الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جس شخص پر حج کی سعی باقی تھی اس نے عمرہ کا احرام باندھ کر طواف کیاا س کے بعد سعی بھی کی تو کیا یہ سعی حج کی قرار دی جائے گی جیسا کہ طواف کا معاملہ ہے اورپھر اسے عمرہ کے لیے الگ سے سعی کرنی ہوگی یا وہ سعی عمرہ کی ہوگی اور عمرہ سے فارغ ہوکر حج کی سعی الگ سے کرنی ہوگی ؟ (السائل : c/oعلامہ محمد یونس شاکر،مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں عمرہ کی سعی حج کی سعی کی طرف منتقل نہیں ہوگی۔ چنانچہ ملا علی بن سلطان قاری حنفی متوفی : 1014ھ لکھتے ہیں : فمن بقی علیہ سعی الحج واحرم بعمرۃ وطاف وسعی للعمرۃ،لم ینتقل سعیھا الی سعیہ مع تقدم سببہ وقوۃ مرتبتہ۔(35) یعنی،جس پرحج کی سعی باقی ہو اور وہ عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ کا طواف اور سعی کرے تو عمرہ کی سعی حج کی سعی کی طرف منتقل نہیں ہوگی باوجود حج کی سعی کے سبب کے مقدم ہونے اور اس کے مرتبے کے قوی ہونے کے ۔ اوریہ صحیح ہے کہ ایک طواف دوسرے طواف کی طرف منتقل ہوتا ہے جبکہ سعی اس طرح نہیں ہے اور اس کی وجہ طواف کا متکرر ہونا ہے ۔ چنانچہ ملا علی بن سلطان قاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں : ولعل وجہ الفرق ھو ان الطواف متکرر فی الحج بخلاف السعی۔(36) یعنی،شاید فرق کی وجہ یہ ہے کہ بیشک حج میں طواف کی تکرار ہے بخلاف سعی کے ۔ لہٰذا سعی دوسری سعی کی طرف منتقل نہیں ہوگی۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب یوم الاحد،،15ذوالحجۃ1439ھ۔26اغسطس،2018م FU-37
حوالہ جات
(35) المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط علی لباب المناسک،،باب انواع الاطوفۃ،فصل بعد فصل فی شرائط صحۃ الطواف،تحت قولہ : یکمل الزیارۃ من الصدر،ص : 208
(36) المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط علی لباب المناسک،،باب انواع الاطوفۃ،فصل بعد فصل فی شرائط صحۃ الطواف،تحت قولہ : یکمل الزیارۃ من الصدر،ص : 208