ARTICLES

گیارہ اور بارہ ذوالحجہ کی رمی

استفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ گیارہ اور بارہ کی رمی نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم ﷺ نے کس طرح کی، کیا اس کے بارے میں کوئی حدیث شریف موجود ہے ؟

(السائل : محمد جنید بن عبد الرحیم لبیک حج اینڈ عمرہ سروسز)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : گیارہ اور بارہ کی رمی کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت ’’صحیح البخاری‘‘ میں موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ

عن سالم، عن ابن عمر انہ کان یرمی جمرۃ الدنیا بسبع حصیات یکبر علی اثر کل حصاۃ، ثم یتقدم حتی یسہل فیقوم مستقبل القبلۃ فیقوم طویلا و یدعو و یرفع یدیہ ثم یرمی الوسطی ثم یاخذ ذات الشمال فیسہل و یقوم مستقبل القبلۃ، فیقوم طویلا ویدعو و یرفع یدیہ و یقوم طویلا، ثم یرمی جمرۃ ذات العقبۃ من بطن الوادی، و لا یقف عندہا، ثم ینصرف، فیقول ہکذا رایت النبی علیہ الصلوۃ و السلام ﷺ یفعلہ (143)

یعنی، سالم روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہما) گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کو رمی جمرہ دنیا (یعنی پہلے جمرے ) سے شروع کرتے تھے یعنی جو جمرہ مسجد خیف سے قریب ہے ، ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر کنکری پھینکتے تھے ، بعد سات کنکریوں کے کچھ اگے بڑھ کر نرم زمین پر قبلہ رو ہو کر بہت دیر تک کھڑے رہتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ، پھر جمرہ وسطیٰ پر سات کنکریاں پھینکتے اور ہر کنکریاں پھینکتے ہوئے تکبیر کہتے ، پھر بائیں طرف ہٹ کر نرم زمین پر کھڑے ہو جاتے اور قبلہ رخ ہاتھ اٹھا کر دیر تک دعا مانگتے ، پھر جمرہ ذات عقبہ پر سات کنکریاں پھینکتے ، تکبیر ہر کنکری پھینکنے میں کہتے اور اس کے پاس ٹھہرتے نہ تھے ، منیٰ واپس ا جاتے اور کہا کرتے تھے کہ میں نے ایسا ہی عمل کرتے ہوئے نبی علیہ الصلوۃ و السلام ﷺ کو دیکھا ہے ۔ اور گیارہویں اور بارہویں تاریخ میں رمی نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم ﷺ نے زوال افتاب کے بعد یعنی ظہر کے وقت میں کی چنانچہ حدیث شریف میں ہے :

عن جابر قال رمی رسول اللٰہ ﷺ الجمرۃ یوم النحر ضحیً و رمی بعد یوم النحر اذا زالت الشمس (144)

یعنی، حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ دسویں تاریخ چاشت کے وقت رسول اللہ ﷺ نے رمی کا نسک ادا فرمایا اوریوم نحر کے بعد (یعنی گیارہ اور بارہ کو) زوال افتاب کے بعد رمی فرمائی۔ اور پہلے اور دوسرے جمرے بعد طویل قیام کیا، ذکر ہے جیسا کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں بھی ہے :

و یقف عند الاولیٰ و الثانیۃ فیطیل القیام و یتضرع الخ (145)

یعنی، پہلے اور دوسرے کے پاس حضور ﷺ نے قیام فرمایا، پس قیام کو طویل فرمایا اور (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ) اہ و زاری (کے ساتھ دعا) کی۔ اور پھر دوسرے جمرے کے پاس نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم ﷺ نے زیادہ وقت قیام کیا ،چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :

رایت رسول اللٰہ ﷺ وقف عند الجمرۃ الثانیۃ اطول مما وقف عند الجمرۃ الاولٰی (146)

یعنی، میں نے دیکھا رسول اللہ ﷺ دوسرے کے پاس پہلے کے پاس رکنے سے زیادہ ٹھہرے ۔ تو یہ قیام کتنا طویل ہونا چاہئے ، علماء کرام نے لکھا ہے یہ قیام سورہ بقرہ کی تلاوت یا پونے پارے کی تلاوت یا کم از کم بیس ایات کی تلاوت کی مقدار ہو کیونکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سورہ بقرہ کی تلاوت کی مقدار قیام مروی ہے ، چنانچہ امام ابو الولید محمد بن عبد اللہ بن احمد ارزقی متوفی 250ھ لکھتے ہیں : اور امام عز الدین بن جماعۃ کتانی متوفی 767ھ نے ’’سنن سعید بن منصور‘‘ کے حوالے سے نقل کیا :

قال ابن جریج قال لی عطائ و رایت ابن عمر (رضی اللہ عنہما) یقوم عند الجمرتین قدر ما کنت قارئا سورۃ البقرۃ و اللفظ للارزقی (147)

یعنی، مروی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما دونوں جمروں کے پاس سورہ بقرہ کی تلاوت کی مقدار قیام فرماتے ۔ اور امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی متوفی 458ھ نے وبرہ سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل نقل کیا ہے کہ اپ کا قیام سورہ بقرہ کی تلاوت کی مقدار تھا اور دوسری ابو مجلز سے ذکر کی جس میں اپ رضی اللہ عنہما کا قیام سورہ یوسف کی تلاوت کی مقدار ہے ۔ (148) اور امام شافعی سے بھی سورہ بقرہ کی تلاوت کی مقدار منقول ہے جیسا کہ ’’المسالک فی المناسک‘‘ (149) میں ہے ۔ اور علامہ رحمت اللہ سندھی اور ملا علی قاری لکھتے ہیں :

(و یمکث کذلک) ای علی ذلک الحال (قدر قراۃ سورۃ البقرۃ او ثلاثۃ احزاب) ای ثلاثۃ ارباعٍ من الجزئ (او عشرین ایۃ) یعنی و ہو اقل المراتب ، و اختارہ صاحب ’’الحاوی‘‘ و ’’المضمرات‘‘ (150)

یعنی، اس حال میں سورہ بقرہ کی تلاوت کی مقدار یا تین پاؤ یعنی سپارے کے چار پاؤ میں سے تین پاو تلاوت کی مقدار یا بیس ایات کی تلاوت کی مقدار ٹھہرے یعنی یہ سب سے کم مرتبہ ہے اور اسے صاحب ’’الحاوی‘‘ اور
’’المضمرات‘‘ نے اختیار کیا ہے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :

باید کہ فرصت نماید درین مقام باشتغال ادعیہ و اذکار مدتے طویلہ کہ تقریر کردہ اند ان را بعضے مشائخ بمقدار قراء ۃ سورۃ البقرۃ، و بعضے دیگر بمقدار قراء ۃ سہ حزب و مراد از حزب ایشان ربع جزء واحد از جزاء ثلاثین است و بعضے دیگر بمقدار قراء ۃ بیست ایت (151)

یعنی، چاہئے کہ اس مقام پر دعاؤں اور اذکار میں طویل وقت مشغول رہے جس کا اندازہ بعض مشائخ نے سورہ بقرہ کی تلاوت کی مقدار کے ساتھ اور بعض نے تین پاو کی تلاوت کی مقدار کے ساتھ اور بعض نے بیس ایات کی تلاوت کی مقدار کے ساتھ کیا ہے اور یہ سب سے کم مقدار ہے ، یہی افضل ہے ۔ اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :

(قدر قراء ۃ البقرۃ) او ثلاثۃ احزاب، ای : ثلاثۃ ارباع من الجزء او عشرین ایۃ قال شارحہ : و ہو اقل المراتب و اختارہ صاحب الحاوی و المضمرات (152)

یعنی، سورہ بقرہ کی تلاوت یا تین پاؤ کی تلاوت یا بیس ایات کی تلاوت کی مقدار اور شارح نے کہا کہ یہی کم ازکم مرتبہ ہے ۔اور صاحب حاوی اور مضمرات نے اسی کو اختیار کیا ہے ۔ بہر حال وہ اس جگہ بیس ایات کی تلاوت کی مقدار کھڑاہو اور اسی مقدار کو افضل قرار دیا گیا ہے ۔ اب یہ بات کہ وہاں کھڑا ہو کر کیا کرے اس کا تذکرہ حدیث شریف میں ان کلمات سے ایا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے :

یدعوا و یرفع یدیہ (153)

یعنی، ہاتھ اٹھا کر دعا کرے ۔ اور ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :

یرمی الجمرۃ اذا زالت الشمس کل جمرۃٍ بسبع حصباتٍ یکبر مع کل حصاۃً و یقف عند الاولٰی و الثانیۃ فیطیل القیام و یتضرع و یرمی الثالثۃ و لا یقف عندہا (154)

یعنی، نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم ﷺ جمرہ کی رمی اس وقت فرماتے جب سورج ڈھل جاتا ہر جمرے کو سات کنکریاں (مارتے ) ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہی اور پہلے اور دوسرے جمرے کے پاس ٹھہرنے میں طویل قیام فرمایا، اہ و زاری کے ساتھ دعا فرمائی اور تیسری کی رمی فرمائی اور اس کے پاس نہ ٹھہرے ۔ اسی لئے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اس مقام پر خشوع و خضوع کے ساتھ استغفار کرے ، تسبیح و تہلیل اور تکبیر پڑھے اور حضور ﷺ کی بارگاہ میں درود شریف بھیجے اور اپنے لئے ، اپنے والدین، اساتذہ، مشائخ، عزیز و اقارب، اپنے جاننے والوں اور تمام مسلمانوں کے لئے دعا مانگے ، چنانچہ علامہ ابو منصور محمد بن مکرم کرمانی حنفی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :

و یدعو و یتضرع الی اللہ تعالی و یصلی علی النبی علیہ الصلوۃ و السلام ﷺ (155)

یعنی، دعا مانگے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں اہ و زاری کرے اور نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم ﷺ کی بارگاہ میں درود شریف بھیجے ۔ اور علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبد اللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :

فیحمد اللہ و یکبر و یہلل و یسبح و یصلی علی النبی علیہ الصلوۃ و السلام ﷺ، و یدعو و یرفع یدیہ کما للدعا بسطا مع حضورٍ و خشوعٍ و تضرعٍ و استغفارٍ… و یدعو و یستغفر لابویہ و اقاربہ و معارفہ و سائر المسلمین (156)

یعنی، پس اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرے تکبیر کہے ، تہلیل کہے ، تسبیح پڑھے اور دعا مانگے ہاتھوں کو بلند کرے جیسا کہ دعا کے لئے ، ہاتھ پھیلائے ، حضور قلب، خشوع، اور اہ و زاری اور استغفار کے ساتھ … اور دعا کرے اپنے والدین، عزیز و اقارب اور اپنے جاننے والوں اور تمام مسلمانوں کے لئے بخشش طلب کرے ۔ اور علامہ محمد بن عبد اللہ تمرتاشی حنفی متوفی 1004ھ لکھتے ہیں :

و وقف فحمد اللہ تعالی و اثنی علیہ و ہلل و کبر و صلی علی النبی علیہ الصلوۃ و السلام ﷺ (157)

یعنی، رک جائے پھر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرے ، تہلیل و تکبیر کہے اور نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم ﷺ پر درود شریف پڑھے ۔ اور علامہ علاو الدین حصکفی حنفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :

و وقف حامدا، مہللا، مکبرا، مصلیا قدر قراۃ البقرۃ (158)

یعنی، حمد کرتے ہوئے ، تہلیل وتکبیر کہتے ہوئے ، درود شریف پڑھتے ہوئے سورہ بقرہ کی تلاوت کی مقدار رکے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی حنفی لکھتے ہیں :

پس وقوف کند مستقبل قبلہ برائے دعا و رفع نماید یدین را تا برابر کتف خود و متوجہ سازد انہا را بسوئے اسمان چنانکہ سنت است در مطلق دعا و بگوید حمد وثنائے خدائے تعالی و تسبیح و تہلیل و تکبیر و صلاۃ فرستد بر پیغمبر ﷺ و دعا خواہد مع احضار القلب و الخشوع و التضرع و استغفار نماید برائی خود و برائی والدین و مشائخ و اقارب و معارف خود و برائی سائر مسلمین و گفت پیغمبر خدا ﷺ درین مقام کہ اللہم اغفر للحاج و لمن استغفر لہ الحاج (159)

یعنی، پس دعا کے لئے قبلہ رو ہو کر رکے ، ہاتھوں کو اپنے کندھوں کے برابر تک بلند کرے اور انہیں اسمان کی جانب متوجہ کرے (کہ دعا کا قبلہ اسمان ہے ) اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرے تسبیح و تہلیل و تکبیر کہے نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم ﷺ کی بارگاہ میں درود شریف بھیجے اور حضور قلب، خشوع، اہ و زاری کے ساتھ دعا کرے اپنے لئے ، اپنے والدین کے لئے ، مشائخ (یعنی استاد و پیر کے لئے ) اپنے عزیز و اقارب اوراپنے جاننے والوں کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے استغفار کرے اور نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم ﷺ نے اس پر مقام پر فرمایا :

اللٰہم اغفر للحاج و لمن استغفر لہ الحاج

(’’اے اللہ! حاجیوں کو بخش دے اور جس کے لئے وہ بخشش طلب کریں انہیں بخش دے ‘‘)۔ اور اس مقام پر علامہ کرمانی حنفی نے ایک دعا ذکر کی ہے وہ یہ ہے کہ کہے :

اللٰہم انی اعوذ بک من الشرک و الشک، والنفاق و الشقاق، و سوئ الاخلاق، و ضیق الصدر، و فتنۃ الدجال، و سوئ المنقلب، و سوئ المنظر فی الاہل و المال و الولد (160)

یعنی، اے اللہ! میں تیرے پناہ چاہتا ہوں (تیری ذات و صفات میں ) شرک سے اور (تیرے احکام میں ) شک سے اور نفاق و اختلاف اور برے اخلاق سے ، اورسینے کی تنگی، دجال کے فتنے سے ، برے انجام سے ، اہل، مال اور اولاد میں برے حال سے ۔ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبد اللہ متوفی 993ھ اور ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ خشوع، خضوع اور استغفار کا مطلب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

(مع حضورٍ) ای للقلب (و خشوعٍ) ای فی القالب لانہ علامۃ خضوع الباطن، (و تضرعٍ) ای اظہار ضراعۃٍ و مسکنۃٍ و حاجۃ (و استغفارٍ) ای طلب مغفرۃ و توفیق توبۃ (161)

یعنی، حضور قلب اور خشوع یعنی قالب میں کیونکہ یہ باطن میں خضوع کی علامت ہے اور تضرع یعنی اہ و زاری، مسکینی اور حاجت کے اظہار سے اور استغفار یعنی بخشش اور توبہ کی توفیق طلب کرتے ہوئے ۔

واللٰہ تعالی اعلم بالصواب

یوم الخمیس، 12 ذو الحجۃ 1434ھـ، 17 اکتوبر 2013 م 881-F

حوالہ جات

143۔ صحیح البخاری، کتاب الحج، باب اذا رمی الجمرتین یقوم …الخ، برقم : 1751، 1/430

144۔ سنن النسائی، کتاب مناسک الحج، باب وقت رمی جمرۃ العقبۃ یوم النحر، برقم : 3060، 5/277

145۔ سنن ابی داود، کتاب المناسک، باب فی رم الجمار، برقم : 1973

146۔ المسند للامام احمد، برقم : 6669، 2/630

147۔ اخبار مکۃ للارزقی، باب ما ذکر من النزول بمنی و این نزل النبی علیہ الصلوۃ و السلام ﷺ منہا، من این ترمی الجمرۃ؟ و ما یدعی عندہا و ما جاء فی ذلک، 2/179

ہدایۃ السالک، الباب الثانی عشر : فی الاعمال المشروعۃ یوم النحر و باقی الاعمال، فصل : فیما یفعل الحاج فی ایام منی و لیالیہا، 3/1201 و قال اخرجہ سعید بن منصور فی ’’سننہ‘‘

148۔ السنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الحج، باب الرجوع الی منی ایام التشریق و الرمی بہا الخ، برقم : 9667، 5/243

149۔ المسالک فی المناسک، القسم الثانی، فصل الرمی فی الیوم الثانی و الثالث، 1/596

150۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب رمی الجمار و احکامہ، فصل : صفۃ الرمی فی ہذہ الایام، ص341

151۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب دہم در بیان رمی جمار، فصل پنجم، ص219

152۔ رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، مطلب فی رمی الجمرات الثلاث، تحت قولہ قدر قراء ۃ البقرۃ، 3/618

153۔ صحیح البخاری، کتاب الحج، باب اذا رمی الجمرتین یقوم …الخ، برقم : 1751، 1/430

154۔ سنن ابی داود، کتاب المناسک، باب فی رم الجمار، برقم : 1973

155۔ المسالک فی المناسک، فصل فی الرمی یوم الثانی و الثالث، 1/596

156۔ لباب المناسک و عباب المسالک، باب رمی الجمار و احکامہ، فصل : فی صفۃ الرمی فی ہذہ الایام، ص162

157۔ منح الغفار شرح تنویر الابصار ، کتاب الحج، تحت قولہ : و وقف ، ق161/ا

158۔ الدر المختار، کتاب الحج، تحت قولہ : و وقف، ص163

159۔ حیات القلوب من زیارت المحبوب، باب دہم در بیان رمی جمار، فصل پنجم، در بیان کیفیت رمی جمار، ص219

160۔ المسالک فی المناسک، فصل : الرمی فی الیوم الثانی و الثالث، 1/596

161۔ المسلک المنقسط فی المنسک المتوسط، باب رمی الجمار و احکامہ، فصل : فی صفۃ الرمی فی ہذہ الایام، ص341

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button