بہار شریعت

کس کی گواہی مقبول ہے اور کس کی نہیں

کس کی گواہی مقبول ہے اور کس کی نہیں

مسئلہ ۱ : گونگے اور اندھے کی گواہی مقبول نہیں چاہے وہ پہلے ہی سے اندھا تھا یا پہلے اندھا نہ تھا وہ شیٔ دیکھی تھی جس کی گواہی دیتا ہے مگر گواہی دینے کے وقت اندھا ہے بلکہ اگر گواہی دینے کے وقت انکھیارا ہے اور ابھی فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ اندھا ہو گیا اس گواہی پر فیصلہ نہیں ہو سکتا پہلے اندھا تھا گواہی رد ہو گئی پھر انکھیارا ہو گیا اور اسی معاملہ میں گواہی دی اب قبول ہو گی۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۲ : کافر کی گواہی مسلم کے خلاف قبول نہیں ۔ مرتد کی گواہی اصلاً مقبول نہیں ۔ ذمی کی گواہی ذمی پر قبول ہے اگرچہ دونوں کے مختلف دین ہوں مثلاً ایک یہودی ہے دوسرا نصرانی۔ یونہی ذمی کی شہادت مستامن پر درست ہے اور مستامن کی ذمی پر درست نہیں ۔ ایک مستامن دوسرے مستامن پر گواہی دے سکتا ہے جب کہ دونوں ایک سلطنت کے رہنے والے ہوں ۔(درمختار)

متعلقہ مضامین

مسئلہ ۳ : دو شخصوں میں دنیوی عداوت ہو گئی تو ایک کی گواہی دوسرے کے خلاف مقبول نہیں اور اگر دین کی بنا پر عداوت ہو تو قبول کی جا سکتی ہے جب کہ ان کے مذہب میں مخالف مذہب کے مقابل جھوٹی گواہی دینا جائز نہ ہو اور وہ حد کفر کوبھی نہ پہنچا ہو۔ (درمختار) آج کل کے وہابی اولاً کفر کی حد کو پہنچ گئے ہیں دوم تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ سنیوں کے مقابل میں جھوٹ بولنے میں بالکل باک نہیں رکھتے ان کی گواہی سنیوں کے مقابل ہزگز قابل قبول نہیں ۔

مسئلہ ۴ : جو شخص صغیرہ گناہ کا مرتکب ہے مگر اس پر اصرار نہ کرتا ہو یعنی متعدد بار نہ کیا ہو اور کبیرہ سے اجتناب کرتا ہو اس کی گواہی مقبول ہے اور کبیرہ کا ارتکاب کرے گا تو گواہی قبول نہیں ۔ (درمختار)

مسئلہ ۵ : جس کا کسی عذر کی وجہ سے ختنہ نہیں ہوا ہے یا اس کے انثیین نکال ڈالے گئے ہوں یا مقطوع الذکر ہو یا ولدالزناہو یا خنثی ہو اس کی گواہی مقبول ہے۔ (درمختار)

مسئلہ ۶ : بھائی کی گواہی بھائی کے لئے بھتیجے کی چچا کے لئے یا چچا کی اولاد کے لئے یا بالعکس یا ماموں اور خالہ اور ان کی اولاد کے لئے یا بالعکس، ساس سسر، سالی، سالے، داماد کے لئے درست ہے۔ مابین مدعی و گواہ کے حرمت رضاعت یا مصاہرت ہو گواہی قبول ہے۔ (درمختار، عالمگیری)

مسئلہ ۷ : ملازمین سلطنت اگر ظلم پر اعانت نہ کرتے ہوں تو ان کی گواہی مقبول ہے۔ کسی امیر کبیر نے دعوی کیا اس کے ملازمین اور رعایا کی گواہی اس کے حق میں مقبول نہیں ۔ یونہی زمیندار کے حق میں اسامیوں کی گواہی مقبول نہیں ۔ (درمختار)

مسئلہ ۸ : غلام اور بچہ کی گواہی اور وہ لوگ جو دنیا کی باتوں سے بے خبر رہتے ہیں یعنی مجذوب یا مجذوب صفت ان کی گواہی بھی مقبول نہیں ۔ غلام نے یا کسی نے بچپن میں کسی معاملہ کو دیکھا تھا آزاد ہونے اور بالغ ہونے کے بعد گواہی دیتا ہے یا زمانۂ کفر میں مشاہدہ کیا تھا اسلام لانے کے بعد مسلم کے خلاف گواہی دیتا ہے مقبول ہے کہ مانع موجود نہ رہا۔ (درمختار)

مسئلہ ۹ : جس پر حد قذف قائم کی گئی (یعنی کسی پر زنا کی تہمت لگائی اور ثبوت نہیں دے سکا اس وجہ سے اس پر حد ماری گئی) اس کی گواہی کبھی مقبول نہیں اگرچہ تائب ہو چکا ہو ہاں کافر پر حد قذف قائم ہوئی پھر مسلمان ہو گیا تو اس کی گواہی مقبول ہے۔ جس کا جھوٹا ہونا مشہور ہے یا جھوٹی گواہی دے چکا ہے جس کا ثبوت ہو چکا ہے اس کی گواہی مقبول نہیں ۔ (درمختار)

مسئلہ ۱۰ : زوج و زوجہ میں سے ایک کی گواہی دوسرے کے حق میں مقبول نہیں بلکہ تین طلاقیں دے چکا ہے اور ابھی عدت میں ہے جب بھی ایک کی گواہی دوسرے کے حق میں قبول نہیں بلکہ گواہی دینے کے بعد نکاح ہوا اور ابھی فیصلہ نہیں ہوا ہے یہ گواہی بھی باطل ہو گئی اور ان میں ایک کی گواہی دوسرے کے خلاف مقبول ہے۔ مگر شوہر نے عورت کے زنا کی شہادت دی تو یہ گواہی مقبول نہیں ۔ (درمختار ، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۱ : فرع کی گواہی اصل کے لئے اور اصل کی فرع کے لئے یعنی اولاد اگر ماں باپ دادا دادی وغیرہم اصول کے حق میں گواہی دیں یا ماں باپ دادا دادی وغیرہم اپنی اولاد کے حق میں گواہی دیں یہ نامقبول ہے۔ ہاں اگر باپ بیٹے کے مابین مقدمہ ہے اوردادا نے باپ کے خلاف پوتے کے حق میں گواہی دی تو مقبول ہے اور اصل نے فرع کے خلاف یا فرع نے اصل کے خلاف گواہی دی تو مقبول ہے۔ مگر میاں بی بی میں جھگڑا ہے اور بیٹے نے باپ کے خلاف ماں کے موافق گواہی دی تو مقبول نہیں یہاں تک کہ اس کی سوتیلی ماں نے اس کے باپ پر طلاق کا دعوی کیا اور اس کی ماں زندہ ہے اور اس کے باپ کے نکاح میں ہے اس نے طلاق کی گواہی دی یہ مقبول نہیں کہ اس میں اس کی ماں کا فائدہ ہے ۔ (درمختار)

مسئلہ ۱۲ : ایک شخص نے اپنی عورت کو طلاق دی جس کی گواہی بیٹے دیتے ہیں اور وہ شخص طلاق دینے سے انکار کرتا ہے اسکی دو صورتیں ہیں ان کی ماں طلاق کا دعوی کرتی ہے یا نہیں اگر کرتی ہے تو بیٹوں کی گواہی قبول نہیں اور مدعی نہیں ہے تو مقبول ہے۔ (بحرالرائق)

مسئلہ ۱۳ : بیٹوں نے یہ گواہی دی کہ ہماری سوتیلی ماں معاذ اللہ مرتدہ ہو گئی اور وہ منکر ہے اگر ان لڑکوں کی ماں زندہ ہے گواہی مقبول نہیں اور اگر زندہ نہیں ہے تو دو صورتیں ہیں باپ مدعی ہے یا نہیں اگر باپ مدعی ہے جب بھی مقبول نہیں ورنہ مقبول ہے۔ (بحر)

مسئلہ ۱۴ : ایک شخص نے اپنی عورت کو طلاق پھر نکاح کیا بیٹے یہ کہتے ہیں کہ تین طلاقیں دی تھیں اور بغیر حلالہ کے نکاح کیا باپ اگر مدعی ہے مقبول نہیں ورنہ مقبول ہے۔ (بحرالرائق)

مسئلہ ۱۵ : دو شخص باہم شریک ہیں ان میں ایک دوسرے کے حق میں اس شے کے بارے میں شہادت دیتا ہے جو دونوں کی شرکت کی ہے یہ گواہی مقبول نہیں کہ خود اپنی ذات کے لئے یہ گواہی ہو گئی اور اگر وہ چیز شرکت کی نہ ہو تو گواہی مقبول ہے۔ (درمختار)

مسئلہ ۱۶ : گائوں کے زمینداروں نے یہ شہادت دی کہ یہ زمین اسی گائوں کی ہے یہ شہادت مقبول نہیں کہ یہ شہادت اپنی ذات کے لئے ہے یونہی کوچۂ غیر نافذہ کے رہنے والے ایک نے دوسرے کے حق میں ایسی گواہی دی جس کا نفع خود اس کی طرف بھی عائد ہوتا ہے۔ گواہی مقبول نہیں ۔ (درمختار)

مسئلہ ۱۷ : محلہ کے لوگوں نے مسجد محلہ کے وقف کی شہادت دی کہ یہ چیز اس مسجدپر وقف ہے یا اہل شہر نے مسجد جامع کے اوقاف کی شہادت دی یا مسافروں نے یہ گواہی دی کہ یہ چیز مسافروں پروقف ہے مثلاً مسافر خانہ یہ گواہیاں مقبول ہیں ۔ علمائے مدرسہ نے مدرسہ کی جائداد موقوفہ کی گواہی دی یا کسی ایسے شخص نے گواہی دی جس کا بچہ مدرسہ میں پڑھتا ہے یہ گواہی بھی مقبول ہے۔ (بحرالرائق)

مسئلہ ۱۸ : اہل مدرسہ نے آمدنی وقف کے متعلق کوئی ایسی گواہی دی جس کا نفع خود اس کی طرف بھی عائد ہوتا ہے یہ گواہی مقبول نہیں ۔ (بحرالرائق)

مسئلہ ۱۹ : کسی کاریگر کے پاس کام سیکھنے والے جن کی نہ کوئی تنخواہ ہے نہ مزدوری پاتے ہیں اپنے استاد کے پاس رہتے اور اس کے یہاں کھاتے پیتے ہیں ان کی گواہی استاد کے حق میں مقبول نہیں ۔ (ہدایہ)

مسئلہ ۲۰ : اجیر خاص جو ایک مخصوص شخص کا کام کرتا ہے کہ ان اوقات میں دوسرے کا کام نہیں کر سکتا خواہ وہ نوکر ہو جو ہفتہ وار ماہوار ششماہی برمی پر تنخواہ پاتا یا روزانہ کا مزدور ہو کہ صبح سے شام تک کا مثلاً مزدور ہے دوسرے دن مستاجر نے بلایا تو کام کرے گا ورنہ نہیں ان سب کی گواہی مستاجر کے حق میں مقبول نہیں اور اجیر مشترک جسے اجیر عام بھی کہتے ہیں جیسے درزی ، دھوبی کہ یہ سبھی کے کپڑے سیتے اور دھوتے ہیں کسی کے نوکر نہیں کام کریں گے تو مزدوری پائیں گے ورنہ نہیں ان کی گواہی مقبول ہے ۔ (ہدایہ ، بحر)

مسئلہ ۲۱ : مخنث جس کے اعضا میں لچک اورکلام میں نرمی ہو کہ یہ خلقی چیز ہے اس کی شہادت مقبول ہے اور جو برے افعال کراتا ہو اس کی گواہی مردود۔ یونہی گویا اور گانے والی عورت ان کی گواہی مقبول نہیں اورنوحہ کرنے والی جس کا پیشہ ہو کہ دوسرے کے مصائب میں جا کر نوحہ کرتی ہو اسکی گواہی مقبول نہیں اور اگر اپنی مصیبت پر بے اختیار ہو کر صبر نہ کر سکی اور نوحہ کیا تو گواہی مقبول ہے۔ (درمختار)

مسئلہ ۲۲ : جو شخص اٹکل پچو باتیں اڑاتا ہو یا کثرت سے قسم کھاتا ہو یا اپنے بچوں کویا دوسروں کو گالی دینے کا عادی ہو یا جانورکو بکثرت گالی دیتا ہو جیسا یکہ تانگہ گاڑی والے اور ہل جوتنے والے کہ خوامخواہ جانوروں کو گالیاں دیتے رہتے ہیں ان کی گواہی مقبول نہیں ۔ (درمختار)

مسئلہ ۲۳ : جو شاعر ہجوکرتا ہے اس کی گواہی مقبول نہیں اور مردصالح نے ایسا شعر پڑھا جس میں فحش ہے تو اس کی گواہی مردود نہیں ۔ یونہی جس نے جاہلیت کے اشعار سیکھے اگر یہ سیکھنا عربیت کے لئے ہو تو گواہی مردود نہیں ۔ اگرچہ ان اشعار میں فحش ہو۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۲۴ : جس کا پیشہ کفن اور مردہ کی خوشبو بیچنے کا ہو کہ وہ اس انتظار میں رہتا ہو کہ کوئی مرے اور کفن فروخت ہو اس کی گواہی مقبول نہیں ۔ (درمختار) یہاں ہندوستان میں ایسے لوگ نہیں پائے جاتے جو یہ کام کرتے ہوں عام طور پر بزاز کے یہاں سے کفن لیا جاتا ہے اور پنساریوں کے یہاں سے لوبان وغیرہ لیتے ہیں ۔ ہاں شہروں میں تکیہ دار فقیر جو گورکن ہوتے ہیں یا گورکنی نہ بھی کرتے ہوں تو چادروغیرہ لینا ان کا کام ہے اور اسی پر ان کی گزر اوقات ہے ان کی نسبت بارہا ایسا سنا گیا ہے یہاں تک کہ وبا کے زمانہ میں یہ لوگ کہتے ہیں آج کل خوب سہالگ ہے ۔ لوگوں کے مرنے پر لوگ خوش ہوتے ہیں ایسے لوگ قابل قبول شہادت نہیں ۔

مسئلہ ۲۵ : جس کا پیشہ دلالی ہو کہ وہ کثرت سے جھوٹ بولتا ہے اسکی گواہی مقبول نہیں ۔ (درمختار) وکالت و مختاری کا پیشہ کرنے والوں کی نسبت عموماً یہ بات مشہور ہے کہ جان بوجھ کر جھوٹ کو سچ کرنا چاہتے ہیں بلکہ گواہوں کو جھوٹ بولنے کی تعلیم و تلقین کرتے ہیں ۔

مسئلہ ۲۶ : خمریعنی انگوری شراب ایک مرتبہ پینے سے بھی فاسق اور مردود الشہادۃ ہو جاتا ہے اور اس کے علاوہ دوسری شراب پینے کا عادی ہو اور لہو کے طور پر پیتا ہو تو اس کی شہادت بھی مردود ہے۔ اور اگر علاج کے طور پر کسی نے ایسا کیا اگرچہ یہ بھی ناجائز ہے مگر اختلاف کی وجہ سے فسق سے بچ جائے گا۔ (درمختار)

مسئلہ ۲۷ : جانور کے ساتھ کھیلنے والا جیسے مرغ بازی، کبوتر بازی، بٹیر بازی کرنے والے کی گواہی مقبول نہیں اسی طرح مینڈھا لڑانے والے بھینسا لڑانے والے اور طرح طرح کے اس قسم کے کھیل کرنے والے کہ ان کی بھی گواہی مقبول نہیں ہاں اگر محض دل بہلنے کے لئے کسی نے کبوتر پال لیا ہے بازی نہیں کرتا یعنی اڑاتا نہ ہو تو جائز ہے مگر جب کہ دوسروں کے کبوتر پکڑ لیتا ہو جیسا کہ اکثر کبوتر بازوں کی عادت ہوتی ہے اور وہ اسے عیب بھی نہیں سمجھتے یہ حرام اور سخت حرام ہے کہ پرایا مال ناحق لینا ہے۔ (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۲۸ : جو شخص کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے بلکہ جو مجلس فجور میں بیٹھتا ہے اگرچہ وہ خود اس حرام کامرتکب نہیں ہے اس کی گواہی بھی مقبول نہیں ہے۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۲۹ : حمام میں برہنہ غسل کرنے والا، سود خوار اور جواری اور چوسرپچیسی کھیلنے والا اگرچہ اس کے ساتھ جوا شامل نہ ہو یا شطرنج کے ساتھ جوا کھیلنے والا یا اس کھیل میں نماز فوت کر دینے والا یا شطرنج راستہ پر کھیلنے والا ان سب کی گواہی مقبول نہیں ۔ (درمختار عالمگیری)

مسئلہ ۳۰ : جوعبادتیں وقت معین میں فرض ہیں کہ وقت نکل جانے پر قضا ہو جاتی ہیں جیسے نماز روزہ اگر بغیرعذر شرعی ان کو وقت سے مؤخر کر ے فاسق مردود الشہادۃ ہے اور جن کے لئے وقت معین نہیں جیسے زکوۃ اور حج ان میں اختلاف ہے تاخیر سے مردود الشہادۃ ہوتا ہے یا نہیں صحیح یہ ہے کہ نہیں ہوتا۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۳۱ : بلاعذر جمعہ ترک کرنے والا فاسق ہے یعنی محض اپنی کاہلی اورسستی سے جو ترک کرے اور اگر عذر کی وجہ سے نہیں پڑھا مثلاً بیمار ہے یا کسی تاویل کی بنا پر نہیں پڑھتا مثلاً یہ کہتا ہے کہ امام فاسق ہے اس وجہ سے نہیں پڑھتا ہوں تو یہ چھوڑنے والا فاسق نہیں ۔ (عالمگیری) یہ عذر اس وقت مسموع ہو گا کہ ایک ہی جگہ جمعہ ہوتا ہو یا کئی جگہ جمعہ ہوتا ہے مگر سب امام اسی قسم کے ہوں ۔

مسئلہ ۳۲ : محض کاہلی اور سستی سے نماز یا جماعت ترک کرنے والا مردود الشہادۃ ہے اور اگر ترک جماعت کے لئے عذر ہو مثلاً امام فاسق ہو کہ اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور امام کو ہٹا بھی نہیں سکتا یا امام گمراہ بد عتی ہے اس وجہ سے اس کے پیچھے نہیں پڑھتا گھر میں تنہا پڑھ لیتا ہے تو اس کی گواہی مقبول ہے۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۳۳ : فاسق نے توبہ کر لی تو جب تک اتنا زمانہ نہ گزر جائے کہ توبہ کے آثار اس پر ظاہر ہو جائیں اس وقت تک گواہی مقبول نہیں اور اس کے لئے کوئی مدت نہیں ہے بلکہ قاضی کی رائے پر ہے۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۳۴ : جو شخص بزرگان دین پیشوایان اسلام مثلاً صحابہ و تابعین رضی اللہ تعالی عنہم کو برے الفاظ سے علانیہ یاد کرتا ہو اس کی گواہی مقبول نہیں ۔ انھیں بزرگان دین سلف صالحین میں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی ہیں مثلاً روافض کہ صحابۂ کرام کی شان میں دشنام بکتے ہیں اور غیر مقلدین کہ ائمہ مجتہدین خصوصاً امام اعظم کی شان میں سب و شتم و بیہودہ گوئی کرتے ہیں ۔ (عالمگیری وغیرہ)

مسئلہ۳۵ : جو شخص حقیر و ذلیل افعال کرتا ہو اس کی شہادت مقبول نہیں جیسے راستہ پر پیشاب کرنا۔ راستہ پر کوئی چیز کھانا۔ بازار میں لوگوں کے سامنے کھانا۔ صرف پاجامہ یا تہبند پہن کر بغیر کرتہ پہنے یا بغیر چادر اوڑھے گزرگاہ عام پر چلنا۔ لوگوں کے سامنے پائوں دراز کر کے بیٹھنا۔ ننگے سر ہو جانا جہاں اس کو خفیف و بے ادبی و قلت حیا تصور کیا جاتا ہو۔ (عالمگیری ، ہدایہ، فتح)

مسئلہ ۳۶ : دو شخصوں نے یہ گواہی دی کہ ہمارے باپ نے فلاں شخص کو وصی مقرر کیا ہے اگر یہ شخص مدعی ہو تو گواہی مقبول ہے۔ اورمنکر ہو تو مقبول نہیں کیوں کہ قبول وصیت پر قاضی کسی کو مجبور نہیں کر سکتا۔ اسی طرح میت کے دائن یا مدیوں یا موصی لہ نے گواہی دی کہ میت نے فلاں شخص کو وصی بنایا ہے تو ان کی گواہیاں بھی مقبول ہیں ۔ (ہدایہ)

مسئلہ ۳۷ : دو شخصوں نے یہ گواہی دی کہ ہمارا باپ پردیس چلا گیا ہے اس نے فلاں شخص کو اپنا قرضہ اور دین وصول کرنے کے لئے وکیل کیا ہے یہ گواہی مقبول نہیں ہے وہ شخص ثالث وکالت کا مدعی ہو یا منکر دونوں کا ایک حکم ہے۔ اور اگر ان کا باپ یہیں موجود ہو تو دعوی ہی مسموع نہیں شہادت کس بات کی ہو گی۔ وکیل کے بیٹے پوتے یا باپ دادا نے وکالت کی گواہی دی نامقبول ہے۔ (ہدایہ ، فتح، درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۳۸ : دو شخص کسی امانت کے امین ہیں انھوں نے گواہی دی کہ یہ امانت اس کی ملک ہے جس نے ان کے پاس رکھی ہے گواہی مقبول ہے اور اگر یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص جو اس چیز کا دعوی کرتا ہے اس نے خود اقرار کیا ہے کہ امانت رکھنے والے کی ملک ہے تو گواہی مقبول نہیں مگر جب کہ ان دونوں نے امانت اس شخص کو واپس دے دی ہو جس نے رکھی تھی۔ (فتح القدیر)

مسئلہ ۳۹ : دو مرتہن یہ گواہی دیتے ہیں کہ مرہون شے اس کی ملک ہے جو دعوی کرتا ہے گواہی مقبول ہے اور اس چیز کے ہلاک ہونے کے بعد یہ گواہی دیں تو نا مقبول ہے مگر ان دونوں کے ذمہ اس چیز کا تاوان لازم ہو گیا یعنی مدعی کو اس کی قیمت ادا کریں کہ ان دونوں نے غصب کا خود اقرار کر لیا اور اگر مرتہن یہ گواہی دیں کہ خود مدعی نے ملک راہن کا اقرار کیا تھا تو مقبول نہیں اگرچہ مرہون ہلاک ہو چکا ہو۔ ہاں اگر راہن کو واپس کرنے کے بعد یہ گواہی دیں تومقبول ہے۔ ایک شخص نے مرتہن پر دعوی کیا کہ مرہون چیز میری ہے اور مرتہن منکر ہے اور راہن نے گواہی دی تو قبول نہیں مگر راہن پر تاوان لازم ہے۔ (فتح القدیر)

مسئلہ ۴۰ : غاصب نے شہادت دی کہ مغصوب چیز مدعی کی ہے مقبول نہیں مگر جب کہ جس سے غصب کی تھی اس کو واپس دینے کے بعد گواہی دی تو قبول ہے اور اگر غاصب کے ہاتھ میں چیز ہلاک ہو گئی پھر مدعی کے حق میں شہادت دی تو مقبول نہیں ۔ (فتح القدیر)

مسئلہ ۴۱ : مستقرض (قرض لینے والے) نے گواہی دی کہ چیز مدعی کی ہے تو گواہی مقبول نہیں چیز واپس کر چکا ہو یا نہیں ۔ بیع فاسد کے ساتھ چیز خریدی اور قبضہ کر چکا مشتری گواہی دیتا ہے کہ مدعی کی ملک ہے مقبول نہیں ۔ اور اگر قاضی نے اس بیع کو توڑ دیا یا خود بائع و مشتری نے اپنی رضا مندی سے توڑ دیا اور چیز ابھی مشتری کے پاس ہے اور مشتری نے مدعی کے حق میں گواہی دی مقبول نہیں ۔ اور اگر مبیع بائع کو واپس کر دینے کے بعد مدعی کے حق میں گواہی دیتا ہے قبول ہے۔ (فتح القدیر)

مسئلہ ۴۲ : مشتری نے جو چیز خریدی ہے اس کے متعلق گواہی دیتا ہے کہ مدعی کی ملک ہے اگرچہ بیع کا اقالہ ہو چکا ہو یا عیب کی وجہ سے بغیر قضائے قاضی واپس ہو چکی ہو گواہی مقبول نہیں ۔ یونہی بائع نے بیع کے بعد یہ گواہی دی کہ مبیع ملک مدعی ہے یہ مقبول نہیں ۔ اگر بیع کو اس طرح پر رد کیا گیا ہو جو فسخ قرار پائے گا تو گواہی مقبول ہے۔ (فتح)

مسئلہ ۴۳ : مدیون کی یہ گواہی کہ دین جو اس پر تھا وہ اس مدعی کا ہے مقبول نہیں اگرچہ دین ادا کر چکا ہو۔ مستاجر نے گواہی دی کہ مکان جو میرے کرایہ میں ہے مدعی کی ملک ہے اور مدعی یہ کہتا ہے کہ میرے حکم سے یہ مکان مدعی علیہ نے اسے کرایہ پر دیا تھا یہ گواہی مقبول نہیں ۔ اور اگر مدعی یہ کہتا ہے کہ بغیر میرے حکم کے دیا گیا تو مقبول ہے اور جو شخص بغیر کرایہ مکان میں رہتا ہے اس کی گواہی مدعی کے موافق و مخالف دونوں مقبول۔ (فتح)

مسئلہ ۴۴ : ایک شخص کو وکیل بالخصومۃ کیا اس نے قاضی کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے پاس مقدمہ پیش کیا پھر موکل نے وکیل کو معزول کر کے قاضی کے پاس پیش کیا۔ وکیل نے گواہی دی یہ مقبول ہے۔اور اگر قاضی کے پاس وکیل نے مقدمہ پیش کر دیا اس کے بعد وکیل کو معزول کیا تو گواہی مقبول نہیں ۔ (فتح القدیر)

مسئلہ ۴۵ : وصی کو قاضی نے معزول کر کے دوسرا وصی اس کے قائم مقام مقرر کیا یا ورثہ بائع ہو گئے اب وہ وصی یہ گواہی دیتا ہے کہ میت کا فلاں شخص پر دین ہے یہ گواہی نا مقبول اور معزولی سے قبل کی گواہی تو بدرجۂ اولی نا مقبول ہے۔ (درمختار)

مسئلہ ۴۶ : جو شخص کسی معاملہ میں خصم ہو چکا اس معاملہ میں ا سکی گواہی مقبول نہیں اور جو ابھی تک خصم نہیں ہوا ہے مگر قریب ہونے کے ہے اس کی گواہی مقبول ہے پہلے کی مثال وصی ہے دوسرے کی مثال وکیل بالخصومۃ ہے جس نے قاضی کے یہاں دعوی نہیں کیا اور معزول ہو گیا۔ (تبیین)

مسئلہ ۴۷ : وکیل بالخصومۃ نے قاضی کے یہاں ایک ہزار روپے کا دعوی کیا اس کے بعد موکل نے اسے معزول کر دیا اس کے بعد وکیل نے موکل کے لئے یہ گواہی دی کہ اس کی فلاں شخص کے ذمہ سو اشرفیاں ہیں یہ گواہی مقبول ہے کہ یہ دوسرا دعوی ہے جس میں یہ شخص وکیل نہ تھا۔ (درمختار)

مسئلہ ۴۸ : دو شخصوں نے میت کے ذمہ دین کا دعوی کیا ان کی گواہی دو شخصوں نے دی پھر ان دونوں گواہوں نے اسی میت پر اپنے دین کا دعوی کیا اور ان مدعیوں نے ان کے موافق شہادت دی سب کی گواہیاں مقبول ہیں ۔ (درمختار)

مسئلہ ۴۹ : دو شخصوں نے گواہی دی کہ میت نے فلاں اور فلاں کے لئے ایک ہزار کی وصیت کی ہے اور ان دونوں نے بھی ان گواہوں کے لئے یہی شہادت دی کہ میت نے ان کے لئے ہزار کی وصیت کی ہے تو ان میں کسی کی گواہی مقبول نہیں ۔ اور اگر عین کی وصیت کا دعوی ہو اورگواہوں نے شہادت دی کہ میت نے اس چیز کی وصیت فلاں و فلاں کے لئے کی ہے اور ان دونوں نے گواہوں کے لئے ایک دوسری معین چیز کی وصیت کرنے کی شہادت دی تو سب گواہیاں مقبول ہیں ۔ (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۵۰ : میت نے دو شخصوں کو وصی کیا ان دونوں نے ایک وارث بالغ کے حق میں شہادت ایک اجنبی کے مقابل میں دی اور جس مال کے متعلق شہادت دی وہ میت کا ترکہ نہیں ہے یہ گواہی مقبول ہے اور اگر میت کا ترکہ ہے تو گواہی مقبول نہیں اور اگر نابالغ وارث کے حق میں شہادت ہو تو مطلقاً مقبول نہیں میت کا ترکہ ہو یا نہ ہو۔ (درمختار)

مسئلہ ۵۱ : جرح مجرد (یعنی جس سے محض گواہ کا فسق بیان کرنا مقصود ہو ، حق اللہ یا حق العبد کا ثابت کرنا مقصود نہ ہو) اس پر گواہی نہیں ہو سکتی مثلاً اس کی گواہی کہ یہ گواہ فاسق ہیں یا زانی یا سود خوار یا شرابی یا انھوں نے خود اقرار کیا ہے کہ جھوٹی گواہی دی ہے یا شہادت سے رجوع کرنے کا انھوں نے اقرار کیا ہے یا اقرار کیا ہے کہ اجرت لے کر یہ گواہی دی ہے یا یہ اقرار کیا ہے کہ مدعی کا یہ دعوی غلط ہے یا یہ کہ اس واقعہ کے ہم لوگ شاہد نہ تھے ان امور پر شہادت کو نہ قاضی سنے گا اور نہ اس کے متعلق کوئی حکم دے گا۔ (ہدایہ ، فتح القدیر)

مسئلہ ۵۲ : مدعی علیہ نے گواہوں سے ثابت کیا کہ گواہوں نے اجرت لے کر گواہی دی ہے مدعی نے ہمارے سامنے اجرت دی ہے یہ گواہی بھی مقبول نہیں کہ یہ بھی جرح مجرد ہے اور مدعی کا اجرت دینا اگرچہ امر زائد ہے مگر مدعی کا اس کے متعلق کوئی دعوی نہیں ہے کہ اس پر شہادت لی جائے۔ (بحرالرائق)

مسئلہ ۵۳ : جرح مجرد پر گواہی مقبول نہ ہونا اس صورت میں ہے جب دربار قاضی میں یہ شہادت گزرے اور مخفی طور پر مدعی علیہ نے قاضی کے سامنے ان کا فاسق ہونا بیان کیا اور طلب کرنے پر اس نے گواہ پیش کر دیئے تو یہ شہادت مقبول ہو گی یعنی گواہوں کی گواہی رد کر دے گا اگرچہ ان کی عدالت ثابت ہو کہ جرح تعدیل پر مقدم ہے۔ (بحر)

مسئلہ ۵۴ : فسق کے علاوہ اگر گواہوں پر اور کسی قسم کا طعن کیا اور اس کی شہادت پیش کر دی مثلاً گواہ مدعی کا شریک ہے یا مدعی کابیٹا یا باپ ہے یا احدالزوجین ہے یا اس کا مملوک ہے یا حقیر و ذلیل افعال کرتا ہے اس قسم کی شہادت مقبول ہے۔ (بحر)

مسئلہ ۵۵ : جس شخص کے فسق سے عام طور پر لوگوں کو ضرر پہنچتا ہے مثلاً لوگوں کو گالیاں دیتا ہے یا اپنے ہاتھ سے مسلمانوں کو ایذا پہنچاتا ہے اس کے متعلق گواہی دینا جائز ہے تاکہ حکومت کی طرف سے ایسے شریر سے نجات کی کوئی صورت تجویز ہو اور حقیقۃً یہ شہادت نہیں ہے۔ (بحر)

مسئلہ ۵۶ : جرح اگر مجرد نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ کسی حق کا تعلق ہو اس پر شہادت ہو سکتی ہے مثلاً مدعی علیہ نے گواہوں پر دعوی کیا کہ میں نے ان کو کچھ روپے اس لئے دیئے تھے کہ اس جھوٹے مقدمہ میں شہادت نہ دیں اور انھوں نے گواہی دے دی لہذا میرے روپے واپس ملنے چاہیئے یا یہ دعوی کیا کہ مدعی کے پاس میرا مال تھا اس نے وہ مال گواہوں کو اس لئے دے دیا کہ وہ میرے خلاف مدعی کے حق میں گواہی دیں میرا وہ مال ان گواہوں سے دلایا جائے یا کسی اجنبی نے گواہوں پر دعوی کیا کہ ان لوگوں کو میں نے اتنے روپے دیئے تھے کہ فلاں کے خلاف گواہی نہ دیں میرے روپے واپس دلائے جائیں اور یہ بات مدعی علیہ نے گواہوں سے ثابت کر دی یا انھوں نے خود اقرار کر لیا یا قسم سے انکار کیا وہ مال ان گواہوں سے دلایا جائے گا اور اسی ضمن میں ان کے فسق کا بھی حکم ہو گا۔ ا ور جو گواہی یہ دے چکے ہیں رد ہو جائے گی۔ اور اگر مدعی علیہ نے محض اتنی بات کہی کہ میں نے ان کو اس لئے روپے دیئے تھے کہ گواہی نہ دیں اور مال کا مطالبہ نہیں کرتا تو اس پر شہادت نہیں لی جائے گی کہ یہ جرح مجرد ہے۔ (ہدایہ، فتح القدیر)

مسئلہ ۵۷ : گواہوں پر یہ دعوی کہ انھوں نے چوری کی ہے یا شراب پی ہے یا زنا کیا ہے اس پر شہادت لی جائے گی کہ یہ جرح مجرد نہیں اس کے ساتھ حق اللہ کا تعلق ہے یعنی اگر ثبوت ہو گا تو حد قائم ہو گی اور اسی کے ساتھ وہ گواہی جو دے چکے ہیں رد کر دی جائے گی۔ (فتح القدیر)

مسئلہ ۵۸ : گواہ نے گواہی دی اور ابھی وہیں قاضی کے پاس موجود ہے باہر نہیں گیا ہے اور کہتا ہے کہ گواہی میں مجھ سے کچھ غلطی ہو گئی ہے اس کہنے سے اس کی گواہی باطل نہ ہو گی بلکہ اگر وہ عادل ہے تو گواہی مقبول ہے غلطی اگر اس قسم کی ہے جس سے شہادت میں کوئی فرق نہیں آتا یعنی جس چیز کے متعلق شہادت ہے اس میں کچھ کمی بیشی نہیں ہوتی مثلاً یہ لفظ بھول گیا تھا کہ میں گواہی دیتا ہوں تو باہر سے آکر بھی یہ کہہ سکتا ہے اس کی وجہ سے متہم نہیں کیاجا سکتا اور وہ غلطی جس سے فرق پیدا ہو جاتا ہے اس کی دو صورتیں ہیں جو کچھ پہلے کہا تھا اس سے اب زائد بتاتا ہے یا کم کہتا ہے مثلاً پہلے بیان میں ایک ہزار کہا تھا اب ڈیڑھ ہزار کہتا ہے یا پانچ سو اگر کمی بتاتا ہے یعنی جتنا پہلے کہا تھا اب اس سے کم کہتا ہے یعنی مدعی کے مدعی علیہ کے ذمہ پانچ سو ہیں اس صورت میں حکم یہ ہے کہ کم کرنے کے بعد جو کچھ بچے اس کا فیصلہ ہو گا اور زیادہ بتاتا ہو یعنی کہتا ہے بجائے ڈیڑھ ہزار کے میری زبان سے ہزار نکل گیا اس کی دو صورتیں ہیں ۔ مدعی کا دعوی ڈیڑھ ہزار کا ہے یا ہزار کا اگر مدعی کا دعوی ڈیڑھ ہزار کا ہے تو یہ زیادت مقبول ہے ورنہ نہیں ۔ (فتح ، ردالمحتار)

مسئلہ ۵۹ : حدود یا نسب میں غلطی کی مثلاًً شرقی حد کی جگہ غربی بول گیا یا محمد بن عمر بن علی کی جگہ محمد بن علی بن عمر کہہ دیا اور اسی مجلس میں غلطی کی تصحیح کر دی تو گواہی معتبر ہو جائے گی۔ (ہدایہ)

مسئلہ ۶۰ : شہادت قاصرہ جس میں بعض ضروری باتیں ذکر کرنے سے رہ گئیں اس کی تکمیل دوسرے نے کر دی یہ گواہی معتبر ہے مثلاً ایک مکان کے متعلق گواہی گزری کہ یہ مدعی کی ملک ہے مگر گواہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ مکان اس وقت مدعی علیہ کے قبضہ میں ہے مدعی نے دوسرے گواہوں سے مدعی علیہ کا قبضہ ثابت کر دیا گواہی معتبر ہو گئی ۔ یا گواہوں نے ایک محدود شے میں ملک کی شہادت دی اور حدود ذکر نہیں کیئے دوسرے گواہوں کی سے حدود ثابت کیئے گواہی معتبر ہو گئی۔ یا ایک شخص کے مقابل میں نام و نسب کے ساتھ شہادت دی اور مدعی علیہ کو پہچانا نہیں دوسرے گواہوں سے یہ ثابت کیا کہ جس کا یہ نام و نسب ہے وہ یہ شخص ہے گواہی معتبر ہو گئی۔ (درمختار)

مسئلہ ۶۱ : ایک گواہ نے گواہی دی باقی گواہ یوں گواہی دیتے ہیں کہ جو اس کی گواہی ہے وہی ہماری شہادت ہے یہ مقبول نہیں بلکہ ان کو بھی وہ باتیں کہنی ہوں گی جن کی گواہی دینا چاہتے ہیں ۔ (درمختار)

مسئلہ ۶۲ : نفی کی گواہی نہیں ہوتی مثلاً یہ گواہی دی کہ اس نے بیع نہیں کی ہے یا اقرار نہیں کیا ہے ایسی چیزوں کو گواہوں سے نہیں ثابت کر سکتے۔نفی صورۃً ہو یا معنیً دونوں کا ایک حکم ہے مثلاً وہ نہیں تھا یا غائب تھا کہ دونوں کا حاصل ایک ہے۔ گواہ کو یقینی طور پر نفی کا علم ہو یا نہ ہو بہرحال گواہی نہیں دے سکتا مثلاً گواہوں نے یہ گواہی دی کہ زید نے عمرو کے ہاتھ یہ چیز بیع کی ہے اب یہ گواہی نہیں دی جا سکتی کہ زید تو وہاں تھا ہی نہیں ہاں اگر نفی متواتر ہو سب لوگ جانتے ہوں کہ وہ اس جگہ یا اس وقت موجود نہ تھا تو نفی کی گواہی صحیح ہے کہ دعوی ہی مسموع نہ ہو گا۔ (درمختار ، ردالمحتار)

مسئلہ ۶۳ : شہادت کا جب ایک جز باطل ہو گیا تو کل شہادت باطل ہو گئی یہ نہیں کہ ایک جز صحیح ہو اور ایک جز باطل مگر بعض صورتیں ایسی ہیں کہ ایک جز صحیح اور ایک جزباطل مثلاً ایک غلام مشترک ہے اس کا مالک ایک مسلم اور ایک نصرانی ہے دو نصرانیوں نے شہادت دی کہ ان دونوں نے غلام کو آزاد کر دیا نصرانی کے خلاف میں گواہی صحیح ہے یعنی اس کا حصہ آزاداور مسلمان کا حصہ آزاد نہ ہوگا۔ (درمختار)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

یہ بھی پڑھیں:
Close
Back to top button