استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کیا منیٰ اور مکہ مکرمہ الگ الگ بستی ہیں ، دونوں جگہ اقامت کی نیت درست ہو گی یا نہیں ؟ جیسے کوئی حاجی مکہ آیا اس نے پندرہ دن سے قبل مناسک حج کی ادائیگی کے لئے منیٰ کو روانہ ہونا ہے اور وہ مکہ میں اقامت کی نیت کرے تو اس کی اقامت کی نیت درست ہو جائے گی یا نہیں ؟
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں مکہ مکرمہ میں اقامت کی نیت درست نہ ہو گی کیونکہ اقامت کی نیت کے درست ہونے کی چند شرطیں ہیں اور اقامت کے درست ہونے کے لئے ان کا پایا جانا ضروری ہے ، چنانچہ علامہ زین الدین ابن نجیم متوفی 970ھ (1)’’مجتبیٰ‘‘ سے اور ان سے علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی متوفی 1069ھ (2)نقل کرتے ہیں :
قال فی ’’البحر‘‘ عن ’’المجتبیٰ‘‘ إنما تؤثر النیۃ بخمس شرائط ترک السیر، وصلاحیۃ الموضع، و اتحادہ، و المدۃ، و الاستقلال بالرأی 1 ھ
یعنی، ’’مجتبیٰ‘‘ کے حوالے سے ’’البحر الرائق‘‘ میں فرمایا : نیتِ اقامت صرف پانچ شرائط کے ساتھ مؤثر ہوتی ہے (وہ شرائط یہ ہیں ) (1) چلنا ترک کرنا، (2)جگہ کا اقامت کی نیت کی صلاحیت رکھنے والی ہونا ، (3) جن جگہوں میں اقامت کی نیت ہے ان کا اتحاد، (4)مُدّت (یعنی کم از کم پندرہ دن رہنے کی نیت ہو)، (5) (نیت کرنے والے کا) مستقل بالرائے ہونا۔ اور علامہ نظام الدین حنفی متوفی 1161ھ لکھتے ہیں :
و نیۃ الإقامۃ إنما تؤثر بخمس شرائط : ترک السیر حتی لو نوی الإقامۃ وہو یسیر لم یصح، و صلاحیت الموضع حتی لو نوی الإقامۃ فی برأ و بحرأ و جزیرۃ لم یصح، و اتحاد الموضع، و المدۃ، و الاستقلال بالرأی ۔ ہکذا فی ’’معراج الدرایۃ‘‘ (3)
یعنی، اقامت کی نیت پانچ شرائط کے ساتھ معتبر ہوتی ہے (1) پہلی شرط یہ ہے کہ چلنا موقوف کرے پس اگر اقامت کی نیت کی اور برابر چلتا رہا تو نیت صحیح نہ ہو گی، (2) دوسری شرط یہ ہے کہ مسافر جس جگہ ٹھہرنے کی نیت کرے وہ جگہ ٹھہرنے کے لائق ہو یہاں تک کہ اگر جنگل میں یا دریا میں یا جزیرے میں ٹھہرنے کی نیت کر لی تو صحیح نہ ہو گی، (3) تیسری شرط یہ ہے کہ کسی ایک جگہ ٹھہرنے کی نیت کر ے ، (4) چوتھی شرط یہ ہے کہ برابر پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرے ، (5)پانچویں شرط یہ ہے کہ اس کی رائے مستقل ہو۔اسی طرح ’’معراج الدرایۃ‘‘ میں ہے ۔ اور اقامت کی شرائط میں سے تیسری شرط یہ ہے کہ کسی ایک جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے ، جب اس نے پندرہ دن میں دو جگہ ٹھہرنے کی نیت کی تو یہ شرط متحقق نہ ہوئی اور وہ مقیم نہ ہوا۔ اگر ایک جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کی اور اس کے علم میں ہے کہ انہی پندرہ دن میں مجھے کسی اور جگہ بھی جانا ہے تو دیکھا جائے گا کہ وہ دوسری جگہ (1) اسی شہر میں ہے یا (2)اس شہر کے توابع سے ہے یا (3)الگ ایک مستقل جگہ ہے ، نہ اس شہر میں ہے نہ اس کے توابع سے ہے تو پہلی صورت میں نیتِ اقامت درست ہو جائے گی کیونکہ شہر اپنے اطراف (کناروں ) کی دوری کے باوجود ایک ہی خطہ شمار ہوتا ہے ، چنانچہ علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی متوفی 593ھ لکھتے ہیں :
لأن المصر مع تباین أطرافہ کبقعۃ واحدۃ (4)
یعنی، شہر اپنے کناروں کی دوری کے باوجود ایک خطہ کی مثل ہے ۔ اور دوسری صورت میں بھی نیتِ اقامت درست ہو گی جیسے شہر اور قریہ میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کی اور قریہ اس شہر کے تابع ہے اس طرح کہ وہ قریہ شہر کے اتنے قریب ہو کہ اس قریہ کے رہنے والوں پر جمعہ واجب ہو اور اس صورت میں شہر اور قریہ حکماً ایک ہی جگہ شمار ہو گی چنانچہ علامہ علاؤ الدین ابو منصور محمد بن احمد سمرقندی متوفی 539/540ھ (5) لکھتے ہیں اور ان سے قاضی محمد بن فراموز الشہیر بملا خسرو حنفی متوفی 885ھ (6)نقل کرتے ہیں :
و أما إذا تبع أحدھما الاٰخر بأن کانت قریبۃ من المصر بحیث تجب الجمعۃ علی ساکنہا، فإنہ یصیر مقیماً بنیۃ الإقامۃ فیہما، فیتم بدخول أحدھما، لأنہما فی الحکم کموضع واحدٍ، کذا فی ’’التحفۃ‘‘ ۔ و اللفظ للدرر
یعنی، مگر جب ایک دوسرے کے تابع ہو اس طرح کہ وہ شہر سے اتنا قریب ہو کہ وہاں کے رہنے والوں پر جمعہ واجب ہو تو مسافر ایسی دو جگہوں کی اقامت کی نیت سے مقیم ہو جائے گا، پس وہ دونوں میں سے کسی بھی ایک میں جانے سے پوری نماز پڑھے گا کیونکہ وہ دونوں جگہیں حکم میں مثل ایک جگہ کے ہیں ، اس طرح ’’تحفہ ‘‘ میں ہے ۔ اور علامہ فخر الدین عثمان بن علی زیلعی حنفی متوفی 743ھ (7) لکھتے ہیں اور ان سے فقیہ عبدالرحمن بن سلیمان شیخ زادہ حنفی متوفی 1087ھ (8)نقل کرتے ہیں :
و إن کان أحدھما تبعاً لاٰخر بأن کانت القریۃ قریبۃً من المصر بحیث تجب الجمعۃ علی ساکنھا، فإنہ یصیر مقیماً یُتِمّ بدخول أحدہما أیّہما کان، لأنہما فی الحکم کموطن واحد ۔ اللفظ ’’للتبیین‘‘
یعنی، اگر دو جگہوں میں سے ایک دوسری کے تابع ہو اس طرح کہ دوسری جگہ شہر سے قریب ہو اس حیثیت سے کہ اس جگہ کے رہنے والے پر جمعہ واجب ہو تو وہ دونوں میں سے کسی ایک موضع میں داخل ہونے سے مقیم ہو جائے گا کیونکہ وہ دونوں ایک جگہ کی مثل ہیں ۔ اور علامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی 1088 ھ لکھتے ہیں :
أما إذا تبع أحدھما الاٰخر کقریۃ قریبۃ من المصر بحیث تجب الجمعۃ علی ساکنہا، فإنہ یصیر مقیماً بدخول أیھما کان للاتحاد حکماً (9)
یعنی، مگر جب ایک جگہ دوسری جگہ کے تابع ہو شہر کے قریب قریہ کی مثل اس حیثیت سے کہ اس قریہ کے رہنے والے پر جمعہ واجب ہو پس وہ دونوں مواضع میں اتحاد کی وجہ سے جس میں بھی داخل ہو گا مقیم ہو جائے گا۔ اور قریب ہونے سے مراد یہ ہے کہ اتنا قریب ہو کہ اذان اس قریہ میں سنائی دے ، یہی اکثر ائمہ کا قول ہے ، چنانچہ صدر الشریعہ محمد امجد علی متوفی 367 اھ نقل کرتے ہیں : مگر اکثر ائمہ کہتے ہیں کہ اگر اذان کی آواز پہنچتی ہو تو ان لوگوں پر جمعہ پڑھنا فرض ہے (10) او رفقہاء کرام نے ایک جگہ کے دوسری کے تابع ہونے کے لئے یہ بھی کہا کہ دونوں جگہیں مستقل بنفسہ ہوں گی تو ایک جگہ دوسری کے تابع نہ ہو گی چنانچہ علامہ علاؤ الدین ابو منصور بن محمد بن احمد سمرقندی متوفی 539/ 540ھ لکھتے ہیں :
فأما إذا نوی إقامۃ خمسۃ عشر یوماً فی موضعین، فإن کل واحد منہما أصلاً بنفسہ، فلا یکون أحدھما تبعاً للآخر، فإن نوی أن یقیم بمکۃ و منی فإنہ لا یصیر مقیماً (11)
یعنی، مگر جب دو جگہوں پر پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کی پھر دونوں جگہوں میں سے ہر جگہ اصل بنفسہ ہے تو ایک جگہ دوسری کے تابع نہ ہو گی۔ پس اگر مکہ اور منیٰ میں (معاً) اقامت کی نیت کی تو مقیم نہ ہو گا۔ اورمنیٰ مکہ مکرمہ کے تابع نہیں ہے جیسا کہ امام ابراہیم بن محمد بن ابراہیم حلبی متوفی 956ھ اور علامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :
(و لو نوی بموضعین) لیس أحدھا تبعاً للآخر (کمکۃ و منی لا یصیر مقیماً) (12)
یعنی، اور اگر ایسی دو جگہوں کی نیت کی جن میں سے ایک دوسری جگہ کے تابع نہیں ہے جیسے مکہ او رمنیٰ (کہ منیٰ مکہ کے تابع نہیں ہے تو ایسی صورت میں ) مقیم نہ ہو گا۔ اور تیسری صورت میں پندرہ دن اقامت کی نیت درست نہ ہو گی ، کیونکہ اقامت کی نیت وہی معتبر ہوتی ہے جو ایک جگہ پر ہو چاہے وہ جگہ حقیقتاً ایک ہو یا حکماً، چنانچہ علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی لکھتے ہیں :
و قال : لأن نیۃ الإقامۃ ما یکون فی موضع واحد، فإن الإقامۃ ضد السفر، و الانتقال من الأرض إلی الأرض یکون ضرباً فی الأرض، و لا یکون إقامۃ، لو جوّزنا نیۃ الإقامۃ فی موضعین جوّزنا فیما زاد علی ذلک، فیؤدی إلی القول بأن السفر لا یتحقق (13)
یعنی، فرمایا کیونکہ نیت اقامت وہ (معتبر) ہوتی ہے جو ایک جگہ میں ہو، اور اقامت سفر کی ضد ہے اور ایک زمین سے دوسری کی طرف منتقل ہونا زمین میں سفر کرنا ہوتا ہے ، اقامت نہیں ہوتی اور اگر دو جگہ (معاً) اقامت کی نیت جائز قرار دے دیں تو دو سے زائد جگہوں پر (معاً) اقامت کی نیت جائز ہو جائے گی پھر کہنا پڑے گاکہ سفر متحقق ہوتا ہی نہیں ۔ اس لئے فقہاء کرام نے فرمایا کہ دو جگہ اقامت کی نیت صحیح نہیں ، چنانچہ علامہ عبداللہ بن محمود الموصلی الحنفی متوفی 683ھ لکھتے ہیں :
و إذا نوی أن یقیم بموضعین لا یصح (14)
یعنی، جب نیت کی کہ وہ اقامت کرے گا دو جگہوں پر تو اس کی نیت صحیح نہیں ۔ لہٰذا اس صورت میں وہ قصر کرے گا چنانچہ تاج الشریعہ لکھتے ہیں :
قیقصرإن نوی مدتھا بموضعین (15)
یعنی، قصر کرے گا اگر مدّتِ اقامت کی مقدار دو جگہ رہنے کی نیت کی ۔ اور اس کے تحت صدر الشریعہ امام عبیداللہ بن مسعود المحبوبی لکھتے ہیں :
أی یقصر الجماعۃ المذکورون إن نوی الإقامۃ نصف شہرٍ، لأنہم لم یصیروا مقیمین بنیۃ الإقامۃ (16)
یعنی، قصر کرے گی مذکورہ جماعت اگرچہ انہوں نے پندرہ دن رہنے کی نیت کی ہو کیونکہ یہ لوگ اقامت کے نیت کرنے سے مقیم نہ ہوئے ۔ علامہ طاہر بن عبدالرشید حنفی متوفی 542ھ لکھتے ہیں :
و لو نوی الإقامۃ بموضعین خمسۃ عشر یوماً لا یصیر مقیماً (17)
یعنی، اگر دو جگہ پندرہ دن اقامت کی نیت کی تو مقیم نہ ہو گا۔ اور علامہ ابراہیم حلبی حنفی متوفی 956ھ لکھتے ہیں :
ان نوی خمسۃ عشر یوماً لکن بموضعین لا یصیر مقیماً (18)
یعنی، اگرچہ اس نے پندرہ دن دو جگہ رہنے کی نیت کی تو وہ مقیم نہ ہو گا۔ دو مختلف جگہوں سے مراد ایسی دو جگہیں ہیں جو دونوں مستقل اور اصل بنفسہٖ ہوں ، چنانچہ قاضی محمد بن فراموز الشہیر بملا خسرو حنفی متوفی 885ھ لکھتے ہیں :
إن نوی فی أقل منہ أو فیہ بموضعین مستقلّین (19)
یعنی، قصر کرے گا اگرپندرہ دن سے کم کی نیت کی یا پندرہ دن میں دو مستقل جگہ رہنے کی نیت کی۔ اور منیٰ شہرِ مکہ مکرمہ سے خارج ہے ، چنانچہ امام محمد بن اسحاق خوارزمی حنفی متوفی 827ھ لکھتے ہیں :
و منی ً خارج مکۃ من الجانب الشرقی تمیل إلی الجنوب قلیلاً (20)
یعنی، منیٰ مکہ معظمہ سے خارج تھوڑا سامائل بجنوب مشرق کی جانب ہے ۔ اور مکہ مکرمہ اور منیٰ ایک شہر نہیں ، دونوں الگ الگ ہیں ، چنانچہ امام محمد بن حسن شیبانی متوفی 189ھ لکھتے ہیں :
قلتُ : أرأیت الرجل إذا خرج من الکوفۃ إلی مکۃ و منی و ہو یرید أن یقیم بمکۃ و منی خمسۃ عشر یوماً أ یکمل الصلاۃ حین یدخل مکۃ؟ قال : لا، قلتُ : لِمَ؟ قال : لأنہ لا یرید أن یقیم بمکۃ وحدہا خمسۃ عشر یوماً، قلت : و لا تعد بمکۃ و منی مصراً واحداً؟ قال : لا (21)
یعنی، میں نے عرض کی : مجھے بتائیے کہ ایک شخص کوفہ سے مکہ اور منیٰ کو نکلا اور اس کا ارادہ یہ ہے کہ وہ مکہ اور منیٰ میں میں پندرہ دن قیام کرے گا جب وہ مکہ میں آئے تو کیا پوری نماز پڑھے گا؟ فرمایا : نہیں ، میں نے عرض کیا : کیوں ؟ فرمایا : کیونکہ اس نے تنہا مکہ میں پندرہ دن اقامت کا ارادہ نہیں کیا، میں نے عرض کی : کیا آپ مکہ اور منیٰ کو ایک شہر شمار کرتے ہیں ؟ فرمایا : نہیں ۔ لہٰذا جس شخص نے پندرہ دن رہنے کا ارادہ کیا اور اس کی نیت یہ ہے کہ وہ پندرہ دن مکہ اور منیٰ میں رہے گا تو اس نیت سے وہ مقیم نہ ہو گا بلکہ مسافر ہی رہے گا اور نمازوں میں قصر کرے گا ۔ صورت مسؤلہ کے بارے میں فقہاء کرام کی مزید تصریحات ملاحظہ ہوں ، چنانچہ امام ابو الحسن احمد بن محمد القدوری متوفی 428ھ (22)اورعلامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی متوفی 593ھ (23)لکھتے ہیں :
و إذا نوی المسافر أن یقیم بمکۃ و منی خمسۃ عشر یوماً لم یتم الصلاۃ
یعنی، جب مسافر نے مکہ اور منیٰ میں پندرہ دن اقامت کی نیت کر لی تو فرائض رباعی کو پورا نہیں پڑھے گا۔ اور علامہ علاؤ الدین ابو منصور محمد بن احمد سمرقندی لکھتے ہیں :
فإن نوی أن یقیم بمکۃ و منی فإنہ لا یصیر مقیماً (24)
یعنی، پس اگر نیت کی کہ مکہ اور منیٰ میں اقامت کرے گا تو اس نیت سے وہ مقیم نہ ہو گا۔ اور علامہ ابراہیم حلبی حنفی متوفی 956ھ لکھتے ہیں :
و لو نواہا بموضعین کمکۃ و منی لا یصیر مقیماً (25)
یعنی، اگر دو (مختلف )جگہوں پر (معاً)اقامت کی نیت کی جیسے مکہ معظمہ اور منی تو مقیم نہ ہو گا۔ اور دوسری جگہ لکھتے ہیں :
و کذا إن نوی خمسۃ عشر یوماً بموضعین کمکۃ و منی (26)
یعنی، اور اس طرح وہ مسافر رہے گا اگر نیت کی پندرہ دن(اقامت) کی دو جگہ جیسے مکہ او رمنیٰ ۔ اور امام مظفر الدین احمد بن علی بن ثعلب ابن الساعاتی متوفی 694ھ لکھتے ہیں :
و لو نواہا بمکۃ و منی معاً قصر (27)
یعنی، اگر مکہ اور منیٰ میں ایک ساتھ (پندرہ دن) اقامت کی نیت کی تو قصر کرے گا۔ حافظ الدین ابو البرکات عبداللہ بن احمد بن محمود نسفی متوفی 10 7 ھ لکھتے ہیں :
أقام مکۃ و منیٰ مدّتہا قصر (28)
یعنی،مکہ مکرمہ اور منیٰ میں مدّتِ اقامت کی مقدار ٹھہرا تو قصرکرے گا ۔ او راس کی شرح میں لکھتے ہیں :
أی لو نوی مدّۃ الإقامۃ بمکۃ و مناً قصر (29)
یعنی اگر نیت کی مدّت اقامت (ٹھہرنے کی) مکہ او رمنیٰ میں تو قصر کرے گا۔ اور لکھتے ہیں :
قصر الرباعیّ حتی یدخل مصرہ، أو ینوی الإقامۃ نصف شہر ببلد أو قریۃ لا بمکۃ و منی، ملخصاً (30)
یعنی، مسافرچار رکعت والے فرائض کو دو پڑھے گا یہاں تک کہ داخل ہو اپنے شہر میں ، یا کسی قریہ میں نصف ماہ تک اقامت کی نیت کی (تو پھر پوری پڑھے ) نہ کہ مکہ معظمہ او رمنیٰ میں (یعنی اگرپندرہ دن مکہ مکرمہ اور منیٰ میں ٹھہرنے کا ارادہ کیا تو فرائض میں قصر کرے گا)۔ اس کے تحت علامہ زین الدین ابن نجیم متوفی 970ھ لکھتے ہیں :
قولہ : لا بمکۃ و لا منی : أی نوی الإقامۃ بمکۃ خمسۃ عشر یومًا، فإنہ لا یتم الصلاۃ، لأن الإقامۃ لا تکون فی مکانین (31)
یعنی، اگر مکہ مکرمہ (اور منیٰ) میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کر لی تو فرائض رُباعی کو پورا نہیں پڑھے گا کیونکہ اقامت دو جگہوں پر نہیں ہوتی۔ اور صدر الشریعہ محمد امجد علی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : دو جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کی اور دونوں مستقل ہوں جیسے مکہ و منیٰ تو مقیم نہ ہوا ۔(32) اور امام حسین بن محمد بن حسین السمنقانی الحنفی متوفی 746ھ لکھتے ہیں :
و لو أن مسافراً نوی الإقامۃ فی موضعین خمسۃ عشر یوماً، و لیس بمصر واحد ولا قریۃ واحدۃ نحو أن ینوی الإقامۃ بمکۃ و مناً خمسۃ عشر یوماً، أو بالکوفۃ و الحیرۃ لا یکون مقیماً (33)
یعنی ، اگر مسافر نے دو جگہ پندرہ دن اقامت کی نیت کی ، نہ کسی ایک شہرمیں اور نہ کسی ایک قریہ میں ، جیسے مکہ معظمہ او رمنیٰ میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے یا کوفہ اور حیرہ میں (اقامت کی نیت کرے ) تو مقیم نہ ہو گا۔ اور فقہاء کرام نے فرمایا ہے کہ مکہ او رمنیٰ میں سے ہر ایک بنفسہٖ اصل ہے اور ایسی دو جگہوں میں معاً اقامت کی نیت کرنا درست نہیں ہوتی، چنانچہ علامہ سراج الدین عمر بن ابراہیم ابن نجیم حنفی متوفی 1005ھ صاحب کی اس عبارت کے تحت لکھتے ہیں :
لا یتم إذا نوی الإقامۃ بمکۃ و منی و نحوہما من مکانین کل منہا أصل بنفسہ (34)
یعنی، چار رکعت والے فرائض کو پورا نہیں پڑھے گا جب مکہ معظمہ او رمنی اور اس کے مثل ایسی دو جگہوں پر اقامت کی نیت کی جن میں سے ہر ایک بنفسہ اصل ہے ۔ اور علامہ سرخسی اور ان سے علامہ نظام الدین حنفی متوفی 1161ھ نقل کرتے ہیں :
ولو نوی الإقامۃ فی موضعین فإن کان کل منہما أصلاً بنفسہ نحو مکۃ و منی، و الکوفۃ و الحیرۃ لا یصیر مقیماً (المحیط) (35)
یعنی، اگر دو جگہوں پر (معاً) اقامت کی نیت کی پس اگر دونوں جگہیں اصل بنفسہٖ ہوں جیسے مکہ او رمنیٰ اور کوفہ و حیرہ تو (ایسی دو جگہوں پر معاً اقامت کی نیت سے ) مقیم نہ ہو گا۔ علامہ بدر الدین عینی حنفی (36) او رفقیہ عبدالرحمن شیخی زادہ حنفی (37)لکھتے ہیں : اگر دو جگہ اقامت کی نیت کی تو مقیم نہ ہو گا :
ہذا إذا کان کل من الموضعین أصلاً بنفسہ ملخصاً
یعنی، یہ اس وقت ہے جب دونوں میں سے ہر جگہ اصل بنفسہٖ ہو۔ اور علامہ حسن بن عمار شرنبلالی متوفی 1069ھ لکھتے ہیں :
و لا تصح نیۃ الإقامۃ ببلدتین و کل واحدۃ أصل بنفسہا (38)
یعنی، ایسے دو شہروں میں اقامت کی نیت درست نہیں جن کا ہر ایک اصل بنفسہٖ ہو۔ او ریہ بھی فرمایاہے کہ مکہ اور منیٰ ہر ایک مستقل جگہ اور ایسی دو جگہیں جن میں سے ہر ایک مستقل ہو وہاں معاً اقامت کی نیت درست نہیں ہوتی، چنانچہ علّامہ محمدبن عبداللہ بن احمد غزی حنفی تمرتاشی متوفی 1004ھ اورعلامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :
(فیقصر إن نوی) الإقامۃ (فی أقل منہ) أی نصف شہر،(أو) نوی (فیہ لکن فی غیر صالح)، أو نوی فیہ لکن (بموضعین مستقلّین کمکۃ و منی) (39)
یعنی، پس کرے گا اگر نیت کی نصف ماہ سے کم اقامت کی یا نصف ماہ اقامت کی نیت کی لیکن ایسی جگہ نیت کی جو اس کی صلاحیت نہیں رکھتی یا نصف ماہ اقامت کی نیت کی لیکن دو مستقل جگہوں میں اقامت کی نیت کی جیسے مکہ معظمہ اور منیٰ (کہ مکہ مکرمہ الگ شہر ہے اور منی الگ قریہ ہے ) اور قاضی محمد بن فراموز الشہیر بملا خسرو حنفی اپنی کتاب ’’غرر’’ کی عبارت ’’أو فیہ بموضعین مستقلین‘‘ کے تحت لکھتے ہیں :
کمکۃ و منی، فانہ یقصر إن لا یصیر مقیماً (40)
یعنی، (قصر کرے گا اگر دو مستقل جگہوں میں نصف ماہ اقامت کی نیت کی) جیسے مکہ مکرمہ او رمنی (دو مستقل جگہیں ہیں لہٰذا دونوں جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کی) تو ہ قصر کرے گا ، کیونکہ (اس نیت سے ) وہ مقیم نہ ہوا۔ اور علامہ عبدالغنی المیدانی الحنفی متوفی 1298ھ لکھتے ہیں :
لأنہ لو نوی الإقامۃ فی موضعین مستقلین کمکۃ و منی لا تصح نیتہ (41)
یعنی ، کیونکہ اگر دو مستقل جگہوں جیسے مکہ معظمہ او رمنیٰ میں اقامت کی نیت کی تو اس کی نیت اقامت صحیح نہیں ۔ مکہ اور منیٰ میں اقامت کی نیت سے مراد یہ ہے کہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے اور یہ پندرہ دن اُسے مکہ اور منیٰ میں اس طرح بسر کرنے ہوں کہ ان میں سے کچھ دن مکہ میں اور کچھ دن منیٰ میں ، چنانچہ علامہ عبداللہ الزبادی الازہری لکھتے ہیں :
و لونوی الإقامۃ بمکۃ و منی علی الاشتراک أن لا یصیر مقیماً، لأن الإقامۃ لا تکون فی مکانین (42)
یعنی، اگر مکہ معظمہ اور منیٰ میں علی الاشتراک اقامت کی نیت کی ، مقیم نہ ہو گا کیونکہ اقامت دو جگہوں پر نہیں ہوتی۔ اور مکہ او رمنیٰ میں معاً اقامت کی نیت درست نہ ہونے کی وجہ علامہ عینی حنفی بیان کرتے ہیں کہ
لأنہ لم ینوی الإقامۃ فی کل واحد منہما خمسۃ عشر یوماً، و إن نوی أقل من ذلک، و بہ لا یصیر مقیماً (43)
یعنی، کیونکہ اس نے مکہ اور منیٰ میں سے ہر ایک جگہ پندرہ دن اقامت کی نیت نہیں کی، اگرچہ اُس نے اِس سے کم کی نیت کی، ایسی نیت سے وہ مقیم نہ ہو گا۔ اور ملا علی القاری متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
لأن نیۃ الإقامۃ فی بلدتین، أو قریتین، أو بلدۃ و قریۃ لا تصح، فلا تصح نیۃ الأقامۃ بمکۃ و منی لفقد الإقامۃ کملا (44)
یعنی، کیونکہ اقامت کی نیت دو شہروں یا دو دیہاتوں یا شہر اور قریہ میں درست نہیں ، (ایک جگہ) کامل (پندرہ دن) اقامت کی نیت نہ پائی جانے کی وجہ سے ، مکہ معظمہ او رمنیٰ میں اقامت کی نیت صحیح نہیں ۔ لہٰذا ایسی دو یا چند جگہوں میں معاً اقامت کی نیت معتبر نہیں ہوتی جن کو ایک شہر یا قریہ شامل نہ ہو ،یا ایک شہر یا قریہ ان کو جمع کرنے والا نہ ہو ، چنانچہ علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی 855ھ لکھتے ہیں :
و الحاصل أنہ لا یعتبر نیۃ الإقامۃ خمسۃ عشر فی موضعین لا یجمعہا مصر واحد أو قریۃ واحدۃ، لأنہ حینئذ یلزم باعتبارہا فی ثلاثۃ أمصار أو أربعۃ أمصار إلی خمسۃ عشر، فیؤدی إلی أن یکون الشخص مقیماً بنفس النزول و ذلک فاسد (45)
یعنی، حاصل یہ ہے کہ ایسی دو جگہوں میں (معاً) پندرہ دن اقامت کی نیت معتبر نہیں جن کو ایک شہر یا ایک قریہ جمع نہ کرتا ہو، کیونکہ اسے معتبر ماننے کی صورت میں لازم ہو گا تین شہروں یا چار شہروں سے پندرہ شہروں تک میں معاً اقامت کی نیت معتبر ہو، تو بات یہاں تک پہنچ جائے گی کہ آدمی صرف نزول (اُترنے ) سے مقیم ہو جائے اور یہ فاسد ہے ۔ لہٰذا حاجی جب ایسے وقت مکہ پہنچا کہ اس کے منی کی طرف روانہ ہونے کو پندرہ دن سے کم دن باقی ہوں تو وہ مکہ میں بھی قصر کرے گا اور منیٰ و عرفات وغیرہما میں بھی چنانچہ علامہ سراج الدین علی بن عثمان الاوسی الحنفی متوفی 569ھ (46) اور ان سے فقیہ عبدالرحمن بن محمد شیخی زادہ متوفی 1087ھ (47) لکھتے ہیں :
رجل قدم مکۃ حاجّاً فی عشر الأضحیٰ و ہو یرید أن یقیم بہا سنۃ، فإنہ یصلی رکعتین حتی یرجع من منی، لأن نیۃ الإقامۃ الحال (فی المجمع : للحال) لا یعتبر بہا (و فی المجمع : لا معتبر بہا) لأنہ یحتاج إلی أن یخرج إلی منی لقضاء المناسک فصار بمنزلۃ نیۃ الإقامۃ فی غیر موضعہا و إذا خرج من منی یصلّی أربعاً
یعنی، ایک شخص حج کے ارادے سے ذو الحجہ کے عشرۂ اول میں مکہ مکرمہ آیا او روہ ایک سال اقامت کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ (ایام رمی کے بعد) منیٰ سے لوٹنے تک دو رکعت پڑھے گا، کیونکہ اس حال میں اس کی اقامت کی نیت کاکوئی اعتبار نہیں ، ا س لئے کہ وہ مناسکِ حج کی ادائیگی کے لئے منیٰ کی جانب جانے کا محتاج ہے تو اس کی اقامت کی نیت غیر موضع اقامت میں نیت کے مرتبے میں ہے اور (یہ شخص) جب منیٰ سے (مکہ) لوٹے گا تو چار پڑھے گا۔ اور علامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :
فلو دخل الحاج مکۃ أیام العشر لم تصح نیتہ، لأنہ یخرج إلی منی و عرفۃ و بعد العود من منی تصح (48)
یعنی، اگر حاجی (ذوالحجہ کے ابتدائی )دس دنوں میں مکہ آیا تو اس کی نیت اقامت درست نہیں اس لئے کہ وہ منی اور عرفات کو نکلے گا اور (مناسک حج کی تکمیل کے بعد )منیٰ سے لوٹنے کے بعد اس کی نیت درست ہو گی۔ اور علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی اور علامہ نظام الدین حنفی لکھتے ہیں :
و ذکر فی ’’کتاب المناسک‘‘ أن الحاج إذا دخل مکۃ فی أیام العشر و نوی الإقامۃ نصف شہر لا تصح لأنہ لابد لہ من الخروج إلی العرفات فلا یتحقق الشرط (49)
یعنی، اور ’’خلاصہ‘‘ کے کتاب المناسک میں ذکر کیا کہ حاجی جب ذو الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں مکہ میں داخل ہوا اور اس نے نصف ماہ اقامت کی نیت کر لی تو (اس کی یہ نیت) درست نہیں کیونکہ اُسے (پندرہ دن کے اندر)عرفات کے طرف نکلنے کی ضرورت ہے ، لہٰذا اقامت کی شرط متحقق نہ ہوئی۔ ہاں ایک صورت ہے جس میں مسافر دو مختلف اصل بنفسہٖ جگہوں پر اقامت کی نیت کرے او رمیقم بھی ہو جائے ۔اور وہ صورت یہ ہے کہ مسافر دو جگہوں پر رہنے کا ارادہ رکھتا ہو تو جہاں رات ٹھہرنے کا ارادہ ہو اس جگہ کی اقامت کی نیت کر لے او رپہلے وہیں جائے جہاں رات گزارنے کا ارادہ ہے تو وہ مقیم ہو جائے گا چنانچہ فقہائے کرام نے اس کی تصریح کی ہے جیسا کہ امام سرخسی نے ’’محیط‘‘ میں او ران سے علامہ نظام الدین حنفی نے ’’الفتاوی الہندیۃ‘‘ (1/140) میں ، علامہ طاہر بن عبدالرشید حنفی نے ’’خلاصۃ الفتاویٰ ‘‘ (1/99)، میں ، علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی نے ’’الھدایۃ‘‘ (1۔2/98) میں ، حافظ الدین ابو البرکات نسفی نے ’’الکافی شرح الوافی‘‘ (1/133) میں ، علامہ حسین بن احمد السمنقانی الحنفی نے ’’خزانۃ المفتین‘‘ (ص32) میں ، علامہ ابراہیم حلبی نے ’’ملتقی الأبحر‘‘ (باب صلاۃ المسافر) میں ، ملا علی القاری نے ’فتح باب العنایۃ‘ ‘ (1/397) میں ، اور علامہ عبداللہ الزبادی نے ’’الفوائد السنیۃ فی المسائل الدینیۃ‘‘ (رقم الورق : 77) میں اور ان کے علاوہ دیگر فقہاء نے اپنی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے ، چنانچہ ’’خلاصہ‘‘ کی عبارت یہ ہے کہ
إلا أن ینوی أن یقیم لیالیہا فی أحدہما و أیامہا فی أخریٰ، فإنہ یصیر مقیماً إذا دخل قریۃ التی نوی الإقامۃ فیہا خمسۃ عشر لیلۃ، و لا یصیر مقیماً بدخولہ أولاً فی القریۃ الأخریٰ (50)
یعنی، مگر یہ کہ ان دو میں سے ایک جگہ رات ٹھہرنے اور دوسری جگہ دن گزارنے کی نیت کرے تو وہ مقیم ہو جائے گا جب اس قریہ میں داخل ہوا جہاں پندرہ راتیں گزارنے کی نیت کی اور پہلے دوسرے قریہ جانے سے مقیم نہ ہو گا۔ یہ اس لئے کہ ہر شخص کی اقامت اس کی رات گزارنے کی جگہ کی طرف منسوب ہوتی ہے چنانچہ علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی (51) اور فقیہ عبدالرحمن شیخی زادہ حنفی (52)لکھتے ہیں :
لأن إقامۃالمرء تضاف إلی مبیتہ
یعنی، کیونکہ مرد کی اقامت اس کے رات گزارنے کی طرف منسوب ہوتی ہے ۔ حافظ الدین ابو البرکات حنفی (53) اور علامہ بدرالدین عینی حنفی (54)لکھتے ہیں :
لأن موضع إقامۃ المرء حیث یبیت فیہ، ألا تری إنک إذا قلت للسوقی أین تسکن؟ ، یقول : فی محلۃ کذا، وہو بالنہار فی السوق و اللفظ للکافی
یعنی، مرد کی جائے اقامت وہاں ہوتی ہے جس میں وہ رات گزارتا ہے کیا نہیں دیکھا کہ تو جب بازار والے سے کہے کہ تم کہاں رہتے ہو؟ تو وہ کہے گا : فلاں محلے میں ، حالانکہ وہ دن کو بازار میں ہوتا ہے ۔ اور مسافر حاجی کے لئے اس صورت پر عمل پیرا ہونا مشکل ہے اُسے اس پر عمل کرنے کے لئے ایک تو مشقت برداشت کرنی ہو گی اور دوسرا وہ حج کی چند سنتوں کا تارک ہو جائے گا، او رممکن ہے کہ کوئی واجب بھی اس سے ترک ہو جائے ، جیسے حاجی یکم ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ آیا اُسے معلوم ہے کہ آٹھ کو اُسے منیٰ کوجانا ہے اور رات منیٰ میں ٹھہرنا ہے اسی طرح نو اور دس کی درمیانی رات اُسے مزدلفہ میں گزارنی ہے او راس رات کی صبح صادق کے بعد طلوعِ آفتاب کے مابین وقوفِ مزدلفہ کرنا ہے جو کہ واجب ہے پھر رمی کے ایام پورے ہونے تک راتیں منیٰ میں بسر کرنی ہیں وہ چاہے کہ میں اقامت کی نیت کر لوں او رمیری نیت صحیح بھی ہو جائے ، اس طرح کہ وہ مکہ میں رات گزارنے کی نیت کرے او راس کی نیت ہو کہ میں دن دن میں افعالِ حج کے لئے شہر مکہ سے باہر رہوں گا اور رات کو واپس آ جایا کروں گا تو وہ اس پر کس طرح عمل کرے گا۔ اس پر عمل کرنے کے لئے وہ آٹھ او رنو کی درمیانی رات کا منیٰ میں قیام ترک کرے گا جو کہ سنّت ہے ، چنانچہ علامہ سید امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :
المبیت بہا فإنہ سنّۃ کما فی ’’المحیط‘‘ (55)
یعنی، (عرفہ کی) رات منیٰ میں بسر کرنا سنت ہے جیسا کہ ’’محیط‘‘ میں ہے ۔ اور ایسا کرنا سنت کے خلاف ہے چنانچہ علامہ حسن بن منصور اوزجندی متوفی 592ھ لکھتے ہیں :
و إن بات بمکۃ و خرج منہا یوم عرفۃإلی عرفات کان مخالفاً للسنّۃ و لا یلزم الدم (56)
یعنی، اگر اس نے مکہ میں رات بسر کی اور وہیں سے عرفہ کے روز عرفات کو نکلا تو وہ سنّت کی مخالفت کرنے والے ہو گیا اور اس پر دم لازم نہ آئے گا۔ وہ نو کی صبح کو مکہ سے عرفات کے لئے نکلے گا بعد غروب آفتاب وہاں سے نکلے گا اور سیدھا مکہ مکرمہ آئے گا او روقوفِ مزدلفہ کو ادا کرنے کے لئے صبح صادق کے وقت مزدلفہ آئے اور وقوف کرے ، اگر وہ وقوف مزدلفہ کے لئے آ جاتا ہے توواجب ادا ہو گیا مگر سنّت پھر بھی ترک ہو گئی وہ یہ کہ یہ رات مزدلفہ میں بسر کرنا سنّت ہے ، چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
و بودن این شب در انجا سنّت مؤکدہ است (57)
یعنی، اس رات مزدلفہ میں ہونا سنّت مؤکدہ ہے ۔ اور اگر وقوفِ مزدلفہ نہ کر سکا توواجب کا تارک ہوا، چنانچہ امام مظفر الدین احمد بن علی ابن ثعلب ابن الساعاتی متوفی 694ھ لکھتے ہیں :
و یجب ہذا الوقوف (58)
یعنی، یہ وقوف واجب ہے ۔ اس طرح وہ بلاعذر ترکِ واجب کر کے گنہگار ہوا اور اس پر دم لازم آیا ، چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی متوفی 990ھ لکھتے ہیں :
و لو ترک الوقوف بہا فدفع لیلاً فعلیہ دم (59)
یعنی، اگر (بلاعذر) وقوفِ مزدلفہ کو ترک کیا پس رات ہی کو مزدلفہ سے لوٹ آیا تو اس پر دم لازم ہے ۔ اور دس ذی الحجہ کو منی کے افعال ادا کر کے رات مکہ مکرمہ جائے ، رات وہاں رہے دوسرے دن پھر اُٹھے ، منیٰ میں رمی جمار کرے ، رات پھر مکہ مکرمہ جا کر گزارے اور بارہ ذو الحجہ کی رمی کے لئے پھر مکہ سے منیٰ کو آئے اور رمی جمار کرے اگر اس نے ایسا کیا تو ترکِ سنت کا مرتکب ہوا کیونکہ یہ راتیں منیٰ میں بسر کرنا سنّت ہے چنانچہ ملا علی قاری متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
لأن البیوتۃ بمنی لیالیھا سنۃ عندنا (60)
یعنی، کیونکہ یہ راتیں منیٰ میں بسر کرنا ہمارے نزدیک سنّت ہیں ۔ اور پھر اس میں مشقّت کس قدر ہے اسے ہر وہ شخص جانتا ہے جو اس سفر کی سعادت حاصل کر چکا ہے ، تو وہ اتنی مشقت برداشت کرکے چار رکعات تو پڑھے گا مگر ساتھ ہی متعددسُنَن کا تارک ہو گا اور عین ممکن ہے کہ کوئی واجب بھی اس سے ترک ہو جائے ، دوسری طرف اگر وہ اس طرح اقامت کی نیت نہیں کرتا اور حج کے تمام واجبات و سنن کو پورا کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے صدقہ کو قبول کرتا ہے نمازوں میں قصر کرتا ہے تو اس کے ثواب میں کسی قسم کی کمی نہیں ہوتی کیونکہ جس نے ثواب دینا ہے اس کی جناب سے مسافر کو قصر کا حکم ہے اور پھر عوام کا یہ نظریہ کہ چار رکعت میں زیادہ ثواب ہے جہالت پر مبنی ہے ، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ثواب کی کمی و زیادتی دو اور چار پر موقوف نہیں ، ثواب کا ملنا اطاعت پر موقوف ہے ۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الثلثاء،6ذی القعدہ 1427ھ، 28نوفمبر 2006 م (258-F)
حوالہ جات
1۔ غنیۃ ذوی الأحکام فی بغیۃ درر الحکام علی ہامش الغرر و الدرر، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،1/133
2۔ البحر الرائق شرح کنز الدقائق ، کتاب الصلاۃ، باب المسافر، تحت قولہ : حتی یدخل مصرلا أو ینوی….إلخ، 2/231
3۔ الفتاوی الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر فی صلاۃ المسافر،1/139
4۔ الہدایۃ، کتاب المضاربۃ، ص3۔4/198
5۔ تحفۃ الفقہاء، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ص76
6۔ درر الحکام شرح غرر الأحکام،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، 1/133
7۔ تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، 1/513
8۔ مجمع الأنہر شرح ملتقی الأبحر،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،1/240
9۔ الدر المنتقی شرح الملتقی علی ہامش مجمع الأنہر، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، تحت قولہ : أما اذا تبع ….إلخ، 1/241
10۔ بہار شریعت، حصہ (4)، جمعہ کا بیان،1/763
11۔ تحفۃ الفقہاء أصل بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ص75
12۔ ملتقی الأبحر وشرحہ الدر المنتقیٰ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،1/240
13۔ البنایۃ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، تحت قولہ : لأن السفرہ یعری عنہ، 3/32
14۔ المختار الفتوی، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ص44
15۔ مختصر الوقایۃ مع شرحہ شرح الوقایۃ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، 2/305
16۔ شرح الوقایۃ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، تحت قولہ : بموضعین، أو دخل…إلخ ، 2/306
17۔ خلاصۃ الفتاویٰ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،1/199
18۔ غنیۃ المستملی ، فصل فی صلاۃ المسافر، ص464
19۔ غرر الأحکام مع شرحہ للمصنف،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، 1/133
20۔ إثارۃ الترغیب و الشتویق،القسم الأول، الفصل الخامس و الخمسون، ص302
21۔ کتاب الأصل المعروف بالمبسوط، کتاب الطہارۃ والصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، 1/248۔249
22۔ مختصر القدوری،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ص38
23۔ الہدایۃ ،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،1۔2/98
24۔ تحفۃ الفقہاء، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ص75
25۔ ملتقی الأبحر، کتاب الصلاۃ، باب المسافر، ص130
26۔ صغیری، فصل فی صلاۃ المسافر، ص273
27۔ مجمع البحرین ملتقی النیّرین، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ص156
28۔ الوافی مع شرحہ للمصنّف، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،1/ق133
29۔ الکافی شرح الوافی کلیہما الصاحب الکنز، المجلد (1)، الجزء (12)، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، رقم الورق : 133، مخطوطہ مصوّر
30۔ کنز الدقائق، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ص187
31۔ البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب المسافر، 2/232
32۔ بہار شریعت، حصہ (4)، مسافر کی نماز کا بیان،1/745
33۔ خزانۃ المفتین، کتاب الصلاۃ، فصل : فی السفر، ص32، مخطوط مصوّر
34۔ النہر الفائق شرح کنز الدقائق،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،1/346
35۔ الفتاوی الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر فی صلاۃ المسافر،1/140
36۔ رمز الحقائق شرح کنزالدقائق،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، تحت قولہ : بمکۃ أو منی، ص1/95
37۔ مجمع الأنہر شرح ملتقی الأبحر، کتاب الصلاۃ، باب المسافر، تحت قولہ : بموضعین بمکۃ …إلخ،1/240
38۔ نور الإیضاح و شرحہ مراقی الفلاح، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ص164
39۔ تنویرالأبصار وشرحہ الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ص105۔106
40۔ درر الحکام شرح غرر، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،1/133
41۔ اللباب فی شرح الکتاب، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، تحت قولہ : فلیزمہ الاتمام، 1-3/111
42۔ الفوائد السنیۃ فی المسائل الدینیۃ، الباب العاشر : فی فصول مہمۃ، الفصل الخامس : فی صلاۃ المسافر، رقم الورق : 77، مخطوط مصوّر
43۔ البنایۃ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، تحت قولہ : وإذا نوی المسافر….إلخ، 3/32
44۔ فتح باب العنایۃ فی شرح کتاب النقایۃ، کتاب الصلاۃ، فصل : فی صلاۃ المسافر،1/397
45۔ البنایۃ شرح الہدایۃ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، تحت قولہ : لأن اعتبار النیۃ…إلخ، 3/32
46۔ الفتاوی السراجیۃ، کتاب الحج، باب صلاۃ المسافر، ص11
47۔ مجمع الأنہر شرح ملتقی الأبحر، کتاب الصلاۃ، باب المسافر، تحت قولہ : بموضعین بمکۃ….إلخ، 1/241
48۔ الدر المنتقی شرح الملتقی علی ہامش مجمع الأنہر،کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،تحت قولہ : الإقامۃ، 1/241
49۔ البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، تحت قولہ : لابمکۃ ومنی، 2/232
أیضاً الفتاوی الہندیۃ،کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر فی صلاۃ المسافر، 1/140
50۔ خلاصۃ الفتاویٰ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،1/199
51۔ الہدایۃ، کتاب السلاۃ، باب صلاۃ المسافر، تحت قولہ : إذا نوی المسافر….إلخ، 2/98
52۔ مجمع الأنہر، کتاب الصلاۃ، باب المسافر، تحت قولہ : بموضعین کمکۃ، 1/240
53۔ الکافی، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، تحت قولہ : إقام بمکۃ …إلخ، 10/ق133
54۔ البنایۃ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، لأن السفر لا یعری عنہ، تحت قولہ : إلا إذا نوی، 3/32
55۔ رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الحج، مطلب : فی الرّواح إلی عرفات، تحت قولہ : ومکث بھا إلی الفجر عرفۃ، 3/591
56۔ فتاویٰ قاضیخان، کتاب الحج، فصل فی کیفیۃ أداء الحج، 1/293
57۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب ہفتم، فصل دویم، ص195۔196
58۔ مجمع البحرین و ملتقی النیّرین، کتاب الحج، فصل فی صفۃ أفعال الحج، ص229
59۔ لباب المناسک ، باب أحکام المزدلفۃ، فصل فی الوقوف بہا، ص147
60۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب طواف الزیارۃ، فصل : تحت قولہ : ولا یبیت بمکۃ ولا فی الطریق ، ص333