا تو ایسا کرنا حرام ہے ، اگرچہ بطور قضاء ، وہ صحیح ہو جائے گا، چنانچہ علامہ شمس الدین تمرتاشی لکھتے ہیں :
و لا جمع بین فرضین فی وقت بعذر فإن جمع فسد لو قدم و حرم لو عکس و إن صح إلا لحاج بعرفۃ و مزدلفۃ (154)
یعنی، دو فرضوں میں کسی عذر کے سبب ایک وقت میں جمع نہیں ، پس اگر جمع کیا تو فاسد ہے اگر مقدم کیا اور حرام ہے اگر اس کا عکس کیا ، اگرچہ صحیح ہو جائے گی سوائے حاجیوں کے عرفات اور مزدلفہ میں ۔ اور محذوم عبدالواحد سیوستانی حنفی متوفی 1224ھ لکھتے ہیں :
فإن جمع فسد لو قدم الفرض علی الوقت و حرم لو عکس أی آخرہ عنہ وإن صح بطریق القضاء إلا الحاجّ بعرفۃ و مزدلفۃ کما سیجیٔ (155)
یعنی، پس اگر (دو فرض کو ایک وقت میں ) جمع کیا تو (اور ایک فرض نماز کو اپنے وقت پر ) مقدم کیا تو وہ نماز فاسد ہو جائے گی ( جسے مقدم کیا) اور اگر اس کا عکس کیا یعنی ایک فرض کو اپنے وقت سے مؤخر کیا تو ایسا کرنا حرام ہے اگرچہ اس کا وہ فرض (جسے مؤخر کیا) بطریق قضاء درست ہو جائے سوائے حاجیوں کے عرفات اور مزدلفہ میں (جمع کرنے کے ) جیسا کہ عنقریب آئے گا۔ اور امام شافعی کے ہاں جمع بین الصلاتین جائز ہے اور ان کے نزدیک جواز کی دلیل ایک حدیث شریف ہے اور فقہاء کرام نے فرمایا جسے امام شافعی نے بطور دلیل پیش کیا وہ جمع فعلی پر محمول ہے نہ کہ جمع وقتی پر ، چنانچہ مخدوم عبدالواحد سیوستانی حنفی متوفی 1224ھ نے اپنے فتاویٰ میں لکھا کہ :
لا جمع بین فرضین فی وقت بعذر سفر و مطر خلافا للشافعی، و مارواہ محمول علی الجمع فعلاً لا وقتاً (156)
یعنی، دو فرضوں کو سفر اور بارش کے عذر سے ایک وقت میں جمع کرنا (جائز ) نہیں ، برخلاف امام شافعی کے ، اور جیسے انہوں نے روایت کیا ہے وہ فعلاً جمع پر محمول ہے نہ کہ وقتاً جمع پر۔ (یعنی ایک وقت میں جمع کرنے پر) اس لئے ہمارے فقہاء کرام نے فعلاً جمع کے جواز کی تصریح کی ہے ، چنانچہ علامہ عبداللہ بن محمود موصلی حنفی لکھتے ہیں :
و یجوز الجمع فعلا ً و لا وقتاً، وہو تفسیر ما روی : ’’أَنَّہٗ ﷺ جَمَعَ بَیْنَ الصَّلاَتَیْنِ‘‘ (157)
یعنی، فعلاً جمع جائز ہے نہ کہ وقتاً۔یہی اُس حدیث شریف کی تفسیر ہے کہ جس میں ہے کہ حضورﷺنے دو نمازوں کوجمع فرمایا۔ اور جمع فعلی کسے کہتے ہیں ، اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ موصلی حنفی لکھتے ہیں :
وتفسیرہ : أنہ یؤخّر الظہر إلی آخر وقتہا، و یقدّم العصر فی أول وقتہا (158)
یعنی، فعلاً جمع کی تفسیر یہ ہے کہ وہ ظہر کو اس کے آخر وقت تک مؤخر کرے اور عصر کو اس کے اول وقت میں مقدم کرے ۔ ہاں ہمارے فقہاء کرام نے بوقت ضرورت امام شافعی کے مذہب کی تقلید کی اجازت دی ہے چنانچہ علامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی 1088 ھ لکھتے ہیں :
و لا بأس بالتقلید عند الضرورۃ لکن بشرط أن یلتزم جمیع ما یوجبہ ذلک الإمام (159)
یعنی، بوقت ضرورت تقلید کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن شرط یہ ہے ان تمام شرائط کا التزام کرے جسے امام (یعنی امام شافعی) نے واجب کیا ہے ۔ اور مخدوم عبدالواحد سیوستانی متوفی 1224ھ نقل کرتے ہیں :
و لا بأس بالتقلید عند الضرورۃ لکن یشترط أن یلتزم جمیع ما یوجبہ ذلک الإمام (160)
یعنی، اور بوقتِ ضرورت (مذہب غیر کی ) تقلید کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اس تمام کا التزام کرے جسے اس امام نے واجب کیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسی شرائط ہیں جسے امام شافعی نے واجب کیا ہے ، چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین متوفی 1252ھ اس کی شرح میں لکھتے ہیں :
فقد شرط الشافعی لجمع التقدیم ثلاثۃ شروط : تقدیم الأولیٰ، نیۃ الجمع قبل الفراغ منہا، و عدم الفصل بینہما بما یعد فاصلاً عرفاً، و لم یشترط فی جمع التأخیر سوی نیۃ الجمع قبل خروج الأولٰی، ’’نہر‘‘ و یشترط أیضاً أن یقرأ الفاتحۃ فی الصلاۃ و لو مقتدیاً، و أن یعید الوضوء من حسّ فرجہ أو أجنبیّۃً و غیر ذلک من الشروط و الأرکان المتعلقۃ بذلک الفعل (161)
یعنی، جمع تقدیم کے لئے امام شافعی کی تین شرائط ہیں : پہلی کو مقدم کرے ، اس میں جمع کی نیت کرنا اس سے (یعنی پہلی سے ) فارغ ہونے سے قبل، اور ان دونوں کے درمیان ایسے فعل سے فصل نہ کرنا جس فعل کو عُرف میں فاصل شمار کیا جاتا ہے ، اور جمع تأخیر میں کوئی شرط نہیں سوائے پہلی نماز سے فارغ ہونے سے قبل دوسری کی نیت کرنے کے ، نہر۔ اور یہ بھی شرط کیا گیا نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھے اگرچہ مقتدی ہو، اور یہ کہ جو شخص شرمگاہ کو چُھو لے یا کسی اجنبیہ عورت کو چُھو لے وہ وضو دوبارہ کرے اور اس کے علاوہ اور شروط اور ارکان جو اس فعل سے متعلق ہیں ۔ اور مخدوم عبدالواحد سیوستانی متوفی 1224ھ لکھتے ہیں :
قالوا شروط التقدیم ثلاثۃ البدایۃ بالأولٰی و نیۃ الجمع بینہما و محل ہذہ النیۃ عند التحریم أعنی فی الأولٰی و یجوز فی إثنائہا علی الأظہر و لو نویٰ مع السلام منہا جاز علی الأصح و الموالاۃ بأن لا یطول بینہما فصل فإن طال وجب تأخیر الثانیۃ إلی وقتہا الخ ’’بحر‘‘۔ و یجوز بشرط العذر و الترتیب و منہ الجمع و المواصلۃ بینہما و أن لا یتنفل بینہما بنفل و لا غیرہ إلا أن یقیم لہا فإنہ جائز الخ فتاوی وزیری۔ فالحاصل أن الجمع بعذر المطر عند الضرورۃ و أن کان لا بأس فیہ بتقلید الإمام الشافعی لٰکنّہ مشروط بإلتزام شرائط الجمع (162)
یعنی، انہوں نے کہا کہ تقدیم کی شرطیں تین ہیں (1) پہلی نماز سے شروع کرنا، (2) اور ان دونوں میں جمع کی نیت کرنااور اس کی نیت کا محل تحریمہ کے وقت ہے ، میری مراد ہے کہ پہلی نماز میں تحریمہ کے وقت جمع کی نیت کرنا۔ اور دورانِ نماز جمع کی نیت کرنا اظہر قول کے مطابق جائز ہے اور اگر (پہلے فرض کے ) سلام کے وقت (جمع کی) نیت کی تو اصح قول کے مطابق جائز ہے ۔ (3) اورموالات (یعنی پے در پے کرنا) اس طرح کہ ان دونوں کے مابین طویل فصل نہ کرے اور اگر فصل کو طویل کیا تو دوسرے فرض کی تاخیر اس کے وقت تک کرنا ہو گی(یعنی پھر اُسے اپنے وقت میں ہی پڑھنا ہو گا) الخ، ’’بحر‘‘۔ اور بشرط عذر جائز ہے ، اور ترتیب ہے (یعنی ترتیب سے پڑھے کہ پہلی کو پہلے دوسری کو بعد میں ادا کرے ) اور اسی سے ان دونوں کے مابین جمع اور مواصلت ہے اور وہ یہ کہ ان دونوں کے مابین نفل وغیرہ نہ پڑھے مگر یہ کہ اس کے لئے اقامت ہو جائے تو جائز ہے الخ ’’فتاویٰ وزیری‘‘۔ تو حاصل کلام یہ ہے کہ جمع بعذرِ بارش عند الضرورت ہے ، اور اگر عذر ہو تو اس میں امام شافعی کی تقلید کرنے میں حرج نہیں لیکن وہ (جواز)جمع کی شرائط کا التزام کرنے کے ساتھ مشروط ہے ۔ لیکن ہمارے فقہاء کرام کے مُتون کا اطلاق جمع بین الصلاتین کے عدم جواز پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں مُتون کی عبارات سے واضح ہے اور مُتون کا اطلاق ہی راجح ہوتا ہے ، چنانچہ مخدوم سیوستانی حنفی متوفی 1224ھ لکھتے ہیں :
ثم لا یخفٰی أن إطلاق متن الکنز و التنویر و غیرہما یأبی عن جواز الجمع مطلقاً سواء کان بتقلید و غیرہ و صرّحوا بترجیح إطلاق المتون فعلٰی ہذا لا یجوز الجمع فی المطر أصلاً و لو عند الضرورۃ و التقلید و رعایتہ الشروط۔ واللہ أعلم (164)
یعنی، پھر یہ مخفی نہیں کہ ’’کنزالدقائق ‘‘اور ’’تنوبیر الأبصار‘‘ کے متن کا اطلاق جمع بین الصلاتین کے جواز کا مطلقاً انکار کرتا ہے چاہے (کسی امام کی) تقلید کرتے ہوئے ہو یا تقلید کرتے ہوئے نہ ہو۔ اور فقہاء کرام نے اطلاقِ مُتون کی ترجیح کی صراحت کی ہے تو اس بناء پر بارش میں اصلاً جمع بین الصلاتین جائز نہیں اگرچہ بوقت ضرورت ہو اور (امام شافعی کی) تقلید میں ہو اور شروطِ جمع کی رعایت کرتے ہوئے ہو۔ یہ تو تھا عند الضرورت کاحکم، اب ہوائی جہاز میں جب علماء کرام نے فرض نماز کے جواز کا فتویٰ دیا ہے تو اس سفر کے لئے جمع تقدیم ہویا تاخیر ہو، جمع کی اصلاً کوئی ضرورت ہی نہ رہی۔ لہٰذا جن حنفی علماء کے نزدیک بوقت ضرورت امام شافعی کی تقلید کرتے ہوئے جمع بین الصلاتین جائز ہے ان کے نزدیک بھی یہاں جمع بین الصلاتین جائز نہیں کیونکہ ضرورت نہیں ہے اور خود شافعی المذہب کے حق میں بھی ہوائی سفر کے لئے جمع بین الصلاتین جائز نہیں کیونکہ ان کے ہاں جواز دیگر شرائط کی طرح شرطِ ضرورت کے ساتھ مقید ہے اور یہاں ضرورت ہی نہیں ۔ لہٰذا ان علماء کا فعل جواز کی دلیل نہیں ہے ۔ اور اگر ضرورت ہو اور حنفی جمع بین الصلاتین کرے تو اُسے امام شافعی کے نزدیک جمع بین الصلاتین کی جو شرطیں ہیں ان کی رعایت کرنا لازم ہو گا۔ اور علماء کرام اگر علی الاعلان اپنے مذہب کے خلاف پر عمل کریں تو ان پر لازم ہے کہ ان کے ساتھ نماز پڑھنے والے حنفی عوام المسلمین کو اس بارے میں بتائیں کہ ہمارے مذہب میں ایسا کرنا جائز نہیں ، صرف امام شافعی کے مذہب میں اس کی اجازت ہے اور ضرورت شرعی کے پائے جانے کے وقت دوسرے امام کے مذہب پر عمل کرنے کی ہمارے فقہاء نے اجازت دی ہے اور ضرورت ایسی ہو جسے شرع مطہرہ میں ضرورت قرار دیا جا سکے جیسے یہاں ضرورت یہ ہے کہ اگر ہم جمع بین الصلاتین نہیں کرتے تو نماز فوت ہو جائے گی۔ تاکہ عوام اسے امام اعظم رضی اللہ عنہ کا مذہب نہ سمجھ لیں اور ان کے اندر ہمارے امام کی تقلید غیر ضروری ہونے کی سوچ پیدا نہ ہو جائے اور وہ محض اپنی آسانی اور سہولت کے لئے دیگر ائمہ کرام کے مذہب پر عمل کرنے لگ جائیں ۔ یا وہ تقلید کو غیر ضروری سمجھنے نہ لگ جائیں ۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الخمیس، 15ذی القعدۃ1427ھ، 7 دیسمبر 2006 م (273-F)
حوالہ جات
144۔ النساء : 4/103
145۔ نمازاُس کے مستحب وقت سے قبل یا پہلے ادا فرمائی۔
146۔ عمدۃ الرعایۃ فی حل شرح الوقایۃ،کتاب الصلاۃ، أوقات الصلاۃ، تحت قولہ : بلا حجّ، 2/28
147۔ مختصر الروایۃ مع شرحہ شرح الوقایۃ، أوقات الصلاۃ، 2/27
148۔ المختار الفتوی، کتاب الصلاۃ، فصل : فی الأوقات المنہی عن الصلاۃ فیھا، ص36
149۔ مجمع البحرین و ملتقی النیّرین، کتاب الصلاۃ ، ص107
150۔ کنز الدقائق ، کتاب الصلاۃ، ،ص 155
151۔ فتاویٰ قاضیخان، علی ہامش الفتاوی الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، باب الأذان، 1/75
152۔ غرر الأحکام، کتاب الصلاۃ، 1/54
153۔ کتاب الإختیار لتعلیل المختار، کتاب الصلاۃ، فصل : أحکام سجود التلاوۃ…إلخ، تحت قولہ : ولا یجمع بین صلاتین…إلخ، 1/57
154۔ تنویر الأبصار، کتاب الصّلاۃ، قبل باب الأذان، ص55
155۔ فتاویٰ واحدی،کتاب الصلاۃ،فائدۃ، 1/80
156۔ فتاویٰ واحدی، کتاب الصلاۃ وما یکرہ فیھا،1/80
157۔ کتاب الإختیار لتعلیل المختار، کتاب الصلاۃ، فصل : أحکام سجود التلاوۃ…إلخ، تحت قولہ : ولا یجمع بین صلاتین…إلخ، 1/57
158۔ کتاب الإختیار لتعلیل المختار، کتاب الصلاۃ، فصل : أحکام سجود التلاوۃ…إلخ، تحت قولہ : ولا یجمع بین صلاتین…إلخ، 1/57
159۔ تنویر الأبصار، کتاب الصّلاۃ، قبل باب الأذان، ص55
160۔ فتاویٰ واحدی، کتاب الصلاۃ وما یکرہ فیھا، 1/80
161۔ رد المحتار، کتاب الصّلاۃ، مطلب : فی الصّلاۃ فی الأرض…إلخ، تحت قولہ : لکن یشرط …إلخ، 2/58
162۔ فتاویٰ واحدی،کتاب الصلاۃ وما یکرہ فیھا،فائدۃ، 1/80
164۔ فتاویٰ واحدی،کتاب الصلاۃ وما یکرہ فیھا، 1/80