گائے کی زکوۃ کے متعلق مسائل
ابودائود و ترمذی و نسائی و دارمی معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ جب حضور اقدس ﷺ نے ان کی یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو یہ فرمایا کہ ہر تیس (۳۰) گائے سے ایک تبیع یا تبیعہ لیں اور ہر چالیس (۴۰) میں ایک مسن یا مسنہ اور اسی کے مثل ابودائود کی دوسری روایت امیر المومنین مولی علی کرم اللہ وجہہ سے ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ کام کرنے والے جانور کی زکوۃ نہیں ۔
مسئلہ۱: تیس سے کم گائیں ہوں تو زکوۃ واجب نہیں اور جب تیس (۳۰) پوری ہوں تو ان کی زکوۃ ایک تبیع یعنی سال بھر کا بچھڑا یا تبیعہ یعنی سال بھر کی بچھیا ہے اور چالیس (۴۰) ہوں تو ایک مسن یعنی دو سال کا بچھڑا یا مسنہ یعنی دو سال کی بچھیا انسٹھ (۵۹) تک یہی حکم ہے پھر ساٹھ (۶۰) میں دو تبیع یا تبیعہ پھر ہر تیس (۳۰) میں ایک تبیع یا تبیعہ اور ہر چالیس (۴۰) میں ایک مسن یا مسنہ مثلاً ستر (۷۰) میں ایک تبیع یا تبیعہ ایک مسن اور اسی (۸۰) میں دومسن وعلی ہذا القیاس اور جس جگہ تیس (۳۰) اور چالیس (۴۰) دونوں ہو سکتے ہوں وہاں اختیار ہے کہ تبیع زکوۃ دیں یا مسن مثلاً ایک سو بیس (۱۲۰) میں اختیار ہے کہ چار تبیع دیں یا تین مسن۔ (عامہ کتب، درمختار ج ۲ ص ۲۴)
مسئلہ۲: بھینس گائے کے حکم میں ہے اور گائے بھینس دونوں ہوں تو زکوۃ میں ملا دی جائیں گی مثلاً بیس (۲۰) گائے ہیں اور دس (۱۰) بھینس تو زکوۃ واجب ہو گئی اور زکوۃ میں اس کا بچہ لیا جائے جو زیادہ ہو یعنی گائیں زیادہ ہوں تو گائے کا بچہ اور بھینس زیادہ ہوں تو بھینس کا اور اگر کوئی زیادہ نہ ہو تو زکوۃ میں وہ لیں جو اعلی سے کم ہو اور ادنی سے اچھا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۷۸)
مسئلہ۳: گائے بھینس کی زکوۃ میں اختیار ہے کہ نر لیا جائے یا مادہ مگر افضل یہ ہے کہ گائیں زیادہ ہوں تو بچھیا اور نر زیادہ ہوں تو بچھڑا۔ (عالمگیری ج ۲ ص ۱۷۸)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔