کعبہ معظمہ میں نماز پڑھنے کے متعلق مسائل
حدیث ۱،۲: صحیح مسلم و صحیح بخاری میں ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ اور اسامہ بن زید و عثمان بن طلحہ حجی و بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہم کعبہ معظمہ میں داخل ہوئے اور دروازہ بند کر لیا گیا کچھ دیر تک وہاں ٹھہرے جب باہر تشریف لائے میں نے بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا حضور نے کیا کیا،کہا ایک ستون بائیں طرف کیا اوردو داہنی طر ف اور تین پیچھے پھر نماز پڑھی اور اس زمانہ میں بیت اللہ شریف کے چھ ستون تھے۔
مسئلہ ۱: کعبہ معظمہ کے اند ہر نماز پڑھنی جائز ہے فرض ہو یا نفل تنہا پڑھے یا جماعت اگرچہ امام کا رخ اور طرف ہو اور مقتدی کا اور طرف۔ مگر جب کہ مقتدی کی پشت امام کے سامنے ہو تو مقتدی کی نماز نہ ہو گی اور اگر مقتدی کا منہ امام کے منہ کے سامنے ہو تو ہو جائے گی مگر کوئی چیز اگر درمیان میں حائل نہ ہو تو مکروہ ہے اور اگر مقتدی کا منہ امام کی کروٹ کی
طرف ہو تو بلا کراہت جائز۔ (جوہرہ، درمختار ج ۱ ص ۸۵۴،۸۵۵ وغیرہما)
مسئلہ ۲: کعبہ معظمہ کی چھت پر نماز پڑھی جب بھی یہی صورتیں ہیں مگر اس کی چھت پر نماز پڑھنا بھی مکروہ ہے۔ (تنویر الابصار)
مسئلہ ۳: مسجد الحرام شریف میں کعبۂ معظمہ کے گرد جماعت کی اورمقتدی کعبۂ معظمہ کے چاروں طرف ہوں جب بھی جائز ہے اگرچہ مقتدی بہ نسبت امام کے قریب تر ہے تو ان کی نماز ہو گئی بشرطیکہ یہ مقتدی جو بہ نسبت امام کے قریب تر ہے ادھر نہ ہو جس طرف امام ہو بلکہ دوسری طرف ہو اور اگر اسی طرف ہے جس طرف امام ہے اور بہ نسبت امام کے قریب تر ہے تو اس کی نماز نہ ہوئی۔ (عامہ کتب ج ۱ ص ۸۵۵)
مسئلہ ۴: امام کعبہ کے اندر ہے اور مقتدی باہر تو اقتدا صحیح ہے خواہ امام تنہا اندر ہو یا اس کے ساتھ بعض مقتدی بھی ہوں مگر دروازہ کھلا ہونا چاہیئے کہ امام کے رکوع و سجود کا حال معلوم ہوتا رہے اور اگر دروازہ بند ہے مگر امام کی آواز آتی ہے جب بھی حرج نہیں مگر جس صورت میں امام تنہا اندر ہو کہ کراہت ہے کہ امام تنہا بلندی پر ہو گا اور یہ مکروہ ہے۔ (درمختار،ردالمحتار ج ۱ ص ۸۵۵)
مسئلہ ۵: امام باہر ہو اور مقتدی اندر جب بھی نماز صحیح ہے بشرطیکہ مقتدی کی پشت امام کے مواجہہ میں نہ ہو۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۸۵۶)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔