گزشتہ مضمون میں حدیث قدسی کی پانچ تعریفات بیان کی گئی تھیں۔ راقم کے نزدیک آخری (پانچویں) تعریف راجح ہے، جس کے مطابق حدیث قدسی کے الفاظ اللہ تعالی کے ہوتے ہیں۔ اس کی وجوہات و دلائل درج ذیل ہیں:
جن علما نے اس تعریف کو اختیار فرمایا:
- امام بخاری رحمہ اللہ کے احادیث قدسیہ کو بیان کرنے کی جگہ اور ان کی ابواب بندی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہی تعریف راجح ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کافی جگہوں پر حدیث قدسی کو ”کلام الہی“ سے تعبیر فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رحمہ اللہ حدیث قدسی کے الفاظ کو بھی ” اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ“ سمجھتے تھے۔ مثلاً:
صحیح بخاری میں ابواب ہیں: ”کلام الرب مع جبریل ونداء اللہ الملائکۃ“[1] ، ” باب قول الله تعالى: يريدون أن يبدلوا كلام الله “[2]، ” باب كلام الرب عز و جل يوم القيامة مع الأنبياء وغيرهم“[3]، ” باب كلام الرب مع أهل الجنة “[4]۔ ان ابواب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے آیات قرآنیہ کے ساتھ ساتھ احادیث قدسیہ بھی ذکر فرمائی ہیں اور ان پر بھی ”کلام الہی“ کا اطلاق فرمایا ہے اور مطلقاً ”لفظ کلام“ کلام حقیقی پر محمول ہوتا ہے جس میں لفظ اور معنی دونوں شامل ہوتے ہیں۔
اسی طرح صحیح بخاری میں ایک باب ہے: ” باب ذكر النبي صلى الله عليه و سلم وروايته عن ربه “ یعنی الفاظ اللہ تعالی کے ہیں اور روایت کرنے والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں۔
- اللہ تعالی نے معراج کی رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرمایا: ”میرا فرمان تبدیل نہیں ہوتا، یہ نمازیں پانچ بھی ہیں اور یہی پچاس بھی ہیں[5]“ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس حدیث قدسی کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ”فمثل ھذا لا یقولہ الا رب العلمین “ ترجمہ: اس طرح کے جملے اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اور نہیں کہہ سکتا۔(یعنی یہ الفاظ اللہ تعالی کے ہی ہیں۔)[6]
- شیخ الاسلام ابن تیمیہ بھی اسی موقف کے حامل تھے۔ لکھتے ہیں:”الاحادیث الالھیہ التی رواھا الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عن ر بہ ، و اخبر انھا من کلام اللہ تعالی و ان لم تکن قرآنا “[7]
- علامہ شمس الدین کرمانی رحمہ اللہ کا موقف بھی یہی ہے۔ لکھتے ہیں: ” ھذا قول اللہ و کلامہ“ [8]
اسی طرح قرآن پاک اور حدیث قدسی کے درمیان فرق یوں بیان فرماتے ہیں:
” فما الفرق بينه وبين القرآن قلت القرآن لفظه معجز ومنزل بواسطة جبريل وهذا غير معجز “[9]
غور طلب بات یہ ہے کہ علامہ کرمانی رحمہ اللہ نے یہاں یہ فرق بیان نہیں کیا کہ قرآن پاک لفظا اور معنی اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوا ہے اور حدیث قدسی کے فقط معنی نازل شدہ ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان کیفیت نزول اور حامل اعجاز کا فرق بیان کیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ ان کے ہاں لفظ اور معنی کی کوئی تقسیم کاری نہیں تھی۔
- علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کی رائے میں بھی یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں: ” فھی من کلامہ تعالی، فتضاف الیہ “[10]
- شیخ اسماعیل عطار رومی حنفی رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو اپنایا اور اس کے حق میں دلائل بھی بیان فرمائے۔[11]
- علامہ کتانی رحمہ اللہ بھی اسی موقف کے حامی تھے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کردہ تعریف سے واضح ہے۔[12]
اس تعریف کے راجح ہونے کے دلائل:
- کئی کبار محدثین نے اس تعریف کو راجح قرار دیا، جیسا کہ ابھی گزرا۔
- حدیث قدسی کی اللہ تعالی کی طرف نسبت بھی اسی وجہ سے کی جاتی ہے کہ اس کے الفاظ بھی اللہ تعالی کی طرف سے ہوتے ہیں کیونکہ اگر صرف معنی اللہ تعالی کی طرف سے ہوتے تو یہ خصوصیت تو عام حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں بھی پائی جاتی ہے کہ اس کے معانی بھی اللہ تعالی کی طرف سے بتائے گئے ہوتے ہیں لیکن اسے حدیث قدسی نہیں کہتے۔ علامہ کرمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:” فإن قلت الأحاديث كلها كذلك وكيف لا وهو ما ينطق عن الهوى قلت الفرق بأن القدسي مضاف إلى الله ومروى عنه بخلاف غيره “[13]
علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”فھی من کلامہ تعالی ، فتضاف الیہ، و ھو اغلب، و نسبتھا الیہ حینئذ نسبۃ انشاء لانہ المتکلم بھا اولاً “ [14]
- شیخ اسماعیل العطار الرومی حنفی رحمہ اللہ نے بھی اس بات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ”ان ھذہ الاحادیث اضیفت الی اللہ تعالی فقیل فیھا: قدسیہ، الھیہ، و ربانیہ؛ فلو کان لفظھا من عند النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لما کان لھا فضل الاختصاص باضافۃ الیہ تعالی دون سائر احادیثہصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم“
- احادیث قدسیہ میں تمام ضمائر اور الفاظ متکلم کے استعمال ہوتے ہیں جو کہ اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہیں (مثلاً میں کہتا ہوں، میرا بندہ، میری تخلیق وغیرہ) جس سے پتا چلتا ہے کہ یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نہیں بلکہ اللہ رب العزت کے ہیں۔ فتح المبین میں ہے: ” ان ھذہ الاحادیث اشتملت علی ضمائر التکلم خاصۃ بہ تعالی “[15]
- حدیث قدسی کو بیان کرتے وقت کبھی راوی ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جس سے واضح ہو رہا ہوتا ہے کہ یہ الفاظ فرمانے والی ذات اللہ رب العزت کی ہے۔ مثلاً راوی کہتا ہے: ”قال اللہ تعالی فیما رواہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم“ (اللہ تعالی نے فرمایا جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روایت فرمایا) اگر عام احادیث کی طرح الفاظ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہوتے تو راوی حدیث قدسی بیان کرتے ہوئے بھی ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا“ کہتا، اللہ تعالی کی طرف قول کی نسبت نہ کرتا۔ شیخ اسماعیل رومی فرماتے ہیں: ”ان ھذہ الاحادیث تروی عن اللہ تعالی فتجاوزت الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فتارۃ یقول الراوی: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فیما یرویہ عنر بہ ، و تارۃ یقول: قال اللہ تعالی فیما رواہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، فلو کان اللفظ من عند النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لانتھی بالروایۃ الیہ کما ھو الشان فی الاحادیث النبویہ“[16]
حوالہ جات:
[1] : صحیح بخاری،کتاب التوحید، جلد6، صفحہ 2721،دار ابن کثیر، بیروت
[2] : مصدر السابق، صفحہ 2722
[3] : مصدر السابق، صفحہ 2726
[4] : مصدر اسابق، صفحہ 2730
[5] : یعنی ان کی ادائیگی پر پچاس کا ثواب ہو گا۔
[6] : الفصول فی سیرۃ الرسول، صفحہ 120، موقع صید الفوائد، بیروت
[7] : مجموع الفتاوی، جلد18، صفحہ 157،
[8] : الکواکب الدراری، جلد9، صفحہ 79، دار احیاء التراث العربی، بیروت
[9] : مصدر السابق
[10] : فتح المبین لشرح الاربعین، صفحہ 178
[11] : دلائل نیچے آ رہے ہیں۔
[12] : الرسالۃالمستطرفۃ، صفحہ 81۔ دار البشائر اسلامیہ، بیروت
[13] : الکواکب الدراری، جلد9، صفحہ 79، دار احیاء التراث العربی، بیروت
[14] : فتح المبین لشرح الاربعین، صفحہ 178
[15] : فتح المبین لشرح الاربعین، صفحہ 178
[16] : مصدر السابق