بہار شریعت

کلام کے متعلق قسم کے متعلق مسائل

کلام کے متعلق قسم کے متعلق مسائل

مسئلہ۱: یہ کہا کہ تم سے یافلاں سے کلام کرنا مجھ پر حرام ہے اورکچھ بھی بات کی تو کفارہ لازم ہوگیا (درمختار)

مسئلہ۲: قسم کھائی کہ اس بچہ سے کلام نہ کریگا اور اسکے جوان یابوڑھے ہونے کے بعد کلام کیا تو قسم ٹوٹ گئی اور اگر کہا کہ بچہ سے کلام نہ کروں گا اور جوان یا بوڑھے سے کلام کیا تو نہیں ٹوٹی (درمختار ، عالمگیری)

مسئلہ۳: قسم کھائی کہ زید سے کلام نہ کریگا اور زید سورہاتھااور اس نے پکارا اگر پکارنے سے جاگ گیا تو قسم ٹوٹ گئی اور بیدار نہ ہوا تو نہیں ۔ اور اگر جاگ رہاتھا اور اس نے پکارا اگر اتنی آواز تھی کہ سن سکے اگرچہ بہرے ہونے یا کام میں مشغول ہونے یا شور کی وجہ سے نہ سنا تو قسم ٹوٹ گئی اور اگر دور تھا اور اتنی آواز سے پکارا کہ سن نہیں سکتا تو نہیں ٹوٹی۔ اور اگر زید کسی مجمع میں تھا اس نے اس مجمع کو سلام کیا تو قسم ٹوٹ گئی ہاں اگر نیت یہ ہو کہ زید کے سوا اوروں کو سلام کرتاہے تو نہیں ٹوٹی۔ اور نماز کا سلام کلام نہیں ہے لہذا اس سے قسم نہیں ٹوٹے گی خواہ زید دہنی طرف ہو یا بائیں طرف۔ یونہی اگر زید امام تھا اور یہ مقتدی اس نے اس کی غلطی پر سبحان اللہ کہا یالقمہ دیا تو قسم نہیں ٹوٹی۔ اور اگر یہ نماز میں نہ تھا اور لقمہ دیا یا اس کی غلطی پر سبحان اللہ کہا تو قسم ٹوٹ گئی(بحر)

مسئلہ۴: قسم کھائی کہ زید سے بات نہ کروں گا اور کسی کام کو اس سے کہنا ہے اس نے کسی دوسرے کو مخاطب کرکے کہا اور مقصود زید کو سنانا ہے تو قسم نہیں ٹوٹی۔ یونہی اگرعورت سے کہا کہ تونے اگرمیری شکایت اپنے بھائی سے کی تو تجھ کو طلاق ہے عورت کا بھائی آیا اور اس کے سامنے عورت نے بچہ سے اپنے شوہر کی شکایت کی اور مقصود بھائی کو سنانا ہے تو طلاق نہ ہوئی(بحر)

مسئلہ۵: قسم کھائی کہ میں تجھ سے ابتدائً کلام نہ کرونگا اورراستے میں دونوں کی ملاقات ہوئی دونوں نے ایک ساتھ سلام کیا تو قسم نہیں ٹوٹی بلکہ جاتی رہی کہ اب ابتدائً کلام کرنے میں حرج نہیں ۔ یونہی اگر عورت سے کہا اگر تجھ سے ابتدائً کلام کروں تو تجھ کو طلاق ہے اور عورت نے بھی قسم کھائی کہ میں تجھ سے کلام کی پہل نہ کروں گی تومرد کا کلام کرنا ابتدائً نہ ہوگا (بحر)

مسئلہ۶: کلام نہ کرنے کی قسم کھائی تو خط بھیجنے یا کسی کے ہاتھ کچھ کہلاکر بھیجنے یا اشارہ کرنے سے قسم نہیں ٹوٹے گی۔(عالمگیری)

مسئلہ۷: اقرار وبشارت اور خبر دینا یہ سب لکھنے سے ہوسکتے ہیں اور اشارہ سے نہیں مثلاً قسم کھائی کہ تم کو فلاں بات کی خبرنہ دوگا اورلکھ کر بھیج دیا تو قسم ٹوٹ گئی اوراشارہ سے بتایا تو نہیں اور اگر قسم کھائی کہ تمھارا راز کسی پر ظاہر نہ کرونگا اور اشارہ سے بتایا تو قسم ٹوٹ گئی کہ ظاہر کرنا اشارہ سے بھی ہوسکتاہے (درمختار، بحر)

مسئلہ۸: قسم کھائی کہ زید سے کلام نہ کرے گا اورزید نے دورازہ پر آکر کنڈی کھٹکھٹائی اس نے کہا کو ن ہے یا کون تو قسم نہیں ٹوٹی اور اگر کہا آپ کون صاحب ہیں یا تم کون ہوتو ٹوٹ گئی۔ یونہی اگرزید نے پکارا اور اس نے کہا ہاں یا کہا حاضر ہوا یا اس نے کچھ پوچھا اس نے جواب میں ہاں کہا تو قسم ٹوٹ گئی (عالمگیری)

مسئلہ۹: قسم کھائی کہ بی بی سے کلام نہ کریگا اور گھر میں عورت کے سوا دوسرا کوئی نہیں ہے یہ گھر میں آیا اور کہا یہ چیز کس نے رکھی ہے یا کہا یہ چیز کہاں ہے تو قسم ٹوٹ گئی اور اگر گھر میں کوئی اور بھی ہے تو نہیں ٹوٹی یعنی جبکہ اس کی نیت عورت سے پوچھنے کی نہ ہو (عالمگیری)

مسئلہ۱۰: کلام نہ کرنے کی قسم کھائی اورایسی زبان میں کلام کیا جس کو مخاطب نہیں سمجھتا جب بھی قسم ٹوٹ گئی(عالمگیری)

مسئلہ۱۱: قسم کھائی کہ زید سے بات نہ کروں گا جب تک فلاں شخص اجازت نہ دے اور اس نے اجازت دی مگر اسے خبر نہیں اورکلام کرلیا توقسم ٹوٹ گئی اور اجازت دینے سے پہلے وہ شخص مرگیا توقسم باطل ہوگئی یعنی اب کلام کرنے سے نہیں ٹوٹے گی کہ قسم ہی نہ رہی۔ اور اگر یوں کہا تھا کہ بغیر فلاں کی مرضی کے کلام نہ کروں گا اور اس کی مرضی تھی مگر اسے معلوم نہ تھا اور کلام کرلیا تو نہیں ٹوٹی (درمختار)

مسئلہ۱۲: یہ قسم کھائی کہ فلاں کو خط نہ لکھوں گا اور کسی کو لکھنے کے لئے اشارہ کیا تو اگر یہ قسم کھانے والا امراء میں سے ہے تو قسم ٹوٹ گئی کہ ایسے لوگ خود نہیں لکھا کرتے بلکہ دوسروں سے لکھوایا کرتے ہیں اور ان لوگوں کی عادت یہ ہوتی ہے کہ اشارہ سے حکم کیا کرتے ہیں (درمختار ، بحر)

مسئلہ۱۳: قسم کھائی کہ فلاں کا خط نہ پڑھے گا اورخط کو دیکھا اور جو کچھ لکھا ہے اسے سمجھا تو قسم ٹوٹ گئی کہ خط پڑھنے سے یہی مقصود ہے زبان سے پڑھنا مقصود نہیں یہ امام محمد رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے اور امام ابو یوسف رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب تک زبان تلفظ نہ کریگاقسم نہیں ٹوٹے گی اور اسی قول ثانی پر فتوی ہے۔(بحر)

مگر یہاں کا عام محاورہ یہی ہے کہ خط دیکھا اور لکھے ہوئے کوسمجھا تو یہ کہتے ہیں میں نے پڑھا۔ لہذا یہاں کے محاورہ میں قسم ٹوٹنے پر فتوی ہونا چاہئیے واللہ تعالی اعلم۔ یہاں کے محاورہ میں یہ لفظ کہ زید کا خط نہ پڑھوں گا ایک دوسرے معنے کے لئے بھی بولا جاتا ہے وہ یہ کہ زید بے پڑھا شخص ہے اوراس کے پاس جب کہیں سے خط آتا ہے تو کسی سے پڑھواتا ہے تو اگر یہ پڑھنا مقصود ہے تواس میں دیکھنا او سمجھنا قسم ٹوٹنے کے لئے کافی نہیں بلکہ پڑھ کر سنانے سے ٹوٹے گی۔

مسئلہ۱۴: قسم کھائی کہ کسی عورت سے کلام نہ کریگا اور بچی سے کلام کیا تو قسم نہیں ٹوٹی اور اگر قسم کھائی کہ کسی عورت سے نکاح نہ کریگااور چھوٹی لڑکی سے نکاح کیا تو ٹوٹ گئی (بحر)

مسئلہ۱۵: قسم کھائی کہ فقیروں اور مسکینوں سے کلام نہ کریگا اور ایک سے کلام کرلیا تو قسم ٹوٹ گئی۔ اور اگر یہ نیت ہے کہ تمام فقیروں اورمسکینوں سے کلام نہ کریگا تو نہیں ٹوٹی۔ یونہی اگر قسم کھائی کہ بنی آدم سے کلام نہ کریگا توایک سے کلام کرنے سے قسم ٹوٹ جائے گی اورنیت میں تمام اولاد آدم ہے تو نہیں (عالمگیری)

مسئلہ۱۶: قسم کھائی کہ فلاں سے ایک سال کلام نہ کروں گا تو اس وقت سے ایک سال یعنی بارہ مہینے تک کلام کرنے سے قسم ٹوٹ جائے گی۔ اور اگر کہا کہ ایک مہینہ کلام نہ کریگا تو جس وقت سے قسم کھائی ہے اس وقت سے ایک مہینہ یعنی تیس دن مراد ہیں ۔ اوراگر دن میں قسم کھائی کہ ایک دن کلام نہ کرونگا تو جس وقت سے قسم کھائی ہے اس وقت سے دوسرے دن کے اسی وقت تک کلام سے قسم ٹوٹے گی۔ اوراگر رات میں قسم کھائی کہایک رات کلام نہ کرونگا تو اس وقت سے دوسرے دن کے بعد والی رات کے اسی وقت تک مرادہے لہذا درمیان کا دن بھی شامل ہے۔ اورا گر رات میں کہا کہ قسم خدا کی فلاں سے ایک دن کلام نہ کرونگا تو اس وقت سے غروب آفتاب تک کلام کرنے سے قسم ٹوٹ جائیگی۔ اوراگر دن میں کہا کہ فلاں شخص سے ایک رات کلام نہ کرونگا تو اس وقت سے طلوع فجر تک کلام کرنے سے قسم ٹوٹ جائیگی۔ اور ایک مہینہ یا ایک دن کے روزہ یا اعتکاف کی قسم کھائی تو اسے اختیار ہے جب چاہے ایک مہینہ یا یک دن کا روزہ یا اعتکاف کرلے۔ اور اگر کہا اس سال کلام نہ کرونگا تو سال پورا ہونے میں جتنے دن باقی ہیں وہ لئے جائیں گے یعنی اس وقت سے ختم ذی الحجہ تک۔ یونہی اگر کہا کہ اس مہینہ میں کلام نہ کرونگا تو جتنے دن اس مہینے میں باقی ہیں وہ لئے جائینگے اوراگر یوں کہا کہ آج دن میں کلام نہ کرونگا تو اس وقت سے غروب آفتاب تک اور اگر رات میں کہا کہ آج رات میں کلام نہ کرونگا تو رات کا جتنا حصہ باقی ہے وہ مراد لیا جائے اور اگر کہاآج اورکل اور پرسوں کلام نہ کرونگا تو درمیان کی راتیں بھی داخل ہیں یعنی رات میں کلام کرنے سے بھی قسم ٹوٹ جائیگی۔ اوراگر کہا کہ نہ آج کلام کرونگا اور نہ کل اورنہ پرسوں تو راتوں میں کلام کرسکتا ہے کہ یہ ایک قسم نہیں ہے بلکہ تین قسمیں ہیں کہ تین دنوں کے لئے علیحدہ علیحدہ ہیں (بحرالرائق)

مسئلہ۱۷: قسم کھائی کہ کلام نہ کرے گا تو قرآن مجید پڑھنے یا سبحن اللہ کہنے یا اور کوئی وظیفہ پڑھنے سے قسم نہیں ٹوٹے گی۔ اور اگر قسم کھائی کہ قرآن مجید نہ پڑھے گا تو نماز میں یا بیرون نمازپڑھنے سے قسم ٹوٹ جائے اور اگر اس صورت میں بسم اللہ پڑھی اورنیت میں وہ بسم اللہ ہے جو سورۃ نمل کی جز ہے تو ٹوٹ گئی ورنہ نہیں (درمختار)

مسئلہ۱۸: قسم کھائی کہ قرآن کی فلاں سورت نہ پڑھے گا اوراسے اول سے آخرتک دیکھتا گیا اورجو کچھ لکھا ہے اسے سمجھا تو قسم نہیں ٹوٹی اور اگر قسم کھائی کہ فلاں کتاب نہ پڑھے گا اور یونہی کیا تو امام محمدرحمہ اللہ تعالی کے نزدیک ٹوٹ جائے گی اورہمارے یہاں کے عرف سے یہی مناسب (ردالمحتار)

مسئلہ۱۹: قسم کھائی کہ زید سے کلام نہ کریگا جب تک فلاں جگہ پر ہے تو وہاں سے چلے جانے کے بعد قسم ختم ہوگئی لہذا گر پھر واپس آیا اور کلام کیا تو کچھ حرج نہیں کہ قسم اب باقی نہ رہی (ردالمحتار)

مسئلہ۲۰: قسم کھائی کہ اسے کچہری میں لیجا کر حلف دوں گا مدعی علیہ نے جاکر اسکے حق کا اقرار کرلیا حلف کی نوبت ہی نہ آئی تو قسم نہیں ٹوٹی۔ یونہی اگر قسم کھائی کہ تیری شکایت فلاں سے کرونگا پھر دونوں میں صلح ہوگئی اورشکایت نہ کی تو قسم نہیں ٹوٹی یا قسم کھائی کہ اس کا قرض آج ادا کردیگا اوراس نے معاف کردیا تو قسم جاتی رہی (درمختار ر، دالمحتار، بحر)

مسئلہ۲۱: قسم کھائی کہ فلاں کے غلام یا اس کے دوست یا اس کی عورت سے کلام نہ کرونگا اوراس نے غلام بیچ ڈالا اور کسی طرح اس کی ملک سے نکل گیا اور دوست سے عداوت ہوگئی اورعورت کو طلاق دیدی تواب کلام کرنے سے قسم نہیں ٹوٹے گی غلام میں چاہے یوں کہا کہ فلاں کے اس غلام سے یا فلاں کے غلام سے دونوں کا ایک حکم ہے اوراگر قسم کے وقت وہ اس کا غلام تھااور کلام کرنے کے وقت بھی ہے یا قسم کے وقت یہ اسکا غلام نہ تھا اور اب ہے دونوں صورتوں میں ٹوٹ جائیگی (عالمگیری درمختار)

مسئلہ۲۲: اگرکہا فلاں کی اس عورت سے یا فلاں کی فلاں عورت سے یا فلاں کے اس دوست سے یا فلاں کے فلاں دوست سے کلام نہ کروں گا اورطلاق یا عداوت کے بعد کلام کیا تو قسم ٹوٹ گئی اوراگر نہ اشارہ ہو نہ معین کیا ہو اور اس نے اب کسی عورت سے نکاح کیا یا کسی سے دوستی کی تو کلام کرنے سے قسم ٹوٹ جائیگی(درمختار ردالمحتار)

مسئلہ۲۳: قسم کھائی کہ فلاں کے بھائیوں سے کلام نہ کرونگا اوراس کا ایک ہی بھائی ہے تو اگر اسے معلوم تھا کہ ایک ہی ہے تو کلام سے قسم ٹوٹ گئی ورنہ نہیں (عالمگیری)

مسئلہ۲۴: قسم کھائی کہ اس کپڑے والے سے کلام نہ کریگا اسنے کپڑے بیچ ڈالے پھر اس نے کلام کیا تو قسم ٹوٹ گئی اورجس نے کپڑے خریدے اس سے کلام کیا تو نہیں (عالمگیری)

مسئلہ۲۵: قسم کھائی کہ میں اس کے پاس نہیں پھٹکوں گا تو یہ وہی حکم رکھتا ہے جیسے یہ کہا کہ میں اس سے کلام نہ کرونگا (عالمگیری)

مسئلہ۲۶: کسی نے اپنی عورت کو اجنبی شخص سے کلام کرتے دیکھا اس نے کہا اگر تو اب کسی اجنبی سے کلام کرے گی تو تجھ کو طلاق ہے پھر عورت نے کسی ایسے شخص سے کلام کیا جو اس گھر میں رہتا ہے مگر محارم میں سے نہیں یا کسی رشتہ دار غیر محرم سے کلام کیا تو طلاق ہوگئی (عالمگیری)

مسئلہ۲۷: کچھ لوگ کسی جگہ بیٹھے ہوئے بات کررہے تھے ان میں سے ایک نے کہا جو شخص اب بولے اس کی عورت کو طلاق ہے پھرخود ہی بولا تو اس کی عورت کو طلاق ہوگئی (عالمگیری)

مسئلہ۲۸: قسم کھائی کہ زید سے کلام نہ کروگا پھر زید نے اسے خوشی کی کوئی خبر سنائی اس نے الحمد للہ یا رنج کی سنائی اس نے کہا انا للہ تو قسم نہیں ٹوٹی اورزید کی چھینک پر یرحمک اللہ کہا توٹوٹ گئی (عالمگیری)

مسئلہ۲۹: قسم کھائی کہ جب تک شب قدر نہ گزر لے کلام نہ کروں گا اگر یہ شخص عام لوگوں میں ہے تو رمضان کی ستائیسویں رات گزرنے پر کلام کرسکتا ہے اور اگر جانتا ہو کہ شب قدر میں ائمہ کا اختلاف ہے تو جب تک قسم کے بعد پورا رمضان نہ گزرلے کلام نہیں کرسکتا یعنی اگر رمضان سے پہلے قسم کھائی تو اس رمضان کے گزرنے کے بعد کلام کرسکتا ہے اور رمضان کی ایک رات گزرنے کے بعد قسم کھائی تو جب تک دوسرا رمضان پورانہ گزرجائے کلام نہیں کرسکتا (عالمگیری)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button