کیا فقہی قواعد بذات خود حجت اور دلیل ہیں؟
دوسرے الفاظ میں کیا فقہی قواعد کو شرعی حجت دلیل بنا کر اس سے کسی شرعی حکم استنباط کرنا جائز ہے یا نہیں؟
اس مسئلہ میں علماء کرام کا اختلاف ہے ہم ان کے اختلاف کو دو قول میں منحصر کر سکتے ہیں.
پہلا قول:
قواعد فقہیۃ بنفسہ حجت اور دلیل نہیں ہے لہذا اسے دلیل بناکر کسی مسئلہ پر حکم نہیں لگ سکتے ہیں, یہ امام الحرمین جوینی , ابن دقیق العید ,ابن نجیم , مجلہ الاحکام العدلیہ کے وضع کرنے والے تما م علماء کرام اور معاصرین میں شیخ علی ندوی اور شیخ صالح بن غانم سدلان کا قول ہے.
دوسرا قول:
قواعد فقہیۃ بنفسہ حجت اور دلیل ہے اسے دلیل بناکر مسائل کا استنباط کرنا جائز ہے , یہ ابن سبکی , قرافی , ابن بشیر مالکی و ابن عبد البر , ابن القیم , نووی اور معاصرین میں شیخ محمد صدقی بورنو اور ڈاکٹر یعقوب باحسین کا قول ہے.
پہلے قول کی دلیل :
- فقہی قواعد یہ اغلبی ہیں کلی نہیں ہیں کیونکہ بہت سارے مسائل اس سے مستثنى ہوتے ہیں.
- بہت سارے فقہی قواعد استقرائی ہیں لہذا جو استقرائی ہو وہ دلیل نہیں بن سکتا .
- فقہی قواعد فرعی مسائل کا ثمرہ اور نتیجہ ہے اور نتیجہ اور ثمرہ کسی مسئلہ کے استنباط کیلئے دلیل نہیں بن سکتا .
دوسرےقول کی دلیل:
- فقہی قواعد یہ کلی ہیں اغلبی نہیں ہیں اس کے بہت سارے مستثنیات کے پائے جانے سے اس کلی میں کوئی فرق نہیں آتاہے.
- فقہی قواعد کو اصولی قواعد پر قیاس کرنا جیسے اصولی قواعد سے مسائل پر استدلال کرتے ہیں اسی طرح سے فقہی قواعد سے مسائل پر استدلال کریں گے.
راجح قول:
اس میں تفصیل ہے جو فقہی قواعد بالکل نصوص سے لفظا اور معنا لیا گیا ہے وہ اپنى الفاظ ومعانی کیساتھ بذات خود دلیل ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ حکم کو اس کے نص خاص کیساتھ جوڑا دجائے تاکہ لوگ نصوص سے جڑے رہے کیونکہ نصوص خاص سے مسائل دل میں پیوست ہو جاتے ہیں.
اور اگر قاعدہ نصوص کے معنى سے ماخوذ ہے تو اس کی دو حالت ہے یا تو متفق علیہ قاعدہ ہوگا یا مختلف فیہ ہوگا ,اگر متفق علیہ قاعدہ ہے تو بلا اشکال حجت اور دلیل ہے اور اگر مختلف فیہ تو جو اس میں راجح قرار پائے گا اسی کے مطابق اس کا حکم بنے گا, اور اگر قاعدہ استقرائی ہو تو اس کی مثال قیاس کی طرح ہے اس سے ضرورت کے وقت ہی حجت پکڑی جائے گی.واللہ أعلم.