ARTICLES

کیا مسجد قباء میں ایک نماز کا ثواب عمرہ کے برابر ہے ؟

الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ لوگوں میں مشہور ہے کہ مسجد قباء میں دو رکعت نماز ایک عمرہ برابر ثواب رکھتی ہے اس کی حقیقت کیا ہے ؟اور پھر صرف دو رکعت کافی ہیں یا چار پڑھے ؟ (السائل : محمد معین،مدینہ منورہ)

جواب

متعلقہ مضامین

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : ۔صورت مسؤلہ کی حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مسجد قباء میں دو رکعت نماز کوایک عمرے کے برابر قرار دیا ہے ۔ چنانچہ اما م ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجہ قزوینی متوفی275ھ روایت ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من تطہر فی بیتہ ثم اتی مسجد قباء ،فصلی فیہ صلاۃً، کان لہ کاجر عمرۃٍ۔(87) یعنی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنے گھر میں طہارت حاصل کرے (یعنی وضو کرے )پھر وہ مسجد قباء ائے پھراس میں نماز پڑھے تو اس کے لیے عمرہ کا اجر ہے ۔ امام ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی متوفی297ھ اورعلامہ علاء الدین علی المتقی بن حسام الدین ہندی متوفی975ھ روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : عن النبی علیہ الصلوۃ و السلام صلی اللہ علیہ وسلم قال : الصلاۃ فی مسجد قباء ٍ کعمرۃٍ۔(88) یعنی،نبی علیہ الصلوۃ و السلام صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے مسجد قباء میں نماز عمرہ کی مثل ہے ۔ امام ابو القاسم سلیمان بن احمد
طبرانیمتوفی360ھ لکھتے ہیں : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من اتی مسجد قباء ، فصلی فیہ کانت عمرۃً۔(89) یعنی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مسجد قباء ائے پھر اس میں نماز پڑھے تو عمرہ (کے برابر اجر)ہوگا۔ امام طبرانی روایت کرتے ہیں اور علامہ علی متقی ہندی روایت نقل کرتے ہیں : من توضا فاحسن الوضوء ، ثم صلی فی مسجد قباء رکعتین کانت لہ عمرۃ۔(90) یعنی،جو اچھے سے وضو کرے پھر مسجد قباء میں دو رکعت نماز پڑھے تو یہ اس لیے عمرہ ہوگیا۔ امام حافظ ابو بکر احمد بن حسین بیہقی متوفی458ھ ’’السنن الکبری‘‘(91)اور ’’الجامع شعب الایمان‘‘(92)میں حدیث شریف نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : صلاۃ فی مسجد قباء کعمرۃٍ ۔ یعنی،(حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا)مسجد قباء میں نماز عمرہ کی مثل ہے ۔ امام ابو الفضل جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر سیوطی متوفی911ھ روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : من تطہر فی بیتہ، ثم اتی مسجد قباء فصلی فیہ کان لہ کاجر عمرۃٍ۔(93) یعنی،جو اپنے گھر سے طہارت حاصل کرے پھر مسجد قباء ائے پھر اس میں نمازپڑھے تو اس کے لیے عمرہ کے اجر کی مثل ہے ۔ علامہ متقی ہندی روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : من اتی مسجد قباء فصلی فیہ کان کعمرۃ۔(94) یعنی،جو مسجد قباء ائے پھر اس میں نماز پڑھے تو یہ عمرہ کی مثل ہوگا۔ امام ابو زید عمر بن شبہ نمیری بصری کی نقل کردہ دو روایتیں درج ذیل ہیں ۔ (1)من تطہر فی بیتہ، ثم اتی مسجد قباء ٍ فصلی فیہ صلاۃً، کان لہ اجر عمرۃٍ۔(95) یعنی، جو اپنے گھر میں طہارت حاصل کرے پھروہ مسجد قباء اکر اس میں نماز پڑھے تو اس کے لیے عمرہ کا اجر ہے ۔ (2)عن النبی علیہ الصلوۃ و السلام صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال : من صلی فی مسجد قباء ٍ کانت صلاتہ فیہا کعمرۃٍ۔(96) یعنی،نبی علیہ الصلوۃ و السلام صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ بے شک حضور علیہ السلام نے فرمایا جو مسجد قباء میں نماز قائم کرے تو اس کی اس میں نماز عمرہ کی مثل ہوگی۔ اور افضل یہ ہے کہ ہفتہ کے روز صبح کے وقت جائے کیونکہ نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس روز مسجد قباء تشریف لے جانا مروی ہے ۔ چنانچہ امام ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری متوفی256ھ اس حوالے سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : عن ابن عمر رضی اللہ عنہما، قال : کان النبی علیہ الصلوۃ و السلام صلی اللہ علیہ وسلم یاتی مسجد قباء ٍ کل سبتٍ، ماشیًا وراکبًا وکان عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما یفعلہ۔(97) یعنی،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی علیہ الصلوۃ و السلام صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ کے دن مسجد قباء پیدل اور سوارہوکر تشریف لاتے تھے اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہمابھی یہی کرتے تھے ۔ امام ابو محمد حسین بن مسعود بغوی متوفی516ھ روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : عن ابن عمر، قال : کان النبی علیہ الصلوۃ و السلام صلی اللہ علیہ وسلم یاتی مسجد قباء کل سبتٍ ماشیًا وراکبًا، وکان عبد اللہ یفعلہ۔(98) یعنی،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی علیہ الصلوۃ و السلام صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ کے روزمسجد قباء پیدل اور سوار تشریف لاتے اورحضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بھی یہی کرتے تھے ۔ شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی حنفی متوفی1174ھ لکھتے ہیں : نیز روایت کردہ است ابن ابی شیبہ وحاکم بسند صحیح عن سعد بن ابی وقاص کہ گفت اگر بگذارم من در مسجد قبا دو رکعت را دو ست تر بازد بسوئے من بہ ازانکہ بیایم در بیت المقدس دو مرتبہ ولیکن لفظ دو مرتبہ در روایت ابن ابی شیبہ است فقط۔(99) یعنی،نیزبن ابی شیبہ اور حاکم نے سند صحیح کے ساتھ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اپ نے فرمایا کہ مسجد قباء میں نماز پڑھوں یہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں بیت المقدس دو بار اوں ، لیکن لفظ دو مرتبہ فقط ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے ۔ اسی لیے فقہائے کرام نے ہفتہ کے روز جانے کو مستحب قرار دیا ہے ۔ چنانچہ علامہ نظام الدین متوفی 1161ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھاہے : ویستحب ان یاتی مسجد قباء یوم السبت۔(100) یعنی،مستحب یہ ہے کہ ہفتے کے روز مسجد قباء ائے ۔ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ لکھتے ہیں : یستحب زیارتہ یوم السبت۔(101) یعنی،مسجد قباء کی زیارت ہفتہ کے دن مستحب ہے ۔ اس کے تحت ملاعلی بن سلطان قاری متوفی1014ھ لکھتے ہیں : مسجد قباء کی زیارت مطلقا مستحب ہے باقی ہفتہ کے روز کا ذکر انما ھو بیان الافضل لما روی اتیانہ ﷺ یوم الاثنین ایضا وصبیحۃ عشر رمضان ،وکان عمر رضی اللہ عنہ یاتی قبا یوم الاثنین والخمیس ۔(102) یعنی،یہ صرف افضل اوقات کا بیان ہے اس لئے کہ نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیر کے روز تشریف لانا بھی مروی ہے اور دسویں رمضان کی صبح کو (تشریف لانا بھی مروی ہے )اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ پیر اور جمعرات کو قباء تشریف لاتے تھے ۔ مسجد قباء کسی بھی روز جائے ثواب عمرہ ہی کے برابر ہے جیسا کہ حدیث شریف میں مذکور ہوا۔ چنانچہ ملا علی قاری لکھتے ہیں : ای سواء یکون یوم السبت ا و غیرہ لعمومہ۔ (103) یعنی،حدیث شریف کے عموم کی وجہ سے برابر ہے (مسجد قباء میں دو رکعت نماز پڑھنا )ہفتہ کے روز ہو یا اس کے غیر اور دن میں ہو۔ اور لکھتے ہیں : ثم عدد الرکعات التی تقوم مقام العمرۃ رکعتان۔ (104) یعنی،پھر تعداد رکعات جو عمرہ کے قائم مقام ہیں وہ دورکعتیں ہیں ۔ اورایک روایت میں چار رکعتوں کا تذکرہ بھی ہے ۔ علامہ علی متقی ہندی روایت نقل کرتے ہیں : من توضا فاحسن وضوء ہ ثم دخل مسجد قباء فرکع اربع رکعاتٍ کان ذلک عدل عمرۃٍ۔ (105) یعنی،جو اچھے سے وضو کرے پھر مسجد قباء میں داخل ہوکر چار رکعت نما ز قائم کرے تو یہ عمرہ کے برابر ہے ۔ اس روایت میں چار رکعتوں کاذکر توہے لیکن شاید یہاں دو رکعت تحیۃ المسجد اور دو رکعت ثواب عمرہ پر محمول ہے ۔اور یہ کیوں کر نہ ہوکہ اوپر ذکر کی گئی ’’المعجم الکبیر ‘‘اور ’’کنز العمال‘‘کی روایت میں صراحت کے ساتھ دو رکعت کا ذکر موجود ہے ۔ چنانچہ ملا علی قاری لکھتے ہیں : وفی روایۃ اربع رکعات ،ولعلہ محمول علی ان رکعتین للتحیۃ واخریین لمثوبۃ العمرۃ۔ (106) یعنی،شاید یہ اس پر محمول ہے کہ بے شک دو رکعتیں تحیت المسجد کے لیے ہیں اور دورکعتیں عمرہ کے ثواب کے لیے ہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم باالصوب یوم السبت6،محرم الحرام،1440ھ۔15سبتمبر،2018م FU-58

حوالہ جات

(87) سنن ابن ماجۃ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ماجا فی الصلاۃ فی مسجد قباء ، برقم : 1412، 2/189

(88) سنن الترمذی،ابواب الصلاۃ،باب ما جا فی الصلوۃ فی مسجد قباء،برقم : 324،1/244

کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال،کتاب الفضائل، فضائل
المدینۃ،وماحولھا علی ساکنھا افضل الصلاۃ والسلام،برقم : 34971،12/119

(89) المعجم الکبیر،ما اسند سھل بن حنیف ، ابو امامۃ بن سھل بن حنیف عن ابیہ ، برقم : 5559، 6۔75

(90) المعجم الکبیر،ما اسند سھل بن حنیف ، ابو امامۃ بن سھل بن حنیف عن ابیہ ، برقم : 5561، 6۔75

کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال،کتاب الفضائل، فضائل
المدینۃ،وماحولھا علی ساکنھا افضل الصلاۃ والسلام،برقم : 34964،12/118

(91) السنن الکبری ،کتاب الحج ، باب اتیان مسجد قباء والصلاۃ فیہ ،برقم : 10295،5/408

(92) الجامع شعب الایمان،المناسک،فضل الحج والعمرۃ،برقم3892،6/67

(93) الفتح الکبیر،حرف المیم،برقم : 11600،3/170

(94) کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال،کتاب الفضائل، فضائل
المدینۃ،وماحولھا علی ساکنھا افضل الصلاۃ والسلام،برقم34970،12/119

(95) تاریخ المدینۃ المنورۃ لابن شبہ ، باب الرخصۃ فی النوم فیہ ،1/40

(96) تاریخ المدینۃ المنورۃ لابن شبہ ، باب الرخصۃ فی النوم فیہ ،1/42

(97) صحیح البخاری ،کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، باب من اتی مسجد قباء کل سبتٍ،برقم : 1193،1/288

(98) شرح السنۃ ،کتاب الصلاۃ، باب مسجد قباء،برقم458،2/108

(99) حیات القلوب فی زیارۃ المحبوب،باب چہار دہم،فصل دہم در مساجدے کہ منسوب اند بسوئے انحضرت ﷺ ۔۔۔۔۔الخ،ص : 340

(100) الفتاوی الھندیۃ،کتاب المناسک،خاتمۃ فی زیارۃ قبر النبی علیہ الصلوۃ و السلام ﷺ ،1/267

(101) لباب المناسک و عباب المسالک، باب زیارۃ سید المرسلینﷺ ،فصل فی المساجد المنسوبۃ الیہ صلی اللہ علیہ وسلم،ص313

(102) المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط علی لباب المناسک،باب زیارۃ سید المرسلینﷺ ،فصل فی المساجد المنسوبۃ الیہﷺ ،ص : 733۔734

(103) المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط علی لباب المناسک،مع ارشاد الساری ،باب زیارۃ سید المرسلینﷺ ،فصل فی المساجد المنسوبۃ الیہﷺ ،ص : 734

(104) المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط علی لباب المناسک،باب زیارۃ سید المرسلینﷺ ،فصل فی المساجد المنسوبۃ الیہﷺ ،ص : 734

(105) کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال،کتاب الفضائل، فضائل المدینۃ،وماحولھا علی ساکنھا افضل الصلاۃ والسلام،برقم : 34963،12/118

(106) المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط علی لباب المناسک،باب زیارۃ سید المرسلینﷺ ،فصل فی المساجد المنسوبۃ الیہﷺ ،ص : 734

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button