سوال :
زید اور عمرو کے درمیان معاہدہ ہوا، زید نے پانچ لاکھ روپے سامنے رکھ کر کہا: دو سال کے ادھار پر آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار روپے میں تم پر فروخت کرتا ہوں ،عمرو نے کہا کہ مجھے منظور ہے ، میں خریدتا ہوں‘‘۔ کیا یہ جائز ہے؟ سو دتو نہیں ، اس کے جائز ہونے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب:
آپ نے سوال میں جو صورت معاملہ بیان کی ہے ، یہ ر باہے اور حرام ہے۔ ایک جنس کی کسی چیز کا تبادلہ کمی یا زیادتی کے ساتھ جائز نہیں ہے ۔ اس کا صحیح شرعی طریقہ یہ ہے کہ فریقین ”عقد مضاربت“ کر لیں ، اس میں ایک فریق رب المال (Capital Provider) ہوتا ہے اور دوسرا مضارب (Working Partner)۔
آپ نے جو صورت مسئلہ بیان کی ہے، اس کے مطابق زید رب المال (Capital Provider) ہو گا اور عمرو مضارب (Working Partner) ۔ اس میں عمرو کی محنت ہو گی اور زید کا سرمایہ ہو گا اور یہ بھی پہلے سے طے کر لیں کہ اس رقم پر جو منافع آئے گا اس کو دونوں پہلے سے طے شد و تناسب ( مثلاً ہر ایک کو پچاس پچاس فیصد ملے گا یا ایک کو 60 فیصد اور دوسرے کو 40 فیصد یا جو بھی تناسب (Ratio) باہمی رضامندی سے طے ہو) کے مطابق آپس میں تقسیم کریں گے ۔ اگر خدانخواستہ کوئی منافع نہ ملا تو دونوں کو کچھ نہیں ملے گا اور زید اپنی اصل رقم کا حق دار ہو گا اور اگر خدانخواستہ نقصان ہوا تو وہ سارا نقصان ’’رب المال‘‘ ( یعنی زید ) کا ہو گا اور مضارب اپنی محنت کے صلے سے محروم رہے گا۔ نقصان کی صورت میں حاصل شد و کل نفع سے اس کی تلافی کی جائے گی ۔
(تفہیم المسائل، جلد8، صفحہ362،ضیا القران پبلی کیشنز، لاہور)