کیا تابعی ہونے کے لیے صحابی کی طویل صحبت شرط ہے؟
:خطیب بغدادی کا قول
خطیب بغدادی کی رائے یہ ہے کہ تابعی بننے کے لیے محض صحابی کی زیارت یا ملاقات کافی نہیں بلکہ کچھ مدت ان کی صحبت میں رہنا ضروری شرط ہے اس لئے انہوں نے تابعی کی تعریف یو ں کی ہے
التابعی من صحب الصحابی
(علوم الحدیث لا بن صلاح،٢٧٤)
تابعی وہ شخص ہے جسے کسی صحابی رسول ﷺکی صحبت حاصل ہو ئی۔
اس قول کی تردید
اس قول کو محدثین نے قبول نہیں کیا کیونکہ درج ذیل دلائل اس قول کی تردید کررہے ہیں ۔
محض زیارت سے تابعی ہونے کے حوالہ سے حضو ر ﷺکے دو ارشادات عالیہ ہیں۔
لاتمس النار مسلماً رأنی ورأنی من رأنی
ان مسلمانوں کو آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا اور جس نے مجھے دیکھنے والے کو دیکھا
طوبی لمن رأنی وأمن بی وطوبی عن رأنی من رأنی
مبارک ہو جس نے میری زیارت کی اور مبارک ہو جس نے میری زیارت کرنے والے کی زیارت کی۔
ان میں واضح طور پر صحابہ کی محض زیارت و رؤیت کو بیان کیا گیا ہے مذکورہ مقام فقط ان کے دیدار سے حاصل ہو جائے گا ۔اس کے لئے کوئی مدت یا صحبت کا بیان نہیں لہٰذا محض ملاقات اور زیارت سے تابعیت ثابت ہو جائے گی ۔
٢۔صحابی کی تعریف بھی اس پر شاہد ہے
اگر صحابی کی تعریف دیکھ لی جائے تو اس سے بھی مسئلہ حل ہو جاتا ہے کیونکہ صحابی اس مسلمان کو کہا جاتا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے حبیب ﷺکا دیدار کیا ،تو جس طرح صحابی میں فقط زیارت اور دیدار کی شرط ہے اسی طرح تابعی کے لیے فقط زیارت کی شرط ہو گی۔
حافظ ابن صلاح نے یہی استدلال ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔
والاکتفا ء فی ھذا بمجرد اللقاء والرؤیہ اقرب منہ فی الصحابی نظر االی مقتضی اللفظین فیھا
(علوم الحدیث٢٧٤)
اگر ان دونوں الفاظ (صحابی اور تابعی) میں غور کیا جائے بنسبت صحابی کے تابعی میں محض زیارت اور ملاقات پر اکتفاء زیادہ مناسب ہے۔
٣۔محدثین کی تصریحات
علماء اصول حدیث نے بھی صراحتہً خطیب بغدادی کا رد کرتے ہوئے اس شرط کی نفی کی ہے ۔
١۔حافط زین العراقی اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
الراجح الذی علیہ العمل قول الحاکم وغیرہ فی الاکتفا ء بمجرد لہ الرؤ یۃ دون اشتراط الصحبۃ و علیہ ید ل عمل آئمۃ الحدیث مسلم بن حجاج وابی حاتم بن حبان وابی عبد اللہ الحاکم و عبد الغنی بن سعید وغیرھم
(التقییہ والایضاح،٢٧٤)
واضح قول جس پر عمل ہے وہ حاکم وغیرہ کا ہے کہ محض زیارت کافی ہے صحبت شرط نہیں اور اس پر آئمہ حدیث مسلم بن حجاج ابو ابن حبان ، ابو عبد اللہ حاکم اور عبد الغنی بن سعید وغیرہ کا عمل بھی دلالت کررہا ہے ۔
١۔ امام نووی تابعی کی تعریف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :۔
قیل مومن صحب صحابیا و قیل من لقیہ وھو الاظہر (التقریب ٢١٢)۔
بعض نے کہا تابعی وہ شخص ہے جس نے صحابی کی صحبت اٹھائی ہو ۔ دوسرے قول کے مطابق جس نے صحابی سے ملاقات کی ہو اور یہ قول مختار ہے۔
یہاں امام نووی نے محض ملاقات ہی کو کافی و مختار قرار دیا ہے ۔
٣۔حافظ ابن حجر عسقلانی تابعی کی تعریف ”جس نے صحابی سے ملاقات کی ”کرنے کے بعد کہتے ہیں ۔
ھذاالمختار فلانا عن اشتراط فی التابعی طول الملازمۃ او صحبۃ السماع اوالتمییز (نزھۃ النظر،١٠٢) ۔
یہی مذہب مختار ہے بہ خلاف ان لوگوں کے جو تابعی کے لئے طویل ملازمت یا صحت سماع یا سن تمیز کو شرط قراردیتے ہیں
ان کی صحبت سے مراد لغوی صحبت ہے
خود خطیب کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صحبت سے اصطلاحی و عرفی صحبت مراد نہیں لیتے بلکہ لغوی صحبت مراد لیتے ہیں جس میں ایک لحظہ کی ملاقات بھی کافی ہوتی ہے ۔جبکہ صحبت عرفی میں صرف ملاقات کافی نہیں بلکہ کچھ عرصہ تک ساتھ رہنا ضروری ہوتا ہے ۔ خطیب نے حضرت منصور بن معتمر کو تابعی قرار دیا ہے ،حالانکہ ان کی صحابی رسول ﷺحضرت ابن ابی اونی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات تو ثابت ہے لیکن صحبت معرف نہیں بلکہ ،دیگر محدثین نے انہیں تبع تابعین میں شامل کیا ہے ۔حافظ زین الدین عراقی اس بات پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
قال النووی فی شرح مسلم منصور بن المعتمر لیس بتابعی ولکنہ من اتباع التابعین وان لم یعرف لہ صحبۃ لا بن ابی اوفی فیحمل قولہ فیالکفایۃ من صحب الصحابی علی ان المراد اللاقی جمعابین کلامیہ واللہ اعلم (التقید والایضاح ٢٧٦)۔
امام نووی نے شرح مسلم میں فرمایا منصوربن معتمر تابعی نہیں ،بلکہ تبع تابعین میں سے ہیں اگرچہ ان کی صحبت حضرت ابن ابی اونی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے معروف نہیں ،لیکن اس کے باوجود خطیب نے انہیں تابعین میں شامل کیا لہذاخطیب نےـــ الکفایۃ میں جو کہا ہے تابعی وہ ہوتا ہے جس نے کسی صحابی کی صحبت ہوکو اس پر محمول کیا گیا ہے کہ یہاں صحبت سے مراد ملاقات ہی ہے تاکہ خطیب کے دونوں اقوال میں اختلاف نہ رہے۔
حافظ سخاوی نے یہاں تک تحریر فرمایا ہے کہ لفظ صحبت کا لغت وعرف دونوں میں استعمال تقریباًایک ہی معنی میں ہوتا ہے اس پر مثال خطیب کے عمل کو بنایا۔
فالعرف واللغۃفیہ متقاربان ھذا مع ان الخطیب عد منصور بن المعتمر فی التابعین مع کونہ لم یسمع من احد من الصحابۃ
(فتح المغیث ،٣٩٦)
تابعیت کے باب میں عرف اور لغت دونوں ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں ، یہی وجہ ہے کہ خطیب نے منصور بن معتمر کو تابعین میں شمار کیا ہے ۔ حالانکہ ان کا کسی صحابی سے ثابت نہیں۔
اسی طرح ان متعددحضرات کو تابعی قرار دیا گیاہے جنہوں نے فقط صحابہ کرام کی زیارت کی ہے ۔حالانکہ انہیں صحبت و سماع حاصل نہیں مثلاًحضرت سلیمان بن مہران الاعمش،حضرت یحیٰ بن ابی کثیر ،حضرت جریر بن حازم موسیٰ بن ابی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
ماخوذ از کتاب: امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کا تابعی ہو نا
مصنف : بدر المصنفین شیخ الحدیث محقق العصر حضرت مولانا مفتی محمد خان قادری(بانی ، جامعہ اسلامیہ لاہور)۔
ایک تبصرہ