سوال:
حاجی یار محمد نے اپنے کل حقوق وجائیداد مکان اور وہ مکان وزمین موروثی جس کے نصف حصہ کے مالک ہیں ، اپنے حین حیات میں موجودہ پسران ولی محمد اور حبیب اللہ اور دونوں پوتے ،عظیم اللہ اور مطیع اللہ کو ہبہ کامل کر کے مالک وقابض کردیا ہے احتیاطا ہبہ نامہ بھی عدالت سرکار میں رجسٹری کرادیا جس کا مضمون یہ ہے کہ مکان معہ زمین وعمارت وتمامی حقوق ومرافق متعلقہ مکان مذکور بحق ولی محمد وحبیب اللہ اپنے پسران مذکور ونیز بحق عظیم اللہ ومطیع اللہ پسران نابالغان خان محمد متوفی کو ہبہ کرتا ہوں اس تصریح سے کہ ولی محمد وحبیب اللہ مذکورین ایک ایک سیومی وعظیم اللہ ومطیع اللہ مذکورین ایک سیومی حصہ میں دونوں نصف نصف کے مالک وحقدار ہیں۔ایسا ہی دیگر مکان کا ہبہ کیا تو سوال یہ ہے کہ یہ ہبہ نامہ درست ہے یا نہیں ؟اور پوتوں کو روزگار واثاث البیت سے حصہ ملے گا یا نہیں ؟
جواب:
ہبہ نامہ کی عبارت مجمل ہے ۔حاجی یار محمد نے اپنے دونوں مکان اپنے دونوں بیٹوں اور دونوں پوتوں کوہبہ کئے۔اس کی دوصورتیں ہیں ۔آیا ہر ایک کا حصہ متعین وممتاز کر کے ہبہ کی اور قبضہ دیا یابغیر تقسیم وتعیین ایک ایک ثلث والی محمد وحبیب اللہ کو اور ایک ثلث عظیم اللہ ومطیع اللہ کو ہبہ کیا ۔اگر پہلی صورت ہے تو تقسیم کر کے قابض کردیا تو جب تو یہ ہبہ صحیح وتام ونافذ اور اگر دوسری صورت ہے تو یہ ہبہ تام و نافذ نہ ہوا کہ وقت عقد شیوع پایا گیا اور ایسا شیوع مانع تمامیت ہبہ ہے بلکہ موہوب لہم میں بعض نابالغ اور بعض بالغ ہیں لہذا یہ ہبہ صاحبین کے نزدیک بھی درست نہ ہوگا ۔
(فتاوی امجدیہ،کتاب الہبہ،جلد3،صفحہ 268-267،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)