سوال:
ایک شخص ہندو مسلم سب سے سود لیتا ہے، نوٹ دے کر روپیہ یا روپیہ دے کر نوٹ لیتا ہے، سند یہ لاتا ہے کہ جناب مولوی احمد رضا خاں صاحب نے جائز رکھا ہے ۔ اگر جائز ہے تو آیت قرآنی کا کیا مطلب؟
جواب:
سود بنص قطعی قرآنی حرام ہے۔ کسی سے حلال نہیں، نہ مسلم سے نہ کافر سے، نہ دارالاسلام میں نہ دارالحرب میں ، جو سود نہیں وہ کسی سے حرام نہیں کہیں حرام نہیں ۔ خنزیر دارالاسلام میں ہی حرام نہیں کہ دارالحرب میں جا کر اس کا کھانا جائز ہو ، دارالاسلام میں آ کر حرام ہو جائے۔ یوں ہی بکری جب حلال ہے تو اس کا گوشت اگر سوئر کا بچہ سمجھ کر کھائے ، تو حرام گوشت نہ کھائے گا حلال ہی کھائے گا۔ ہاں حرام سمجھ کر کھائے گا گناہ ہو گا۔ یہ بات اور ہے۔ گورنمنٹ سے جو روپیہ زائد ملتا ہے سود نہیں کہ سود ہونے کے لئے مال معصوم ہونا ضروری ہے۔ اور مال حربی معصوم نہیں ، جب گورنمنٹ ایک رقم اپنی رضا سے خود زائد دیتی ہے اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں ، کہ وہ سود نہیں مگر سود سمجھ کر لینا ضرور گناہ ہو گا، اس سمجھنے سے وہ سود نہ ہو جائے گا ۔ جو زائد مال اخذ کیا مال حلال ہے، مگر حرام سمجھ کر لیا اس کا گناہ ہوا، اگر اسے سود جانتا ہے اور لیتا ہے تو گنہگار ہے۔
زکاۃ نہیں دیتا سخت شدید گناہ کا مرتکب، فرض کا تارک مستحق عذاب شدید مدید ہے۔ اس پر فرض ہے کہ توبہ کرے اور حساب کر کے جس قدر زکاۃ کا روپیہ اب تک اس پر دینا فرض ہو چکا ہے سب دے۔ اور اگر اس وقت سب ادا کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو تو جتنا ادا کر سکے کرے باقی پھر حسب مقدرت ادا کرتا رہے، اور جو واجب ہوتا جائے اسے بھی ۔
قرض دے کر اس پر نفع لینا نرا سود ہے۔ چاہے نوٹ دے کر روپیہ یا روپیہ دے کر نوٹ۔ وہ اس کے جواز کا اعلی حضرت قدس سرہ پر افترا کرتا ہے۔ ہرگز انہوں نے اس کے جواز کا فتوی نہ دیا، ان کے فتاوی میں ایک دو نہیں بہت فتوے ایسے ملیں گے جس میں یہی فرمایا : کہ قرض پر نفع لینا حرام اور سود ہے، دس کا نوٹ بارہ یا کم و بیش کو بیچنا اسے حلال بتایاہے۔ تو بیع کو حلال فرمایا ہے نہ کہ سود کو۔
سود کسی سے لینا جائز نہیں ۔ حربی کافر سے وہ معاملہ جو درمیان مسلم و مسلم یا مسلم و کافر ذمی سود ہوتا ، حربی سے سود نہیں ۔اور اس کی علت وہی عدم عصمت ۔
دارالحرب وہ جگہ جہاں کبھی مسلمانوں کا تسلط نہ ہوا یا پناہ بخدا تسلط ہوا پھر جاتا رہا اور وہاں بغلبہ کفار شعار اسلام قطعا مسدد ہو گئے۔
(فتاوی مفتی اعظم، جلد 5 ، صفحہ 57 تا 60، شبیر برادرز لاہور)