کوئیں کا بیان
مسئلہ ۱ : کوئیں میں آدمی یا کسی جانور کا پیشاب یا بہتا ہوا خون یا تاڑی یا سیندھی یا کسی قسم کا شراب کا قطرہ یا ناپاک لکڑی یا نجس کپڑا یا اور کوئی ناپاک چیز گری اُس کا کل پانی نکالا جائے گا۔
مسئلہ ۲ : جن چوپایوں کا گوشت نہیں کھایا جاتا اس کے پاخانہ پیشاب سے ناپاک ہو جائے گا۔ یونہی مرغی اور ربط کی بیٹ سے ناپاک ہو جائے گا ان سب صورتوں میں کل پانی نکالا جائے گا۔
مسئلہ ۳ : مینگیاں اور گوبر اور لید اگرچہ ناپاک ہیں مگر کنویں میں گر جائیں تو بوجہ ضرورت ان کا قلیل معاف رکھا گیا ہے پانی کی ناپاکی کا حکم نہ دیا جائے گا اور اڑنے والے حلال جانور کبوتر چڑیا کی بیٹ یا شکاری، پرند، چیل، شِکرا، باز کی بیٹ گر جائے تو ناپاک نہ ہو گا یونہی چُوہے اور چمگادڑ کے پیشاب سے بھی ناپاک نہ ہو گا۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۱۹)۔
مسئلہ ۴ : پیشاب کی بہت باریک بندکیاں مثل سوئی کی جوک کے اور نجس غبار پڑنے سے ناپاک نہ ہو گا۔
مسئلہ ۵ : جس کوئیں کا پانی ناپاک ہو گیا اس کا ایک قطرہ بھی پاک کنوئیں میں پڑ جائے تو یہ بھی ناپاک ہو گیا جو حکم اس کا تھا وہی اس کو ہو گیا۔ یونہی ڈول رسی گھڑا جن میں ناپاک کنوئیں کا پانی لگا تھا پاک کنوئیں میں پڑے وہ پاک بھی ناپاک ہو جائے گا۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۲۰)۔
مسئلہ ۶ : کنویں میں آدمی بکری یا کتا یا کوئی اور دموی جانور ان کے برابر یا ان سے بڑا گر کر مر جائے تو کُل پانی نکالا جائے گا۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۱۹)۔
مسئلہ ۷ : مرغا، مرغی، بلّی چوہا یا اور کوئی دموئی جانور (جس میں بہتا ہوا خون ہو) اس میں مر کر پُھول جائے یا پھٹ جائے کل پانی نکالا جائے۔
مسئلہ ۸ : اگر یہ سب باہر مرے پھر کوئیں میں گر گئے جب بھی یہی حکم ہے۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۲۰)۔
مسئلہ ۹ : چھپکلی یا چوہے کی دم کٹ کر کوئیں میں گری اگرچہ پھولی پھٹی نہ ہو کل پانی نکالا جائے گا مگراس کی جڑ میں اگر موم لگا ہو تو بیس ڈول نکالا جائے۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۲۰)۔
مسئلہ ۱۰: بلّی نے چوہے کو دبوچا اور زخمی ہو گیا پھر اس سے چھوٹ کر کوئیں میں گِرا کُل پانی نکالا جائے ۔
مسئلہ ۱۱: چوہا، چھچوندر، چڑیا، چھپکلی، گرگٹ یا ان کے برابر یا ان سے چھوٹا کوئی جانور دموی کنویں میں گر کر مر گیا تو بیس (۲۰) ڈول سے تیس (۳۰) ڈول تک نکالا جائے ۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۱۹)۔
مسئلہ ۱۲: کبوتر، مرغی، بلّی گر کر مرے تو چالیس (۴۰) سے ساٹھ (۶۰) تک۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۱۹)۔
مسئلہ ۱۳ : آدمی کا بچہ جو زندہ پیدا ہو حکم میں آدمی کے ہے بکری کا چھوٹا بچہ حکم میں بکری کے ہے۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۱۹، درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۹۹)۔
مسئلہ ۱۴: دو چوہے گر کر مر جائیں تو وہی بیس سے تیس ڈول نکالا جائے۔ دو تین یا چار یا پانچ ہوں تو چالیس سے ساٹھ تک اور چھ ہوں تو کُل پانی۔
مسئلہ ۱۵: دو بلّیاں مر جائیں تو سب نکالا جائے۔
مسئلہ ۱۶: مسلمان مردہ بعد غسل کے کنویں میں گر جائے تو اصلاً پانی نکالنے کی ضرورت نہیں اور شہید گر جائے اور بدن پر خون نہ لگا ہوتو بھی کچھ حاجت نہیں اور اگر خون لگا ہے اور قابل بہنے کے نہ تھا تو بھی کچھ حاجت نہیں اگرچہ وہ خون اسے بدن دھل کر پانی میں مِل جائے اور اگربہنے کے قابل خون اس کے بدن دھل کر پانی میں مل جائے اور اگر بہنے کے قابل خون اس کے بدن پر لگا ہوا ہے اور خشک ہو گیا اور شہید کے گرنے سے اس کے بدن سے جدا ہو پانی میں نہ ملا جب بھی پانی پاک رہے گا کہ شہید کا خون پانی میں کل گیا تو اب ناپاک ہو گیا۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۹۵، ہندیہ ج۱ ص۱۹)
مسئلہ ۱۷: کافر مردہ اگرچہ سو بار دھویا گیا ہو کنویں میں گر جائے یا اس کی انگلی یا باخن پانی لگ جائے تو پانی نجس ہو جاے گا کل پانی نکالا جائے۔ (ہندیہ ج ۱ ص۱۹، درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۹۵)۔
مسئلہ ۱۸: کچا بچہ یا مردہ پیدا ہوا کنوئیں میں گر جائے تو سب پانی نکالا جائے اگرچہ گرنے سے پلے نہلا دیا گیا ہو۔ (عالمگیری ص ۱۹)۔
مسئلہ ۱۹: بے وضو اور جس شخص پر غسل فرض ہو اگر بلا ضرورت کنویں میں اتریں اور ان کے بدن پر نجاست نہ لگی ہو تو بیس ڈول نکالا جائے اور اگر ڈول نکالنے کے لئے اترا تو کچھ نہیں۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۹۷)۔
مسئلہ ۲۰: سوّر کنویں میں گر گیا اگرچہ نہ مرے پانی نجس ہو گیا کُل نکالا جائے گا۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۱۹)۔
مسئلہ ۲۱: سوّر کے سوا کوئی جانور کنویں میں گرا اور زندہ نکل آیا اور اس کے جسم میں نجاست یقینی معلوم نہ ہو اور پانی میں اس کا منہ نہ پڑا تو پانی پاک ہے اس کا استعمال جائز مگر احتیاط بیس ڈول نکالنا بہترہے اور اس کے بدن پن نجاست لگی ہونا یقینی معلوم ہو تو کُل پانی نکالا جائے اور اگر اس کا منہ پانی میں پڑا تو اس کا لعاب اور جھوٹے کا جو حکم ہے وہی اس پانی کا ہے اگر جھوٹا ناپاک ہے یا مشکوک تو کُل پانی نکالا جائے اور اگر مکروہ ہے تو چوہے وغیرہ میں بیس ڈول نکالنا بہتر ہے مثلاً بکری گری اور زندہ نکل آئی بیس ڈول نکال ڈالیں۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۱۹)۔
مسئلہ ۲۲: کنویں میں وہ جارور گرا جس کا جھٹا پاک ہے یا مکروہ اور پانی کچھ نہ نکالا اور وضو کر لیا تو وضو ہو جائے گا۔
مسئلہ ۲۳: جوتا یا گیند کوئیں میں گر گئی اور نجس ہونا یقینی ہے کُل پانی نکالا جائے ورنہ بیس ڈول نجس ہونے کے خیال معتبر نہیں۔
مسئلہ ۲۴: پانی کا جانور یعنی وہ جا پانی میں پیدا ہوتا ہے اگر کنویں میں مر جائے یا مرا ہوا اگر گر جائے تو ناپاک نہ ہو گا ۔ اگرچہ پھولا پھٹا ہو مگر پھٹ کر اس کے اجزا پانی میں مل گئے تو اس کا پینا حرام ہے۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۲۴)۔
مسئلہ ۲۵: خشکی اور پانی کے مینڈک کا ایک حکم ہے یعنی اس کے مرنے کے بعد سڑنے سے پانی نجس نہ ہو گا مگر جنگل کا بڑا مینڈک جس میں بہنے کے قابل خون ہوتا ہے اس کا حکم چوہے کی مثل ہے ۔ پانی کے مینڈک کی انگلیوں کے درمیان جھلی ہوتی ہے اور خشکی کے نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۴)۔
مسئلہ ۲۶: جس کی پیدائش پانی کی نہ ہو مگر پانی میں رہتا ہو جیسے بط اس کے مر جانے سے پانی نجس ہو جائے گا۔
مسئلہ ۲۷: بچّہ یا کافر نے پانی میں ہاتھ ڈال دیا تو اگر ان کیک ہاتھ کا نجس ہونا معلوم ہے جب تو ظاہر ہے کہ پانی نجس ہو گیا ورنہ نجس تو نہ ہوا مگر دوسرے پانی سے وضو کرنا بہتر ہے۔
مسئلہ ۲۸: جن جانوروں کا بہتا ہوا خون نہیں ہوتا جیسے مچھر، مکھی وغیرہ ان کے مرنے سے پانی نجس نہ ہو گا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۴)۔
فائدہ : مکھی سالن وغیرہ میں گر جائے تو اسے غوطہ دے کر پھینک دیں اور سالن کو کا م میں لائیں۔
مسئلہ ۲۹: مردار کی ہڈی جس میں گوشت یا چکنائی لگی ہو پانی میں گر جائے تو وہ پانی ناپاک ہو گیا کُل نکالا جائے اور اگر گوشت یا چکنائی نہ لگی ہو تو پاک ہے مگر سُوّر کی ہڈی سے مطلقاً ناپاک ہو جائے گا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۴)۔
مسئلہ ۳۰: جس کنوئیں کا پانی ناپاک ہو گیا اس میں سے جتنا پانی نکالنے کا حکم ہے نکال لیا گیا تو اب وہ رسی ڈول جس سے پانی نکالا ہے پاک ہو گیا ، دھونے کی ضرورت نہیں۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۲۰)۔
مسئلہ ۳۱: کُل پانی نکالنے سے کے یہ معنی ہیں کہ اتنا پانی نکال لیا جائے کہ اب ڈول ڈالیں تو آدھا بھی نہ بھرے اس کی مٹی نکالنے کی ضرورت نہیں نہ دیوار کو دھونے کی حاجت کہ وہ پاک ہو گئی۔
مسئلہ ۳۲: یہ جو حکم دیا گیا ہے کہ اتنا پانی نکالا جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو چیز اس میں گری ہے اس کو اس میں سے نکال لیں پھر اتنا پانی نکالیں اگر وہ اسی میں پڑی رہے تو کتنا ہی پانی نکالیں بیکار ہے۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۱۹)۔
مسئلہ ۳۳: اور اگر وہ گل سڑ کر مٹی ہو گئی یا وہ چیز خود نجس نہ تھی بلکہ کسی نجس چیز کے لگنے سے نجس ہو گئی ہے جیسے نجس کپڑا اور اس کا نکالنا مشکل ہے تو اب فقط پانی نکالنے سے پاک ہو جائے گا۔
مسئلہ ۳۴: جس کنویں کا ڈول معین ہو تو اسی کا اعتبار ہے اس کے چھوٹے بڑے ہونے کا کچھ اعتبار نہیں اور اگر اس کا کوئی خاص ڈول نہ ہو تو ایسا ہو کہ ایک صاع اس میں آجائے۔
مسئلہ ۳۵: ڈول بھرا ہوا نکلنا ضرور نہیں اگر کچھ پانی چھلک کر گر گیا یا ٹپک گیا مگر جتنا بچا اور آدھے سے زیادہ ہے تو وہ پورا ہی ڈول شمار کیا جائے گا۔
مسئلہ ۳۶: ڈول معین ہے مگر جس ڈول سے پانی نکالا وہ اس سے چھوٹا یا بڑا ہے یا ڈول معین نہیں اور جس سے نکالا وہ ایک صاع سے کم و بیش ہے تو ان صورتوں میں حساب کرکے اس کو معین یا ایک صاع کے برابر کر لیں،
مسئلہ ۳۷: کنویں سے مرا ہوا جانور نکلا تو اگر اس کے گرنے مرنے کا وقت معلوم ہے تو اسی وقت سے پانی نجس ہے اس کے بعد اگر کسی نے اس سے وضو یا غسل کیا تو نہ وضو ہوا نہ غسل اس وضو اورغسل سے جتنی نمازیں پڑھیں سب کو پھیرے کہ وہ نمازیں نہ ہوئیں۔ یونہی اس پانی سے کپڑے سے دھوئے یا کسی اور طریق سے اس کے بدن یا کپڑے میں لگا تو کپڑے اور بدن کا پاک کرنا ضروری ہے اور ان سے جو نمازیں پڑھیں ان کا پھیرنا فرض ہے اور اگر وقت معلوم نہیں تو جس وقت دیکھا گیا س وقت سے نجس قرار پائے گا۔ اگرچہ پھولا پھٹا ہو اس سے قبل پانی نجس نہیں اور پہلے جو وضو یا غسل کیا یا کپڑے دھوئے کچھ حرج نہیں تیسیراً اسی پر عمل ہے۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۲۰)۔
مسئلہ ۳۸: جو کنواں ایسا ہو کہ اس کا پانی ٹوٹتا ہی نہیں چاہے کتنا ہی نکالیں اور اس میں نجاست پڑ گیء یا اس میں کوئی ایسا جانور مر گیا جس میں کُل پانی نکالنے کا حکم ہے تو ایسی حالت میںحکم یہ ہے کہ معلوم کر لیں کہ اس میںکتنا پانی ہے وہ سب نکال لیا جائے ۔ نکالتے وقت جتنا ہوتا گیا اس کا کچھ لحاظ نہیں اور یہ معلوم کر لینا کہ اس وقت کتنا پانی ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو مسلمان پرہیزگار جن کو یہ مہارت ہو کہ پانی کی چوڑائی گہرائی دیکھ کر بتا سکیں کہ اس کنویں میں اتنا پانی ہے وہ جتنے ڈول بتائیں اتنے نکالے جائیں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس پانی کی گہرائی کسی لکڑی یا رسّی سے صحیح طور پر ناپ لیں اور چند شخص بہت پھرتی سے سو (۱۰۰) ڈول مثلاً نکالیں پھر پانی ناپیں جتنا کم ہو اسی حساب سے پانی نکال لیں کنواں پاک ہو جائے گا۔ اسکی مثال یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ناپنے سے معلوم ہوا کہ پانی مثلاً دس ہاتھ ہے پھر سو ڈول نکالنے کے بعد ناپا تو نو (۹) ہاتھ رہا تو معلوم ہوا کہ سو (۱۰۰) ڈول میں ایک ہاتھ کم ہوا تو دس ہاتھ میں دس سو یعنی ایک ہزار ڈول ہوئے۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۱۹)۔
مسئلہ ۳۹: جو کنواں ایسا ہے کہ اس کا پانی ٹوٹ جائے جتنا اس وقت اس کے پھٹ جائے وغیرہ نقصانات کا گما ہے تو بھی اتنا ہی پانی نکالا جائے جتنا اس وقت اس میں موجود ہے ۔ پانی توڑنے کی حاجت نہیں۔
مسئلہ ۴۰: کنویں سے جتنا پانی نکالنا ہے اس میں اختیار ہے کہ ایک دم سے اتنا نکالیں یا تھوڑا کر کے دونوں صورتوں میں پاک ہو جائے گا۔
مسئلہ ۴۱: مرغی کا انڈا جس پر ہنوز رطوبت لگی ہو پانی میں پڑ جائے تو نجس نہ ہو گا۔ یونہی بکری کا بچہ پیدا ہوتے ہی پانی میں گرا اور مرا نہیں جب بھی ناپاک نہ ہو گا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۴)۔