استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ احرام صرف دو چادریں پہن لینے کا نام ہے ، اس طرح کہ دو سفید چادریں زیب تن کر لیں تو احرام والے ہو گئے ، اس بات کی شرعی رو سے کیا حقیقت ہے ؟
(السائل : ایک حاجی، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : احرام تو حج یا عمرہ کی نیت سے تلبیہ کہہ لینے سے شروع ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے فتاویٰ میں بھی اس پر تفصیل سے کلام موجود ہے باقی عوام الناس کی ایک بڑی تعداد دو سفید چادریں پہن لینے کو احرام باندھ لینا کہتے ہیں اور اتار دینے کو احرام کھولنا کہتے ہیں اور اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ صرف دو چادریں پہن لے تو احرام کی پابندیاں شروع ہو گئیں اور بلا نیت و تلبیہ کے اسی حالت میں حج یا عمرہ کر لیا تو ادا ہو گئے اگر کوئی اس طرح سمجھتا ہے تو وہ صریح غلطی پر ہے ۔ محقق یوسف بن جنید رومی حنفی الملقب باخی چلپی (3) متوفی 950ھ لکھتے ہیں :
و ہو عبارۃ عن مجموع النیۃ بالقلب و التلبیۃ باللسان، فضل بعضہم ذکر النیۃ باللسان ایضا مع ملاحظۃ القلب ایاھا، فظہر من ہذا افساد توہم من قال : ان الاحرام عبارۃ عن لبس ازارٍ و ردائٍ علی الوجہ المسنون المشہور حتی وقع بینی و بین رفقائنا الجامعین بین الفضائل العلمیۃ و الکمالات العملیۃ الزائرین للحرمین فی المرۃ الثالثۃ اختلافات کثیرۃ فیہ بحیث اصروا علی ان ا لاحرام عبارۃ عن اللبس المخصوص، فقلت لہم : فعلی ما ذکرتم یلزم بطلان حج من لم یلبس الثوبین المذکورین، فبعضہم التزم ذالک (4) و بعضہم بہت و تحیر ثم ایدت رایی بقول الاکمل فی اثنائ باب الاعتکاف کما قلنا فی الاحرام (5)
یعنی، احرام دل سے نیت اور زبان سے تلبیہ کہنے کے مجموعے سے عبارت ہے اور بعض علماء کرام نے زبان کے ساتھ نیت کرنے کو بھی افضل کہا ہے جب کہ دل کا ملاحظہ اس نیت کے ساتھ ہو، پس اس سے اس وہم کا فساد ظاہر ہوا کہ جس نے یہ کہا کہ احرام اس مسنون طریقے پر ازار اور چادر پہن لینے سے عبارت ہے جو لوگوں میں معروف ہے ۔ یہاں تک کہ میرے اور میرے بعض ایسے زائرین حرمین طیبین رفقاء کے مابین جو فضائل علمیہ اور کمالات عملیہ کے صاحب ہیں (حرمین شریفین کے ) تیسرے سفر میں کثیر اختلافات واقع ہوئے ، اس طرح کہ انہوں نے اس پر اصرار کیا کہ احرام مخصوص پہناوے سے عبارت ہے تو میں نے ان سے کہا کہ جو تم کہتے ہو اس بنا پر تو اس شخص کے حج کا باطل ہونا لازم اتا ہے کہ جس نے مذکورہ دو کپڑے نہ پہنے ہوں تو ان میں سے بعض نے تو اس کا التزام کر لیا (6) اور بعض تو لاجواب ہوئے اور حیرت میں پڑ گئے ، پھر میں نے اکمل (الدین بابرتی) کے باب الاعتکاف میں قول سے اپنی رائے کو موید کیا جیسا کہ ہم نے احرام میں کہا۔ الخ
واللٰہ تعالی اعلم بالصواب
یوم الاثنین، 23ذوالحجۃ 1431ھ، 29 نوفمبر 2010 م 707-F
حوالہ جات
3۔ محشی ’’ذخیرۃ العقبیٰ‘‘ مولوی محمد عا لم حضرکوٹی حنفی لکھتے ہیں کہ و معنی چلپی فی عرفہم سیدی، نص علیہ شمس الدین السخاوی فی کتابہ ’’الضوئ اللامع فی اعیان القرن التاسع‘‘ فی ترجمۃ حسن چلپی (حاشیۃ ذخیرۃ العقبی، خاتمۃ الکتاب، ص540) یعنی، ان کے عرف میں چلپی کا معنی سیدی ہے ، شمس الدین سخاوی نے اپنی کتاب ’’الضوء اللامع فی اعیان القرن التاسع‘‘ میں حسن چلپی کے حالات میں اس کی تصریح کی ہے ۔
4۔ ای : البطلان بان قال : نعم یلزم بطلانہ (حاشیۃ ذخیرۃ العقبی، ص492)
5۔ ذخیرۃ العقبیٰ، کتاب الحج، تحت قولہ : و فرضہ ا لاحرام، ص491، 492
6۔ یعنی بطلان کا التزام کیا اس طرح کہ انہوں نے کہا ہاں حج کا باطل ہونا لازم ائے گا۔ (حاشیۃ ذخیرۃ القبیٰ، کتاب الحج، تحت قولہ : التزم ذلک، ص492)